سوال۔ کسی عہد کے حاوی تصورات کیا ہوتے ہیں؟
جواب۔ ہر عہد کے غالب خیالات حکمرانوں کے خیالات ہوتے ہیں، یعنی جو طبقہ سماج کی حکمران مادی قوت ہوتا ہے وہ حکمران فکری قوت بھی ہوتا ہے۔ وہ طبقہ جس کے قبضہ میں مادی پیداوار کے ذرائع ہوتے ہیں وہ ساتھ ہی ساتھ ذہنی پیداوار کے ذرائع پر بھی قابض ہوتا ہے۔ لہٰذا عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ذہنی پیداوار کے ذرائع سے محروم لوگوں کے خیالات اس کے تابع ہوتے ہیں۔ حکمران خیالات غالب مادی رشتوں کے فکری اظہار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ خیالات تصور کیے جانے والے مادی رشتے اصل میں وہ رشتے ہیں جو کسی طبقے کو حکمران طبقہ بناتے ہیں۔ لہٰذا یہ خیالات اس کے غلبے کے خیالات ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ جن افراد پر مشتمل ہوتا ہے وہ دیگر چیزوں کے علاوہ سماجی شعور پر بھی حاوی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ دیگر چیزوں کے علاوہ مفکروں اور تصورات کے خالقوں کے طور پر بھی حکمرانی کرتے ہیں اور اپنے عہد کے خیالات کی پیداوار اور تقسیم کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے خیالات عہد کے حکمران خیالات ہوتے ہیں۔
سوال۔ تاریخ میں فرد کا کردار کیا ہے؟
جواب۔ مارکس ازم تاریخ میں فرد کے کردار کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں کرتا بلکہ محض یہ وضاحت کرتا ہے کہ افراد یا پارٹیوں کے کردار کا احاطہ تاریخی ارتقاء کی معینہ سطح اور معروضی اور سماجی ماحول کرتا ہے جو آخری تجزیہ میں پیداواری قوتوں کی ترقی سے متعین ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ مارکس ازم کے ناقدین کہتے ہیں، کہ مرد و زن محض معاشی جبریت کی اندھی کار گزاریوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیاں ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ مرد و زن اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ ایسا مکمل طور پر آزاد عاملین کے طورپر نہیں کرتے بلکہ جس قسم کے سماج میں وہ موجود ہوتے ہیں اس کی بنیاد پر انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ کسی دی گئی صورتحال میں سیاسی شخصیات کی ذاتی خصوصیات یعنی نظریاتی تیاری ’مہارت‘ ہمت و جرأت اور ثابت قدمی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے فیصلہ کن لمحات بھی آتے ہیں۔ جب قیادت کا معیار ایسا فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے جس سے صورتحال کا پانسہ پلٹ جائے۔ ایسے ادوار عام نہیں ہوتے بلکہ یہ اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ایسے طویل عرصے کے دوران پوشیدہ تضادات رفتہ رفتہ پختہ ہو جاتے ہیں اور جدلیات کی زبان میں مقدار معیار میں بدل جاتی ہے۔ اگرچہ افراد محض اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر سماج کے ارتقاء کا تعین نہیں کر سکتے تاہم انسانی تاریخ میں داخلی عنصر کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔
سوال۔ سماج کی مادی بنیادیں کیا ہیں؟
جواب۔ جس طرح ڈارون نے نامیاتی فطرت کا قانون ارتقاء دریافت کیا تھا۔ اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کا قانون ارتقاء دریافت کیا۔ اس نے یہ سادہ حقیقت دریافت کی‘ جو نظریاتی جھاڑ جھنکار تلے چھپ چکی تھی‘ کہ سیاست‘ سائنس‘ مذہب اور فن وغیرہ کی جستجو سے پہلے انسان کے لیے کھانا‘ پینا‘ کپڑے اور رہائش ملنا ضروری ہے۔ لہٰذا گزر بسر کے لیے درکار ضروری مادی ذرائع کی پیداوار اور اس کے نتیجے میں کسی عہد میں کسی قوم کی حاصل کردہ معاشی ترقی کی سطح وہ بنیاد ہے جس پر ریاستی ادارے‘ قانونی تصورات‘ فن اور یہاں تک کہ متعلقہ قوم کے مذہبی خیالات ارتقاء پاتے ہیں۔ لہٰذا اسی کی روشنی میں ان چیزوں کی وضاحت ہونی چاہیے نہ کہ اس سے الٹ جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔
سوال۔ سماجی ارتقاء کے قوانین کیا ہیں؟
جواب۔ سماجی پیداوار کے عمل کے دوران افراد ایسے مخصوص رشتوں میں بندھ جاتے ہیں جو ناگزیر ہوتے ہیں وہ ان کے ارادوں کے تابع نہیں ہوتے۔ یہ پیداواری رشتے پیداواری قوتوں کی ترقی کی مخصوص سطح سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ سماج کا معاشی ڈھانچہ انہی پیداواری رشتوں کے حاصل جمع پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچے تعمیر ہوتے ہیں اور سماجی شعور کی مخصوص اقسام بھی اسی سے مطابقت رکھتی ہیں۔
مادی زندگی کا مروجہ طریقہ پیداوار کے سماجی‘ سیاسی اور روحانی عوامل کے عمومی کردار کا تعین کرتا ہے۔ مرد و زن کا شعور ان کے وجود کاتعین نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ سماجی ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے پر یہ پیداواری رشتے سماج کی پیداواری قوتوں کے ارتقاء کی بجائے ان کے راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد انقلاب کا دور شروع ہوتا ہے۔ معاشی تبدیلی آنے کے بعد سارا عظیم الشان بالائی ڈھانچہ بھی بالعموم بڑی تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے۔
ان تبدیلیوں کے حوالے سے جو فرق ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ معاشی حالات میں آنے والی مادی تبدیلی کا تعین فطری سائنس جیسی درستگی اور باریک بینی سے کیا جا سکتا ہے دوسری جانب قانونی‘ سیاسی‘ مذہبی‘ جمالیاتی یا فلسفیانہ نظریات وہ نظریاتی شکلیں یا ہیئتں ہیں جن کے ذریعے انسان اس تصادم کے بارے میں شعور حاصل کرتے اور جدوجہد کرتے ہیں۔ جس طرح ہم کسی فرد کے بارے میں رائے اس بنیاد پر قائم نہیں کرتے کہ اس کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ اسی طرح ہم تبدیلی کے کسی عہد کو اس شعور کی بنیاد پر نہیں پرکھتے۔
اس کے برعکس اس شعور کی وضاحت مادی زندگی کے تضادات‘ پیداوار کی سماجی قوتوں اور پیداواری رشتوں کے درمیان موجود تصادم کی کیفیت کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ کوئی سماجی نظام اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ تمام پیداواری قوتیں ترقی نہیں پا جائیں جن کے لیے اس میں گنجائش موجود ہے اور نئے اور اعلیٰ پیداواری رشتے اس وقت تک کبھی نمودار نہیں ہوتے جب تک ان کے وجود کے مادی حالات پرانے سماج کی کوکھ میں پختہ ہو کر تیار نہیں ہو جاتے۔
انسان ہمیشہ اپنے ان مسائل سے الجھتا ہے جنہیں وہ حل کر سکتا ہو کیونکہ اگر ہم معاملے کا بغور جائزہ لیں تو ہمیشہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسئلہ صرف اس وقت سر اٹھاتا ہے جب اس کے حل کے لیے درکار ضروری مادی حالات پہلے سے وجود رکھتے ہوں یا کم از کم تشکیل کے مرحلے میں ہوں۔
ذرا وسعت میں دیکھیں تو ہم ایشیائی قدیم جاگیر دارانہ اور جدید بورژوا طریقہ پیداوار کو سماج کی معاشی تشکیل کے ارتقاء کے مختلف ادوار کا نام دے سکتے ہیں۔ بورژوا پیداواری رشتے پیداوار کے سماجی عمل کی آخری مخاصمانہ شکل ہیں‘ انفرادی مخاصمت کے مفہوم میں نہیں بلکہ ایسی مخاصمت جو سماج میں رہنے والے فرد کی زندگی کا احاطہ کرنے والے حالات سے جنم لیتی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ بورژوا سماج کی کوکھ میں ارتقاء پانے والی پیداواری قوتیں اسی مخاصمت کو دور کرنے کے لیے درکار مادی حالات پیدا کرتی ہیں‘ لہٰذا یہ انسانی سماج کے قبل از تاریخی مرحلے کا آخری باب ہیں۔