مارکسزم اور امریکہ کے پہلے اردو ایڈیشن کا تعارف
[تحریر: جان پیٹرسن، جنوری 2014ء]
دنیا بھر میں کروڑوں لوگ امریکہ کو رجعت کا سب سے بڑا قلعہ سمجھتے ہیں۔ رونلڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش، ہیلری کلنٹن، سی آئی اے، سامراج، پابندیاں، جنگ، ڈرون، کمیونسٹ مخالفت، امتیازی سلوک اور استحصال کو اس کی پہچان مانا جاتا ہے۔ امریکی عوام کو جاہل، لا تعلق اور نسل پرست لوگوں کی ایک ہم آہنگ اکائی سمجھا جاتا ہے جو آنکھیں بند کیے پر جوش انداز میں اپنی حکومت کی رجعتی معاشی اور عسکری پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بائیں بازو کے کئی افراد بھی امریکہ کو طبقاتی جدوجہد سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں ’’درندے کے پیٹ‘‘ میں اکثریت کی زندگی خوشحال اور پر امن ہے۔ تاہم، جہاںیہ سب کسی حد تک درست ہے، وہیں حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ در حقیقت امریکی سماج گہرے طبقاتی تضادات میں منقسم ہے۔ یہاں بہت بڑا اور طاقتور محنت کش طبقہ ہے، اس کا انقلابی ماضی بہت متاثر کن ہے اور اس کا مستقبل بھی ایسا ہوہی گا۔
اس تناظر میں ایلن وڈز کی کتاب مارکسزم اور امریکہ کے پہلے اردو ایڈیشن کی اشاعت پاکستان اور امریکہ میں انقلابی مارکسسٹوں کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے۔ ایلن وڈز کی جانب سے امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کا تیز رفتار جائزہ، 2005ء میں پہلی اشاعت کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی قارئین کے لیے دستیاب ہو گا۔ اس مختصر کتاب میں، ایلن وڈز امریکہ کے متعلق پائی جانے والی بہت سی عام غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اورامریکی تاریخ میں جدوجہد کی شاندار روایات پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے کئی مثالیں پیش کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات امریکہ میں باہر سے درآمدنہیں کیے گئے، بلکہ امریکی روایات میں ان کی گہری جڑیں موجود ہیں۔ مختصر اور دلکش مضامین کے اس سلسلے میں مصنف نے اکثر تنقید کا نشانہ بنائے جانے والے اس ملک کی شاندار انقلابی اور مزدور روایات کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
تاریخی مادیت
بد قسمتی سے، بہت سے لوگ تاریخ کو خشک اور غبار آلود مضمون اور تاریخوں اور افراد کی لا متناہی اور بے ربط تکرار سمجھتے ہیں۔ لیکن تاریخ بیزار کن اوربے ربط نہیں ہے۔ در حقیقت، مارکسی طریقہ کار استعمال کرنے سے تاریخ کا مطالعہ ہمارے حال کی وضاحت کرتا ہے اور مستقبل کے تناظروں کی سمت طے کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یکسانیت سے بھرپور اور سیدھی لکیر کی بجائے، تاریخ ایک بھرپور اور متضاد عمل ہے، جس کی قوتِ محرکہ محنت کش عوام کے ہاتھوں پیدا ہونے والی قدرِ زائد پر کنٹرول کی جدوجہد ہے۔ جیسا کہ کارل مارکس نے ’’سیاسی معاشیات پر تنقید‘‘ کے تعارف میں وضاحت کی تھی کہ:
’’اپنی پیدا کروہ سماجی پیداوار کے بعد انسان ایسے بندھن میں بندھ جاتے ہیں جو ان کی خواہشات سے آزاد اور راسخ ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے، ماد ی پیداواری قوتوں کی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری رشتے مل کر سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ تعمیر ہوتا ہے اور سماجی شعور کی مخصوص کیفیات بھی اس کے مطابق ہوتی ہیں۔ مادی زندگی میں طرزِ پیداوار ہی زندگی کے سماجی، سیاسی اور روحانی پہلوؤں کا تعین کرتی ہے۔ یہ انسانوں کا شعور نہیں ہوتا جو ان کے وجود کا تعین کرتا ہے، بلکہ اس کے بر عکس ان کا سماجی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ترقی کے ایک مخصوص مرحلے پر پہنچ کر، سماج کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں سے متصادم ہو جاتی ہیں ، یعنی قانونی زبان میں، ان ملکیتی رشتوں سے جن کے اندر رہ کر وہ ابھی تک کام کر رہی تھیں۔پیداوار کی ترقی کی شکلوں کی بجائے یہ رشتے اب ان کے پیروں کی بیڑی بن جاتے ہیں۔پھر سماجی انقلاب کے عہد کا آغاز ہوتا ہے ۔ معاشی بنیادوں میں تبدیلیاں، جلد یا بدیر سارے بالائی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیتی ہیں۔‘‘
یہ تاریخ کی جانب مارکسی نقطہ نظر کا خلاصہ ہے جسے ’’تاریخی مادیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب ہم تاریخ کوبے معنی اور بے ربط واقعات کے سلسلے کی بجائے لا محدود حد تک پیچیدہ مگر آپس میں جڑے واقعات کی کڑی کے طور پر سمجھنا شروع کرتے ہیں جس میں بڑے پیمانے کی سماجی قوتیں شامل ہوتی ہیں اور جس میں علت معلول اور معلول علت بن جاتا ہے،تو ایک نئی دنیا آشکار ہوتی ہے۔ پھر یہ بے کار معمولات کا بے محل مجموعہ نہیں دکھائی دیتی بلکہ محنت کش طبقے کی ماضی کی جدوجہدوں کے تجربات زندہ ہو جاتے ہیں، جن میں ہماری آج اس دنیا کو بدلنے کی جدوجہد کے لیے بہت سے اسباق موجود ہوتے ہیں۔
امریکی تاریخ
ایک کم عمر ملک کی حیثیت سے، امریکہ کی تاریخ اور عالمی اہمیت حاصل کرنے کا برق رفتار سفر چند تند و تیز صدیوں میں سمٹ گیا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملک کی اس حیثیت کے پیچھے بلا شبہ ایک حد تک اسکے وسیع قدرتی وسائل کا ہاتھ ہے۔لیکن سب سے بڑھ کر، اس ملک کی بنیاد لاکھوں مقامی امریکیوں، افریقی غلاموں، یورپی جبری ملازمین اور ’’امریکی سپنے‘‘ کی تلاش میں اس کے ساحلوں پر اترنے والے لاتعداد سیاسی اور معاشی مہاجرین پر قائم ہوئی۔
اس غیر معمولی کتاب میں ایلن وڈز قارئین کو مقامی امریکیوں کی کمیونسٹ روایات، ابتدائی آبادکاروں کے انقلابی جمہوری اعتقاد، اعلانِ آزادی، برطانیہ کی مضبوط سلطنت کی دیہی کسانوں اور شہری ہنر مندوں کی فوج کے ہاتھوں انقلابی شکست ، ابراہم لنکن کی غلامی کے خلاف انقلابی جنگ ، اس کے ہاتھوں اربوں ڈالر کی انسانی املاک کی ضبطگی، امریکہ میں ابتدائی مزدور تحریک کی شدید جدوجہد اور 1930ء کی دہائی اور اس کے بعد کے طبقاتی معرکوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ان صفحات میں امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کی تاریخ واقعی زندہ ہو جاتی ہے۔
طبقاتی جدوجہد
طبقاتی جدوجہد کیا ہے؟سادہ الفاظ میں، طبقاتی جدوجہد پیداواری طبقات کے ہاتھوں تخلیق شدہ زائد دولت کی خاطر جدوجہد ہے۔کیا یہ زائد پیداوار سماج کو کنٹرول کرنے والی اقلیت کی دولت میں مزید اضافے کے لیے استعمال ہو گی؟یا پھر اسے اس محنت کش اکثریت کے معیارِ زندگی میں بہتری کے لیے بروئے کار لایا جائے گا جو در حقیقت اس دولت کو پیدا کر تے ہیں؟یا شائد ہم ایک ایسی دنیا میں رہ سکتے ہیں جو استحصال کرنے والوں سے پاک ہو، جہاں مشترکہ طور پر پیدا کی جانے والی دولت کے استعمال کا تعین سماج جمہوری طور پر کرے؟
حکمران طبقہ وہ طبقہ ہے جو ریاست کو کنٹرول کرتا ہے اور ذرائع پیداوار کا مالک ہے جن میں زمین اور قدرتی وسائل، ورکشاپس ، کارخانے اور بینک شامل ہیں۔دولت کو پیدا کرنے والوں کے پاس کام کرنے کی صلاحیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، چناچہ وہ غلاموں کی شکل میں املاک بنا دیے گئے یا جاگیر دارانہ مزارعین کی طرح زمین سے باندھ دیے گئے جس کے پاس شائد زمین کا چھوٹا سے ٹکڑا بھی ہو جس سے وہ اپنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھتے لیکن اس کے باوجود انہیں دوسروں کے لیے کام اور قرضے اتارنے ہوتے تھے۔یا پھر انہیں اجرت کے عوض سرمایہ دار کے آگے اپنی قوتِ محنت فروخت کرنا پڑتی ہے۔یہ طبقاتی جدوجہد کا آسان الفاظ میں خلاصہ ہے۔جدید دور میں یہ جدوجہد، بنیادی طور پر محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان ہے۔
طبقاتی سماج
نوعِ انسان کی جانوروں سے علیحدگی کے بعد سے ، ضروریاتِ زندگی کے حصول کی خاطر ہم نے کئی طریقوں سے خود کو منظم کیا ہے۔ہم کئی طرح کے سماجی و معاشی نظاموں میں رہے ہیں جن میں قدیم کمیونزم، غلام داری، جاگیر داری، سرمایہ داری اورمختلف عبوری اور ایک سے زیادہ نظاموں کے امتزاج پر مبنی شکلیں بھی رہی ہیں۔زیادہ تر وقت ہم ایک غیر طبقاتی سماج میں کمیونسٹ بن کر رہے ہیں، اگرچہ ایسا تکنیک کے پست معیار پر تھا۔
لیکن طبقات کے ظہور کے بعد سے، جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ میں وضاحت کی تھی کہ ’’انسانی سماج کی اب تک کی تمام تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔‘‘طبقاتی سماج کی آمد سے لوگ مختلف پرتوں، ذاتوں اور طبقات میں بٹ گئے جن میں سے ہر کسی کا ایک دوسرے اور ذرائع پیداوار سے مخصوص رشتہ تھا، یعنی ان ذرائع کے ساتھ جن سے ہم روٹی، کپڑا، مکان اور ہر وہ چیز حاصل کرتے ہیں جو ہم انسانوں نے اپنی محنت اور تخلیق کے ذریعے فطرت سے حاصل کی ہے۔
عمومی طور پر بات کی جائے تو ایک طرف محنت کش طبقات ہیں اور دوسری جانب وہ جو دوسروں کی محنت پر پلتے ہیں۔یعنی استحصال کا شکار اور استحصال کرنے والے طبقات۔طبقاتی جدوجہد میں بنیادی طور پر دو بڑے طبقات بر سرِ پیکار ہیں، ایک طبقہ سماج کے کلیدی معاشی عناصر یعنی ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور دوسرا طبقہ زندہ رہنے کے لیے ان ذرائع پیداوار پر کام کرنے پر مجبور ہے۔
بعض اوقات ایک ہی طبقے کی مختلف پرتوں کے درمیان جدوجہد ہوتی ہے اور کئی مرتبہ طبقات کے درمیان تفریق غیر واضح ہو تی ہے۔ مثلاً1930ء کی دہائی کا سپین، جہاں زمیندار سرمایہ دار بھی تھے، سرمایہ دار زمیندار بھی اور کیتھولک چرچ ان سب سے بڑا زمین دار اور سرمایہ تھا۔یہاں تک کہ آج نیو یارک شہر میں ٹرنیٹی چرچ جائیداد کے سب سے بڑے مالکان میں سے ایک ہے اور اس بنا پر مالیاتی سرمائے کے مرکزی شہر میں طاقتور کھلاڑی ہے۔جہاں تک نا ہموار اور مشترکہ ترقی کی بات ہے، تو بر صغیر ہند کے محنت کش اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔
سرمایہ داری کے زیر اثر کسی اور دوسرے ملک کی طرح امریکہ کے لیے بھی یہ سب درست ہے۔استحصال کرنے والے سرمایہ دار طبقہ کی موجودگی کے لیے استحصال کا شکار محنت کش طبقہ ضروری ہے۔ امریکی سرمایہ داری کے درندہ صفت سامراجی مرحلے میں داخل ہونے سے بہت پہلے، حکمران طبقے نے یہاں براعظم امریکہ میں بے پناہ قدرتی وسائل اور کروڑوں لوگوں کی محنت کے بل بوتے پر اپنی دولت میں اضافہ کیا۔
در حقیقت، امریکہ کے 15کروڑ50لاکھ سے زیادہ محنت کش دنیا میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار مزدوروں میں ہیں۔انتہائی بلندپیداواری کارکردگی کی بنیاد پر، امریکی محنت کش سرمایہ داروں کے لیے بہت زیادہ دولت پیدا کرتے ہیں، لیکن اس کا بہت معمولی حصہ انہیں اجرتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے۔امریکی محنت کشوں کی چھوٹی سی تعداد کی ہڑتال بھی سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے تباہ کن ہو گی۔مثلاً ، امریکہ کے مغربی ساحل پر آنے والے ہر بحری جہاز سے مال اتارنے اور لادنے کا کام یونین میں شامل صرف36,000 گودی کے محنت کش کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ایشیا اور دوسرے خطوں سے امریکہ کے بحرالکاہل کے ساحل کے راستے درآمد ہونے والے ہر کنٹینر کو یونین میں شامل محنت کشوں کی نسبتاً کم تعداد کے ہاتھو ں سے گزرنا پڑتا ہے۔بندر گاہ کے ان مزدوروں کی ایک دن کی ہڑتال بھی سرمایہ داروں کے لیے اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے ہم امریکی محنت کش طبقے کی بے پناہ طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
محنت کش طبقہ امریکہ میں وسیع اکثریت کا حامل ہے۔ امریکی شہروں کے عجوبے، ریل ، شاہراہیں، کانیں، صنعت اوروسیع زرعی زمینیں محنت کشوں کے خون، پسینے، آنسوؤں اور ذہن کی دین ہیں۔لیکن خود امریکیوں کو ان کی تاریخ کے حقائق کے متعلق شاذو نادر ہی پڑھایا جاتا ہے۔اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے۔اگر امریکی محنت کشوں کو اپنی حقیقی طاقت اور ان کے طبقے کی جانب سے سماج کو بدلنے کی متواتر کوششوں کا علم ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ پھر سے کھل کر طبقاتی جدوجہد کی جانب راغب ہو جائیں، یہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے مہلک خطرہ ہے۔
امریکہ کی ابتدائی تاریخ کا مختصر جائزہ
جب پہلے یورپی امریکہ میں پہنچے ، تو انہیں ملنے والے زیادہ تر مقامی امریکی قدیم کمیونسٹ تھے جو انتہائی بنیادی تکنیکی سطح پر اشتراکی زندگی گزار رہے تھے۔امریکہ میں طبقاتی نظام یورپیوں نے متعارف کروایاتھا۔وہ اپنے ساتھ جاگیر داری اور تجارتی سرمایہ داری کے عناصر اور بلا شبہ جبری ملازمت اور غلامی کو لائے۔کروڑوں مقامی امریکیوں کا صفایا اور انہیں غلام بنائے جانے کا عمل قدیم کمیونسٹوں اور جاگیرداروں/نوزائیدہ سرمایہ داروں کے درمیان ایک یک طرفہ طبقاتی جنگ تھی۔
لیکن، بہت سے قارئین شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ میں ابتدائی آبادکاروں میں سے کئی بورژوا انقلابی جمہوریت پسند تھے، جو ہالینڈ، انگلستان، سکینڈنیویا اور دیگر جگہوں پر جابر حکومتوں کا تختہ الٹنے کی جدوجہد میں ناکام ہو چکے تھے۔وہ مذہبی اور سیاسی استبداد سے فرار ہو کر آ رہے تھے۔وہ اپنے ساتھ ایسے نظریات لائے جو اس وقت کے اعتبار سے بہت انقلابی تھے۔جیسے عوامی اسمبلیاں اور ملیشیا اور سماج کے کچھ اراکین یعنی سفید فام، صاحبِ جائیداد مردوں کے لیے جمہوریت (یورپ میں جاگیر داروں اور اشرافیہ کی مطلق العنان اور جابر حکومتوں کے مقابلے میں) اگرچہ محدود لیکن ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ان میں سے کئی مذہبی آزادی، آزادیِ اظہار اور آزادیِ تنظیم کے حامی تھے۔
یہ نظریات جڑیں پکڑتے گئے، اس سب سے بڑ ھ کر امریکہ میں برطانوی نو آبادیات کی معاشی بنیاد مضبوط ہو ئی۔بالآخر، پرانے نو آبادیاتی سماج کے اندر سے مقامی حکمران طبقے کی ابتدائی شکلیں پیدا ہونے لگیں۔یہ ابھرتی ہوئی بورژوازی امریکی محنت کشوں کی محنت سے پیدا ہوئی دولت میں بحرِ اوقیانوس کے پار بیٹھے بادشاہ کی حصہ داری نہیں چاہتی تھی، اور بالآخر انہوں نے بغاوت کر دی۔اس جدوجہد میں امریکہ کی نوزائیدہ بورژوازی اور جنوب کی غلام مالکان کی اشرافیہ کا مقابلہ برطانوی بورژوازی اور وفاق پرستوں سے تھا۔بورژوا انقلاب کے عہد میں ہمیشہ کی طرح، اگرچہ سیاسی اور معاشی فوائد بینکاروں، تاجروں، وکلا اور بڑے زمینداروں کو حاصل ہوئے، لیکن حقیقی لڑائی چھوٹے کسانوں، پرولتاریہ (ہنرمندوں اور مکینکوں)، غلاموں اور جبری ملازمین نے لڑی۔
امریکہ میں انقلاب سے پہلے کے دور میں طبقاتی جدوجہد کی کئی اہم مثالیں ملتی ہیں۔1676ء میں، ورجینیا میں بیکن کی بغاوت ہوئی، جس میں غلام، سرحدی علاقوں کے باشندے اور جبری ملازم نسلی تقسیم سے بالاتر ہوکر ریاستی حکومت کے خلاف لڑائی میں متحد ہو گئے۔1739ء میں، جنوبی کیرولینا میں سٹونو کی بغاوت ہوئی، جو 13امریکی نو آبادیات کی تاریخ میں غلاموں کی سب سے بڑی سرکشی تھی۔
انقلاب کے بعد ، جب برطانیوں کو بے دخل اور ان کے امریکی حامیوں کی جائیداد کو ضبط کر لیا گیا تو نیا حکمران طبقہ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کی پر زور کوششوں میں لگ گیا۔تاہم اب وہ جابر، ٹیکس اکٹھا کرنے والے اور منافع خور بن چکے تھے، اور انہیںآزادی اور برابری کی خاطر جنگ میں لڑنے والوں کے غیض و غضب کا سامنا تھا۔ 1786-87ء میں میسا چوسٹس میں شیز کی بغاوت انقلاب سے ابھرنے والی طبقاتی جدوجہد کی لہر کی معروف ترین مثال ہے۔تمام13سابقہ برطانوی نو آبادیات میں، ایک زیادہ مساوی سماج کے قیام کی کوشش میں معاشی طور تباہ حال چھوٹے کسانوں اور انقلابی جنگ کے سابقہ سپاہیوں نے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
شیز کے پیروکاروں نے عدالتوں کی عمارات جلا ڈالیں، مقروضوں کے قید خانوں سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا اور یہاں تک کہ بوسٹن کی جانب مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا مقصد اسے نذرِ آتش کر کے قابل نفرت بینکوں اور بڑے تاجروں کی سیاسی قوت کا خاتمہ کرنا تھا۔بغاوت آخر کار منتشر ہو گئی ، جس کی وجہ کسی حد تک بد قسمتی اور ایک شدید برفانی طوفان تھا۔لیکن نئی معاشی اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کی اس لہر کے مستقبل میں امریکہ میں قائم ہونے والے آئین اور حکومت پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اس کی وجہ سے، امریکہ کے ’’بانیوں‘‘ کے تصورات کی نسبت کہیں زیادہ مرکزی وفاقی نظام قائم کیا گیا اور داخلی بغاوت سے نمٹنے کے لیے مستقل فوج کے قیام کی اجازت دی گئی۔
بعد ازاں جب 1791-94ء کے دوران مغربی پینسلوینیا میں وسکی کی بغاوت ہوئی تو اسے کچلنے کے لیے وفاقی حکومت فیصلہ کن انداز میں حرکت میں آئی اور اس کے لیے 13,000 فوجی بھیجے جس کی قیادت صدر جارج واشنگٹن خود کر رہا تھا۔وہ ایک واضح پیغام دینا چاہتا تھا کہ عوامی بغاوتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
1861-65ء کی خانہ جنگی سے قبل کی دہائیوں کے دوران، غلام مالکان پر مشتمل جنوب کے حکمران طبقے اور شمال کے ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے درمیان تناؤ اور اختلافات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔غلاموں کی بغاوتیں نسبتاً عام ہو گئیں اور نیٹ ٹرنر کی غلاموں کی بغاوت اور جان براؤن کی خانہ جنگی شروع کرنے کی ناکام کوشش کے نتیجے میں بالآخر جنوب نے مسلح ہو کر علیحدگی کا اعلان کر دیا۔اب جنگ ہی تضادات کو حل کرنے کا واحد راستہ تھی۔
امریکہ کی خانہ جنگی انسانی تاریخ میں طبقاتی جدوجہد کی انتہائی ڈرامائی مثالوں میں سے ایک ہے۔جیسا کہ ایلن وڈز نے اس کتاب میں وضاحت کی ہے، یہ امریکہ کا دوسرا انقلاب تھا۔بنیادی طور پریہ شمالی سرمایہ داری، جو اس وقت میں تاریخی طور پر ترقی پسندانہ نظام تھا اورجنوب میں غلامی پر مبنی زرعی نظام کے درمیان ایک انقلابی جنگ تھی۔ بنیادی طور پر دو مختلف سماجی و معاشی نظام ایک ہی ریاست اور ایک ہی برِ اعظم میں مزید ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔مارکس، اینگلز اور پہلی انٹر نیشنل ابراہم لنکن کے پر جوش حامی تھے اور انہوں نے لنکن پر زور دیا کہ وہ غلامی کے خلاف بے رحمانہ جنگ لڑے۔
ایک مرتبہ پھر، دونوں اطراف سے لڑنے والے عام محنت کش، چھوٹے کسان، مزارعین، غلام، سابقہ غلام اور تارکینِ وطن تھے۔شمال میں کئی ادارے جنگ کے دوران مکمل طور پر بند رہے ، جن کے محنت کش نوزائیدہ یونینوں میں منظم اور غلامی کے خلاف لڑنے کے لیے یونین فوج میں شامل تھے۔یورپ سے کئی انقلابی بھی یونین فوج میں شامل ہوئے ، جن میں بہت سے مارکس اور اینگلز کے قریبی ساتھی رہ چکے تھے۔
جنوب کی معیشت کے پاش پاش ہونے کے بعد، سارے ملک میں سرمایہ داری کی تیز رفتار اور بے رحمانہ ترقی کے لیے راہ ہموار ہو چکی تھی۔پرانے غلام اب ’’آزاد ‘‘ تھے۔ وہ اجرت کے عوض اپنی قوتِ محنت بیچنے اور پٹے پر کاشت کاری کرنے میں آزاد تھے (جو عملی طور پر مزارعین کی طرح تھا)۔انہیں قانون کی معمولی خلاف ورزیوں پر گرفتار ہونے اور قیدِ با مشقت کی آزادی بھی حاصل تھی، جن میں بے گھر اور بے جائیداد ہونے کے ’’جرائم‘‘ شامل تھے۔یہ حالات غلامی سے زیادہ مختلف نہیں تھے، لیکن اب وہ سرمایہ دارانہ منافعوں کی خاطر محنت کر ر ہے تھے۔ جنوب سے لاکھوں سابقہ غلاموں کی شمال اور مغرب کی جانب پھیلتی ہوئی صنعتوں میں روزگار کی تلاش میں بڑے پیمانے کی ہجرت کا آغاز ہوا۔
غلامی کے خاتمے سے امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کی لکیر ماضی کی نسبت کہیں زیادہ واضح ہو گئی۔طبقاتی جدوجہد تیزی سے بڑھتے محنت کش طبقے اور پہلے سے کہیں زیادہ امیر ہوتے سرمایہ دار طبقے کے درمیان ایک بہت بڑی جنگ میں بدل گئی، جس میں درمیانی پرتیں اور پرانے سماجی و معاشی نظام کی باقیات مٹتی چلی گئیں۔امریکی سرمایہ دار اب برِ اعظم کے باقی حصوں اور بالآخر ساری دنیا پر غلبے کے جانب بڑھنے لگے۔اس سے امیر اور غریب کے درمیان نئی تفریق مزید بڑھ گئی اور منافعوں کے حصول کی جستجو میں کہیں زیادہ سفاک اور جدید نوعیت کا استحصال کیا جانے لگا۔
مالکان کے شدید حملوں نے محنت کشوں کو اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اجتماعی طور پر منظم ہونے کی جانب راغب کیا۔خانہ جنگی کے بعد کی دہائیوں میں، منظم مزدور تحریک نے زور پکڑا، جو کہ سرمایہ داروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا عکس تھی۔مثلاً، 1877ء میں ریل کی ہڑتالوں کی بڑی لہر سارے ملک میں پھیل گئی، یہاں تک کہ ریاست مسوری کے شہر سینٹ لوئیس میں محنت کشوں کا کمیون قائم ہوا، جس میں محنت کشوں کی منتخب کونسلیں اورملیشیا اس اہم شہر کو کنٹرول کر رہی تھیں۔
1800ء کے اواخر اور1900ء کے ابتدائی برسوں میں سینکڑوں محنت کش بربریت سے بھرپور حالات میں کام کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔آج جنوبی ایشیا کے محنت کش ان حالات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔لیکن امریکی محنت کشوں نے اپنے حقوق اور عزت کے خلاف ان حملوں کو بغیر لڑے تسلیم نہیں کیا۔شدید طبقاتی جنگوں کے دوران طاقتور یونینوں وجود میں آئیں، اور ریاست اور سرمایہ داروں کے کرائے کے غنڈوں کے ہاتھوں مزید کئی محنت کش شہید ہوئے۔اگرچہ محنت کشوں کے حقوق کی نمائندگی کے لیے ایک بڑی لیبر پارٹی کے قیام کی متعدد کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں، لیکن امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کا باب ابھی ختم نہیں ہوا۔
طبقاتی جدوجہد جاری ہے
جیسا کہ اس مختصر تعارف سے قاری یہ سمجھ سکتا ہے، کہ امریکہ کی تاریخ باقی دنیا سے بہت ملتی جلتی ہے، کہ یہ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔عموعی طور پر معیشت کی ترقی کے ساتھ محنت کش عوام کی جدوجہد اور تنظیم کے طریقے بھی بدلتے اور ترقی کرتے رہے ہیں۔لیکن کئی دہائیوں سے حاوی رجحان ، ایک جانب دولت کا ارتکاز اور دوسری طرف محنت کش طبقے کا ارتکاز ہے۔اور اگرچہ کھلے تصادم کے بغیر بہت طویل دور گزر جاتے ہیں، لیکن طبقاتی جدوجہد ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ یہ کبھی زیر زمین سلگتی رہتی ہے اور کبھی پھٹ کر سطح پر آجاتی ہے اور پورے تاریخی عہد میں برملا لڑی جاتی ہے۔
’’مارکسزم اور امریکہ‘‘ میں ایلن کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ؛ امریکہ کا سماج بہت بڑے طبقاتی تضادات کے ہاتھوں منقسم ہے، اور جلد یا بدیر، ماضی کی لڑاکا اور انقلابی روایات کہیں زیادہ بلند سطح پر لوٹ کر آئیں گی۔گزشتہ دہائی کے تجربات نے اس تجزیے کو100فیصد درست ثابت کیا ہے۔
عراق جنگ کے خلاف لاکھوں افراد کی تحریک صرف جنگ کے خلاف مظاہرے نہیں تھے بلکہ یہ موجودہ حالات کے خلاف گہرے عدم اطمینان کا اظہار تھا۔ 2005ء قطرینہ طوفان کے المیے نے اس گہری عدم مساوات اور نسل پرستی کو عیاں کر دیا ہے جس کے ذریعے امریکی سرمایہ دار ’’تقسیم اور حکومت‘‘ کرتے ہوئے اقتدار پر براجمان ہیں۔غیر دستاویز شدہ تارکین وطن کی2009ء کی شاندار تحریک نے متحرک محنت شک طبقے کی پوشیدہ قوت کو ظاہر کیا ہے۔وینزویلا میں کارخانوں پر قبضے کی تحریک سے متاثر ہو کر 2008ء میں شکاگو میں ریپبلک ونڈوز اینڈ ڈورز کے کارخانے پر قبضے نے دکھایا ہے کہ لڑاکا کاروائیوں سے کامیاب نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
2011ء میں ریاست وسکانسن میں ایک عوامی تحریک نے ریاست کے ایوان کی عمارت پر قبضہ کر لیا جس کا مقصد گورنر کی جانب سے سرکاری شعبے کی یونینوں پر حملوں کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ کرنے والی شاندار تحریک کو مثال بناتے ہوئے انہوں نے ’’ایک مصری کی طرح لڑو‘‘ جیسے نعرے بلند کیے۔یہ عالمی سرمایہ داری کے عہد میں جدوجہد کے عالمگیر کردار کی ایک شاندار مثال ہے۔
2011ء میں قبضے کی تحریک (Occupy Movement) اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عالمی مالیاتی سرمائے کے دل میں، لاکھوں امریکی موجودہ حالات سے نا خوش ہیں۔یہ تحریک تیزی سے سارے ملک اور دنیا بھر میں پھیل گئی۔اگرچہ اس کے مقاصد محدود اور طریقہ کار متذبذب تھا، لیکن یہ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے سیکھنے کا اہم تجربہ اور آنے والے برسوں میں طبقاتی جدوجہد کے دھماکوں کی محض چھوٹی سی جھلک تھی۔
2012ء اور2013ء میں فاسٹ فوڈ،ریٹیل اور خدمات کی صنعت کے محنت کشوں نے کام روکنے، کام کی رفتار آہستہ کرنے اور ہڑتالوں کی کاروائیاں کیں۔ ابھی تک یہ بہت ابتدائی مراحل ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔امریکی محنت کش کم اجرتوں اور برے حالات کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ ’’بس اب بہت ہو گیا‘‘ ، اور سرمایہ داری کے تحت زندگی کی حقیقتوں کے متعلق اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ جلد یا بدیر محنت کش طبقے کے ’’بھاری دستے‘‘ اس جنگ میں شریک ہوں گے۔
عظیم امریکی مورخ ڈبلیو ای بی ڈوبوئس کے مطابق طبقاتی جدوجہد کی الگ تھلگ ندیاں تیزی سے بہتی ہوئی ایک عظیم دھارے میں شامل ہو رہی ہیں؛ مستقبل کے انقلابی مضمرات واضح ہیں۔
امریکی سرمایہ داری کا بحران
ہم کٹوتیوں، جنگ، بحران، انقلاب اور ردِ انقلاب کے عہد میں رہ رہے ہیں، اور امریکہ اس عمل کے مرکز میں ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے اور ذرائع پیداوار کو مزید ترقی دینے یا اکثریت کا معیارِ زندگی بہتر بنانے سے قاصر ہے۔ہر جگہ تنزلی نظر آتی ہے۔ایک زمانے میں متحرک اور اختراعی سرمایہ دارانہ نظام اب جمود کا شکار اور طفیلیت اور سٹے بازی پر مبنی ہے۔ خطرہ ہے کہ یہ کہیں اپنے ساتھ ساری انسانیت کو بھی نہ لے ڈوبے۔
امریکی سامراج کی معاشی بنیادیں لڑکھڑا رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں اب یہ ویسی مضبوط قوت نہیں رہی جو ماضی میں نظر آتی تھی۔حکمران طبقے کے لیے اِدھر کنواں اور اُدھر کھائی ہے اور وہ آگے کے راستے کے متعلق بہت منقسم ہیں۔جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی کہ حکمران طبقے کی پرانے طریقوں سے حکمرانی کو جاری رکھنے میں ناکامی سماجی انقلاب کے دور کی آمد کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ انقلاب کی کنیز ہوتی ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکستوں سے فوج کا جذبہ شاید مکمل طور پر ختم نہیں ہوا جیسا کہ ویتنام میں ناکامی سے ہوا تھا، لیکن ان جنگوں نے امریکی خزانے کو دیوالیہ کر دیا ہے اور اب ان کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آ گیا ہے۔
17 ٹریلین ڈالر کے وفاقی قرضے کی وجہ، جو ہر امریکی مرد ، عورت اور بچے کے لیے 55,000 ڈالر بنتا ہے، ان جنگوں پر اخراجات اور2008ء کے معاشی انہدام کے بعد بڑے بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو دیے جانے والے بیل آؤٹ ہیں۔اب سرمایہ داری کے بحران کی قیمت محنت کشوں سے وصول کی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں بڑے پیمانے کی بے روزگاری،بے گھری، اجرتوں میں جمود، پنشنوں میں کمی اور ماضی کی بڑی جدوجہد کے ذریعے جیتے جانے والے سماجی بہبود کے پروگراموں میں سے چند باقی رہ جانے والوں میں بے رحمانہ کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔
2کروڑ 40لاکھ امریکی بے روزگار ہیں یا پھر ان کے پاس مکمل روزگار نہیں ہے۔22فیصد امریکی بچے غربت میں رہ رہے ہیں۔ڈیمو کریٹس اور ری پبلیکنز کی حمایت سے وفاقی حکومت کے خوراک کی امداد کے پروگرام (Food Stamps Program) میں ظالمانہ کٹوتیوں کی وجہ سے لاکھوں امریکی بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔نوجوان1ٹریلین ڈالر کے تعلیمی قرضوں کے مقروض ہیں اور ان میں سے لاکھوں کو ان کی تعلیم کے مطابق روزگار نہیں ملتا۔اندازے کے مطابق30 لاکھ امریکی بے گھر ہیں۔2007ء سے کرایوں میں12فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن اجرتوں میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔لیکن اسی دوران، 10 فیصد امیر ترین امریکی 2008ء سے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ دولت مند ہو چکے ہیں۔5 فیصد امیر ترین امریکی 60 فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ غریب ترین 40 فیصد کے پاس صرف 0.2 فیصد ہے۔یہ ’’دودھ اور شہد کی سر زمین‘‘ کی اصل صورتحال ہے۔ جہاں معروضی طور پر یہ بدحالی بر صغیر ہند کے کئی علاقوں جیسی سطح پر تو نہیں ہے لیکن وہیں کروڑوں امریکیوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بہت پر کشش ہو گا۔
تاہم ، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ میں انقلابی جدوجہد کے احیا کے لیے شدید معاشی بحالی ضروری نہیں۔بلکہ فوری اور تیز تبدیلیاں اور مستقل عدم استحکام اس کا باعث بنے گا جو سرمایہ داری کے تحت زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔کروڑوں امریکیوں کے لیے ’’امریکی سپنا‘‘ ’’امریکی ڈراؤنے خواب‘‘ میں بدل چکا ہے۔اس سے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بالخصوص نوجوانوں میں۔ اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ 18سے29برس کے امریکیوں کی اکثریت کے مطابق وہ سرمایہ داری پر سوشلزم کو ترجیح دیتے ہیں۔
انقلابی قیادت کی ضرورت
عالمی سطح پر، طاقتوں کا توازن کسی بھی دور کے مقابلے میں محنت کش طبقے کے حق میں ہے۔امریکہ میں، گزشتہ تیس برسوں میں محنت کشوں پر کئی حملوں اور یونین رکنیت میں عددی کمی کے باوجود، آج محنت کش طبقے کے پاس سماج کو روکنے ،یعنی اسے بدلنے کی طاقت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے کہا تھا، سرمایہ داری، محنت کش طبقے میں اضافہ کر کے، جو اسے مجبوراً کرنا پڑتا ہے کیونکہ اجرتی محنت ہی اس کے منافعوں کا ذریعہ ہے، اپنے ہی نظام کے گورکن پیدا کرتی ہے۔چناچہ ہمیں میڈیا، موجودہ مزدور قیادت اور نام نہاد بایاں بازو جو بھی کہتا رہے، امریکی مزدور تحریک کے سب سے جرأت مندانہ دن ابھی آنے باقی ہیں۔
اس وجہ سے ہم پر اعتماد ہو کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے درکار مادی حالات شاید دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ تیار ہیں۔اگرچہ امریکیوں کی اکثریت ابھی تک اس حقیقت سے آشنا نہیں ، لیکن سرمایہ داری کے تحت زندگی کے تلخ تجربات سب سے بڑے استاد ہیں، اور محنت کش اور نوجوان تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔
تاہم اس کے لیے ضروری قیادت کی کمی ہے۔ایک مارکسسٹ انقلابی پارٹی محنت کش طبقے کی سب سے آگے کی پرت کی نمائندہ ہوتی ہے۔یہ تاریخی حافظے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور ہمارے طبقے کے مشترکہ تجربات کو بین الاقوامی طور پر مجتمع کرتی ہے۔یہ ایک چرخی کا کام کرتی ہے جس کے ذریعے ماضی کے اسباق آج کی جدوجہد میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔بیسویں صدی کا درد ناک سبق یہ ہے کہ نظریات اور تاریخ کی واضح سمجھ ،تنظیم اور نظم ضبط کے بغیر ہم اپنے دشمن طبقے کو شکست نہیں دے سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ہم مارکسی نظریات اور تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جیسے امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے منگل پانڈے، بھگت سنگھ، برطانوی حکومت کے خلاف انقلابی بغاوتوں اور 1968ء میں پاکستان میں جدوجہد کرنے والے کروڑوں لوگوں کی متاثر کن مثالوں سے سیکھنا ضروری ہے، اسی طرح پاکستان میں ہمارے کامریڈز بھی جان براؤن، یوجین ڈیبز، بگ بل ہیوڈ اور برطانوی سامراج، غلامی، اجارہ دارانہ سرمایہ داری، نسلی امتیاز اور سامراجی جنگوں کے خلاف لڑنے والے کروڑوں امریکیوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔مارکسزم اور امریکہ میں قارئین کو نظریات اور اسباق کا ایک خزانہ ملے گا جسے ہم اپنی آج کی جدوجہد میں استعمال کر سکتے ہیں۔
حقیقی بین الاقوامیت کی ضرورت
1998ء کے موسم گرما میں جب میں پہلی مرتبہ اپنے عزیز دوست اور کامریڈ لال خان سے ملا، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں جوان ہونے کے دوران، ان کے اور ان کے کامریڈز کے دلوں میں امریکی سامراج کے خلاف شدید نفرت تھی۔اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا تھا! لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں امریکی حکمران طبقے اور امریکی محنت کش طبقے کے درمیان فرق سمجھ میں آیا۔جہاں امریکی سامراج اور اس کے مقامی دلال پاکستانی محنت کش طبقے کے بڑے دشمن ہیں، وہیں امریکی محنت کش اور ان کے ساتھ باقی دنیا کے محنت کش، پاکستانی محنت کشوں کے حقیقی ساتھی ہے۔ یہ مارکس کی جانب سے دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ کی پکار کا حقیقی معنی ہے۔
انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ امریکہ میں مارکسزم کے نظریات اور سوشلزم کے لیے لڑنے والے کامریڈز کی موجودگی، ان کے اور جدوجہد میں ان کے کامریڈز کے لیے بے پناہ انقلابی رجائیت اور قوت کا باعث ہے۔ان سے پہلی ملاقات میرے لیے بھی اتنی ہی شکتی کا باعث تھی۔یہ کرۂ ارض کی دوسری جانب اسی عالمگیر تاریخی مقصد کے لیے لڑنے والے ہزاروں انقلابیوں کے ساتھ ایک زندہ تعلق کی علامت تھی۔بہت مختلف معاشی، سیاسی اور سماجی حالات میں کام کرنے کے باوجود، بنیادی طور پر ہماری جدوجہد ایک ہے۔یہی وہ تعلق ہے جو عالمی مارکسی رجحان کو حقیقتاً ایک بین الاقوامی تنظیم بناتا ہے۔IMT کے امریکی کامریڈز پاکستانی کامریڈز کی مثال سے مسلسل متاثر ہوتے رہتے ہیں اور ان کے کام میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
سوشلزم کے لیے لڑو!
بلا شبہ امریکہ انسانی تاریخ میں سب سے زیاد ہ نا پسندیدہ، جابر اور ظالم ریاست ہے۔لیکن جدلیاتی مادیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر چیز اپنی نفی میں بدل جاتی ہے۔ امریکہ رجعت کا ابدی قلعہ نہیں ہے ، اور ایک مرحلے پر اس کے الٹ میں بدل جائے گا۔
امریکہ کے پہلے انقلاب نے انقلابِ فرانس اور قومی آزادی اور حریت کی دیگر کئی انقلابی تحریکوں کو متاثر کیا تھا۔امریکہ کے دوسرے انقلاب، یعنی خانہ جنگی، میں برطانیہ سے لے کر جرمنی اور دوسرے کئی ممالک کے محنت کشوں کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔اسی طرح سے امریکہ کا سوشلسٹ انقلاب امریکہ کو دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے روشنی کا مینار بنا دے گا۔
مصر سے لے کر یونان تک، محنت کش جبر، کٹوتیوں، امتیازی سلوک، بھوک، بے روزگاری، بے گھری، غربت اور سرمایہ داری کی ذلت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں۔ امریکہ اس عمل سے بچ نہیں سکتا۔آج جو کچھ یورپ، لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کی سڑکوں پر نظر آ رہا ہے مستقبل میں بہت دور نہیں کہ ہم یہ سب امریکہ میں دیکھیں گے۔
بطور مارکسسٹ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ایک بھی کامیاب انقلاب ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دے گا۔عالمی سطح پر اس کے مقام اور اس کے محنت کش طبقے کی طاقت کی وجہ سے امریکہ میں سوشلسٹ انقلاب کی فتح کا مطلب ساری انسانیت کی نجات ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ مارکسزم اور امریکہ پاکستان اور سارے برِ صغیر ہند میں طبقاتی شعور رکھنے والے ہر محنت کش اور نوجوان کی توجہ کی حقدار ہے۔ جیسا کہ روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی نے نیو یارک شہر میں اپنے مختصر قیام کے متعلق مارچ 1917ء میں ر وس لوٹنے سے قبل تبصرہ کیا تھا کہ ’’(امریکہ) فولاد کی وہ بھٹی ہے جس میں نسلِ انسانی کا مستقبل تیار ہو گا۔‘‘