|تحریر: آفتاب اشرف|
ہم اکثر ٹی وی نیوز بلیٹن میں سنتے ہیں کہ آج ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں فلاں فلاں ”اہم“ شخصیات نے شرکت کی۔ اسی طرح تقریبات کے دعوت ناموں سے لے کر اخباری رپورٹوں تک میں ”عزت ماب جناب۔۔“ جیسے الفاظ کی بھرمار نظر آتی ہے۔ بڑے شہروں کی شاہراؤں پر ٹریفک جام کے دوران وارڈن سے استفسار کرنے پر اکثر پتا چلتا ہے کہ ”وی آئی پی“ روٹ لگا ہوا ہے۔ عمومی طور پر یہ اہم، بڑی اور وی آئی پی شخصیات یا تو بڑے سرمایہ دار، بینکار، صنعتکار اور جاگیر دار ہوتے ہیں یا پھر ان کا تعلق فوجی و سول ریاستی اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ سیاسی حکام بالا اور جج حضرات کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ پچھلی دو تین دہائیوں میں تگڑے مولوی و پیر صاحبان اور شوبز ستاروں سے لے کرٹی وی اینکرز بھی ان برگزیدہ ہستیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ البتہ چھوٹے شہروں میں یہ”عزت“ پانے کے لئے بندے کا اسسٹنٹ کمشنر، میجر، پرائیویٹ پریکٹس والا ڈاکٹر، کماؤ وکیل یا مقامی انجمن تاجران کا صدر ہونا ہی کافی ہے۔ اب یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ان تمام شخصیات کی عزت و تکریم کی وجہ یا تو ان کی دولت ہے یا پھر ریاستی، سیاسی وسماجی اثر ورسوخ اگرچہ کہ یہ اثر ورسوخ بھی حتمی تجزئیے میں دولت و سرمائے کے انبار لگانے کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ورنہ ایک طبقاتی سماج میں اس کا کیا فائدہ۔ لیکن اس جانکاری کے باوجود چونکہ ان شخصیات کی ”عزت مابی“ اور نام نہاد اہمیت کے متعلق دن رات ہر ممکنہ ذرائع سے پراپیگنڈہ ہوتا ہے لہٰذا درمیانے طبقے یا حتیٰ کہ محنت کش طبقے کی کچھ پرتیں بھی یہ سوچنے لگتی ہیں کہ ضرور ان شخصیات میں کچھ تو ایسا خاص ہو گا کہ ان کو اتنی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سوچ جب شعور پر مزید حاوی ہوتی ہے تو اس سے مغلوب شخص یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ملک، ریاست، سماج غرض دنیا کا نظام انہی شخصیات کے سہارے چل رہا ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو ہر چیزرک جائے اور تباہ وبرباد ہو جائے۔ اس سوچ کے بخیے ادھیڑنا ہی اس تحریر کا مقصد ہے لیکن اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم کسی بھی فرد، سماجی پرت یا طبقے کی اہمیت کو انسانی و سماجی افادیت کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کریں۔
ذرا اپنی قوت متخیلہ کو زحمت دیجیے اور تصور کیجیے کہ ایک رات جب آپ اپنے عالیشان بیڈروم کے گداز بستر پر محو خواب تھے تو اپنے حالات سے تنگ ملک بھر کے محنت کش طبقے نے حکومتی پالیسیوں کیخلاف فوری طور پر ایک عام ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ صبح جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو کمرے میں گھپ اندھیرا ہے۔ آپ ٹیوب لائیٹ کا سوئچ آن کرتے ہیں لیکن روشنی نہیں ہوتی۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شائد سوئچ یا ٹیوب میں کوئی خرابی ہو گئی ہے۔ آپ اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے بجلی کی دیگر اشیاء چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہ پنکھا چلتا ہے اور نہ ہیٹر۔’لوڈ شیڈنگ ہو گی۔۔‘یہ سوچتے ہوئے جب آپ باتھ روم جاتے ہیں تو نل میں پانی نہیں آتا۔ آپ ہاتھ منہ دھوئے بغیر آنکھیں ملتے باہر آتے ہیں تو کھانے کی میز خالی پڑی آپ کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ آپ غصے سے گھریلو ملازم کو ’ناشتہ لاؤ۔۔‘ کا حکم صادر کرتے ہیں لیکن کوئی جواب نہیں آتا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب آپ بھنا کر سرونٹ کوارٹر کا رخ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ خالی پڑا ہے اور ملازم غائب ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ’یہیں کہیں گئے ہوں گے۔۔ابھی آ جائیں گے‘ اور جنریٹر چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے کنکشن لگانے والے نہیں اور چونکہ آپ تو ایک ”صاحب آدمی“ ہیں اور آپ نے کبھی ایسے عامیانہ کام نہیں کئے لہٰذا کئی کوششوں کے بعد بھی ناکام رہتے ہیں۔ تنگ آ کر آپ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں اور عادتاً اپناا سمارٹ فون آن کرتے ہیں۔ لیکن یہ کیا؟ فون پر نہ تو کوئی سگنل آرہے ہیں اور نہ ہی گھر کا انٹرنیٹ کنکشن چل رہا ہے۔ اس عجیب و غریب صورتحال کی سن گن لینے آپ گھر سے نکلتے ہیں تو سڑک پر آپ کی ملاقات شب خوابی کا لباس پہنے اپنے ایک آنکھیں ملتے پڑوسی سے ہوتی ہے جو محکمہ پولیس میں اعلیٰ سطح کا افسر ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ پورے ملک کا محنت کش طبقہ ایک عام ہڑتال پر چلا گیا ہے۔ ’کیا تمام مزدور کام چھوڑ گئے ہیں۔۔؟‘ آپ کے حیرت بھرے سوال پر وہ بتاتا ہے کہ ابھی تک کی خفیہ اطلاعات کے مطابق واپڈا، ریلوے، ائیر لائنز، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، ٹیلی کمیونیکیشن، میونسپلٹی، پوسٹل سروس، واسا، آئل ریفائنریوں، میڈیا انڈسٹری، سرکاری دفاتر اور دیگر بے شمار اداروں و نجی صنعتوں کے مزدور ہڑتال کا حصہ بن چکے ہیں۔ تنخواہ داراساتذہ نے کلاسیں لینے اور ہسپتالوں کے جونئیر طبی عملے نے عام شہریوں کے علاوہ کسی کا بھی علاج کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ گھریلو ملازم بھی اس ”ہڑتالی وائرس“ کا شکار ہو چکے ہیں۔ آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر وہ آپ کو اپنی مخصوص محکمانہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلی دیتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے بہت جلد حالات کو کنٹرول میں لے آئیں گے۔ یہ سن کر جیسے ہی آپ کے چہرے پر تھوڑی بشاشت آتی ہے تو وہ موقع جان کرقدرے لجاجت کے ساتھ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک بالٹی پانی کی درخواست کرتا ہے۔ لیکن آپ اس کی خواہش پوری کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ پانی نہ ہونے کے سبب آپ تو خود ابھی تک”ایسے ہی“ گھوم رہے ہیں۔ خیر آپ گھر واپس آ کر جلدی جلدی غیر استری شدہ کپڑے پہنتے ہیں اور گاڑی لے کر باہر نکلتے ہیں تا کہ صورتحال کا خود جائزہ لے سکیں۔
سڑکوں پر ایک عجیب و غریب صورتحال ہے۔ ٹریفک بہت کم ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ ورکرز کے ساتھ ساتھ نجی ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے محنت کش بھی ہڑتال پر ہیں۔ لیکن کم ٹریفک کے باوجود سڑکوں پر افراتفری ہے کیونکہ نہ تو سگنلز چل رہے ہیں اور نہ ہی ٹریفک وارڈنز کہیں نظر آ رہے ہیں۔ سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر بکھرے پڑے ہیں کیونکہ میونسپلٹی ورکرز رات کو ہی کام چھوڑ گئے تھے۔ کئی جگہوں پر ابھی سے سیوریج کا گندہ پانی اکٹھا ہونے لگا ہے کیونکہ پمپ آپریٹ کرنے والے واسا کے ملازم بھی ہڑتال کا حصہ ہیں۔ آپ کافی دیر سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔ اس دوران گاڑی روک کر کئی ایک سرکاری دفاتر کا بھی چکر لگاتے ہیں۔ دفاتر کھلے ہیں اور حیرت انگیز طور پر عام دنوں میں خال خال نظر آنے والے اعلیٰ افسران وہاں موجود ہیں لیکن کسی محکمے میں کوئی کام نہیں ہو رہا کیونکہ عام ملازم و محنت کش ہڑتال پر ہیں۔ واپڈا ہاؤس اور ریلوے ہیڈ کوارٹر سے لے کر سول سیکریٹریٹ تک یہی صورتحال ہے۔ آخر آپ تازہ ترین صورتحال سے باخبر ہونے کے لئے کمشنر آفس کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں پہلے ہی”صاحب لوگوں“ کی ایک بڑی تعداد اس مقصد کے لئے موجود ہوتی ہے۔ کوئی صنعتکار ہے جس کی فیکٹریاں ہڑتال کی وجہ سے بند پڑی ہیں تو کوئی بڑا تاجر ہے جس کا مال بندر گاہ پر پھنسا ہوا ہے۔ کوئی فلائیٹس بند ہونے کی وجہ سے بزنس ٹرپ پر بیرون ملک جانے سے قاصر ہے تو کوئی بجلی، گیس اور پانی کی بندش سے پریشان ہے۔ وہاں پر ایک بڑے میڈیا گروپ کا مالک افسوس کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’اب تو ہم اس بدمعاشی کیخلاف کوئی خبر بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ میرے اخبار اور ٹی وی چینل کے سارے ورکر بھی ہڑتال پر ہیں۔۔۔‘پاس ہی کھڑا ایک نامی گرامی بلڈر بتاتا ہے کہ آج صبح جب وہ کنسٹرکشن سائیٹ پر پہنچا تو مزدوروں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ جب اس نے انہیں کام پر جانے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک بولا’سیٹھ جی!آپ کے پاس تو اتنے نوٹ ہیں۔ کہتے ہیں نوٹوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔جائیں، نوٹوں کی بوریاں لا کر خالی زمین پر پھینک دیں، آپ کی بلڈنگ کھڑی ہو جائے گی۔۔ہماری کیا ضرورت ہے بھلا آپ کو؟‘۔ ایک مشہور و معروف مولانا صاحب کے کارندے بھی وہاں موجود ہوتے ہیں جن کا سالانہ اجتماع ریلوے ہڑتال اور ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ چکا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں کمشنر صاحب باہر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ صوبائی سیکرٹری داخلہ، کچھ وزرا، پولیس اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران بھی ہوتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب عمارت کے اندر بیٹھنا تو ممکن نہیں ہوتا لہٰذا باہر لان میں ہی حاضرین کو صورتحال پر بریفنگ دی جاتی ہے۔ اعلیٰ سیاسی و ریاستی حکام بتاتے ہیں کہ محنت کش اپنے مطالبات پورے ہونے تک کام کرنے سے بالکل انکاری ہیں لیکن حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ہڑتال کو ختم کروایا جا سکے اور ہم اس مقصد کے لئے ہر جگہ مراسلے اور احکامات بھجوا رہے ہیں۔ ’لیکن سر!!فون لائنز، انٹرنیٹ سروس، ڈاک اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے ہمیں اس سلسلے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں، یہاں تک کہ سرکاری مراسلے ٹائپ کرنے کے لئے سٹینو گرافر بھی نہیں مل رہے۔۔‘ سائیڈ پر بیٹھے ایک باتونی جونئیر افسر کی زبان پھسل جاتی ہے اور جواب میں اسے تمام حکام بالا کی غضب ناک نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کمشنر آفس سے سوائے مایوسی اور بے یقینی کے آ پ کو کچھ نہیں ملتا اور آپ گھر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ راستے میں خیال آتا ہے کہ نہ جانے یہ صورتحال کب تک چلے لہٰذا گھر کے لئے ضروری راشن لے لینا چاہئے لیکن مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھلے ہونے کے باوجود وہاں کام ٹھپ ہے کیونکہ پیچھے سے پیداوار اور سپلائی بند ہونے کے ساتھ ساتھ سیلز کا تمام تر عملہ بھی ہڑتال پر ہے اور کچھ کرنے سے قاصر سیٹھ صاحبان پریشانی کے عالم میں ٹہل رہے ہیں اور ورکرز کو کوس رہے ہیں۔ آپ گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور واپسی نکلتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی اکیلے نہیں آتی۔ کچھ دور جا کر ہی پتا چلتا ہے کہ گاڑی میں پیٹرول ختم ہو رہا ہے۔ قسمت سے پاس ہی ایک پیٹرول پمپ ہے، آپ فوری گاڑی وہاں لے جاتے ہیں۔ لیکن وہاں مالک اکیلا بیٹھا ہے اور استفسار پر پتا چلتا ہے کہ پمپ کے زیر زمین ٹینک میں کچھ پیٹرول تو ہے لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ مزید برآں، پمپ پر کام کرنے والے لڑکے بھی غائب ہیں۔ آپ کو پریشان دیکھ کر پمپ مالک مزید ایک بم پھوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ ریفائنریاں، آئل ٹرمینل اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے مزید سپلائی آنے کا بھی کوئی چانس نہیں۔ آپ کے پاس اب جوتیاں گھساتے ہوئے پیدل واپس جانے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ اوپر سے بھوک نے آپ کو بے حال کر رکھا ہے۔ دفعتاً آپ کی نظر مکئی کے بھٹے فروخت کرنے والے ایک ریڑھی والے پر پڑتی ہے جو اپنی ریڑھی کو کپڑے سے ڈھک رہا ہوتا ہے۔ آپ لپک کر اس کے پاس جاتے ہیں اور اس سے بھٹے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انکار کر دیتا ہے کیونکہ وہ بھی ہڑتال کا حامی ہے۔ آپ اسے دوگنی تگنی قیمت کا لالچ دیتے ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ آخر کار آپ رونی صورت بنا کر اسے اپنی ناقابل برداشت ہوتی بھوک کا بتاتے ہیں تو اس کا دل پسیج جاتا ہے۔ وہ آپ کو چار پانچ بھٹے دے دیتا ہے لیکن ان کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جب آپ اس کا شکریہ ادا کر کے آگے جانے لگتے ہیں تو وہ پیچھے سے تنبیہی لہجے میں کہتا ہے ’تھوڑا کھانے کی عادت ڈالیں صاحب!! کل کلاں کو اگر کسان بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے تو اناج نہیں ملے گا کہیں سے‘۔ ’تو کیا اب ہمیں بھوکا مرنا پڑے گا؟؟‘یہ خیال آتے ہی آپ کو جھرجھری آ جاتی ہے اور آپ لمبے لمبے ڈگ بھرتے گھر کی سمت روانہ ہو جاتے ہیں۔
ابھی آپ ایک دو کلومیٹر ہی دور گئے ہوتے ہیں کہ دور سے ٹرکوں کا ایک قافلہ آتا دکھائی دیتا ہے۔ قریب آنے پر ان کا گہرا ہرا رنگ اور مخصوص ساخت واضح ہو جاتی ہے۔ آپ کے رگ و ریشے میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ ’شکر ہے فوج آ گئی۔۔اب سب مسئلے حل ہو جائیں گے‘آپ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔ قافلہ آپ سے کچھ فاصلے پر رک جاتا ہے۔ آپ دوڑے دوڑے ٹرکوں کے پاس جاتے ہیں۔ پہلے ٹرک کے ساتھ ہی ایک فوجی جیپ کھڑی ہے جس کی فرنٹ سیٹ پر ایک افسر بیٹھا ہے۔ آپ اس سے بات کرنے کے لئے دو تین بار کھڑکی کا شیشہ نیچے کرنے کا التجائی اشارہ کرتے ہے لیکن وہ اسے نظر انداز کرتا ہے۔ بالآخر آپ کی ہٹ دھرمی سے تنگ آ کر وہ شیشہ نیچے کرتا ہے اور تنک کر پوچھتا ہے، ’کیا چاہئے؟‘۔ اس کی آواز سنتے ہی آپ کی جان میں جان آتی ہے اور آپ چیخ اٹھتے ہیں ’بس اب آپ لوگ آگئے ہیں۔۔مجھے یقین ہے کہ آپ ان ہڑتالی مزدوروں کو دو گھنٹوں میں ان کی اوقات یاد دلا دیں گے‘۔ آپ کی بات سن کر جیپ کے فوجی ڈرائیور کے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور افسر کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے۔ ’یو۔۔بلڈی۔۔آہستہ بولو۔۔پہلے ہی میرے سپاہی ان ہڑتالیوں کی ہمدردی میں ڈسپلن توڑنے کو تیار بیٹھے ہیں، اوپر سے تم آگئے ہو بکواس کرنے۔۔دفع ہو جاؤ۔۔یہ ہڑتال ختم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔ہمارا اس سے کچھ لینا دینا نہیں‘، افسر کن اکھیوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھتے ہوئے بھینچی ہوئی آواز میں غراتا ہے۔ آپ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا کہ فوج کا ایک ذمہ دار افسر بھی ان ہڑتالیوں سے اتنا خوفزدہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی جادوئی ہاتھ نے اشارہ کیا ہو اور پورے سماج کی روح کھینچ لی ہو، ہر شے جدھر تھی وہیں رک گئی ہو۔۔۔ایک منٹ! ایک منٹ! ہمارے کچھ نازک طبع قارئین شکوہ کر رہے ہیں کہ یہ تصوارتی سفر کچھ زیادہ ہی تاریک اور بھیانک ہوتا جا رہا ہے۔ چلیں، ہم ان کا شکوہ مان لیتے ہیں اور اس بھیانک سپنے کو یہیں ختم کر دیتے ہیں۔ یقین مانئے، ہمارا مقصد آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں تھا۔ ہم تو صرف یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ کسی ”عزت مابی“ اور اہمیت سے محروم یہ بے نام و نشان ”چھوٹے لوگ“ اگر اپنا ”عامیانہ کام کاج“ چھوڑ دیں تو محض ایک ہی دن میں سماج کے ”اہم ترین“ اور قابل عزت ”بڑے لوگوں“ کا کیا حشر ہو۔ اب ذرا یہ سوچیں کہ اگر ایسی عام ہڑتال تھوڑی لمبی مدت کے لئے ہو جائے تو اس باغیانہ سوال کو اٹھنے سے کون روکے گا کہ اگرسارا سماج محنت کشوں کی محنت کے مرہون منت چلتا ہے تو پھر تمام دولت اور وسائل پر مٹھی بھر ”بڑے لوگوں“ کا قبضہ کیوں ہے؟ مزید برآں، سماج پر حکمرانی اسے زندگانی بخشنے والے محنت کش طبقے کی بجائے ان لوگوں کی کیوں ہے جو شائد خود سے اپنے جوتوں کے تسمے بھی نہیں باندھ سکتے؟
لگتا ہے ہمارے بعض قارئین ہم سے زیادہ متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ سماج محنت کش طبقے کی محنت کے بلبوتے پر چلتا ہے لیکن اس میں ”بڑے لوگوں“ کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے کیونکہ اہم ترین فیصلے لینے کے لئے درکارعلم، تجربہ اور جانکاری تو انہی کے پاس ہوتی ہے۔ کس کاروبار میں پیسہ لگانا ہے؟ کس قسم کی فیکٹری بنانی ہے؟ بزنس کو’مینیج‘ کیسے کرنا ہے؟ انتظامیہ کیسے چلانی ہے؟ ملکی معاملات پر کیا فیصلے کرنے ہیں؟ جنگی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ نظام تعلیم کیسا ہونا چاہئے؟ ادارے کیسے چلانے ہیں؟ پالیسیاں کیسے بنانی ہیں؟ وغیرہ، وغیرہ۔ ہمارے ناقدین کے مطابق یہ سب وہ کام ہیں جو مزدوروں کے بس سے باہر ہیں اور یہ سب اہم ترین کام کرنا ہی ”بڑے لوگوں“ کی اہمیت اور عزت وتکریم کا کارن ہے۔ اب بظاہر تو یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور ہم لمبے چوڑے فلسفوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی مثالوں سے ہی اصل صورتحال واضح کر سکتے ہیں۔
بالفرض، اگر ہم ریلوے کے محکمے کی بات کریں تو جو افسر شاہی اور سیاسی حکام اس کے فیصلے کرتے ہیں، انہیں شاید ٹھیک سے یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ انجن کے پہیوں کی تعداد کیا ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی میں شاید کبھی کوئی پیچ بھی خود نہیں کسا ہوتا۔ ان کا کام صرف ٹھنڈے دفتروں میں بیٹھ کر ”پالیسی سازی“ کرنا یا دوسرے الفاظ میں فائلوں کے کاغذ کالے کرنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف وہ مزدور (بشمول انجینئرز اور ٹیکنیشینز) ہیں جنہیں انجنوں، بوگیوں اور پٹریوں کی دیکھ بھال وریپئیرنگ، سگنل و کانٹا نظام کی جانکاری اور محکمے کے دیگر تکنیکی امور کا عمر بھر کاتجربہ ہوتا ہے۔ ہم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ورکرز جب مشکل ترین اور محنت طلب تکنیکی کام بطریق احسن سر انجام دے سکتے ہیں تو پھر ٹھنڈے دفتر میں بیٹھ کر فائلوں پر دستخط کرنے جیسا آسان ترین کام کیوں نہیں کر پائیں گے؟ یہی صورتحال آپ کو تما م محکموں، اداروں، نجی صنعتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نظر آتی ہے۔ واپڈا کے ”اعلیٰ“ افسران اور وزراء کو شاید ایک بلب تبدیل کرنا بھی نہ آتا ہو۔۔۔انتہائی پیچیدہ پاور جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کی جانکاری تو دور کی بات۔۔۔لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ فیصلہ سازی کا خدائی علم صرف انہیں ہی ودیعت کیا گیا ہے۔ اسی طرح، فوج کے کسی سینیئر اور قابل ترین جرنیل کا بھی عملی میدان کا تجربہ دس بارہ سال سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ ہرصوبیدار کا یہی تجربہ کم سے کم بھی تیس سال کا ہوتا ہے۔ مزید برآں، وار کورسز میں بھی سپاہ گری کا کوئی ایسا ”جادوئی علم“ نہیں پڑھایا جاتا جسے طویل عملی تجربے سے لیس عام سپاہی سمجھ نہ سکے۔ یہی صورتحال آپ کو تب نظر آتی ہے جب دو اینٹیں جوڑ نے اور کاغذ پر ایک سادہ ڈرائنگ بنانے کی صلاحیت سے محروم کسی بلڈر کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں عمارت یا رہائشی منصوبہ اس کا بنایا ہوا ہے۔ جو صنعتکار مشینری وٹیکنالوجی سے نابلد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی شرٹ پر بٹن ٹانگنے کی قابلیت سے بھی عاری ہے اسے ’ٹیکسٹائل کنگ‘ کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کاروباری اور انتظامی نوعیت کے فیصلے بھی یہ لوگ خود نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے بھی مینیجرز کی ایک فوج موجود ہوتی ہے جو بنیادی طور پر تنخواہ دار ملازم ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھجن گانے کے لئے کسی نامی گرامی پنڈت اور بائبل و قرآن پڑھنے کے لئے کسی بڑے پادری یا مولانا کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کام کوئی بھی عام آدمی کر سکتا ہے۔ باقی ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ کاروں اور پیشہ ور دانشوروں کی ”دانش“ سے تو ہم پناہ مانگتے ہیں۔ یہ ملک کے محنت کش عوام نہیں بلکہ یہی ”سیانے“ لوگ تھے جنہیں اس امر کا یقین تھا کہ کرکٹ کا بلا گھمانے کے ”ہنر“ سے آراستہ ایک فردِ واحد ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم اپنے ناقدین سے صرف اتنا کہیں گے کہ کسی بھی شہر کی انتظامیہ کے ”اعلیٰ افسران“ سال کے آدھے دن چھٹی پر ہوتے ہیں لیکن شہر میں کسی کو کان وکان خبر نہیں ہوتی لیکن اگر میونسپلٹی کے محنت کش ایک دن بھی چھٹی پر چلے جائیں تو آپ کا گلیوں میں چلنا محال ہو جائے گا۔ اب اگر آپ کے ذہن و دل میں علمی و منطقی دیانت داری کی ہلکی سی رمق بھی موجود ہے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ سماج میں اہمیت، عزت اور فیصلہ سازی کے اصل حقدار کون لوگ ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب محنت کش طبقہ ہی سماج کو اپنی محنت کے بلبوتے پر زندگانی بخشتا ہے تو پھر وہ اتنا محروم کیوں ہے؟ اہمیت اور عزت وتکریم تو دور کی بات، وہ تو بنیادی ضروریات زندگی کے لئے بھی ترستا ہے۔ اس کا کارن بھی یہ مٹھی بھر بیکار ”بڑے لوگ“ ہی ہیں جو ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت رکھنے کے سبب محنت کش طبقے کو کسی جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور دن رات اس کا خون پی رہے ہیں۔ سماج کی تمام دولت محنت کش پیدا کرتے ہیں لیکن نجی ملکیت کے نظام یعنی سرمایہ داری کی وجہ سے وہ سمٹ کر ان طفیلیوں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔ صرف سرمایہ داری کے ایک مزدور انقلاب کے ہاتھوں خاتمے اور ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر، جیسا کہ ماضی میں بالشویک پارٹی کی سربراہی میں 1917ء کے انقلابِ روس میں محنت کشوں نے کیا تھا، کے ذریعے ہی ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تخلیق کیا جا سکتا ہے جہاں نہ صرف محنت کش عوام کو تمام تر ضروریات زندگی میسر ہوں بلکہ انہیں ان کے پیداواری کردار کے کارن وہ اہمیت اور عزت و تکریم بھی ملے جس کے وہ حقدار ہیں۔