|رپورٹ: ورکرنامہ|
جس دن نام نہاد انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے ’’معزز‘‘ ارکان حلف اٹھا رہے تھے اسی دن کوئٹہ کے قریب سنجدی میں کوئلے کی کان کے15 محنت کشوں کی لاشیں نکالی جا رہی تھیں۔پاکستان کے محنت کش طبقے کے لیے یہ کوئی نیا ظلم نہیں اور نہ ہی انہیں اس امر پر حیرانگی ہوئی کہ نام نہاد بائیں بازوسے لے کر دائیں بازو تک کسی بھی رکن اسمبلی نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کا پروگرام نہیں دیا۔ اس پارلیمنٹ سمیت پورے ریاستی ڈھانچے کو جاری رکھنے کے لیے یہاں ہر روز بہت سے محنت کشوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے تاکہ حکمرانوں کی پرتعیش زندگیاں جاری رہ سکیں۔
تبدیلی کے منافقانہ نعرے سے برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے بھی اس پر کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا اور نئے پاکستان میں محنت کشوں پر جاری مظالم اور ان کی ہلاکتوں پر کسی عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کشوں کے لیے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا اور ان پر جاری ظلم اور استحصال موجودہ حکومت میں بھی ایسے ہی جاری رہے گا۔ ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمرپہلے ہی دو سو اداروں کی نجکاری کے پروگرام کا اعلان کر کے اپنے مزدور دشمن چہرے سے نقاب اتار چکاہے ۔ آنے والے دنوں میں محنت کشوں میں زیادہ بڑے حملے کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔
اطلاعات کے مطابق کوئٹہ کے علاقے سنجدی میں گیس بھرنے سے دھماکے کے باعث کوئلے کی کان میں 14 کان کن پھنس گئے تھے، جن میں اب تک 8 کان کنوں کی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق سول ہسپتال کوئٹہ سے ہوئی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے پھنسنے والے کان کنوں کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے تاہم اب تک باقی کان کنوں کے زندہ بچ جانے کے حوالے سے کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔
بلوچستان کے چیف انسپکٹر برائے مائنز افتخار احمد نے واقعے کی تصدیق کی۔ بلوچستان میں کول مائنرز ایسوسی ایشن کے اہلکار بخت نواب نے صحافیوں کوبتایا کہ ’’کوئلے کی کان میں پھنس جانے والے کان کنوں کے بچنے کے امکانات کم ہیں‘‘۔ پھنسنے والے کان کنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے شانگلہ، سوات اور دیر کے علاقوں سے تھا۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے کی تقریباً روزانہ کی بنیاد ہر، ہرنائی، سورانج، دکی، مچ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں جانیں ضائع ہوتی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر رپورٹ نہیں ہو پاتیں۔ کوئلے کی کان میں کام کرنا پتھر کی کانوں میں کام کرنے سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ہر سال تقریباً 100 سے 200 افراد کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال 5 مئی کو کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان مینرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی ملکیت سر رینج کوئلے کی کان مٹی کے تودے کی زد میں آگئی تھی۔ کا ن میں حادثے کے نتیجے میں 16 افراد جاں بحق ہوئے، تاہم ریسکیو کا عمل مکمل ہونے کے بعد جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 23 تک پہنچ گئی تھی۔ جاں بحق 23 کان کنوں میں سے دو بلوچستان کے مقامی تھے جبکہ دیگر 21 کان کنوں کا تعلق شانگلہ سے تھا۔
بلوچستان کے اندر مائنز میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے کسی قسم کا کوئی قانون عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ یہ سارے قوانین صرف کاغذی شکل تک محدود ہیں۔ کوئلے کے کان ہویا کرومائیٹ کے کان ہوں، کسی میں بھی جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی اور محنت کشوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلے عام کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان تمام سانحات کو جدید ٹیکنالوجی اور دیگر حفاظتی تدابیر کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف اگر مائنز کے اندر کوئی محنت کش کسی واقعے کی نتیجے میں ہلاک ہو جاتا ہے توکان کے مالک کی طرف سے ان کوکچھ پیسے دے دئیے جاتے ہیں جو کہ اس پوریگھناؤنے عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ان سب نکتوں میں سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ان مائینز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کی کوئی یونین نہیں ہے، جو محنت کشوں کے اوقات کار اور طریقہ کار پر قانون کو لاگو کر سکے۔ جبکہ یونین سازی پر خفیہ طور پر پابندی ہے، اور نہ ہی محنت کشوں کو اپنے حقوق کے حوالے سے پتہ ہے۔
کوئٹہ میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور اس ملک کے تمام حکمران طبقات کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کے ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ نے اپنے اعلان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ مائینز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ انکے حقوق کے لیے انکے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ہلاک ہونے والے محنت کشوں کے خاندانوں کیساتھ دکھ کی گھڑی میں انکے ساتھ ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم نااہل حکمرانوں کے محنت کشوں کی طرف اس ظالمانہ رویہ کی شدید مذمت کرتے ہیں،جہاں پر محنت کشوں کو نام نہاد ٹھیکہ سسٹم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کوئلے کی کان کے مالکان اپنا منافع بٹورنے کے لیے مسلسل محنت کشوں کو آگ میں جھونک رہے ہیں اور جہاں محنت کش اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم پورے پاکستان بالخصوص بلوچستان کے تمام محنت کشوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ اس ناروا سلوک کا فی الفور نوٹس لیں اور ان واقعات کے روک تھام کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیارکرتے ہوئے احتجاج کے سلسلے کا آغاز کریں۔ کیونکہ ایک محنت کش کا دکھ اور درد صرف اور صرف ایک محنت کش ہی سمجھ سکتا ہے۔
ایک کا دکھ سب کا دکھ۔۔۔!