پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
سوال۔ گلوبلائزیشن کیا ہے؟
جواب۔ گلوبلائزیشن سے مراد مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاؤ ہے جس کے نتیجے میں ایک عالمی معیشت تخلیق ہوئی ہے۔ جس نے ہر قومی معیشت کو دیگر معیشتوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ملک خود کفیل نہیں ہے۔ سب کو دوسرے ممالک کے ساتھ پیداواری اشیاء کے تبادلے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک مربوط عالمی معیشت بذات خود کوئی منفی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر ایک ہم آہنگ عالمی منصوبہ بندی پر مبنی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے۔
ایک ایسے معاشی نظام کے تحت جس کی بنیاد سماجی انصاف اور ذرائع پیداوار (فیکٹریوں‘ ٹیکنالوجی‘ سرمایہ) کی اجتماعی ملکیت پر ہو۔ یہ عالمی انسانیت کے لیے ایک زبردست پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداور کی نجی ملکیت اور ہر انفرادی سرمایہ دار کی زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ چیز ترقی کو ناممکن بنا کر ایک ایسی صورتحال پیدا کر دیتی ہے جس میں مٹھی بھر لوگ بے حد و حساب دولت جمع کر لیتے ہیں جبکہ کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کا معیار زندگی کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
سوال۔ غربت اور عدم مساوات میں روز بروز اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
جواب۔ اس وقت کرہ ارض پر سوا آٹھ ارب انسان موجود ہیں جبکہ بارہ ارب انسانوں کے لیے خوراک پیدا کی جا سکتی ہے۔ تاہم بھوک‘ فاقہ کشی اور غربت و افلاس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 80 کروڑ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ دو ارب چالیس کروڑ افراد اغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مائیکرو سافٹ کمپنی کے تین اعلیٰ ترین عہد یداروں کے پاس اس قدر دولت موجود ہے جو امریکی حکومت کی طرف سے غربت کے خلاف جاری پروگراموں کے لیے مختص کردہ رقم سے زیادہ ہے۔ مختلف معیشتوں کے درمیان اشیاء کا تبادلہ منصفانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا۔ مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیاں جو بے پناہ طاقت کی مالک ہیں زیادہ تر دولت پر قابض ہیں (کرہ ارض کی مجموعی داخلی پیداوار کا چالیس فیصد اور تجارت کا ستر فیصد) اور باقی دنیا پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے من مانی شرائط مسلط کرتی ہیں۔
عالمی معیشت کی تقسیم سے سبھی ممالک کو برابر کا فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھ اپنا خام مال (تیل‘ معدنیات‘ زرعی اجناس) اور محنت انتہائی سستے داموں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اس عمل سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہے۔ غریب ممالک ایسی پیداوری اشیاء کے تبادلے پر مجبور ہوتے ہیں جن کی تیاری میں زیادہ محنت صرف ہوئی ہوتی ہے (تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے) جبکہ ان کے عوض وہ ترقی یافتہ ممالک اور سامراجی اجارہ داریوں سے ایسی اشیاء لیتے ہیں جو مہنگی ہوتی ہیں جبکہ ان کی تیاری بہت آسان ہوتی ہے (ذرائع پیداوار کی معیاری اور مقداری حوالے سے اعلیٰ سطحی کے باعث)۔
اس عمل میں کون کھوتا ہے اور کون پاتا ہے یہ بات بالکل واضح ہے۔ علاوہ ازیں عالمی معیشت مغربی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر نگیں ہے اور وہ اپنی مرضی کی قیمتیں‘ تجارتی قوانین اور معاشی پالیسیاں باقی دنیا پر مسلط کر سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر 1960ء میں ایک امریکی ٹریکٹر خریدنے کے لیے تنزانیہ کو کافی کے دو سو تھیلے دینا پڑتے تھے۔ تیس سال بعد ایک امریکی ٹریکٹر کی خریداری کے لیے تنزانیہ کو چھ سو سے زائد کافی کے تھیلے دینا پڑتے ہیں۔
سوال۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اتنی طاقتور کیوں ہیں؟
جواب۔ دنیا میں مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ سرمایہ داری کے ارتقاء کا فطری نیتجہ ہے جو کہ زیادہ انفرادی منافع کی لالچ کی بنیاد پر قائم ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے سرمایہ دار مجبور ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں‘ اپنی پیداوار میں اضافہ کریں‘ فروخت بڑھائیں‘ نئی منڈیاں تلاش کریں اور موجودہ منڈیوں کے استحصال میں اضافہ کریں اور سستی محنت اور سستے خام مال کے حصول کے لیے نئے ممالک میں سرمایہ کاری کریں وغیرہ وغیرہ۔
نتیجے کے طورپر دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے یعنی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی مٹھی بھر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے پاس جنہوں نے دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ جب ان کے لیے محض معاشی ذرائع سے اپنی شرائط منوانا ممکن نہیں رہتا تو ملٹی نیشنل کمپنیاں سامراجی ممالک کے سیاسی اور فوجی اداروں (امریکہ‘ یورپ اور جاپان جیسی بڑی طاقتوں کی حکومتوں‘ پارلیمانی‘ قوانین اور افواج) کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اکثر اوقات مفادات کو چھپانے کے لیے ”انسانیت کے مفادات“ کے دفاع کی آڑ میں مداخلت کرتی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں ہم افغانستان اور عراق وغیرہ میں اسی قسم کی ’انسانی بہبود کے لیے کی جانے والی بمباریوں‘ کے نمونے دیکھ چکے ہیں۔ جنہیں بذات خود بڑی طاقتوں نے تخلیق کیا تھا اور وہی ان پر غالب ہیں۔ (عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک‘ نیٹو‘ اقوام متحدہ وغیرہ)
گلوبلائزیشن اس نظام کی حقیقی نوعیت کو چھپانے کے لیے نقاب کا کام کرتی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی تعریف کے لیے جس کا خاصہ بین الاقوامی سطح پر محنت کش طبقے اور دنیا بھر کی اقوام کا چند طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال ہے‘ سامراج سے بہتر کوئی اصطلاح نہیں۔