|تحریر: فضیل اصغر|
کون سوچ سکتا تھا کہ پنجاب کالج جیسے پرائیویٹ ادارے کے سٹوڈنٹس، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لوگ انتہائی غیر سنجیدہ ہیں، ریپ جیسے سنگین مسئلے پر پورے ملک میں عظیم الشان احتجاج کریں گے۔ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر لائکس لینے کے لیے سارا سارا دن فالتو کانٹینٹ کے پیچھے بھاگنے والے سٹوڈنٹس کا کانٹینٹ ریپ اور ہراسمنٹ جیسا گمبھیر مسئلہ بن جائے گا۔ کالج کے قریب کسی دکان پر سگریٹ اور کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی گفتگو کرنے والے اچانک ایک دن یہ پلاننگ کر رہے ہوں گے کہ کیمپس کے باہر کتنے بجے ریپ اور ہراسمنٹ کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھا ہونا ہے۔ مگر یہ ’معجزہ‘ اکتوبر 2024ء کے مہینے میں سب لوگوں نے دیکھا۔
14اکتوبر کو لاہور میں پنجاب کالج کے تمام کیمپسز سمیت دیگر تعلیمی اداروں اور حتیٰ کہ دیگر کئی شہروں میں بھی سٹوڈنٹس نے پنجاب کالج لاہور کے کیمپس 10 میں ایک طالبہ کے ساتھ ریپ ہونے کے خلاف احتجاج شروع کیے۔ 13 اکتوبر کے دن سے جب سوشل میڈیا پر احتجاج کی تیاری کا آغاز ہوا تو صوبہ بھر میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص موجود پنجاب گروپ آف کالجز کے تمام کیمپسز کی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا گیا۔ طلبہ کو کہا گیا کہ اگر وہ احتجاج میں شریک ہوئے تو ان کا مستقبل ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن طلبہ نے ان دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر بھرپور احتجاج کیے۔
ان احتجاجوں کو روکنے کے لیے پہلے ہی پولیس کی بھاری نفری بلائی گئی تھی۔ پولیس کے اہلکاروں نے ڈنڈے اور حتیٰ کہ ہتھیار بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ ڈنڈے اور ہتھیار مجرموں کو پکڑنے کے لیے نہیں بلکہ ان پُر امن طلبہ پر تشدد کرنے کے لیے اٹھائے گئے تھے جو ایک فی میل سٹوڈنٹ کے ساتھ ہونے والے ریپ کے خلاف اور مجرموں کی گرفتاری کے لیے احتجاج کرنے آئے تھے۔ پولیس نے 16، 16 سال کے پُر امن طلبہ پر انتہائی بہیمانہ تشدد کیا۔
سوشل میڈیا پر اس کی کئی ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں۔ تشدد کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ڈرانے دھمکانے کی ہر حد پار کی گئی۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں ایک پولیس افسر فی میل سٹوڈنٹس کو یہ کہتے ہوئے واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ ”یہاں سے چلے جاؤ، کہیں یہاں نیا واقعہ نہ ہو جائے“۔ اسی طرح سینکڑوں سٹوڈنٹس کو گرفتار کیا گیا اور ٹارچر بھی کیا گیا۔
ریاستی کریک ڈاؤن کے بعد لاہور کے سٹوڈنٹس کے ساتھ یکجہتی کے لیے ملک کے کئی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں احتجاج ہوئے۔ حتیٰ ایک زبردست احتجاج ’آزاد‘ کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں بھی ہوا۔ یہ سب احتجاج سٹوڈنٹس نے خود منظم کیے، انہیں کسی طلبہ تنظیم یا پارٹی نے احتجاج کے لیے نہیں نکالا۔
یہ کالج ایک بڑے سرمایہ دار میاں عامر کی ملکیت ہے۔ وہی میاں عامر جو دنیا نیوز چینل اور اخبار سمیت کئی دیگر کاروبار بھی کرتا ہے۔ پنجاب گروپ آف کالجز بھی تعلیمی ادارے نہیں بلکہ اس کا دھندہ ہے جس سے یہ اربوں روپے کماتا ہے۔ اس سرمایہ دار کے پرائیویٹ کالج کی انتظامیہ، پولیس اور پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ کسی بھی فی میل سٹوڈنٹ کا ریپ نہیں ہوا اور افواہوں کی بنیاد پر طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔
اسی طرح میڈیا نے بھی کھل کر یہی پراپیگنڈہ کیا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور متاثرہ سٹوڈنٹ کا وجود ہی نہیں۔ جبکہ اسی حکومت کا اپنا وزیر تعلیم میڈیا پر کھلے عام یہ کہہ چکا تھا کہ ریپ ہوا ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا کہنا تھا کہ ”منسٹر فار ہائیر ایجوکیشن کے مطابق پنجاب کالج کی پرنسپل اور سٹاف نے سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کر دی ہیں“۔ دوسری طرف سٹوڈنٹس ایک ہی ڈیمانڈ کر رہے تھے کہ کالج میں نصب کیمروں کی فوٹیج سامنے لائی جائے، مگر وہ آج تک نہیں لائی گئی۔
احتجاج کیوں ہوئے؟
بظاہر تو یہ احتجاج ایک فی میل سٹوڈنٹ کے ریپ کے خلاف ہوئے، مگر حقیقت میں سٹوڈنٹس میں بہت سا غصہ اکٹھا تھا جو ان احتجاجوں میں پھٹ کر سامنے آیا۔ ان میں تعلیمی اداروں میں ایک لمبے عرصے سے جاری ریپ اور ہراسمنٹ کے واقعات، مہنگائی، تاریک مستقبل، بیروزگاری، بجلی کے مہنگے بل، آسمان کو چھوتی پٹرول کی قیمتیں، ہر روز امیر اور غریب میں بڑھتے فرق کے خلاف غصہ بھی شامل تھا۔ سب سے بڑھ کر پنجاب کالج جیسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کی ایک قیدی کی طرح کی زندگی، جس میں انہیں ہر دن ذلیل و رسوا کی جاتا ہے، کے خلاف غصہ شامل تھا۔
مگر صرف ہر دن کی ذلت نے ہی انہیں یہ جرات عطا نہیں کی کہ وہ اپنے زمینی خداؤں کو للکاریں بلکہ اس میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی میں پوری دنیا میں ہونے والے سٹوڈنٹس کے احتجاجوں سے حاصل ہونے والا جذبہ اور مثال بھی شامل تھی۔
احتجاج رُک کیوں گئے؟
کیا پولیس کی لاٹھیوں اور گرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے احتجاج رُک گئے؟ یا کالج انتظامیہ کے خوف کی وجہ سے؟ سطحی طور پر دیکھا جائے تو واقعی یہی وجوہات معلوم ہوتی ہیں مگر یہ بنیادی وجوہات نہیں ہیں، یہ محض ثانوی نوعیت رکھتی ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ سٹوڈنٹس کسی بھی ایک کیمپس میں آرگنائز نہیں تھے۔ ایک لمبی احتجاجی تحریک چلانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے سٹوڈنٹس کا ایک پلیٹ فارم پر آرگنائز ہونا ضروری تھا۔
بہر حال یہ اس نئی نسل کا سیاسی میدان میں پہلا اور جاندار قدم تھا۔ یہ فلم کا ٹیزر تھا، ایسا ٹیزر جس نے ایوان لرزا کر رکھ دیے اور پنجاب حکومت اور ایجنسیوں کو پوری طاقت کے ساتھ سامنے آنا پڑا۔ پہلا قدم ایسا ہی ہو سکتا تھا۔ یہاں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔۔۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں“۔
کیا مستقبل میں احتجاج جاری رہیں گے؟
وقتی طور پر تو سٹوڈنٹس کے یہ احتجاج رُک گئے ہیں اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اب یہ سٹوڈنٹس احتجاج نہیں کریں گے اور سب کچھ پہلے کی طرح ہی جاری رہے گا۔ مگر کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں ان سے بڑے احتجاج ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ احتجاج ایک ملک گیر انقلابی تحریک کی شکل بھی اختیار کریں گے جن میں مزدور اور کسان بھی شامل ہوں گے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ تعلیمی اداروں میں ریپ اور ہراسمنٹ سمیت دیگر تمام مسائل ختم نہیں ہو گئے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کے بحران کی وجہ سے مستقبل میں ان میں شدت آئے گی۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو سٹوڈنٹس اس احتجاجی تحریک میں شامل رہے ان کے شعور پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جنہوں نے سٹوڈنٹس کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
انہوں نے ریاست کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے کہ کیسے ایک امیر شخص کے کاروبار کو بچانے کے لیے ریپ جیسے سنگین جرم کے خلاف بھی احتجاج کرنے پر ریاست کی جانب سے اس قدر سخت کریک ڈاؤن کیا گیا اور قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں لیکن کسی عدالت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے نے چوں تک نہیں کی۔
طلبہ کا مطالبہ قانون اور آئین کے مطابق بالکل درست تھا لیکن اس کے باوجود ان پر بدترین جبر کیا گیا اور سرمایہ دار کے مفادات کو ترجیح دی گئی۔ اس وجہ سے طلبہ میں قانون اور آئین کی حیثیت بھی واضح ہو گئی اور پولیس سمیت تمام اداروں کا کردار بھی سامنے آ گیا جن کا اصل مقصد قانون پر عملدر آمد نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اگلی دفعہ سٹوڈنٹس اس تحریک سے اسباق لیتے ہوئے زیادہ لڑاکا شکل میں احتجاج کریں گے۔
احتجاج اور پی ٹی آئی
حکومت کی جانب سے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے احتجاج پی ٹی آئی کرا رہی ہے۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ ریپ جیسے خوفناک مسئلے سے توجہ ہٹا دی جائے۔ اس کو بنیاد بناتے ہوئے پھر یہ کہا گیا کہ جو سٹوڈنٹ بھی ان احتجاجوں میں شریک ہے وہ ملک میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ سٹوڈنٹس کو خوفزدہ کرنے کے لیے اس پراپیگنڈے کو بھرپور استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے تو پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیا کہ یہ دوسرا 9 مئی ہے، تاکہ سٹوڈنٹس میں خوف پھیلے اور وہ احتجاج نہ کریں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی بھی بھرپور کوشش تھی کہ کسی طرح سٹوڈنٹس کے احتجاجوں کو اپنے عوام دشمن سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے جو درحقیقت اس تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے برابر تھا۔ مگر اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس دن احتجاج ہوئے ہی نہیں۔ مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ احتجاج کروائے ہی پی ٹی آئی نے تھے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ ہاں البتہ پی ٹی آئی انہیں اپنے غلیظ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ضرور کر رہی تھی۔ اس طرح حکومت اور پی ٹی آئی، دونوں نے مل کر سٹوڈنٹس کی اس تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
پی ٹی آئی اور نوجوان
پی ٹی آئی کے بارے میں یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ یہ نئی نسل کی پارٹی ہے اور یہ نئے ٹرینڈز کو سمجھ کر سیاست کر رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ جھوٹ کہ نوجوانوں میں پی ٹی آئی کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ کمیونسٹ اس حوالے سے بار بار یہ کہتے آ رہے تھے کہ ایسا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی سطح پرنظر آنے والی سپورٹ اس کی قیادت یا سیاسی پروگرام کی حمایت نہیں بلکہ باقی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار ہے جو دیگر بہت سی تحریکوں کی طرح کچھ وقت کے لیے پی ٹی آئی میں بھی ہو رہا ہے۔
اس وقت جو بھی پلیٹ فارم اسٹیبلشمنٹ مخالف نظر آتا ہے وہی عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے خواہ وہ ”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی ہو یا قومی جبر کے خلاف بلوچستان اور پشتونخواہ میں موجود تحریکیں۔ اگرپی ٹی آئی کی قیادت اور سیاسی پروگرام کے لیے سماج میں حمایت ہوتی تو عمران خان کی رہائی کے لیے عوامی تحریک ابھرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ کسی ایک تعلیمی ادارے تک میں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ کالج سٹوڈنٹس کی تحریک میں بھی یہ ثابت ہوا۔
اسی لیے جب چند روز احتجاج جاری رہنے کے بعد جمعہ کے روز پی ٹی آئی نے ملک گیر احتجاج کی کال دی تو ایک سٹوڈنٹ بھی احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ آنے والے عرصے میں یہ صورتحال مزید شدت اختیار کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ کی گماشتہ پارٹیوں کی بچی کھچی سماجی حمایت بھی تیزی سے ختم ہو جائے گی۔ صرف عوام کے حقیقی ایشوز کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے والے اور اس کا حل دینے والے ہی عوامی حمایت حاصل کریں گے۔
سیاسی خلا
دراصل پاکستان میں اس وقت بہت بڑا سیاسی خلا موجود ہے۔ کوئی ایک بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جس کی محنت کش عوام اور نوجوانوں میں حمایت موجود ہو۔ یہی حکمرانوں کے لیے درد سر ہے، کیونکہ عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج اور پولیس کا استعمال کرنا حکمرانوں کے لیے آخری آپشن ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ جب ان کی لوٹ مار، مہنگائی وغیرہ کے خلاف عوام احتجاج کریں تو ایک ایسی اپوزیشن پارٹی موجود ہو جو ان سے یہ جھوٹ بولے کہ وہ ان کے لیے آواز اٹھائے گی اور مسائل حل کرے گی۔
اس طرح ریاست کا اصل چہرہ بھی سامنے نہیں آتا اور محنت کش عوام کو بھی کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ مگر آج سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے حکمرانوں کو مجبوراً پولیس اور حتیٰ کہ فوج تک استعمال کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ صورت حال حکمرانوں کے نقطہ نظر سے بہت خطرناک ہے۔ انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ زیادہ لمبا عرصہ وہ جبر کے ذریعے نظام نہیں چلا پائیں گے۔ مگر بہرحال یہ نظام تب تک چلتا رہے گا جب تک مزدور، کسان اور سٹوڈنٹس منظم ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم نہیں کر دیتے۔
اس کے لیے ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ضرورت ہے، یہ کام اس وقت موجود کوئی بھی پارٹی نہیں کرے گی۔ یہ پارٹیاں پیسے والوں کی پارٹیاں ہیں اور اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو محفوظ طریقے سے چلانے کا کام کر رہی ہیں۔ بھلا اپنے پاؤں پر کوئی کلہاڑی مارتا ہے؟
نیا دور، نئی نسل، نئی سیاست
سری لنکا، بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ممالک میں جب سٹوڈنٹس اور محنت کش عوام احتجاج کے لیے نکلے تو وہ رائج الوقت کسی بھی سیاسی پارٹی کے جھنڈے تلے یا اس کی سپورٹ لے کر نہیں نکلے۔ ایسا ہی ہمیں کالج سٹوڈنٹس کی تحریک میں نظر آیا۔ اس سے کیا واضح ہوتا ہے؟ یہی کہ نئی نسل تمام سیاسی پارٹیوں اور حتیٰ کہ پورے نظام سے ہی تنگ اور بیزار ہے۔ انہیں حکمرانوں کی کسی پارٹی، عدلیہ، میڈیا، پولیس، فوج وغیرہ پر اعتماد نہیں۔ اسی لیے ہر تحریک کسی پارٹی کے جھنڈے تلے نہیں بلکہ خود رو انداز میں بن رہی ہے۔
ہم آج عالمی سطح پر ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگوں، خانہ جنگیوں، انقلابات اور رد انقلابات کا دور ہے۔ آج حکمرانوں کے بنائے ہوئے تمام اخلاقی و سیاسی بت ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں۔ یہ نئی نسل قوم، مذہب، لسانیت، فرقہ واریت، حُب الوطنی وغیرہ کا چورن نہیں خریدتی۔ دوسری طرف انہیں روزگار سمیت کچھ بھی دینے کی صلاحیت حکمرانوں میں موجود نہیں۔ لہٰذا مستقبل میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان بڑی لڑائیاں ہوں گی۔ حکمرانوں کی کوشش ہو گی کہ وہ ٹیکس بڑھائیں، مہنگائی کریں جبکہ لوگ مفت تعلیم، سستی بجلی، سستے آٹے اور روزگار کے لیے لڑیں گے۔ اس جدوجہد کا سفر سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل کی جانب بڑھتا جائے گا۔ جس کی کامیابی کا دارومدار ایک مضبوط اور وسیع عوامی حمایت رکھنے والی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی موجودگی پر ہے۔
اس تحریک میں کمیونسٹوں کے لیے کیا اسباق ہیں؟
جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ہمیں روایتی سیاست کا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کل کا سچ آج کا جھوٹ بن چکا ہے۔ وہ روایتی پارٹیاں یا پلیٹ فارم جو پہلے بائیں جانب جھکاؤ رکھتے تھے یا کسی حد تک ترقی پسند کردار ادا کیا کرتے تھے، اب مکمل طور پر رجعتی کردار کے حامل ہو چکے ہیں۔ قوم پرست پارٹیاں اور لیڈر، طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونینز وغیرہ اس عمل کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح آئے روز سماج کی وہ پرتیں سیاسی میدان میں داخل ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے سیاست سے دور رہا کرتی تھیں۔ بیک وقت ہمیں یہ بھی دیکھنے میں مل رہا ہے کہ سماج کی وہ پرتیں جو پہلے سیاست میں زیادہ متحرک ہوا کرتی تھیں (دائیں یا بائیں جانب) اب وہ ہیجان کا شکار ہیں۔
یہی عمل اس وقت پاکستان میں طلبہ سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماضی میں یونیورسٹیاں طلبہ سیاست کا گڑھ رہی ہیں۔ لیکن یہاں کے طلبہ کی بڑی اکثریت اس وقت سیاسی میدان میں متحرک نہیں۔ اس کے علاوہ ان اداروں میں چند غنڈہ گرد عناصر کو انتظامیہ اور ریاستی پشت پناہی کے ذریعے بطور ”کیمپس پولیس“ مسلط کیا گیا ہے تاکہ طلبہ کو سیاست میں متحرک ہونے سے روکا جائے۔ یہ غنڈہ گرد عناصر جمعیت سمیت مختلف طلبہ تنظیموں اور کونسلوں کی صورت میں موجود ہیں اور تعلیمی اداروں کی فضا کو پراگندہ رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کے طلبہ معاشی اور سماجی بحران کے براہ راست دباؤ میں بھی ہیں اور بیروزگاری کا عفریت انہیں مسلسل ڈس رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں وقتی طور پر یونیورسٹیوں میں سطح پر خاموشی نظر آتی ہے۔ گاہے بگاہے کچھ احتجاج تو ہوتے ہیں مگر وہ بھی کونسلوں وغیرہ کی جانب سے ہی ہوتے ہیں جن میں سٹوڈنٹس کی اکثریت کی کوئی دلچسپی نہیں۔ بہرحال قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت اور چند دیگر یونیورسٹیوں میں طلبہ کی شاندار جدوجہد کی مثالیں موجود ہیں۔ لہٰذا آنے والے عرصے میں یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس بھی جدوجہد کا راستہ اپنائیں گے اور ایک ملک گیر انقلابی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
مگر کالج سٹوڈنٹس کی یہ تحریک ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اس تحریک سے یہ صورتحال سطح پر ابھر کر آئی ہے کہ کم عمر نوجوانوں میں بھی اس وقت شدید غم و غصہ موجود ہے اور وہ ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ ان میں یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس کی طرح بیروزگاری کے دباؤ کا فوری سامنا نہیں اور یہ سماج کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کے لیے پر عزم ہیں۔ سماج کے بدترین بحران کے اثرات یہ ابھی سے محسوس کر رہے ہیں اور حکمران طبقے کے جبر کے خلاف لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان میں فیسوں میں اضافے، معاشی بحران کے باعث خاندان میں موجود تناؤ، کالج انتظامیہ اور سیکیورٹی کی ہر روز کی تذلیل سمیت دیگر مسائل کے خلاف نفرت موجود ہے لیکن اس نفرت کے اظہار کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں، اسی لیے یہ خود رو انداز میں احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔
ان کے ذہنوں پر ماضی کی کسی شکست کا بوجھ نہیں اور پھر یہ انتہائی جرات سے لڑے۔ لیکن خود رو تحریک ہونے کے باعث اس کا کوئی ڈسپلن یا منظم انداز نہیں تھا اور یہی اس کی کمزوری تھی۔ مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ان کا پہلا قدم ہی تو تھا۔
لیکن اس قدم پر بھی سٹوڈنٹس کو آرگنائز کرنے کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ پارٹی نے سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے قیام کی جدوجہد کی اور لاہور میں ایک عبوری ایکشن کمیٹی قائم بھی کی جس نے چند دنوں میں ہی ہزاروں طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس طرح پارٹی تحریک کو منظم کرنے کا لائحہ عمل تحریک میں شامل طلبہ تک پہنچانے میں جزوی طور پر کامیاب رہی۔ ابھی بھی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی بحث سٹوڈنٹس کی اکثریت تک نہیں پہنچ پائی جس کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کاوش کے اثرات مستقبل کی تحریکوں میں نظر آئیں گے۔
کمیونسٹوں نے پچھلے لمبے عرصے بالخصوص پچھلی ایک دہائی میں یونیورسٹیوں میں کمیونزم کے انقلابی نظریات کا پرچار کامیابی سے کیا ہے، جسے آئندہ بھی جاری رکھنا چاہیے، البتہ ’حس تناسب‘ کو بھی ملحوظ خاطر لانا ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں ہمارے سامنے کالجوں اور سکولوں کے سٹوڈنٹس کی ایک فوج کھڑی ہے جو ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار ہے لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں کم عمر یا نا پختہ ذہن سمجھ کر نظر انداز کرنا ایک جرم ہو گا اور یہی اس تحریک کا سبق ہے اور سکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے اپنی سیاسی پختگی اور انقلابی عزم کا واشگاف اعلان کیا ہے۔ جب ایک بار لینن کی کتاب ’ریاست اور انقلاب‘ ان تک پہنچے گی تو فوراً پولیس کے ڈنڈے اور ایجنسیوں کی دھمکیوں کی یادداشت ان کے سامنے کمیونزم کے نظریات کی سچائی اور فوقیت واضح کر دے گی۔
اسی طرح تعلیم کے کاروبار سے لے کر مہنگائی کی معاشی وجوہات کا کمیونسٹ تجزیہ ان کے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا اور وہ ناسور بن چکے سرمایہ دارانہ نظام کو نیست و نابود کرنے کے لیے فوراً ہماری پارٹی کا حصہ بنیں گے۔ اب انہیں ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دینی ہو گی اور ہنگامی بنیادوں پر ان تک کمیونزم کے انقلابی نظریات لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ان نظریات کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے تیار ہیں، شرط یہ ہے کہ ان تک انقلاب کا پیغام لے کر پہنچا جائے۔
یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست اس وقت قوم پرستی کے فرسودہ نظریات یا کونسلوں کے ذریعے انتظامیہ کی دم چھلگی اور این جی اوز کے ذریعے کیریئر کی لالچ دے کر محض اپنے پروگرام کرنے تک ہی محدود ہو چکی ہے۔ اس کا مقصدمحض اپنے ذاتی مفادات کا حصول ہے جسے وہ پریکٹیکل سیاست کا نام دے کر طلبہ تحریک کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کالجوں کے سٹوڈنٹس کی تحریک میں بھی ان کا یہی گھناؤنا چہرہ سامنے آیا۔
مگر کمیونسٹوں کا کام طلبہ تحریک میں انقلاب کا پیغام پہنچانا ہے۔ طلبہ کو اس انسانیت سوز سماج کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی جدوجہد میں منظم کرنا جو آج کے عہد کا سب سے عظیم مقصد ہے اور اس کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی مفاد یا کیرئیر جیسی غلاظت چاٹنے والے کبھی طلبہ کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔
اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کمیونسٹوں کو کالج سٹوڈنٹس کے پاس پہنچنا ہو گا۔ لمبے عرصے تک یونیورسٹیوں میں کام کرنے کی وجہ سے یہ عین ممکن ہے کہ کمیونسٹوں میں بھی اس کام کی شناسائی کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے حوالے سے کمفرٹ زون موجود ہو، جسے ہنگامی بنیادوں پر توڑتے ہوئے کالجوں اور سکولوں کے تازہ دم نوجوانوں کے پاس انقلاب کا پیغام لے کر جانے کی ضرورت ہے۔