|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
یوم مئی 2024ء کے موقع پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیرِ اہتمام اسپتال چورنگی سے داؤد چورنگی تک شاندار احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں مختلف فیکٹریوں کے ورکرز جن میں جنرل ٹائر، آئی آئی ایل، شبیر ٹائلز، اسپیشل ایکسپورٹ پروسیسنگ اکنامک زون، پاکستان ریلوے، اوپل لیبارٹریز، میریٹ پیکچنگ، گل احمد، الکرم، یونس و زمان ٹیکسٹائل، پاکستان سٹیل ملز اور اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں جن میں کراچی یونیورسٹی، داؤد یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بھی بھرپور شرکت کی۔
ریلی کی تیاری کے سلسلے میں ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان اور مختلف فیکٹریوں کے محنت کش ساتھیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لانڈھی سے لے کر کورنگی اور نیو کراچی انڈسٹریل ایریا سے لے کر ملیر اور سائٹ تک کے ناصرف زیادہ تر فیکٹریوں کے محنت کشوں کو دعوت نامے دیے گئے بلکہ اسکے علاوہ شہر بھر میں جگہ جگہ پوسٹرز بھی لگائے گئے۔ جن میں مزدوروں کے تمام مسائل کے حل کو نظام کی تبدیلی کی بحث سے جوڑ کر انہیں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا پیغام دیا گیا۔
اس کے علاوہ سپیشل اکنامک زون کے ورکرز سے ایک میٹنگ بھی کی گئی جس میں انہیں ناصرف ریلی میں شرکت کی دعوت دی گئی بلکہ ان کو ریڈ ورکرز فرنٹ کی میں شامل ہونے کا پیغام دیا گیا تاکہ وہ سوشلسٹ نظام کی جدوجہد میں شامل ہوسکیں۔ ریلی سے ایک روز قبل مزدوروں کی کالونیوں اور فیکٹری گیٹ کے باہر مزدوروں کو سپیکر پر اعلان کرتے ہوئے ریلی میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے صدر عزیز خان صاحب بھی مزدوروں سے مخاطب ہوئے اور انہیں ریلی کی دعوت دی۔ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی جنرل سیکرٹری آنند پرکاش نے بھی مختلف فیکٹریوں کے گیٹ کے باہر نعرے بازی کرتے ہوئے مزدوروں کوریلی میں شرکت کی دعوت دی۔
ریلی میں مختلف پینا فلیکس اور پلے کارڈز کے ذریعے مزدوروں کی اجرت ایک تولہ سونے کے برابر کرنے کا مطالبہ اور فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی مذمت، امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں جاری فلسطین میں اسرائیلی اور امریکی سامراج کے مظالم کے خلاف احتجاجی تحریک میں شامل طلبہ اور محنت کشوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور محنت کش طبقے کو کراچی میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز کے خلاف اپنی محلہ سطح کی کمیٹیاں بنانے کا پیغام دیا گیا تھا۔ ریلی میں کم از کم اجرت فوری طور پر ایک لاکھ روپے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ریلی کا آغاز اسپتال چورنگی سے ہوا جہاں محنت کشوں اور طلبہ نے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف نعرے بازی کی۔ ریلی میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما صفدر جبار اور ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کی جنرل سیکرٹری انعم خان نے سرانجام دیے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے تیار کردہ گانا ”سن لے تو“ وقفے وقفے سے محنت کشوں کا لہو گرماتا رہا۔ ریلی جن فیکٹریوں کے سامنے سے گزرتی رہی ان تمام فیکٹریوں میں محنت کشوں کو ان ہی کے عالمی دن پر چھٹی نہیں دی گئی تھی۔
یونس ٹیکسٹائل سے لے کر گل احمد ٹیکسٹائل تک کسی بھی فیکٹری میں چھٹی نہیں دی گئی جس پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما کامریڈ صفدر جبار اور جنرل سیکرٹری انعم خان نے ان تمام فیکٹریوں کے مالکان سے مخاطب ہوتے ہوئے وارننگ دی کہ ”آج بھی سرمایہ داروں کی طرف سے اپنے سرمائے میں اضافے کے لئے محنت کشوں کو چھٹی نہیں دی گئی کہ وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کر سکیں، جبکہ انہی فیکٹریوں کے ظالم اور کام چور مینیجرز آج مزدور ڈے کی چھٹی منا رہے ہیں، لیکن سرمایہ داروں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اب محنت کشوں نے منظم ہونا شروع کردیا ہے۔ اب یہ انہی فیکٹریوں میں منظم ہوتے ہوئے ناصرف اجرت میں اضافے کی لڑائی لڑیں گے بلکہ اس پورے نظام کو چیلینج کریں گے جو ان کا خون پسینہ چوس کر زندہ ہے۔“
ریلی جن مقامات سے گزرتی گئی نا صرف وہاں اعلانات اور نعرے بازی کی گئی بلکہ ہوٹلوں، فیکٹریوں اور گزرتی ہوئی گاڑیوں میں لیفلٹ بھی تقسیم کیے گئے۔
ریلی جب داؤد چورنگی پر پہنچی تو وہ جلسے کی شکل اختیار کر گئی جہاں مختلف فیکٹریوں سے تعلق رکھنے والے یونین اور کمیونسٹ رہنما مزدوروں سے مخاطب ہوئے۔ سب سے پہلے صفدر جبار ریلی سے مخاطب ہوئے اور انہوں نے کہا ”سرمایہ درانہ نظام ایک ایسے بحران میں داخل ہوچکا ہے جہاں یہ اب مزدوروں کی زندگیوں میں کسی قسم کی بہتری لانے کی بجائے تمام سہولیات چھننے کی طرف جا رہا ہے ایسے میں جہاں محنت کشوں کو یونین سازی، اجرتوں میں اضافے اور دیگر حقوق کی جدوجہد کرنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری محنت کشوں کا اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہے جو کہ اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔“
اس کے بعد آئی آئی ایل سی بی اے یونین کے رہنما اور انفارمیشن سیکرٹری سرفراز صاحب نے مزدوروں سے خطاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ ”سرمایہ دار کی تمام فیکٹریاں محنت کش ہی چلاتے ہیں جس سے وہ امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے اس کے باوجود مزدور کو 25 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ میں درست سمجھتا ہوں کہ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر ہونی چاہیے“۔
دلبر خان نے مزدوروں سے پرجوش خطاب کیا جو کہ شبیر ٹائلز کی یونین کے صدر ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں یونین سازی کی کامیاب جدوجہد کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ”شبیر ٹائلز میں مزدوروں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ یونین سازی جیسے بنیادی حق کو بھی چھین لیا گیا ہے جس کے لئے ہم سراپا احتجاج ہیں۔ تمام تر قانونی کاروائی کے باوجود ابھی تک ریفرنڈم نہیں کروایا گیا۔“
اس کے علاہ دیگر مزدور رہنماؤں نے بھی خطاب کیا جن میں مسرور (میریٹ پیکچنگ کے مزدور رہنما)، رفیق اعوان (جنرل سیکرٹری جنرل ٹائر ورکرز یونین) اور عظیم دادا (مزدور رہنما) شامل ہیں۔
سٹیج سیکرٹری انعم خان کا کہنا تھا کہ”پاکستان میں معاشی بحران کے باعث بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ریاست بجائے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے سٹریٹ کرائمز کا ذمہ دار ”غیر مقامی“ لوگوں کو قرار دیتے ہوئے محنت کشوں کو تقسیم کر رہی ہے۔ ریاست اس شہر میں محنت کشوں کومنظم ہونے سے روکنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کر رہی ہے۔“
اختتام میں پارس جان جو کہ کمیونسٹ رہنما اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما ہیں، نے محنت کش طبقے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”آج ہم اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے غزہ میں 40 ہزار سے زائد لوگوں کو (جن میں کم عمر بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں) قتل ہوتا ہوا دیکھ چکے ہیں۔ یہ ہمیں واضع طور پر بتا رہا ہے کہ اس نظام میں اب بربریت اور قتل و غارت گری ہی محنت کشوں کا مستقبل بن کر رہ گیا ہے۔ آج پورا مغرب کا حکمران طبقہ اسرائیلی سامراج کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس جنگ کو محنت کش طبقہ ہی روک سکتا ہے۔“
اس تقریر کے بعد انعم خان کے امریکہ، یورپ اور کینیڈا میں طالب علموں کی جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا ”آج امریکہ کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طالب علم اسرائیل کی جانب سے کی گئی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور امریکی ریاست گرفتاریاں اور ان پر ظلم کر رہی ہے اس کے باوجود طلبہ اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ سے لے کر فرانس تک ہم ان تمام طلبہ کو ناصرف خراج تحسین پیش کرتے ہیں بلکہ ہم ان کی اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔“
آخری تقریر پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی جنرل سیکرٹری آنند پرکاش نے کی۔ انہوں نے ریلی کے شرکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”آج طالب علموں کو کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے۔ طالب علم اور نوجوان جو کہ مستقبل کے مزدور ہیں انہیں بیروزگاری کی کھائی میں دکھیل دیا گیا ہے، لیکن ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی طاقت صرف محنت کش طبقہ ہی رکھتا ہے۔ محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف منظم ہوتے ہوئے عام ہڑتال کرنی ہوگی جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس نظام کو چلانے والی واحد طاقت محنت کش طبقہ ہی ہے۔ اور اس نظام کو تبدیل کرتے ہوئے تمام اداروں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے کر ایک سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنا ہوگا۔“
آخر میں انعم خان اور جنرل ٹائر ورکرز یونین اور ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے صدر نے مزدوروں کو مخاطب کیا کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ مزدور اپنے مسائل کے حل کے لئے ناصرف منظم ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ خود کو مارکسی نظریات سے لیس کریں کیونکہ اب اس نظام کو تبدیل کرنے کے علاہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں“۔ اختتام میں انہوں نے تمام محنت کشوں اور طلبہ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس شدید ترین گرمی اور نا مصائب حالات میں ریلی میں شرکت کی۔
ریلی میں محنت کشوں کا اخبار ”ورکر نامہ“ بھی بڑی تعداد میں فروخت کیا گیا اور آخر میں تمام محنت کشوں کو ریڈ ورکرز فرنٹ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور اس لڑائی کا حصہ بنیں۔