|تحریر: گیبریل گیلیانو، ترجمہ: جویریہ ملک|
50.48 فیصد ووٹوں کے ساتھ، گستاوو پیٹرو اور فرانسیا مارکیز نے کولمبیا کے صدارتی انتخابات میں دائیں بازو کے امیدوار روڈولفو ہرنینڈز کے خلاف انتخابی مقابلہ جیت لیا ہے۔ پیٹرو، مارکیز اور پیکٹو ہسٹریکو کی فتح کی تاریخی اہمیت کو چھوٹا نہیں سمجھا جا سکتا۔ گستاوو پیٹرو کولمبیا کی تاریخ میں بائیں بازو کا پہلا صدر بن گیا ہے۔ یہ کامیابی کولمبیا جیسے ملک جہاں سرمایہ دارانہ طبقے نے عام طور پر جلاد کا کردار ادا کیا ہے، میں جاری طبقاتی جدوجہد میں ایک اہم موڑ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ماضی میں اشرافیہ کی براہ راست مخالفت کرنے والے تمام امیدواروں کو قتل کر دیا گیا (جارج ایلیسر گیٹن، جیمی پرڈو لیل، برنارڈو جارامیلو، کارلوس پیزارو، لوئس کارلوس گیلان)، اور جہاں بائیں بازو کی پارٹی کی تشکیل پر اس کے کارکنان کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا (جیسے پیٹریاٹک یونین کے ساتھ ہوا، جہاں آٹھ سالوں کے دوران اس کے 1163 کارکنان کا قتل ہوا، جن میں دو صدارتی امیدوار، 13 اراکین پارلیمنٹ اور 11 مقامی میئر شامل ہیں)۔ عوامی پارٹی کی جیت، جو خود کو بائیں بازو کا سمجھتی ہے، ایک بے مثال واقعہ ہے جو کولمبیا اور عالمی سرمایہ داری کو درپیش بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
پیٹرو کی جیت یوری بسمو تحریک کی شکست ہے اور اس سے عوام کے اپنی طاقت پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ حکمران طبقے کو یہی خدشہ ہے کہ پیٹرو کی صدارت بہتر حالات زندگی کے لیے جدوجہد کے دروازے مزید کھول دے گی اور یہ ایک ایسا سیلاب بن جائے گا جس پر وہ قابو نہیں پا سکیں گے۔
2018ء کے اسباق
پیٹرو کا تیسری کوشش میں صدر بن جانا صرف اسی صورت میں ممکن ہو پایا کیونکہ اس بار اس نے 2018ء والی غلطیاں نہیں دہرائیں۔ مثال کے طور پر، عوام کو متحرک کرنے کی طرف توجہ مرکوز کرنا (عدم شرکت کرنے والے ووٹروں کو سواریاں مہیا کرنا، دھاندلی کو روکنے کے لیے انتخابی نگران کمیٹیاں بنانا وغیرہ) ایسے نئے واقعات ہیں جو محنت کشوں، نوجوانوں اور کسانوں کی ایک پوری پرت کو سکھائیں گے کہ وہ جیتنے کے لیے صرف بورژوا جمہوریت کے فوائد پر اعتماد نہیں کر سکتے، بلکہ وہ صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
پیٹرو نے 2018ء میں ہارنے والے علاقوں، جیسے بحر اوقیانوس کے ساحل اور ایمازون میں اپنی کوششوں کو دوگنا کیا۔ تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ اس نے یہ کامیابی نہ صرف تمام خطوں میں بڑی تقریبات کا انعقاد کرکے بلکہ مقامی ”کاکیکس (روایتی لیڈران)“ کی حمایت کے ذریعے ووٹروں کو متحرک کر کے حاصل کی۔ زولیمہ جاتن اور ویلیم مونٹیس جیسے مشکوک کرداروں کے ساتھ اتحاد، جو کہ روئے بریراس، ارمانڈو بیناڈیٹی اور الفونسو پراڈا (سینٹیسمو سے) جیسی شخصیات کے تعاون سے کیا گیا ہے، پیٹریسمو تحریک کے کمزور پہلو کا مظاہرہ ہے۔
اس کے مقابلے میں، ہرنینڈز نے 10.5 ملین ووٹ حاصل کیے جو کہ اس کے اپنے تمام تر حمایتی انتخابی حلقوں سمیت فریڈریکو ’فیکو‘ نامی دائیں بازو کے امیدوار، جسے پہلے راؤنڈ میں شکست ہوگئی تھی، کی حمایت کو ملا کر 11 ملین ووٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا، پہلے راؤنڈ میں پیٹرو کے 8.5 ملین اور دوسرے میں حاصل کردہ 11.2 ملین کے درمیان فرق بنیادی طور پر ٹرن آؤٹ میں اضافے کی وجہ سے ہوا، جو 55 فیصد سے 58 فیصد تک چلا گیا۔ یہ اس دوسرے راؤنڈ کے دوران پیکٹو ہسٹریکو کی درست حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں انہوں نے پہلے راؤنڈ میں کمپئین کیلئے جو سیاسی پروگرام تشکیل دیا تھا، اس بار اسے نرم بنانے کی بجائے اسی سیاسی پروگرام کی بنیاد پر ان لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جنہوں نے پہلے راؤنڈ ووٹ نہیں ڈالے تھے۔
یہ واضح رہے کہ 2022ء میں پیکٹو ہسٹوریکو کا سیاسی پروگرام ان اعتدال پسندانہ اور تخفیف پسندانہ تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو پیٹرو نے 2018ء کے دوسرے راؤنڈ میں کی تھیں۔
ایک تاریخی فتح
یہ فتح 2021ء کی ملک گیر ہڑتال کی بے مثال عوامی تحریک کے بغیر ممکن نہ ہو پاتی۔ ان تین مہینوں کے دوران، یوریبسمو تحریک کا خاتما ہوا اور حکمران طبقے نے نوجوانوں کی طرف سے منظم پرائمرا لائنا سیلف ڈیفنس کو اس کے زوال کا مرکز تسلیم کیا۔ صرف ایک چیز جس نے ایوان ڈوک حکومت کو بچایا وہ ٹریڈ یونین رہنماؤں کا غلیظ کردار تھا، جنہوں نے منظم محنت کشوں کو غیر فعال کیا اور تحریک کو توڑنے میں کردارادا کیا۔ لیکن اس انتباہ نے بورژوازی کی سب سے ذہین پرت کو رُک کر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس ذہنی کیفیت کی عکاسی الیژینڈرو گاویریا کے لندن فنانشل ٹائمز کے بیانات میں ہوئی: ”ہم ایک آتش فشاں کے اوپر سو رہے ہیں۔ عدم اطمینان انتہا پر ہے۔ آتش فشاں کو بند کرنے سے بہتر ہے کہ پیٹرو کے ساتھ کنٹرول شدہ دھماکہ کیا جائے۔ ملک تبدیلی کا مطالبہ کر رہا ہے۔“
اس فتح کی تاریخی اہمیت اس حقیقت سے بھی سامنے آتی ہے کہ پیٹرو نے ملک کی تمام بڑے پیمانے پر بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے قیام کی بدولت جیت حاصل کی ہے۔ کولمبیا کی کمیونسٹ پارٹی سے لے کر کولمبیا ہیومان تک، پیٹرو نے بڑے پیمانے پر مبنی اتحاد تشکیل دیا۔ تاہم، صدارت کی تلاش میں، پیکٹو ہسٹوریکو نے سابق صدر سینٹوس (جو اصل میں یورائیب کے ماتحت وزیر تھا اور پھر خود صدر بنا) کے حامیوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ یہ وہ تضاد ہے جو پیٹرو کی پیکٹو ہسٹوریکو کو بیان کرتا ہے۔ یہ ایک عوامی پارٹی ہے جس کے حمایتی اپنے حالاتِ زندگی میں خاطر خواہ بہتری اور تاریخی مطالبات (جیسے زرعی اصلاحات اور صحت کے نظام کی اصلاح) کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، لیکن جس کی قیادت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں صحت کی سہولیات کی نجکاری اور زمینوں کے ذخیرے سے اپنی قسمتیں چمکائی ہیں۔
پیکٹو ہسٹوریکو کی تشکیل کے دوران مختلف اقساط اس تناؤ کی عکاسی کرتی ہیں؛ بند فہرست سکینڈل سے لے کر ”پیٹرو ویڈیوز“ تک (وہ ویڈیوز جن میں پیکٹو ہسٹوریکو کے رہنما آپس میں اس بات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ سپر گیروس جیسی مالیاتی کمپنیوں اور حتیٰ کہ امیروں کے ووٹ کیسے حاصل کیے جائیں)۔ دریں اثنا، پیٹرو کی جانب سے فرانسیا مارکیز کا نائب صدر کے طور پر انتخاب اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اپنی اس حمایتی پرت جو ریڈیکل تبدیلی چاہتے ہیں، کو اس اتحاد میں ایک اہم مقام دے۔ مارکیز شروع سے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ صرف نام کی لیڈر نہیں بنے گی۔ درحقیقت، قیادت کے ساتھ اپنے براہ راست اختلافات رکھنے کے رجحان نے اس کے نائب صدر بننے کو غیر یقینی بنایا اور لبرل پارٹی کے سرکردہ رہنما سیزر گویریا کو ایک طرف ہونے پر مجبور کر دیا۔
ممکن ہے کہ فرانسیا پیکٹو ہسٹوریکو کے اندر ان لوگوں کے خلاف جدوجہد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی جو مالکان کے مفادات کے دفاع کو ان اصلاحات کے حصول سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ اقتدار میں آئے۔ لیکن یہ تب ممکن ہوگا اگر پیکٹو ہسٹوریکو کے کارکنان ان رہنماؤں سے علیحدگی اور اتحاد کے اندر احتساب کے جمہوری اقدامات (جیسے قائدانہ عہدوں پر انتخاب کا اصول اور منسوخی کا حق) نافذ کرنے کی ضرورت کا جواب دیں گے۔
’پیٹریسمو‘ کی محدودیت
پیٹرو کی صدارت کے چار سال سرمایہ داری کے عالمی بحران اور اس کے کولمبیا کی معیشت پر تباہ کن اثرات سے متعین ہوں گے۔ ایک ایسا ملک جہاں بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 50 فیصد کے برابر ہے، جہاں افراط زر نے کولمبیا پیسو کو دنیا کی سب سے کم قیمت والی کرنسی میں تبدیل کر دیا ہے، اور جہاں بے روزگاری براعظم میں سب سے زیادہ ہے (دی اکانومسٹ کے مطابق 10 فیصد)، یہ واضح ہے کہ پیٹرو حکومت کا سخت امتحان ہو گا۔
واضح رہے کہ پیٹرو کا پروگرام اصلاح پسند ہے۔ اس کا نعرہ انسان دوست سرمایہ داری کا ہے۔ جس چیز نے حکمران طبقے کی پیٹرو سے نفرت پیدا کی وہ درحقیقت ایسی اصلاحات ہیں جو، سامراج کے زیر تسلط کولمبیا کی پسماندہ سرمایہ داری کے تناظر میں، کولمبیا کی معیشت کے حقیقی مالکان (امریکی سامراج اور سرمایہ دار طبقے میں اس کی کٹھ پتلیوں) کے لیے بڑے نقصانات لاتی ہیں۔
مثال کے طور پر، تیل اور کان کنی کی تلاش (”پہلے دن سے“) کو روک کر توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی طرف منتقلی کی اس کی تجویز حکمران طبقے کے منافع پر براہ راست حملہ ہے جس کی بنیادی برآمد تیل ہے۔ اسی طرح ایک ایسا ملک جس میں 90 فیصد محنت کشوں کو اتنی پنشن نہیں ملتی کے وہ ریٹائر ہوں، وہاں عوامی پنشن سسٹم بنانے کی اس کی تجویزنے مزدوروں اور کسانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ دریں اثنا، اس پر کولمبیا کے حکمران طبقے نے اختلاف کیا ہے جو پنشن کی رقم کو سرمایہ کاری اور ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس سے پنشنرز کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ تجاویز کسی ”جذباتی کمیونسٹ“ کی تجاویز نہیں ہیں جو صنعت کے تمام شعبوں کو ضبط کرنے اور نیشنلائز کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ تجاویز کولمبیا کی اولیگارکی (Oligarchy) کی طاقت کے ذرائع کو چھوتی تک نہیں ہیں۔ زرعی اصلاحات کے لیے اس کی تجویز کا آغاز لیٹیفنڈسٹاس کی غیر پیداواری زمین خریدنے کے ذریعے ہوتا ہے جہاں مؤخر الذکر اپنی زمین استعمال نہیں کرنا چاہتے اور ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں (پیکٹو ہسٹوریکو کا پروگرام، صفحہ 19)۔
یہ تجاویز اور حکمران طبقے کے ساتھ مفاہمت کی ان کی کوششیں پیٹرو حکومت کی واضح کمزوریاں ہیں۔ اس کمزور پہلو کو دیکھنے کے لیے ہمیں صدر بننے کے بعد اس کی تقریر سے آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، جس میں اس نے حزب اختلاف کو اپنے ساتھ حکومت کرنے کی دعوت دی اور اعلان کیا کہ ”جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نجی ملکیت کو تباہ کرنے والے ہیں انہیں میں یہ کہوں گا: ہم کولمبیا کی سرمایہ داری کو فروغ دینے جا رہے ہیں۔ ہمیں کولمبیا کی جاگیرداری پر قابو پانا ہوگا۔“
ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ کولمبیا کی پسماندگی ”جاگیرداری“ کی پیداوار نہیں ہے۔ کولمبیا میں، ”فری مارکیٹ“، اجرت کی غلامی، اور پیداوار کے ذرائع کی نجی ملکیت موجود ہے۔ یہ سب سرمایہ داری کی خصوصیات ہیں۔ لیکن کولمبیا کی سرمایہ داری کی تعریف ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون سے کی جا سکتی ہے، جہاں زمیندار طبقے کا انحصار زمین کے ارتکاز اور امریکی سامراج کی مالی مدد پر ہے، جو اسے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے حوالے سے محکومیت کی پوزیشن میں رکھتا ہے۔
تاہم کولمبیا کی معیشت قیمت ادا کرتی ہے، کیونکہ اس کی معیشت خام مال کے برآمد کنندہ کے حوالے کر دی گئی ہے، اور اسے تکنیک تیار کرنے یا درآمد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کولمبیا کی معیشت کی پسماندگی امریکی سامراج کے فائدے کے لیے ہے۔ کولمبیا کی معیشت کی ترقی کا کام مطلوبہ مراحل کا سوال نہیں ہے جس کے تحت ہر ملک میں سرمایہ دارانہ ترقی کے ذریعے ہی سوشلزم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ سمجھنا ہے کہ عالمی معیشت سرمایہ دارانہ ہے اور اس بنیاد پر ہر ملک میں سوشلزم کے لیے لڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔ پیٹرو نے جس ”جمہوری اور پیداواری سرمایہ داری“ کی بات کی تھی وہ سامراجی تسلط کے دور میں کولمبیا میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔
حکمران طبقے کا حملہ
حکمران طبقے کا پیٹرو کی جیت پر ردعمل مضمر شرائط کے ساتھ قبولیت میں سے تھا۔ دونوں، الوارو یوریب ویلیز اور روڈولفو ہرنینڈیس، نے پیٹرو کی جیت کو ”قبول“ کر لیا ہے۔ لیکن انہوں نے ایسا لوگوں کو یاد دلاتے ہوئے کیا ہے کہ وہ پیٹرو حکومت کو صرف تب تک قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جب تک وہ ”اداروں کا احترام“ کرے۔
وہ ایک ”عظیم قومی معاہدے“ کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں (جس زبان کو پیٹرو نے بھی اپنایا ہے) اور اس بات پر بھی کہ پیٹرو کو ”نہ صرف ان لوگوں کے لیے حکومت کرنی چاہیے جنہوں نے اسے ووٹ دیا ہے بلکہ ان کے لیے بھی جنہوں نے اس کی مخالفت کی ہے“۔ دوسری طرف، جب ڈیوک جیسا دائیں بازو کا سرمایہ دار امیدوار جیتتا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے پاس ”بغیر کسی فکر کے اپنے پروگرام کو نافذ کرنے کا مینڈیٹ ہے“۔
پیٹرو کی جیت کو قبول کرنے کے لیے جو چیز ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے وہ ایک اور سماجی دھماکے سے بچنے کی ضرورت ہے، جس میں کولمبیا کی بورژوازی، جو اپنی کم ہوتی حمایت سے آگاہ ہے، اس بات سے خوفزدہ ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت کھو دے گی۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر، اس کے پاس بورژوا جمہوری اداروں پر انحصار کرنے کی ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے تاکہ پیٹرو کے پیچھے چلنے والی تحریک کومحفوظ راستوں کے ذریعے خراب کیا جا سکے۔
اسے نہ صرف ملک کے انتہائی قدامت پسند عناصر کی مخالفت سے نمٹنا پڑے گا، جن کے پاس اب بھی قانون ساز نشستوں کا بڑا حصہ ہے۔ بلکہ پیکٹو ہسٹوریکو حکومت کو اس حقیقت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا کہ، سینیٹرز کی سب سے زیادہ تعداد اور دوسرے نمبر پر نمائندے ہونے کے باوجود، وہ اب بھی دونوں ایوانوں میں اقلیت میں ہیں۔
حکمران طبقہ جمہوری طور پر منتخب صدر کے کسی بھی ترقی پسند اقدام کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنے اختیار میں تمام ذرائع استعمال کرے گا۔ یہ میڈیا کو بہتان اور بدنامی کی بے مثال مہم چلانے کے لیے استعمال کرے گا، یہ بورژوا ریاستی نظام، عدالتی نظام اور مسلح افواج کے ذریعے تخریب کاری کا سہارا لے گا۔ ہم سرمایہ کاری کی ہڑتال اور سرمائے کی پرواز کا خطرہ دیکھیں گے۔ اس کے بعد پیکٹ کی قیادت کہے گی کہ ان کا کام اصلاحات کو اعتدال پر لانا ہو گا تاکہ انہیں ’اتفاق رائے‘ سے منظور کیا جا سکے۔
ان ناگفتہ بہ حالات کے لیے ہمارا جواب سڑکوں پر عوام کو متحرک کرنا ہوگا تاکہ ان جماعتوں کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالا جا سکے جو تبدیلی کو روکنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے سے زیادہ جمہوری اور طاقتور کوئی چیز نہیں ہے اور یہ ثابت کرنے کا وقت ہے۔
جدوجہد جاری رہے
پیٹرو کی جیت ان لوگوں کے لیے راحت کا ایک سانس ہے جو روڈلفو ہرنینڈیز کی فتح اورایوین ڈیوک کے چار سالوں کی سخت اور جابرانہ پالیسیوں کے تسلسل سے خوفزدہ تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فی الوقت پیٹرو کی جیت کولمبیا کے ان لاکھوں باشندوں کی امنگوں کی عکاسی کرتی ہے جو ملک کی پسماندگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی جیت ایک تاریخی واقعہ ہے، اور اس کا جشن بجا طور پر اتوار کی رات ملک بھر میں دسیوں ہزار افراد نے منایا۔ لیکن یہ صرف ایک پہلا قدم ہے۔ مارکس وادیوں کے لیے پیٹرو حکومت کے اقدامات کو بغور دیکھنا ضروری ہوگا۔
پیٹرو ایک دوراہے پر کھڑا ہے: وہ محنت کش عوام کے لیے حکومت کر سکتا ہے جنہوں نے اسے منتخب کیا ہے، یا سرمایہ داروں کے لیے حکومت کر سکتا ہے۔ جب تک وہ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے والی اصلاحات کو نافذ کرے گا، تاجروں، بڑے جاگیرداروں اور امریکی سامراج سے نفرت حاصل کرے گا۔ کولمبیا کی معیشت اس قدر پسماندہ کردار کی ہے کہ منافع کو اولیگارکی سے دور کیے بغیر دوبارہ تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ طبقاتی مفاہمت کے نام پر اولیگارکی کو مراعات دیتا ہے تو وہ اپنی حمایت کی بنیاد کو کمزور کردے گا اور اپنے زوال کی بنیاد رکھ دے گا۔
جب تک پیداوار کے ذرائع اولیگارکی کے ہاتھ میں ہیں، پیٹرو ان پر قابو نہیں رکھ سکے گا اور اس وجہ سے کبھی بھی ملک کی پیداواری صلاحیت کو ترقی نہیں دے سکے گا۔ سرمایہ کاری کی لاگت ان مالکان کے لیے بہت زیادہ ہے جو صرف منافع میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور سماجی انفراسٹرکچر یا اصلاحات پر خرچ کرنے کا مطلب واشنگٹن میں سامراجیوں سے پیسہ چھیننا ہوگا۔
آگے بڑھنے کا واحد راستہ سرمایہ داری کی منطق سے ٹوٹنا ہے۔ نوجوان، کسان اور کولمبیا کا محنت کش طبقہ صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کر سکتا ہے: وہ طاقت جس نے 2021ء میں تین ماہ تک حکمران طبقے کو ہلا کر رکھ دیا اور ٹیکس اصلاحات کا خاتمہ کیا۔ ایک انقلابی متبادل بنانے کی اشد ضرورت ہے جو اس پروگرام کوعوامی تنظیموں میں کھلنے والی بحث میں لا سکے۔
حکومت کے ہرمثبت اقدام کا حکمران طبقے کی مزاحمت کے سامنے سڑکوں پر آکر دفاع کرنا ہوگا۔ حکومت کی طرف سے ہر ہچکچاہٹ یا پسپائی کا مقابلہ سڑکوں پر عوامی جدوجہد کے ذریعے کرنا ہو گا۔
اگلے چار سالوں میں مارکس وادیوں کا کام واضح ہے: محنت کش طبقے کی سب سے ترقی یافتہ پرت کے ساتھ رابطہ قائم کرنا جو منظم ہونے کے لیے سڑکوں پر نکلے گی؛ ہر لڑائی میں وہ حکمت عملی پیش کرنا جو ہمیں ان اصلاحات کو جیتنے میں مدد دے جن کا صدر پیٹرو نے وعدہ کیا تھا؛ محنت کش طبقے کا اپنی طاقت پر اعتماد بڑھانا؛ اور مزدور تحریک کے بہترین عناصر پر فتح حاصل کرنا۔ صرف اسی طریقے سے ہم ایک حقیقی انقلابی متبادل تشکیل دے سکتے ہیں جو اصلاحات کی جدوجہد کو سوشلزم کی جدوجہد میں تبدیل کر سکتا ہے تاکہ کولمبیا کی اولیگاری کو ختم کیا جا سکے، یعنی طفیلیوں کے ایک ایسے تابوت کو جس کا واحد مفاد خود کے اور واشنگٹن میں اپنے دوستوں کے خزانے کی افزودگی ہے۔