|تحریر: پارس جان|
سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ اور افغانستان کے محاذ پر امریکی سامراج کی آلہ کار بننے والی پاکستانی ریاست اب مکافات عمل سے دوچار ہے اور معیشت سمیت تمام شعبے ایک بند گلی میں محبوس ہیں۔ اس بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ اور کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔ لگ بھگ 25 سال قبل آئی آیس آئی کے سابقہ اور سب سے با اثر سربراہ حمید گل کی طرف سے شروع کیا گیا اہم پراجیکٹ جسے یار لوگ ’تحریک انصاف‘ کے نام سے جانتے ہیں، اپنی تمام تر بوسیدگی کے ساتھ سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ یہ پراجیکٹ ریاست کی مرغوب ’تزویزاتی گہرائی کی پالیسی‘ کا ہی سیاسی تسلسل تھا اور اسی کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عمران خان جو کہ پاکستان کے انتہائی پست سیاسی و ثقافتی معیارات سے بھی کہیں بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلہ ہے، اب اسٹیبلشمنٹ مخالف یا اس سے بھی بڑھ کر سامراج مخالف نعرے بازی کر کے اپنی رہی سہی ساکھ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان کے بچے کھچے دیوانوں کی سطحی سوچ کے برعکس عمران خان نے کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ وہ اس زوال آمادہ ریاستی مشینری کی کراس فائرنگ میں سیاسی شہید بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں جہاں اس کی سیاسی نا تجربہ کاری بھی عیاں ہوئی ہے وہیں اس کے ریاستی پروردگاروں کی سٹریٹجک حدود و قیود بھی واضح ہو گئی ہیں۔ ہاتھ میں کٹورا لے کر ’قومی غیرت‘ نامی افیون کا نشہ نہیں کیا جا سکتا اور مانگے تانگے کے ٹکڑوں سے شکست و ریخت کا شکار انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
’تبدیلی سرکار‘ کی روداد
موجودہ گہما گہمی اور پر انتشار کیفیت کا ذرا ساڑھے تین سال قبل کی سیاسی صورتحال سے موازنہ کیجیے۔ عمران خان کی حکومت کی تشکیل کے وقت کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ صرف تین سال کے قلیل عرصے میں معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ یہ مارکس وادی ہی تھے جنہوں نے ایک مدلل تناظر تخلیق کرتے ہوئے یہ پیش بندی کی تھی کہ جی ایچ کیو اور تحریک انصاف کا یہ معاشقہ بہت جلد اختتام پذیر ہو گا اور منکوحہ کو مطلقہ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ موجودہ سیاسی بحران کے محرکات کسی خارجی عنصر کے پیدا کردہ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی نیا اور سراسر بیرونی عامل اس سیاسی میزان کے ایک پلڑے میں آ گرا ہے بلکہ یہ ریاست کے انہی داخلی تضادات کا ناگزیر نتیجہ ہے جنہیں مسلسل بدلتی ہوئی عالمی سیاست اور خطے کی عمومی صورتحال نے اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔ جب نواز شریف کی سابقہ حکومت کا تختہ الٹا جا رہا تھا تو اس وقت بھی عسکری و خفیہ ادارے مکمل طور پر ایک پیج پر نہیں تھے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق چند ایک کور کمانڈرز نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف تھے مگر سی پیک سے وابستہ مبالغہ آمیز توقعات سے سرشار ریاستی دھڑے نے مہم جویانہ طریقے سے تحریک انصاف کی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں تو اس ملک میں آزاد انتخابات کا تصور ہی محال ہے مگر جس پیمانے پر گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی اس کی شاید ہی کہیں کوئی مثال ملتی ہو۔ ملک کے ہر طول و عرض میں موجود تمام رسہ گیروں (جنہیں صحافتی زبان میں الیکٹیبلز کہا جاتا ہے) کو فوجی افسران نے براہ راست فون کر کے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ آج کل بوکھلاہٹ کا شکار یوتھیے، اُس وقت جمہوری عمل میں اس کھلی عسکری مداخلت کو حب الوطنی اور پارٹی بدلنے کو ضمیر کی آواز قرار دے رہے تھے۔ اس پکڑ دھکڑ سے حکومت تو بن گئی مگر سارے چلے ہوئے کارتوس حکومتی کابینہ میں شامل کر دیئے گئے۔ درحقیقت عمران خان جیسے لا ابالے اور نا قابل اعتبار شخص کو وزیراعظم ہاؤس میں بطور کپتان بٹھانے پر وقتی اتفاق رائے ہوا ہی کابینہ میں شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور فواد چوہدری جیسے اپنے گھاگھ کھلاڑیوں کی موجودگی کی شرط پر تھا۔ فلاحی ریاست کی کھوکھلی نعرے بازی کے علاوہ عمران خان کے پاس کوئی معاشی و سیاسی پروگرام یا وژن تھا ہی نہیں اور اس نے کبھی ’مہاتیر ماڈل‘ کا ڈھنڈورا پیٹا، کبھی چینی ماڈل کی جگالی کی اور ساتھ ساتھ ’مدینے کی ریاست‘ کے نام پر مذہب کا چورن بیچنا جاری رکھا۔ اس بے راہروی کے نتیجے میں پہلے سے تباہ حال معیشت اور برباد ہوتی گئی اور یکے بعد دیگرے تمام ادارے غیر موثر ہوتے چلے گئے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں جیسے طفلانہ نعروں کا کھوکھلا پن پہلے ہی سال آشکار ہو گیا تھا۔ قرضے کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے رہے اور رہی سہی کسر کرونا کے دنوں میں پوری ہو گئی جب عمران خان کے دائیں بائیں موجود بڑے صنعت کاروں نے بیل آؤٹس کے نام پر قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب عمران خان اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر پا رہا تھا تو اس نے صرف اور صرف نام نہاد ’کرپشن کے خلاف جنگ‘ پر ہی اکتفا کر لیا اور علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ میں آلو، پیاز کے نرخ چیک کرنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا بلکہ چوروں اور لٹیروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہی میرا اصل ٹاسک ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے نیب کے ذریعے اپوزیشن پر پہلے سے بھی زیادہ مقدمات بنانے پڑے اور نواز شریف سمیت حزب مخالف کے بہت سے قائدین کو پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ اس نام نہاد کرپشن کے خلاف جنگ نے داخلی خانہ جنگی کو اور شدید کر دیا اور مخالفین نے عمران خان کے پشت پناہوں کی کرپشن کو بھی منظرعام پر لانا شروع کر دیا۔ امریکی آقاؤں نے انتہائی اہم موقع پر سی پیک اتھارٹی کے سربراہ اور اہم عسکری شخصیت کی امریکہ میں ’پاپا جونز‘ سمیت 99 کمپنیوں کی ملکیت کے چشم کشا حقائق کا راز افشا کر دیا۔ خفیہ اداروں کے دیگر اہم لوگ بھی اس کرپشن مخالف جنگ کی زد میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ نواز شریف، زرداری اور ان کے حواریوں نے جتنی بھی کرپشن ماضی میں کی، وہ عسکری آشیرباد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتی تھی، اسی لیے داخلی تضادات کے بے قابو ہو جانے کے ڈر سے عسکری ذمہ داران کی طرف سے عمران خان پر ’افہام و تفہیم‘ کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا گیا اور ساتھ ہی اپوزیشن کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کا آغاز کر دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں قومی حکومت کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی تھی۔ مگر عمران خان کو اس میں اپنی سیاسی خود کشی دکھائی دیتی تھی اس لیے اس نے کسی بھی قیمت پر ’این آر او‘ نہ دینے کی رَٹ لگائے رکھی۔ نام نہاد ’مقتدر حلقے‘ عمران خان کو ’مناسب‘ وقت تک برداشت کرنے کی پالیسی پر کارفرما تھے مگر اسی اثنا میں افغانستان میں تاریخ کی تیز ترین سیاسی اتھل پتھل نے پاکستان کی پہلے سے خلفشار زدہ ریاست کو وقتی طور پر گمراہ کن ’احساس برتری‘ میں مبتلا کر دیا۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کو اپنی فتح قرار دے کر گزشتہ دو دہائیوں کی خجالت کا داغ دھونے کی کوشش کی گئی مگر اس عمل میں ایک طرف داخلی رسہ کشی میں مزید شدت آ گئی اور دوسری طرف امریکی سامراج کے ساتھ دوریاں پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی چلی گئیں۔ نو منتخب امریکی صدر نے پاکستان کی طرف انتہائی حقارت آمیز رویہ اپنایا اور انہیں واضح پیغام دیا کہ اب اس خطے میں ہمارا فرنٹ لائن اتحادی بھارت ہے، لہٰذا بھارت کی اطاعت کی عادت ڈال لی جائے۔ چین مکمل طور پر اس دیوالیہ ہوتی ہوئی ریاست کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پاس امریکہ کی ’جی حضوری‘ کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ یوں امریکی سامراج کی خوشنودی کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر دی گئیں، جو ابھی تک جاری ہیں۔ مسلسل پیچیدہ ہوتی ہوئی صورتحال میں عمران خان کا نام نہاد کرپشن مخالف بیانیہ عمران خان کے لیے جہاں ایک طرف پہلے سے بھی زیادہ ضروری اور متعلقہ ہوتا چلا گیا، وہیں اس کے پشت پناہوں کے لیے غیر ضروری اور حتیٰ کہ تشویش کا باعث بنتا چلا گیا اور انہوں نے اپنی کٹھ پتلی اپوزیشن کو عین وقت میں ’سیاسی ڈھیل‘ دے کر تبدیلی سرکار کی رخصتی کی راہ ہموار کر دی۔
جمہوریت کی عسکریت کا منطقی انجام
موجودہ صورتحال میں بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بن جائے گا اور کچھ عرصے بعد نئے انتخابات کروائے جائیں گے لیکن موجودہ سیاسی بحران ایک دفعہ پھر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ سطح پر نمودار ہو گا۔ اس بحران نے ہماری لبرل اشرافیہ کے ’سول ملٹری تضاد‘ پر مبنی بیانیے کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ہر ذی شعور کو سمجھ آ رہی ہے کہ یہ سول ملٹری تضاد ہر گز نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی داخلی لڑائی ہے جس میں وقتاً فوقتاً سیاسی کٹھ پتلیوں کے کردار اور فرائض تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے واضح اظہار اس وقت ہوا تھا جب عسکری سربراہ کی ایکسٹینشن پر موجودہ اسمبلی نے اتفاق رائے سے بل منظور کر لیا تھا۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے تمام تنازعات پس پشت ڈال دیئے گئے تھے اور ساری سویلین قیادت خاکی وردی کے آگے سجدہ ریز ہو گئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے داخلی تضادات اس وقت بھی موجود تھے مگر حالات کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وقتی سمجھوتہ دیکھنے میں آیا تھا۔ عمران خان کی حمایت کرنے والے دھڑے نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی پس پردہ کوششیں جاری رکھی تھیں مگر انہیں فی الوقت پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ آئندہ بھی تحریکِ انصاف یا تحریکِ لبیک وغیرہ کے ذریعے اپنا سیاسی وزن بڑھانے کی ہر ممکن کاوشیں جاری رکھیں گے۔ ایکسٹینشن کا معاملہ رواں برس ایک دفعہ پھر سر اٹھائے گا۔ ریاست کے اہم ترین ادارے کے یہ تضادات اب اس جانب بڑھ رہے ہیں جہاں قیادت کا بحران شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ انگریز سامراج کے تشکیل کردہ پرانے ریاستی ڈھانچے ان تصادات کا بوجھ کب تک سہار سکیں گے۔ عمران خان نے اپنی حالیہ تقاریر میں فوج کے ڈسپلن پر کئی سوالات اٹھائے تھے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ ہر قیمت پر سینیئر جرنیل کی بطورسربراہ تعیناتی کا اصول مناسب نہیں ہے، میرٹ پر تعیناتی ہونی چاہیے مگر موصوف میرٹ کے ٹھوس معیار کا تعین نہیں کر سکے۔ ’میرٹ‘ کی یہ بحث عسکری ڈھانچے میں کسی سنجیدہ ریفارم کی سوچ کی عکاس نہیں ہے بلکہ ادارے میں موجود گروہی مفادات کا ہی شاخسانہ ہے۔ درحقیقت معیشت میں بے جا مداخلت نے ادارے کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے وہاں ایسی کسی بھی اصلاح کی کوشش تو درکنار محض بحث بھی بجائے درستگی لانے کے مزید دراڑیں ڈالنے کا باعث ہی بنے گی۔ ایسے میں ریاستی ’درستگی‘ کے لیے عدلیہ بھی کوئی موثر کردار اس لیے ادا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ بھی اندر سے اسی طرز پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عدلیہ کو جس طریقے سے ماضی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ابھی تک کیا جا رہا ہے، اس نے عدلیہ کی اپنی ساکھ اور ریاست کی مجموعی رٹ کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ مزید جوڈیشل ایکٹوازم کی گنجائش ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی ہر کوشش عدلیہ کو ایک ادارے کے طور پر اپاہج کرنے کا باعث بنے گی۔ براہ راست مارشل لاء کا آپشن بھی امریکی ناراضگی اور چین کی مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی و سٹریٹیجک مفادات کے باعث مشکل سے ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر کسی موقع پر اسے زیرغور لایا گیا تو یہ ریاست کی داخلی خانہ جنگی کو سماج کے رگ و ریشے میں منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یوں ’تزویزاتی گہرائی‘ سے شروع ہونے والا یہ کھلواڑ اب ریاست کو ایک ایسی بند گلی میں لے آیا ہے جہاں دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر ہلکان ہونے کے علاوہ اور کچھ ممکن نہیں رہا۔
اپوزیشن کی ’فتح‘
اپوزیشن کے لیے اس وقت اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہو گی۔ نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، ان کے پاس بھی کوئی متبادل معاشی و سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، بلکہ موجودہ حالات میں انہیں سامراج اور مقامی آقاؤں کی پہلے سے کہیں زیادہ گماشتگی کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تجربہ کار اپوزیشن لیڈر جانتے ہیں کہ اس حکومت کا اپنا دورانیہ پورا کرنا ہی ان کے مفاد میں تھا مگر انہیں سامراجی و مقامی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے قبل از وقت سیاسی اکھاڑے میں اترنا پڑا ہے۔ وقتی طور پر شاید انہیں آئی ایم ایف کی تعطل کا شکار ڈیڑھ ارب ڈالر کی قسط جاری کر بھی دی جائے مگر انہیں آئی ایم ایف کا عوام دشمن پروگرام ہر صورت میں جاری رکھنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کی قسط کے اجراء سے روپے کے زوال کی رفتار نسبتاً سست تو ہو سکتی ہے مگر تھم نہیں سکے گی۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے ان کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ جوں جوں وہ سامراجی ایما پر علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی کوشش کریں گے، پھر انہیں نام نہاد عسکری مداخلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ ان کے خلاف بھی ماضی کی طرز پر ایسے ہی ’لانگ مارچ‘ دیکھنے میں آئیں۔ یاد رہے کہ آئندہ حکومت کے پاس عمران خان کی موجودہ حکومت کی طرز پر نوجوانوں کی بڑی تعداد کی کوئی پاپولر حمایت بھی نہیں ہو گی۔ اور آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کے باعث ان کو مزید غیر مقبول ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
یہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ یہ پارٹیاں جو اپوزیشن میں بھی تاریخ کی بدترین مہنگائی اور بیروزگاری کے باوجود اپنی حمایت میں قابلِ ذکر اضافہ نہیں کر سکیں، حکومت میں ان کا شیرازہ بکھرنا ناگزیر ہو گا۔ درمیانے طبقے کے چند مفاد پرست عناصر کو ٹھیکوں اور نوکریوں وغیرہ کی خرید وفروخت کے ذریعے نواز کر اب اقتدار کو دوام بخشنا ممکن نہیں رہا۔ نواز شریف کی پڑھے لکھے نوجوانوں میں مقبولیت میں جو گزشتہ عرصے میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا تھا، وہ اس کے مبینہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی وجہ سے تھا، مگر اب اس بیانیے کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ یہ بیانیہ بھی اب تحریک انصاف نے مستعار لے لیا ہے اور اس بیانیے کے گرد حمایت کسی بھی پارٹی کے لیے دیر تک برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حالیہ لانگ مارچ کے بعد نہ صرف جیالوں بلکہ لبرل لیفٹ نے بھی بلاول کو ایک دفعہ پھر اپنا مسیحا قرار دے دیا تھا۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ بھٹو کے دور کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر اس لانگ مارچ کا سنجیدہ معروضی تجزیہ کیا جائے تو یہ کامیابی نہیں بلکہ ناکامی نظر آتی ہے۔ بے پناہ وسائل کے بے دریغ استعمال اور نسبتاً بائیں بازو کی نعرہ بازی کے باوجود بلاول محنت کشوں کی توجہ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ درمیانے طبقے کی بھی بہت بڑی تعداد ان جلسوں میں دکھائی نہیں دی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت اور تحریک انصاف وغیرہ کے جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں میں کل ملا کر جتنی تعداد میں لوگ شامل ہوئے، وہ پاکستان کے درمیانے طبقے کے شاید دس یا پندرہ فیصد کے بھی برابر نہ ہوں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ کا درمیانہ طبقہ موجود ہے۔ اگر دائیں بازو کی تمام پارٹیوں کے سیاسی پاور شو میں متحرک ہونے والے کارکنوں یا ہمدردوں کی تعداد بیس لاکھ (جو کہ ایک انتہائی مبالغہ ہو گا) بھی تسلیم کر لی جائے تب بھی اسے سیاسی نا اہلی اور عوامی بیگانگی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اہم اسباق
سیاسی رنگبازوں سے ہٹ کر درمیانے طبقے کے وہ سنجیدہ نوجوان جو واقعی کسی تبدیلی کی آس لگائے تحریک انصاف میں متحرک ہوئے تھے، وہ اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہیں۔ ہم لبرل اشرافیہ کی طرح ان کا تمسخر اڑانے کی بجائے ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ رونے یا ماتم کرنے کا نہیں بلکہ غور و فکر کرنے اور درست نتائج اخذ کرنے کا وقت ہے۔ عمران خان کی حالیہ ناکامی کا سب سے بڑا سبق تو یہ ہے کہ سماج کی انقلابی کایا پلٹ انفرادی خوبیوں اور جوشیلی تقریریں کرنے والے کسی لیڈر یا شخصیت کے مرہونِ منت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایک واضح، ٹھوس نظریئے، پروگرام اور اجتماعی نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی تمام تر مضحکہ خیز تقاریر کے باوجود اپوزیشن کے خلاف عمران خان کی زیادہ تر تنقید مبنی بر حقائق ہے۔ اسی طرح آج کل اس کی سامراج مخالف تنقید اور عسکری قیادت پر اٹھائے گئے سوالات بھی بجا اور توجہ کے مستحق ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کے پاس ان تمام معاشی و سیاسی ناسوروں کے خاتمے کا کوئی پروگرام تھا یا آج بھی موجود ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ قوم سے اپنے آخری خطاب میں بھی وہ محض ان مسائل کی نشاندہی کرنے کے علاوہ کوئی سیاسی متبادل پیش نہیں کر سکا۔ یہ درست ہے کہ اس سامراجی شکنجے سے نکلے بغیر کوئی بھی پسماندہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ مگر کیا اس سامراجی نظام کے رہتے اس سامراجی شکنجے سے نکلا جا سکتا ہے؟ عمران خان کے سنجیدہ حمایتیوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سمندر میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی اصلی طاقت اس کی فوجی مشینری نہیں بلکہ عالمی مالیاتی و صنعتی ڈھانچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نواز حکومت کی پسپائی کے بعد افغانستان میں طالبان کی نو آموز حکومت اسی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ عمران خان اسی عالمی مالیاتی ڈھانچے کے مطیع رہتے ہوئے قومی خودمختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی کا نعرہ دے رہا ہے، جو کہ سراسر یوٹوپیا ہے۔ اس حکومت کی ناکامی کا ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے اس برباد حال معیشت میں کسی صورت واپس نہیں کیے جا سکتے، اس کا واحد حل یہ ہے کہ ان قرضوں کی واپسی سے انکار کر دیا جائے۔ اگلا سوال یہ ہوگا کہ معاشی متبادل کیا ہے؟ اس تمام سامراجی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ اگر ملکی بینکوں میں پڑی تمام تر دولت اور تمام معدنی، زرعی و صنعتی وسائل ریاست اپنی تحویل میں لے لے تو ان سے اس ملک کی غربت، بیماری اور جہالت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے حمایتیوں میں سے کوئی چیخ پڑے گا۔ ارے ارے یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تو انقلاب ہو گا۔ جی بالکل، یہ واقعی ایک انقلاب ہو گا۔ آپ یاد کیجیے، جب شروع شروع میں تحریکِ انصاف کے گرد نوجوان متحرک ہو رہے تھے تو وہ انقلاب ہی کی باتیں کیا کرتے تھے مگر ان کے نزدیک تحریک انصاف کا حکومت میں آ جانا ہی انقلاب تھا۔ عزیزانِ من بغیر انقلاب کے تبدیلی کا یہی حال ہوتا ہے، جو اس اپنے وقت کی مقبول ترین حکومت کا ہو رہا ہے۔ اور انقلاب محنت کش عوام کی شعوری مداخلت کے بغیر ناممکن ہے۔
مزدور تحریک کی ناگزیریت
درمیانے طبقے کے سنجیدہ سیاسی کارکنوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ تبدیلی کی اصل کنجی محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے آئندہ حکمران طبقے کی پارٹیوں یا اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے چلنے والی کسی بھی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے سے بہتر ہے کہ ان محنت کشوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ تاریخ کے عظیم ترین انقلابی رہنماؤں کے سرخیل لینن نے وضاحت کی تھی کہ عام لوگ اس وقت تک دھوکہ دہی کا شکار ہوتے رہیں گے جب تک وہ یہ نہ جان لیں کہ کسی بھی سیاسی، قومی و مذہبی تحریک کے پیچھے کس طبقے کے مفادات کارفرما ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام پارٹیاں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبان ہیں اور اسی لیے انہیں سامراجی غلامی کا طوق ہر صورت اپنے گلے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ عین ممکن ہے اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان دوبارہ دائیں بازو کی پاپولسٹ نعرے بازی کے ذریعے سیاسی ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اب کی بار سنجیدہ نوجوانوں کے بغیر نظریے اور عملی پروگرام کے ہر قسم کی ایجی ٹیشن کو مسترد کرنا ہو گا اور انقلابی طبقے یعنی محنت کشوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنی ہو گی۔ اگلا ممکنہ سوال یہ ہو گا کہ کہاں ہیں محنت کش؟ وہ تو غیر سیاسی ہیں؟ انہیں ملک و قوم کی بھلا کیا فکر؟ وہ تو اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں۔ جاہل کہیں کے۔ مگر ذرائع ابلاغ کی مصنوعی سیاسی دنیا سے نکل کر حقیقی اور زمینی دنیا پر نظر دوڑائیں۔ یہ محنت کش ہی ہیں جو اس سماج کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں اور وہ غیر سیاسی ہرگز نہیں رہے۔ گزشتہ برسوں میں انہوں نے اپنی بقا اور معاشی حقوق کے لیے اہم لڑائیاں لڑی ہیں۔ اسی مہینے اگیگا، بیوگا وغیرہ کی شاندار تحریکیں دیکھنے میں آئیں۔ بہت ساری جگہوں پر ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے محنت کشوں کی تعداد اپوزیشن کے بہت سے اجتماعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی، مگر چونکہ سرمایہ دارانہ میڈیا میں ان احتجاجوں کو دکھانے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے درمیانے طبقے کے لیے محنت کش غیر سیاسی ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کش پہلے سے کہیں زیادہ باشعور اور متحرک ہو چکے ہیں مگر طلبہ اور نوجوانوں کی دیگر سیاسی تحریکوں سے لاتعلق اپنی بقا کی جداگانہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ نوجوانوں کی تبدیلی کی سنجیدہ اور مخلصانہ آرزوؤں کو محنت کش طبقے کی ان ابھرتی ہوئی جدوجہدوں سے عملی رابطے استوار کرنے پڑیں گے۔ اس کے لیے ایک سائنسی نظریہ اور ٹھوس عملی پروگرام اور منظم ڈھانچے درکار ہوں گے۔ آگے بڑھنے، حقیقی تبدیلی لانے اور واقعی انقلاب برپا کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔