|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: زین العابدین|
2005ء میں شائع ہونے والی ایلن ووڈز کی یہ تحریر بربریت اور انسانی سماج کے ارتقا پر روشنی ڈالتی ہے۔ مابعد جدید تحاریر میں، اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تاریخ، واقعات یا حادثات کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو کہ بے معنی اور ناقابل توجیہہ ہے۔ نہ ہی اس کی حرکت کے ایسے کوئی قوانین ہیں جن کا ہم ادراک حاصل کرسکیں۔ اس سے ملتا جلتا ایک خیال آج کل کچھ اکیڈمک حلقوں میں بے حد مقبول ہے کہ سماجی ارتقا اور ثقافت کی اعلیٰ و ادنیٰ اشکال جیسی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ تاریخ میں ترقی کا سرے سے یہ انکار، در اصل، سرمایہ دارانہ زوال کے عہد کی بورژوازی کی نفسیات کا خاصہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کہا جاتا ہے کہ ہنری فورڈ نے کہا تھا کہ ”تاریخ (محض) بکواسیات (History is Bunk) ہے“۔ آپ میں سے ان افراد کے لئے جو امریکہ میں رائج عامیانہ الفاظ کی پیچیدگیوں سے واقفیت نہیں رکھتے، Bunk کا مطلب بکواس ہے اور بکواس ایسی چیز کو کہا جاتا جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔ یہ کہاوت، اگرچہ، زیادہ شائستہ تو نہیں مگر اس نقطہ نظر کی پوری طرح ترجمانی کرتی ہے جس نے حالیہ چند سالوں میں زور پکڑا ہے۔ فورڈ موٹر کمپنی کے مشہور و معروف بانی نے تاریخ کی اپنی اس تعریف کومزید بہتر بناتے ہوئے کوسنے کے انداز میں اس میں یہ اضافہ کیا، ”بس ایک کے بعددوسری چیز“، جو کہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک انداز ہے۔
بعینہٰ اسی خیا ل کا پرچار قدرے خوشنما (مگر غلطیوں سے بھرپور) انداز میں وہ لوگ کرتے نظر آتے ہیں جن کے سروں پر مابعد جدیدیت کا خبط سوار ہے۔ کچھ تو اس (خبط) کو ایک درست فلسفہ بھی مانتے ہیں۔ درحقیقت، یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ اس خیال کا اظہار دہائیوں قبل انگریز مورخ اور کتاب ”سلطنتِ روم کا زوال اور انہدام“ کے مصنف ایڈورڈ گیبن نے کیا۔ ایڈورڈ گیبن کے مشہور الفاظ میں تاریخ ”نوعِ انسان کے جرائم، حماقتوں اور کم بختیوں کے دفتر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔“ (گیبن، جلد اول، صفحہ 69)
یہاں تاریخ کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ بے معنی اور ناقابل توجیہہ واقعات یا حادثات کی ایک بے ترتیب لڑی کی ہے۔ نہ ہی اس کی حرکت کے ایسے کوئی قوانین ہیں جن کا ہم ادراک حاصل کرسکیں۔ چنانچہ، اس کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہوگا۔ اس سے ملتا جلتا ایک خیال آج کل کچھ اکیڈمک حلقوں میں بے حد مقبول ہے کہ سماجی ارتقا اور ثقافت کی اعلیٰ و ادنیٰ اشکال جیسی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ ”ترقی“جیسی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تصور اب پرانا ہو چکا ہے۔ یہ 19 ویں صدی کی باقیات ہے جب اس تصور کی وکٹوریائی لبرلز، فیبئین سوشلسٹوں اور کارل مارکس نے خوب تشہیر کی تھی۔
تاریخ میں ترقی کا سرے سے یہ انکار، در اصل، سرمایہ دارانہ زوال کے عہد کی بورژوازی کی نفسیات کا خاصہ ہے۔ یہ اس امرکی ایماندارانہ عکاسی ہے کہ سرمایہ داری میں ترقی فی الواقع اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور (اب) زوال کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ بورژوازی اور اس کے تنخواہ دار دانشور اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کہ وہ نامیاتی طور پر اس حقیقت کے ادراک کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ لینن ایک کھائی کے کنارے پر کھڑے شخص کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تاہم، انہیں (بورژوازی کو) حقیقی صورتحال کا تھوڑا بہت ادراک ہے اور (یہی وجہ ہے کہ) وہ بند گلی میں پھنسے اپنے اس نظام کا جواز تلاش کرنے کے چکر میں سرے سے ترقی کا ہی انکار کردیتے ہیں۔
یہ خیال شعور میں اس قدر راسخ ہوچکا ہے کہ اس کا اطلاق نوع انسان کے ارتقاسے باہر بھی کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ گرامی القدرمفکر سٹیفن جے گولڈ، جس کی ”پنکچوایٹڈ ایکوی لبریا“ کی تھیوری نے ارتقا کو دیکھنے کے زاویے کو ہی بدل کر رکھ دیا، بھی اس کے شر سے بچ نہیں پایا۔ وہ اس بات پر بحث کرتا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ارتقائی عمل میں ادنیٰ سے اعلیٰ درجے کی جانب ترقی ہوئی۔ نتیجتاًخوردبینی جاندار بھی اسی درجے پررکھے جائیں جس درجے پر انسانوں کو شمار کیاجاتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست بھی ہے کہ تمام زندہ اجسام ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں (انسانی جینوم اس کا قطعی ثبوت ہے)۔ انسان خدا کی کوئی خاص تخلیق ہرگز نہیں بلکہ ارتقائی عمل کی پیداوار ہے۔ نہ ہی یہ ارتقائی عمل کسی عظیم منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ہم (انسان) جیسی ہستیوں کی تخلیق تھا (جیسا کہ ٹیلیو لوجی بتاتی ہے جو کہ یونانی زبان کے لفظ ٹیلوس سے ماخوذ ہے جس کا معنی اختتام ہے)۔ تاہم، ایک غلط خیال کو رد کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دوسری انتہا پر جا پہنچا جائے جو کہ نئی غلطیوں کو جنم دینے کا سبب بنے۔
یہ کسی قسم کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کوتسلیم کرنے کا سوال نہیں ہے، چاہے وہ الوہی مداخلت یا کسی قسم کی ٹیلیولوجی کا نتیجہ ہو لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ارتقا کے قوانین ہیں، جو کہ فطرت کا خاصہ ہیں، جو واقعتا حیات کی سادہ اشکال سے پیچیدہ اشکال کی جانب ترقی کا تعین کرتے ہیں۔ حیات کی اولین اشکال مستقبل کے تمام تر ارتقائی مراحل کے بیج اپنے اندر سموئے ہوئے تھیں۔ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے سہارا لیے بنا ہی آنکھوں، ٹانگوں اور دیگر اعضا کے نمودار ہونے کی وضاحت باآسانی کی جاسکتی ہے۔ ایک مخصوص مرحلے پر ہمیں مرکزی اعصابی نظام اور دماغ بنتا دکھائی دیتا ہے۔ اور بالآخر ہومو سیپیئنز کے ساتھ ہم انسانی شعور تک آپہنچتے ہیں۔ مادہ خودشعوری کی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔ غیر نامیاتی مادے سے نامیاتی مادے (یعنی حیات) کی تشکیل کے بعد یہ سب سے بڑا انقلاب تھا۔
اپنے نکتہ چینوں کی تشفی کی خاطر غالباً ہمیں یہ اضافہ کرنا پڑے گا کہ یہ ہمارا نقطۂ نظر ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر جرثومے کوئی نقطۂ نظر رکھنے کے قابل ہوتے تو وہ سنجیدہ اعتراضات اٹھاتے۔ مگر ہم انسان ہیں اور ہمیں چیزوں کو لازمی طور پر انسانوں کی طرح ہی دیکھنا ہوگا۔ اور ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ارتقائی عمل حیات کی سادہ اشکال سے پیچیدہ اور ہمہ گیر اشکال کی جانب ترقی کی عکاسی کرتا ہے یا باالفاظ دیگر حیات کی ادنیٰ سے ارفع اشکال کی جانب ترقی۔ ایسی کسی تشکیل پر اعتراض اٹھانا بے معنی معلوم ہوتا ہے جو کہ ’عالمانہ‘تو ہوسکتا ہے مگر سائنسی ہرگز نہیں۔ یہ کہنے کا مقصد کسی طور ان بے ضرر جرثوموں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہر گز نہیں جو کہ بہر طور ہم سے کہیں پہلے سے یہاں موجود ہیں اور اگر سرمایہ داری کو اکھاڑ نہ پھینکا گیا تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں بھی صرف یہی موجود رہیں۔
ثقافت اور سامراجیت
اگررائج فیشن کے مطابق کسی شخص کے حیات کی ادنیٰ اور اعلیٰ اشکال کے تذکرے کی ممانعت ہے کہ اس سے جرثوموں اور دیگر انواع کی دل آزاری کا احتمال ہے تو (ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ) کیا یہ دعویٰ کرنے کی اجازت ہے کہ غلام داری کے مقابلے میں بربر (Barbarians) افراد سماجی و ثقافتی ترقی کے لحاظ سے ادنیٰ درجے پر فائز تھے۔ اس بات کی دلالت کرنا کہ بربروں کی اپنی ثقافت تھی، کوئی بڑی بات نہیں۔ جب انسان نے پہلی بار پتھر کے اوزار بنائے، اس وقت سے یہ کہنا درست ہے کہ ہر عہد کی اپنی ثقافت تھی۔ اور یہ بات بھی یقینا درست ہے کہ ابھی حالیہ عرصے تک بھی ان ثقافتوں کی کوئی خاص قدر دانی نہیں کی جاتی تھی۔ بورژوازی میں یہ رجحان ہمیشہ سے رہا ہے کہ وہ چند ایک ثقافتوں کی حاصلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ باقیوں کو گھٹیا ٹھہراتی آئی ہے۔ اس کے در پردہ ان کے مذموم مقاصد کار فرما ہیں جن کا مقصد دیگر اقوام کو غلام بنانا اور ان پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے ان کا استحصال ہے اور اس جبر و استحصال کو چھپانے کی خاطر ثقافتی بالادستی کا منافقانہ سوانگ رچایا جاتا ہے۔
اسی بینر تلے شمالی ہسپانیہ کے عیسائیوں (جن کے آباؤ اجداد حقیقتاً بربر گوتھ (Barbarians Goths) تھے) نے اسلام کے زیر اثر اندلس کے نہری نظام اور شاندار ثقافت کو روند ڈالا اور یہیں نہیں رُکے بلکہ قدیم وسطی میکسیکو میں بسنے والی ازٹیک (Aztecs) اور جنوبی میکسیکو کے اِنکا (Incas) کی انتہائی بھرپور اور خوشحال ثقافتوں کو بھی برباد کرتے چلے گئے۔ اسی جھنڈے تلے برطانوی، فرانسیسی اور ولندیزی نوآبادکاروں نے افریقہ، ایشیا اور مشرق بعید کے لوگوں کو غلام بنایا۔ بدترین غلامی سے بھی ان کا جی نہ بھرا اور یہاں کے لوگوں کو نا صرف ان کی زمینوں سے محروم کیا گیا بلکہ ان کی روحوں تک کو لوٹ لیا گیا۔ فوجیوں اور غلاموں پر مسلط نگرانوں نے جس کام کا آغاز کیا اس کو عیسائی مشنریوں نے پایہئ تکمیل تک پہنچایا اور لوگوں کو ان کی ثقافتی شناخت تک سے محروم کردیا گیا۔
یہ سب بعینہ حقیقت ہے اور یہ لازم ہے کہ تمام افراد کی ثقافت کا احترام کیا جائے اور محبت سے پیش آیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہر عہد اور اس عہدکے لوگوں نے انسانی ثقافت کے اس عظیم خزانے میں اپنا حصہ ڈالا جو کہ ہمارا اجتماعی ورثہ ہے۔ لیکن کیا اس سب کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک ثقافت اتنی ہی عمدہ ہے جتنی کہ کوئی دوسری؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ دلیل نہیں دے سکتا کہ ابتدائی پتھر سے بنی کلہاڑیوں (جن میں سے بعض میں حیرت انگیز حد تک جمالیاتی ذوق جھلکتا ہے) اور مائیکل اینجلو کے تراشے ہوئے مجسمہئ داؤدی میں کسی قسم کے جمالیاتی ارتقا کا اظہار نہیں ہوتا؟ قصہ مختصر، کیا تاریخِ انسانی میں ترقی یا ارتقا کی بات کرنا ہی ممکن نہیں؟
منطق میں ایک مسلمہ میتھڈ ہے جس کی مدد سے کسی بھی دلیل کو اس کی انتہا پر لے جاکر اس کو لایعنیت میں بدل کر رکھ دیا جاتا ہے۔ کم و بیش یہی کچھ ہمیں علم البشر، تاریخ اور عمرانیات کے جدید رجحانات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سرمایہ داری میں سائنس جتنی معاشرے کے نزدیک ہوتی جاتی ہے اتنی ہی غیر سائنسی ہوتی چلی جاتی ہے۔ نام نہاد سوشل سائنسز کسی طور سائنس کہلانے کی حقدار نہیں بلکہ یا تو یہ سرمایہ داری کے جواز پیش کرنے کی بھونڈی کوششیں ہیں یا ان کا مقصد مارکسزم کو بدنام کرنا ہے (بہر صورت میں مقصد ایک ہے)۔ یقینا، یہ بات ماضی پر بھی صادق آتی ہے جب نام نہاد ماہرین بشریات نام نہاد پسماندہ اقوام کی ثقافت کو گھٹیا قرار دے کر ان کو غلام بنانے کے جواز پیش کرنے میں سرگرداں رہے۔ لیکن اب بھی صورتحال چنداں مختلف نہیں جب کچھ مکتبہئ فکر چھڑی کو مخالف سمت میں موڑتے نظر آتے ہیں۔
یہ بات سراسر مبنی بر حقیقت ہے کہ سامراجیوں نے افریقہ، ایشیا اور دیگر علاقوں کی ”پسماندہ اقوام“ کی ثقافت کو دیدہ و دانستہ طور پر نیچ بتا یا، یا سرے سے رد ہی کردیا۔ سامراج کے حمایتی انگریز شاعر کِپلنگ، جو کہ ”جنگل بک“ نامی کتاب کا مصنف ہے، نے ان (اقوام) کو ”قانون سے محروم نیچ نسلیں“ قرار دیا۔ یہ ثقافتی سامراجیت، بلا شک و شبہ، لاکھوں افراد کی نوآبادیاتی غلامی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش تھی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جو وحشتیں اس نام نہاد مہذب سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج نے نوع انسان پر مسلط کیں اس کے سامنے ماضی کے تمام تر وحشیانہ اور غیر انسانی افعال ماند پڑجاتے ہیں۔
یہ بھی عجب لیکن ہولناک پہیلی (Paradox) ہے کہ جیسے جیسے نوع انسان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، جتنی سائنس اور تکنیک ترقی کی نئی منازل طے کرتی ہے؛ توں توں اس کرہئ ارض پر بسنے والوں کی ایک بھاری اکثریت کے مصائب، بھوک، افلاس اور جبر میں کمی آنے کی بجائے ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو تو اس نظام کے معذرت خواہان بھی ماننے پر مجبور ہیں مگر اس کے حل کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ اور نہ ہی وہ حل کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات ماننے سے ہی انکاری ہیں کہ آج نوع انسان جس بند گلی میں پھنس چکی ہے اس کا کارن وہی نظام ہے جس کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ تاہم صرف بورژوازی ہی ضروری نتائج اخذ کرنے سے انکاری نہیں ہے بلکہ یہ بات ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو خود کو’بایاں بازو‘ اور’ریڈیکل‘ گردانتے ہیں۔ کئی ایک ایسی نامور ہستیاں موجود ہیں جن کے نزدیک تمام تر برائیوں کی جڑ سائنس، تکنیک اور صنعت میں ہونے والی ترقی ہے اور بہتر یہی ہوگا کہ ہم قبل از سرمایہ دار ی میں واپس چلے جائیں۔وکٹوریائی لوگوں (ملکہ وکٹوریا کا عہد 1837-1901ء) کا تاریخ کو دیکھنے کا نقطہئ نظر انتہائی یک رخا تھا۔ ان کے نزدیک تاریخ ایک فتح مندانہ پیش قدمی تھی جس کی قیادت، یقینا، انگلستانی سرمایہ داری کر رہی تھی، ترقی اور روشن خیالی کی جانب پیش قدمی جو اپنے رستے میں کھڑی ہر رکاوٹ کو پرے دھکیلتی جا رہی تھی۔ اسی خیال کی بنیاد پر سامراجیت اور نوآبادیات کو جواز فراہم کیا گیا۔ نام نہاد مہذب برطانوی انجیل مقدس (اور ساتھ میں بڑے بڑے جنگی جہازوں، توپوں اور طاقتور بندوقوں سے لیس افواج کے ہمراہ) ہاتھوں میں تھامے ہندوستان اور افریقہ پہنچے تاکہ جہالت کے اندھیروں میں گھرے مقامی افراد کو مغربی تہذیب کی لذتوں سے روشناس کروا سکیں۔ برطانوی (بشمول بیلجیئم، ولندیزی، فرانسیسی اور جرمن) ثقافت کی لذتوں سے منہ موڑنے والوں کو بڑی سرعت کے ساتھ گولیوں اور سنگینوں سے ’مہذب‘ بنا دیا گیا۔
موجودہ عہد میں، تاہم، بورژوازی کے سوچنے سمجھنے کا انداز کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ جوں جوں عالمی سرمایہ داری کا بحران ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے توں توں وہ بے یقینی، قنوطیت اورمایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ وقت کی تلخ حقیقتوں کی سامنے انسانی ترقی کی ناگزیریت کے پرانے راگ بے سری دھنوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی”ترقی“ کا لفظ ادا کیا جاتا ہے تو بے ساختہ حقارت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر آ براجمان ہوتی ہے۔ اور قطعاً یہ کوئی حادثہ نہیں۔ لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونے لگا ہے کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ترقی کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ مگر یہ تو، درحقیقت، اس بات کی غمازی ہے کہ سرمایہ داری بند گلی میں آن پھنسی ہے، جو کہ دہائیوں قبل ہی نظام کو ترقی دینے کی اپنی صلاحیت کھو چکی ہے اوراور نوع انسان کے راستے میں ایک دیوہیکل رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ صرف اور صرف اس حد تک اور صرف اس پیرائے میں ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کی بات کرنا ہی ناممکن ہے۔
اس رجحان کا سامنا ہمیں کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ سلطنت روم کے انہدام سے قبل، زوال کے طویل عہد میں بہت سے لوگوں کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دنیا کا انت ہونے کو ہے۔ بالخصوص، عیسائیت میں اس خیال نے زیادہ زور پکڑا۔ پوری کی پوری ”کتابِ مکاشفہ“ (Book of Revelation) (بائبل کا آخری حصہ۔ مترجم) اسی خیال کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ دنیا کا خاتمہ ہونے کو ہے۔ لیکن، در اصل، جس چیز کا خاتمہ ہو رہا تھا وہ دنیا نہیں تھی بلکہ ایک مخصوص سماجی و معاشی نظام اپنے انت کو پہنچ رہا تھا۔ جی ہاں، یہ غلام داری نظام کا انت تھا جو کہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور ماضی کی طرز پر پیداواری قوتوں کو ترقی دینے سے قاصر ہوچکا تھا۔
یہ مظہر قرونِ وسطیٰ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جب بعینٖہ اسی خیال کا خوب چرچا تھا کہ دنیا کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ لوگ جوق در جوق عزادار سنگتوں کا حصہ بننے لگے جو کہ پورے یورپ میں محو سفر رہتے تھے۔ خود کو کوڑے مارتے، ایذا پہنچاتے تاکہ نسل انسانی کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوسکے اور روز آخرت سرخرو ہوسکیں۔ یہاں بھی، ایک بار پھر ہم دیکھتے ہیں کہ، جو چیز اپنے انت کو پہنچ رہی تھی وہ دنیا نہیں بلکہ جاگیرداری نظام تھا جو کہ اپنی طبعی عمر پوری کرچکا تھا اور بالآخر ابھرتی بورژوازی نے اس نظام کو اکھاڑ پھینکا۔
تاہم، جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مخصوص سماجی و معاشی نظام اپنا تاریخی کردار ادا کرکے نسل انسانی کے راستے میں ایک رجعتی رکاوٹ بن چکا ہے، اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بذات خود ترقی کا خیال ہی بے معنی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ ماضی میں کوئی ترقی نہیں ہوئی (بشمول سرمایہ داری کے) اور نہ ہی اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ ترقی کا سفر بھی رُک جائے گا۔ چنانچہ، ایک خیال جو پہلی نظر میں منطقی معلوم پڑتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقت میں سوشلزم کے خلاف سرمایہ داری کے دفاع کی کوشش ہے۔ ایسے کسی بھی خیال کو رتی بھر گنجائش دینا بھی اصولی انقلابی موقف کو چھوڑ کر رجعت کی دلدل میں جا گرنے کے مترادف ہوگا۔
تاریخی مادیت
سماج ہر لحظہ تغیر پذیر ہے۔ تاریخ ان تبدیلیوں کی فہرست بندی اور تشریح کی کوششوں کا نام ہے۔ مگر وہ کون سے قوانین ہیں جو اس تاریخی تغیر و تبدل کو کنٹرول کرتے ہیں؟ کیا ایسے کوئی قوانین وجود بھی رکھتے ہیں؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو انسانی تاریخ ناقابل فہم بن کر رہ جائے گی، جیسا کہ گیبن اور ہنری فورڈ خیال کرتے تھے۔ تاہم، مارکسسٹ تاریخ کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ جس طرح حیاتیاتی ارتقا کے داخلی قوانین ہیں جن کی ناصرف وضاحت کی جاسکتی ہے بلکہ ان کی وضاحت سب سے پہلے ڈارون نے کی اور حالیہ عرصے میں جینیٹکس کے میدان میں ہونے والی تیز ترین ترقی کی مدد سے ان کو مزید جانچا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی سماج کے ارتقا کے بھی اپنے داخلی قوانین ہیں جن کی تشریح مارکس اور اینگلز نے کی۔
وہ لوگ جو انسانی سماجی ارتقا کے قوانین کے وجود سے ہی انکاری ہیں، ناگزیر طور پر تاریخ کو موضوعی اور اخلاقی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ، گیبن کی طرح (مگرگیبن جیسی غیر معمولی ذہانت کے بنا ہی)، جب نہ ختم ہونے والے پرتشدد مناظر دیکھتے ہیں تو بے کلی کے عالم میں سر ہلاتے ہیں اور کفِ افسوس ملتے ہیں کہ ’ایک انسان دوسرے انسان کا گلہ کاٹ رہا ہے‘۔ سائنسی نقطہ نظر کی بجائے ہمیں یہاں مذہبی نقطہ نظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم، ہمیں کسی اخلاقی وعظ کی نہیں بلکہ تعقلی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ کٹے ہوئے اور الگ تھلگ حقائق سے بالاتر ہو کر، یہ لازم ہے کہ وسیع پیمانے پر کارفرما رجحانات اور ایک سماجی نظام کی دوسرے سماجی نظام میں تبدیلی کے عمل کا ادراک حاصل کیا جائے اور اس بنیادی ترین قوت محرکہ کو اخذ کیا جائے جو ان تبدیلیوں کا تعین کرتی ہے۔
تاریخ پر جدلیاتی مادیت کے طریق کار کے اطلاق سے نا صرف یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ تاریخ انسانی کے اپنے قوانین ہیں بلکہ یہ کہ تاریخ کو ایک مسلسل عمل کی صورت میں جانا بھی جا سکتا ہے۔ چنانچہ مختلف سماجی و معاشی نظاموں کے عروج و زوال کی سائنسی وضاحت بھی کی جاسکتی ہے کہ آیا مذکورہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی اور نتیجتاً انسانی تہذیب کے دامن کو وسیع کرنے اور فطرت پر نوع انسان کے غلبے کو بڑھاوا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔
مارکسزم کا ماننا ہے کہ لاکھوں سالوں پر محیط انسانی سماج کا ارتقا ترقی کے سفر کی عکاسی کرتا ہے مگر یہ سفر کوئی سیدھی لکیر میں طے نہیں ہواجیسا کہ وکٹورینز غلط طور پر خیال کرتے تھے (جن کا ارتقا کو دیکھنے کا نقطۂ نظر انتہائی سطحی اور غیر جدلیاتی تھا)۔ انسانی ترقی کا دارومدار حتمی طور پر پیداواری قوتوں کی ترقی پرہے اور یہی تاریخی مادیت کا بنیادی مقدمہ/دلیل (Premise) ہے۔ یہ اہم ترین نتیجہ ہے جو تاریخی مادیت اخذ کرتی ہے اور صرف اور صرف اسی بنیاد پر تاریخ کا سائنسی ادراک حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مارکس اور اینگلز سے قبل اکثر لوگ تاریخ کو واقعات کے ایک بے ربط سلسلے کی صورت میں دیکھتے تھے یا فلسفے کی زبان میں بات کی جائے تو ”حادثات“ کی شکل میں دیکھتے تھے۔ نہ ہی اس کی کوئی خاص عمومی وضاحت ملتی ہے، نہ ہی اس نقطۂ نظر کے مطابق تاریخ کے کوئی داخلی قوانین تھے۔ جیسے ہی کوئی شخص اس نقطۂ نظر کو تسلیم کرتا ہے تو نتیجتاً افراد کا کردار ہی تاریخی واقعات کی واحد قوتِ محرکہ کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔۔۔ ”عظیم مرد و زن“ جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا تعین کیا۔ بالفاظ دیگر، ہم تاریخی عمل کے عینیت پرستانہ اور موضوعی تصور میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ یوٹوپیائی سوشلسٹوں کا بھی یہی نقطۂ نظر تھا اور یہی وجہ تھی کہ اپنی تمام تر وسیع النظری اور رائج الوقت نظام پر بے رحمانہ تنقید کے باوجود تاریخی عمل کے بنیادی قوانین کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ان کے نزدیک سوشلزم محض ایک ”اچھا خیال“ تھا۔ ایسا خیال جس کا تصور ہزاروں سال قبل کرنا بھی عین ممکن تھا۔ یا اگلی ہی صبح اس کا خیال گزرسکتا تھا۔ اگر اس کو ہزار ہا سال قبل ہی ایجاد کرلیاجاتا تو نسل انسانی ان گنت مشکلات سے بچ جاتی!
یہ مارکس اور اینگلز تھے جنہوں نے پہلی بار یہ وضاحت کی کہ حتمی طور پر تمام تر انسانی ترقی کی بنیاد پیداواری قوتوں کی ترقی پر منحصر ہے۔ اور یوں انہوں نے تاریخ کی جانکاری کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر لا کھڑا کیا۔ کیونکہ سائنس (کے طریقہ کار) کی شرط اولیٰ ہی یہ ہے کہ ہم موجود/فوری (Particular) سے پرے دیکھتے ہوئے عمومی قوانین تک پہنچ سکیں۔ مثال کے طور پر، ابتدائی مسیحی کمیونسٹ تھے (گو کہ وہ یوٹوپیائی کمیونسٹ تھے جن کا کمیونزم پیداوار کی بجائے محض اس کے استعمال اور تقسیم کار میں تبدیلی پر مبنی تھا)۔ کمیونزم کے اطلاق کی ان کی ابتدائی کوششیں بیکار ثابت ہوئیں اور ایسا ہونا یقینی تھاکیونکہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی موجودہ سطح حقیقی کمیونزم کے فروغ کے لیے ناکافی تھی۔
حالیہ عرصے میں، تاریخ میں ترقی کے وجود سے انکار کا یہ خیال نام نہاد بائیں بازو کے چند دانشورانہ حلقوں میں بھی خاصا مقبول ہوا ہے۔ ایسے رجحان، کسی حد تک، ثقافتی سامراجیت اور یوروسنٹر ازم کے خلاف ایک صحت مندانہ ردعمل کا اظہار ہیں، جس کا اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک انسانی ثقافت اتنی ہی معقول اور عمدہ ہے جتنی کوئی دوسری ثقافت۔ اس طرح سے، یورپ کے یہ ترقی پسند دانشور خواتین و حضرات سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے آباؤاجداد کی جانب سے سابقہ نوآبادیات پر قصداً ڈھائے گئے مظالم اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی ”تلافی“ کر رہے ہیں، اگرچہ یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ان خواتین و حضرات کی نیت نیک ہو مگر ان کی بنیادیں سراسر غلط ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کروڑوں مظلوموں اور استحصال زدہ عوام کے لیے یہ سب کوئی حیثیت و وقعت نہیں رکھتا۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یورپی دانشوروں نے ان کی قدیم ثقافتوں کو پھر سے کھنگالا ہے اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ یہ علامتی تلافیاں اور ریڈیکل لفاظی سب بے معنی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف ایک حقیقی جدوجہد کو عالمی سطح پر منظم کیا جائے۔ تاہم، اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے لازمی ہے کہ اس کو مضبوط بنیادوں پر منظم کیا جائے۔ بلا کسی شک و شبہ کے یہ ضروری ہے کہ حقائق کی درستگی کی جائے اورہر قسم کے نسلی اور سامراجی تعصبات کے خلاف لڑائی کو منظم کیا جائے۔ لیکن ایک غلط خیال کے خلاف لڑائی میں حدود و قیود کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کیونکہ ایک درست خیال کو بھی اگر کھینچ تان کر انتہا تک لے جایا جائے تو وہ اپنے الٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ انسانی تاریخ کی ترقی کا یہ سفر کسی سیدھی لکیر میں ہوا جس میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ کئی نشیب و فراز آئے۔ تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے جب مختلف وجوہات کی بنا پر سماج پیچھے دھکیلا گیا، ترقی کا سفر رُک گیا اور تہذیب و ثقافت کو نقصان پہنچا۔ سلطنتِ روم کے انہدام کے بعد کا یورپ اس کی مثال ہے، جس عہد کو کم از کم انگریزی زبان میں Dark Ages یعنی عہد تاریک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں چند پروفیسر صاحبان کے ہاں ایک اور رجحان دیکھا گیا۔ مذکورہ پروفیسر صاحبان تاریخ کو نئے سرے سے لکھ رہے ہیں تاکہ بربروں (Barbarians) کو زیادہ قابل قبول بنا کے پیش کیا جا سکے۔ نہ تو یہ عمل ”زیادہ سائنسی“ اور نہ ہی ”زیادہ معروضی“ ہے بلکہ یہ سراسر احمقانہ ہے۔
سوال کو کیسے پیش نہیں کیا جانا چاہیے
حال ہی میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے Barbarians نامی ایک سیریز نشر کی جو کہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ مذکورہ سیریز ماہر بشریات اور کتاب Lost Civilizations of Stone Age کے مصنف رچرڈ رَجلے کی پیش کش ہے۔ برطانوی جزائر پر چڑھائی کرنے والے قدیم جرمن قبائل اینگلز (Angles) اور سیکسونز (Saxons) پر بنا سیریز کا دوسرا حصے دیکھنے کے بعد میں رَجلے کے مرکزی تھیسس تک پہنچنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہوں۔ وہ یہ بحث کرتا ہے کہ انہوں (اینگلز اور سیکسون قبائل) نے جو سماج اپنے پیچھے چھوڑا وہ اس سے زیادہ مہذب تھا جس کو انہوں فتح کیا تھا۔ رَجلے کہتا ہے کہ ”سلطنت روم، جس کا تمام تر انحصار غلامی پر تھا، کی جگہ ایک ایسے (نسبتاً) منصفانہ سماج نے لی جہاں ہنر مندی اور دستکاری کی ترویج اور قدر کی جاتی تھی“۔
عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ برطانیہ کو رومنوں سے ورثے میں ایک مہذب معاشرہ ملاجس کو، بعد ازاں، عہد تاریک میں یہاں چڑھ دوڑنے والے بربر قبائل نے برباد کر دیا۔ رَجلے کہتا ہے کہ اصل معاملہ یہ نہیں: ”عہد تاریک کو سمجھنے کے اپنے اس سفر میں، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایسی بہت سی چیزیں جو میرے لیے قابل قدر ہیں، ان کی بنیادیں رومن تہذیب کی بجائے اس سماج سے جا ملتی ہیں جو بربروں نے سلطنتِ روم کے کھنڈرات پر تعمیر کیا۔“
رَجلے نے حیران کن دریافت کی کہ سیکسون قبائل تیز رفتار بحری جہاز بنانے کا فن جانتے تھے۔ وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بربر ہنر و فن کا ایک خزانہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ وہ کہتا ہے: ”وہ بے پایاں فنون میں طاق تھے۔ اس عہد کی دھات سازی، لکڑی کا کام اور زیورات دیکھ کر ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔“ لیکن رومن ناصرف بحری جہاز بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سڑکیں، پختہ کھالے، شہر اور بہت کچھ بنانا بھی جانتے تھے۔ رَجلے اس بات سے چشم پوشی کر جاتا ہے کہ ان چیزوں کو یا تو بربروں نے تباہ کردیا یا ان کی بابت غفلت برتی۔ اس سب کا نتیجہ تجارت کی خوفناک تباہی اور پیداواری قوتوں اور ثقافت کی گراوٹ کی صورت میں بر آمد ہوا اور (سماج) ایک ہزار سال کے لئے پیچھے دھکیلا گیا۔
وہ ماہر تلوار ساز ہیکٹر کول کے ایک مقولے کا حوالہ دیتا ہے جس کے بقول، ”سیکسون تلوارساز اپنے ہنر میں طاق تھے۔ وہ جاپانیوں سے چھ سو سال پہلے سے مختلف پھلدار ساخت کی تلواریں بنا رہے تھے۔“ واقعی اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس عہد کے تمام بربر قبائل جنگوں میں مہارت رکھتے تھے اور جس آسانی سے انہوں نے رومن دفاع کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے وہ اس امر کا واضح ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ بعد میں رومنوں نے بربروں کی کئی جنگی مہارتوں کو نقل کرنا شروع کردیا جن میں سے ایک چھوٹی کمانوں کا استعمال بھی تھا جس میں ’ہن‘ (Huns؛ خانہ بدوش جنگجو قبائل جنہوں نے چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں یورپ میں تباہی مچائے رکھی) مہارت رکھتے تھے۔ لیکن اس میں سے کوئی ایک بھی بات کسی بھی صورت یہ ثابت نہیں کرتی کہ بربر ترقی کے لحاظ سے رومنوں کے ہم پلہ تھے، ان سے برتر ہونا تو دورکی بات ہے۔
رَجلے وضاحت کرتا ہے کہ اینگلز اور سیکسون قبائل کا سمندر پار کرکے برطانیہ میں داخل ہونا ان جنگجوؤں کی ایسی کوئی بڑے پیمانے کی یلغار نہیں تھی بلکہ یہ سمندر پار کرنے والے تو پرامن مہاجروں کے چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جو کہ سر چھپانے کے لیے نئی جگہوں کی تلاش میں تھے۔ یہاں وہ (رجلے) مایوسی کے عالم میں دو چیزوں کو گڈ مڈ کر جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بربر قبائل ایسے علاقے کی تلاش میں تھے جہاں گزر بسر کی جاسکے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہونے والی لوگوں کی اس بڑے پیمانے پر نقل و حرکت کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ان ساحلی علاقوں میں، جو موجودہ نیدرلینڈ اور شمالی جرمنی پر مشتمل ہیں، سطح سمندر بلند ہونے کے سبب بودوباش رکھنا محال ہوگیا تھا۔ ایک روایتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ (اینگلز اور سیکسون قبائل) مشرق سے آنے والے دیگر قبائل کی وجہ سے دباؤ میں تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ متذکرہ اور دیگر وجوہات اس (نقل مکانی) کا سبب بنیں۔ عمومی طور پر اس بڑے پیمانے کی نقل مکانی کی وجوہات جو بھی ہوں، اس کو تاریخی حادثہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو چیز قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ میں اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے۔ اور یہ نقطہ ہی اس وقت زیر بحث ہے۔
رومنوں اور بربروں کے مابین ابتدائی میل جول قطعاً پر تشدد نہیں تھا۔ مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ صدیوں سے خاصی تجارت ہوتی چلی آرہی تھی۔ نتیجتاً، سلطنت کے قرب وجوار میں بسنے والے قبائل پر رومن ثقافت کا رنگ غالب آنے لگا جو کہ ایک ترقی پسندانہ امر تھا۔ ان میں سے بیشتربھاڑے کے سپاہی بنے اور رومن لشکروں میں خدمات سرانجام دیں۔ روم میں داخل ہونے والا پہلا گوتھک لیڈر، الیرک، ناصرف سابقہ رومن سپاہی بلکہ عیسائی (البتہ آرین قسم کا) بھی تھا۔ یہ بھی کافی حد تک واضح ہے کہ برطانیہ میں قدم رکھنے والے اوائلی سیکسون لوگ پرامن تاجر، بھاڑے کے سپاہی یا آبادکار تھے۔ اس کی دلالت اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق یہ لوگ (سیکسون) رومن سپاہ کے کوچ کرجانے کے بعد برطانوی ”بادشاہ“ وورٹِیگن کی دعوت پر برطانیہ آئے تھے۔
لیکن اس نکتے پر آکر، رَجلے کا نقطۂ نظر جواب دے جاتا ہے۔ جب مہذب اقوام اور بربر قبائل کے درمیان تجارت کی بات آتی ہے تو وہ اس اہم نکتے سے صرف نظر کر جاتا ہے کہ یہ تجارت ناگزیر طور پر ڈاکہ زنی، جاسوسی اور جنگوں کے زیر اثر تھی۔ بربر تاجر جس بھی قوم کے ساتھ تعلق میں آتے اس کی طاقت و کمزوریوں پر خاص نگاہ رکھتے تھے۔ جہاں کہیں کمزوری نظر آئی یہ مسلح جتھے لوٹ مار اور قبضہ گیری کی خاطر ”پر امن“ تجارتی تعلقات کی دھجیاں بکھیرتے وہاں چڑھ دوڑتے۔ محض عہد نامہئ عتیق (Old Testament) کا مطالعہ ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ اسرائیلی خانہ بدوش چرواہوں کے قبائل اور قدیم کنعانیوں میں بعینہ یہی تعلق تھا؛ کنعانی جو اس وقت مہذب شہری لوگ ہونے کے ناطے ترقی کی بلند سطح پر تھے۔
رومن، بربروں کے مقابلے میں اعلیٰ ثقافتی درجے پر فائز تھے، اس دعویٰ کو ذیل میں دی گئی مثال سے باآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ بربر قبائل روم کو فتح کرنے میں کامیاب رہے لیکن اس کے باوجود نا صرف یہ کہ وہ بڑی سرعت کے ساتھ یہاں مدغم ہوگئے بلکہ یہاں تک کہ اپنی زبان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور انہوں نے لاطینی زبان کاہی ایک لہجہ اختیار کرلیا۔ چنانچہ، ہم دیکھتے ہیں کہ فرینکس (Franks؛ ایک جرمن قبیلہ جس کا تذکرہ پہلی بار تیسری صدی عیسوی میں ملتا ہے۔مترجم) جن کی بدولت موجودہ فرانس کو شناخت کیا جاتا ہے، اپنی اصل میں ایک جرمن قبیلہ تھا جو کہ موجودہ جرمن زبان سے ملتی جلتی زبان بولتے تھے۔ ہسپانیہ اور اطالیہ پر حملے کرنے والے جرمن قبائل کے ساتھ بھی یہی ماجرا پیش آیا۔
مگربرطانیہ پر چڑھائی کرنے والے اینگلز اور سیکسون قبائل ان چند ایک مثالوں میں سے ایک ہیں جن کو اس عمومی اصول سے استثنا حاصل رہا کہ وہ اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ کیلٹک۔رومن۔بریٹون (Celtic Romano-Britons) ثقافت میں ضم نہ ہوسکے۔ انگریزی زبان بنیادی طور پر ایک جرمانوی زبان ہے (جس میں گیارہویں صدی کے بعد سے نارمن فرنچ کی آمیزش ہوئی)۔ درحقیقت، انگریزی زبان میں کیلٹک الفاظ کی آمیزش نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسری جانب ہسپانوی میں زبان میں ہمیں بے شمار عربی الفاظ ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہسپانوی زبان بولنے والے عیسائیوں نے جب ہسپانیہ کو فتح کیا اس وقت عرب ثقافتی لحاظ سے کئی گنا ترقی یافتہ تھے۔ اینگلو سیکسون کے اپنے سے ترقی یافتہ ثقافت میں جذب نہ ہونے کی واحد توجیہہ یہی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے قبضہ گیری کے لیے مسلط کی گئی خونریز جنگوں میں کیلٹک لوگوں کے خلاف قتل عام کی پالیسی اپنائی اور انہیں موت کے گھاٹ اتارتے چلے گئے۔
جذباتیت یا سائنس؟
ہم، اس بنا پر، یہ واضح اصول پیش کر سکتے ہیں: وہ حملہ آور لوگ جو کہ ثقافتی لحاظ سے مفتوحہ لوگوں سے پسماندہ ہوتے ہیں بالآخر مفتوحہ ثقافت میں رچ بس جاتے ہیں اور نہ کہ اس کے الٹ۔ اس بات پر یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ حملہ آوروں کا تعداد میں کم ہونا ہے مگر یہ اعتراض تجزیے کی کسوٹی پر ٹھہر نہیں پاتا۔ سب سے پہلے تو یہاں پر رَجلے خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مذکورہ نقل مکانیوں میں بڑی تعداد میں لوگ شامل تھے بلکہ پورے کے پورے قبائل شامل تھے۔ دوسرا یہ کہ کئی تاریخی مثالیں اس سے الٹ ثابت کرتی ہیں۔
جن منگولوں نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور مغلیہ سلطنت کی داغ بیل ڈالی وہ مکمل طور پر اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ ہندوستانی طرز و تمدن میں رچ بس گئے۔ بالکل یہی کچھ چین میں ہوا۔ تاہم، برطانیہ کے ہاتھوں ہندوستان کی فتح کے بعد وہ مقامی ثقافت میں ضم نہ ہوئے بلکہ اس کے بالکل برعکس، جیسا کہ مارکس وضاحت کرتا ہے، انہوں نے ہزاروں سال سے قائم قدیم ہندوستانی سماج کا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ، جہاں سرمایہ داری خوب پھل پھول رہی تھی، ہندوستان کے مقابلے میں ترقی کی بلند تر سطح پر موجود تھا۔
یہ، یقیناً، کہا جاسکتا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے قبل، ہندوستان ثقافتی لحاظ سے کہیں بلند تھا۔ اگرچہ یورپی فاتحین ہندوستانیوں کو نیم بربر خیال کرتے تھے مگر حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ قدیم ایشیائی طرز پیداوار کی بنیاد پر، ہندوستانی ثقافت نے عظیم الشان ترقی حاصل کی۔ مصوری، سنگ تراشی، فن تعمیر، موسیقی اور شاعری میں انہوں نے وہ اوج کمال حاصل کیا کہ سلطنت برطانیہ کے مہذب نمائندے بھی اس کے گرویدہ ہوگئے۔
نام نہاد مہذب برطانیہ نے جس بہیمانہ انداز میں جھوٹ، فریب، قتل وغارت اور خونریزی کے ذریعے ہندوستانیوں کو کچلا اس پر تاسف کا اظہار کرنا بھی عین ممکن ہے۔ یہ سب درست ہے مگر اصل سوال یہ نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ انگریز منگولوں کی طرح ہندوستانی ثقافت میں کیوں مدغم نہ ہوسکے؟ باوجود اس کے کہ ہندوستان میں آباد ہونے والے انگریزوں کی تعداد برصغیر میں بسنے والے کروڑوں افراد کے مقابلے میں مٹھی بھر تھی۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ دو صدیاں گزرنے کے بعد یہ ہندوستانی ہی تھے جنہوں نے انگریزی زبان سیکھی نہ کہ اس کے الٹ ہوا۔
آج، برطانیہ کے یہاں سے رخصت ہوئے پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر تاحال انگریزی ہندوستان و پاکستان کی سرکاری زبان اور پڑھے لکھے بھارتیوں اور پاکستانیوں کے مابین رابطے کی زبان ہے۔ اس کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے؟ صرف اس بنیاد پر کہ جاگیر داری یا ایشیائی طرز پیداوار کے مقابلے میں سرمایہ داری ایک جدید نظام ہے۔ یہ فیصلہ کن حقیقت ہے۔ اس کی بابت شکوہ شکایت کرنا، یا اس کو ”ثقافتی سامراجیت“ (سامراجیوں کے فی الواقع وحشت ناک کردار پر ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں) کے نام دے کر اس کے خلاف احتجاج کرنا وغیرہ وغیرہ، اس سب کی ہوسکتا ہے کہ ایجی ٹیشن کے میدان میں کوئی اہمیت ہو لیکن سائنسی نقطہ نظر سے ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں۔
انسانی تاریخ کو جذباتی انداز سے دیکھنا بے سود ہونے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ تاریخ کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں اور وہ مکمل طور پر مختلف قوانین کے زیر اثر حرکت کرتی ہے۔ جو شخص بھی تاریخ کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کو سب سے پہلے تمام تر اخلاقی پیمانوں کو توڑنا ہوگا۔ چونکہ تاریخی دھارے سے باہر کوئی اخلاقیات (supra-historical morality) وجود نہیں رکھتیں نہ ہی کوئی ”عمومی اخلاقیات“ ہوتی ہیں ماسوائے ہر مخصوص تاریخی عہد اور معین سماجی و معاشی نظام سے منسلکہ مخصوص اخلاقیات کے اور اس سے باہر ان کی اہمیت نہیں ہوتی۔
اس لیے، ایک سائنسی نقطۂ نظر سے کسی طرز عمل کا اخلاقی بنیادوں پر موازنہ بے معنی ہے جیسا کہ رومنوں کا بربروں سے، برطانیہ کا ہندوستانیوں سے، منگولوں کا چینیوں سے موازنہ کرنا۔ ہر تاریخی عہد میں ہمیں وحشیانہ اور غیر انسانی طرز عمل کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چنانچہ اگر ہم نوع انسان کو جانچنے کا پیمانہ ہی یہ بنا لیں تو اس سے انتہائی قنوطی نتائج ہی اخذ کیے جا سکیں گے (بہت سے حضرات ایسا پہلے کر بھی چکے ہیں)۔ حقیقت حال کے طور پر، کوئی شخص یہ دلیل دے سکتا ہے کہ ترقی کی سطح جس قدر بلند ہوگی اتنے ہی بڑے پیمانے پر لوگوں پر قہر نازل کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسا اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں موجود دنیا کے حالات انسانی تاریخ کی بابت اس دلگیر حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے تو یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ شاید مسئلہ بہت زیادہ ترقی اور حد سے بڑھتی تہذیب ہے۔ کیا ہی اچھا ہواگر ہم سادہ سے زرعی معاشرے میں زندگی گزارنے لگ جائیں، جو ماحول دوست ہو، اپنے کھیتوں میں خود ہل چلائیں (بنا ٹریکٹروں کے)، اپنے لیے کپڑا خود بنائیں، اپنی روٹی خود تیار کریں، وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہتر نہیں ہوگا اگر ہم عہد بربریت میں واپس لوٹ جائیں!
ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا سوچنے کی وجہ دنیا کے تلخ حالات ہیں جس کی ذمہ دار سرمایہ داری ہے۔ ان حالات میں کچھ لوگ فرار کا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور یوں تاریخ کاپہیہ الٹا گھما کر اس’سنہری دور‘ میں واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا دور کبھی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ یہ لوگ (جن کا تعلق عام طور پر درمیانے طبقے سے ہوتا ہے) جو بڑے فخریہ انداز میں قدیم زرعی سماج کی زندگی کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں، یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس وقت زندگی کس قدر مشکل تھی۔ ہم یہاں قرون وسطیٰ کے دور کے ایک راہب کا اقتباس نقل کر رہے ہیں جو کہ ہمارے ان عہدِ نو کے خبطیوں کے برعکس صحیح معنوں میں یہ ادراک رکھتا تھاکہ جاگیرداری میں زندگی کس قدر کٹھن تھی۔ یہ اقتباس قرون وسطیٰ کے دور کے مصنف اور راہب ایلفرک سے ماخوذ ہے، جس نے ونچیسٹر میں لاطینی مکالمہ سکھانے کے لیے ایک کتاب تحریر کی:
استاد: (کسان سے)، آپ کیا کرتے ہیں؟ اپنا کام کیسے سرانجام دیتے ہیں؟
شاگرد: (کسان کے طور پر جواب دیتا ہے) جناب! میں سخت محنت کرتا ہوں۔ میں صبح سویرے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور بیلوں کو کھیت میں لے جاکر ہل میں جوت دیتا ہوں۔ چاہے کتنا ہی جاڑا کیوں نہ ہو میں اپنے آقا کے ڈر سے گھر بیٹھے رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بیلوں کو ہل میں جوت کر اور ہل کی پھالی اور دھار کو تیز کرنے کے بعد تا کہ زیادہ تیزی سے ہل چل سکے، مجھے روزانہ ایک ایکڑ یا اس سے زیادہ رقبے پر ہل چلانا ہوتا ہے۔
استاد: کیا کوئی تمہارا ہاتھ بٹاتا ہے؟
شاگرد: میرے ساتھ ایک لڑکا ہوتا ہے جو چھڑی سے بیلوں کو ہانکتا ہے۔ سردی اور مسلسل چیخنے کے باعث اس کا گلا بیٹھ چکا ہے۔
استاد: تمہیں دن میں اور کون کون سے کام کرنے ہوتے ہیں؟
شاگرد: اور کئی کام ہوتے ہیں۔ بیلوں کے لیے چارے اور پانی کا انتظام کر نا ہو تا ہے اور گوبر کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے۔
استاد: کیا یہ سخت محنت طلب ہے؟
شاگرد: جی ہاں، یہ محنت طلب کام ہے کیونکہ میں آزاد نہیں ہوں۔
محض چند ایک ہفتوں کی ایسی کمر توڑ اور اکتا دینے والی محنت یقینی طور پر ماضی کے رومانس میں مبتلا کٹر سے کٹر شخص کی خوش فہمیوں کو ہوا کردے گی۔ مگرصد افسوس کہ ہم ان لوگوں کو کسی ٹائم مشین پر بٹھا کر وہاں نہیں بھیج سکتے۔
(عہد) بربریت کیا ہے؟
لفظ ”بربریت“ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کچھ زیادہ ہی جوشیلے فٹبال شائقین کے غیر مہذبانہ طرز عمل پر ان کی اہانت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے قدیم یونانیوں نے گھڑا اور اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے جو ”زبان (یونانی زبان) بولنا نہیں جانتے تھے“۔ لیکن مارکسسٹوں کے نزدیک، اس سے مراد قدیم اشتراکی نظام اور ابتدائی طبقاتی سماج کا درمیانی مرحلہ ہے جب ابھی طبقات کی شکل ابھر رہی تھی اور اس کے ساتھ ریاست کا ظہور ہورہا تھا۔ عہد بربریت سے مراد وہ عبوری دور ہے جب قدیم کمیون انحطاط پذیر تھا اور طبقات اور ریاست بننے کے عمل میں تھے۔
تمام انسانی سماجوں (بشمول عہدوحشت، جس میں فرانس اور سپین کے غاروں میں ملنے والی انتہائی غیر معمولی تصاویر و نقوش تخلیق ہوئے) کی طرح، یقینا بربروں کی اپنی تہذیب و ثقافت تھی اور وہ نہایت عمدہ اور پیچیدہ اشیا بنا سکتے تھے۔ ان کی جنگی مہارتیں، اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ تنظیم اور نظم و ضبط کے میدان میں بھی غیر معمولی طور کارہائے نمایاں انجام دینے کے قابل تھے۔ بربروں کے ہاتھوں رومن سپاہ کی شکست اس کا واضح ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ رومنوں نے ایسی کئی جنگی تدابیر کی نقل شروع کردی جوکہ بربروں سے منسوب تھیں۔ جیسا کہ چھوٹی کمانوں کا استعمال جس کی مدد سے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر تیر اندازی کی جاسکتی تھی۔
عہد بربریت انسانی تاریخ کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے اور اس کو مزید کئی جدا گانہ مرحلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر، یہ شکاری سماج (Hunter-Gathering) سے گلہ بانی اور زراعت کی جانب تبدیلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قدیم حجری (Paleolithic) دور وحشت سے، آخری حجری دوربربریت (Neolithic Barbarism) سے گزرتے ہوئے عہد بربریت کے اعلیٰ ترین مرحلے یعنی کانسی کے دور کی جانب سفر ہے، جو کہ عہد تہذیب اور عہد بربریت کی حد فاصل بناتا ہے۔ اس اہم موڑ کو گورڈن شائلڈ زرعی انقلاب (Neolithic Revolution) کا نام دیتا ہے۔ یہ انسانی پیداواری صلاحیت کی ترقی میں ایک عظیم جست تھی اور نتیجتاً ایک عظیم ثقافتی جست بھی۔ گورڈن اس کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:
”عہد بربریت کا ہم پر بھاری قرض ہے۔ آج کاشت کیا جانے والا ہر قابل ذکر غذائی پودا کسی بے نام بربر سماج کی دین ہے۔“ (گورڈن شائلڈ،What Happened in History، صفحہ 64)
یہی وہ بیج ہے جس سے قصبوں اور شہروں، لکھائی، صنعت، غرض ہر اس چیز کا جنم ہوا جس پر تہذیب کی عمارت استوار ہے۔ عہد تہذیب کی جڑیں بجا طور پر عہد بربریت بلکہ اس سے بھی آگے غلام داری سے جاملتی ہیں۔ عہد بربریت کی انتہا سے غلام داری اور اس سماج جسے مارکس ایشیائی طبع پیداوار کا نام دیتا ہے، کا جنم ہوا۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ بربروں نے انسانی سماج کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ ایک مخصوص مرحلے پر انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی ثقافت اپنے عہد کے لحاظ سے ترقی یافتہ تھی۔ لیکن تاریخ جامد و ساکت نہیں رہتی۔ پیداواری قوتوں کی مزید ترقی نے نئے سماجی و معاشی نظاموں کو جنم دیا جو کہ معیاری طور پہلے سے بلند پیمانے پر تھے۔ ہماری جدید تہذیب قدیم مصر، میسو پوٹیمیا، وادیئ سندھ اور اس سے بھی بڑھ کر قدیم یونان اور روم کی حاصلات کی دین ہے۔
اگرچہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ بربروں کی اپنی ثقافت تھی مگر مارکسسٹ بغیر کسی تامل کے یہ بھی کہتے ہیں کہ عہد بربریت سے جنم اور اس کی جگہ لینے والی قدیم مصر، یونان اور روم کی ثقافتیں بربر ثقافت پر تاریخی طور پر سبقت لے گئیں۔ اس حقیقت سے انکار کرنا تاریخی حقائق سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا۔
غلام داری کا کردار
اگر ہم انسانی تاریخ اور ماقبل تاریخ کے تمام تر عمل کی طرف نظر دوڑائیں تو پہلی چیز جس کا ہمیں مشاہدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری نوع کی تشکیل غیر معمولی سست روی کے ساتھ آگے بڑھی۔ انسان اور انسان نما مخلوق کا حیوانی زندگی سے پرے بتدریج ارتقاء اور خالصتاً انسانی حالات کی جانب سفر لاکھوں سالوں پر محیط ہے۔ پہلا دور، جسے ہم عہد وحشت کہتے ہیں، میں ذرائع پیداوار اپنی ترقی کی نہایت پسماندہ سطح پر تھے، پتھر کے اوزار بنائے جاتے تھے، اور زندہ رہنے کے لیے شکار یا جنگلی پھل، میوے وغیرہ استعمال کیے جاتے تھے۔ اس دوران ترقی کی شرح ایک لمبے عرصے تک قریب قریب نہ ہونے کے برابر تھی۔ ترقی کی اس رفتار کو مہمیز عہدِ بربریت (خاص کر زرعی انقلاب کے بعد) میں ملتی ہوئی نظر آتی ہے، جب ابتدائی مستحکم آبادیوں نے قصبات کی شکل دھاری (جیسا کہ 7 ہزار سال قبل مسیح پرانا جریکو کا قصبہ)۔
تاہم، حقیقی معنوں میں دھماکہ خیز بڑھوتری مصر، میسوپوٹیمیا، وادیئ سندھ (اور چین میں بھی)، فارس، قدیم یونان اور روم میں نظر آتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، طبقاتی سماج کی تشکیل کے ساتھ ہمیں پیداواری قوتیں بھی ایک بڑی جست لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسانی تہذیب و ثقافت بھی ترقی کی اس انتہا تک جا پہنچی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں، ہمارا مقصد یونانیوں اور رومیوں کی تمام تر دریافتوں کا احاطہ کرنا نہیں ہے۔ مونٹی پائیتھن کی فلم ”دی لائف آف برائن“ میں ایک مشہور سین ہے جب ایک ضرورت سے زیادہ جوشیلا ”حریت پسند“ ایک سوال پوچھتا ہے: ”آخر رومیوں نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟“ اس کو جواب میں ایک طویل فہرست سننے کو ملتی ہے جس پر وہ جھنجھلا جاتا ہے۔ ہمیں اس افسانوی کردار والی غلطی نہیں کرنی چاہیے!
لیکن یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یونانی اور رومن سماج غلام داری کی بنیاد پر کھڑے تھے، جو ایک مکروہ اور غیر انسانی ادارہ ہے۔ قدیم ایتھنز کی تمام تر شاندار حاصلات غلام داری کی ہی بدولت تھیں۔ یہاں کی جمہوریت جو کہ غالباً آج تک کی سب سے جدید جمہوریت تھی، (حقیقت میں) آزاد شہریوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی اقلیت کی جمہوریت تھی۔ جبکہ اکثریت، جو کہ غلام تھے، کے پاس کوئی حقوق نہ تھے۔ حال ہی میں مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں نہایت بھونڈے انداز میں غلام داری کا موازنہ عہد بربریت سے کیا گیا تھا۔ میں ذیل میں اس کا ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں:
”عالمی تاریخ میں قدیم سماج سب سے کم بربر (یہاں لفظ بربر ظالم کے معنوں میں استعمال ہورہا ہے) پائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی جنگیں زیادہ تر رسمی نوعیت کی ہوتی تھیں جن میں متاثرین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ نازیوں کی بربریت اور بلقان کی جنگیں سرمایہ داری کا مخصوص وصف ہے بالکل اسی طرح جیسے جاگیرداری اور غلام داری کے اپنے ظالمانہ وصف تھے۔ تاریخ میں نہایت ظالمانہ حقائق بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر طبقاتی سماج کے نتائج ہیں۔“
مندرجہ بالا سطور میں جنگ کے سوال کو مادی نقطۂ نظر کی بجائے اخلاقی پیرائے میں دکھایا گیا ہے۔ جنگیں ہمیشہ سے بربریت سے لبریز رہی ہیں۔ اس میں انسانوں کو نہایت منظم انداز میں قتل کیا جاتا ہے۔ اس بات سے ہر کوئی اتفاق کرے گا کہ قدیم سماجوں کی جنگوں میں جدید جنگوں کے مقابلے میں بہت کم لوگ لقمۂ اجل بنتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور تکنیک کی ترقی نے انسان کو صرف صنعت و زراعت میں ہی ترقی نہیں دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عسکری میدان میں بھی ترقی دی۔ اینٹی ڈوہرنگ میں اینگلز اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیسے جنگوں کی تاریخ کو صرف اور صرف ذرائع پیداوار کی ترقی کے ساتھ جوڑ کے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ رومن لوگ، بربروں کے مقابلے میں انسانوں کو قتل کرنے میں زیادہ مہارت رکھتے تھے (کم از کم سلطنتِ روم کے عروج کے عہد میں) اور ہم، بلاشبہ، اس میدان میں رومیوں اور باقی سب سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔
مارکسسٹ تاریخ کو اخلاقی نقطہئ نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تاریخی دھارے سے بالاتر کوئی اخلاقیات وجود نہیں رکھتیں۔ ہر سماج کی اپنی اخلاقیات، مذہب اور ثقافت وغیرہ ہوتے ہیں جو اس وقت کی مادی پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح کے ساتھ مطابقت میں ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس عہد میں، جسے ہم عہد تہذیب کہتے ہیں، ایک مخصوص سماجی طبقے کے مفادات کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ کوئی مخصوص جنگ اچھی تھی یا بری اس کا اندازہ متاثرین کی تعداد سے نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی ایک مجرد اخلاقی نقطہئ نظر سے۔ ہم عمومی طور پر جنگوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں لیکن ایک بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ: پوری انسانی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر سنجیدہ سوالات حتمی طور پر جنگوں کے ذریعے ہی حل ہوئے ہیں۔ اور یہ بات تمام تر تنازعات پر صادق آتی ہے، چاہے وہ دو قوموں کے درمیان جنگ کی صورت میں ہو یا طبقات کے درمیان تنازعات میں انقلاب کی شکل میں ہو۔
اور نہ کسی سماج اور اس کی ثقافت سے متعلق ہمارا موقف اخلاقی حوالے سے طے ہوتا ہے۔ تاریخی ماد یت کے نقطہئ نظر سے یہ بات مکمل طور پر غیر متعلقہ ہے کہ کچھ بربر (بشمول میرے اپنے آباؤ اجداد، قدیم کیلٹس کے) انسانوں کے سر قلم کرکے جمع کرتے تھے، اور وسط گرما کی تقریبات کے موقع پر تنکوں سے بنے بڑے بڑے مجسموں میں انسانوں کو زندہ جلا دیتے تھے۔ جیسے اس بنیاد پر ان کی مذمت نہیں کی جاسکتی بالکل اسی طرح صرف اس بنیاد پر ان کی تعریف و توضیح نہیں کی جاسکتی کہ وہ بڑے نفیس زیور بناتے تھے اور شاعری کے فن میں طاق تھے۔ پھر آخر وہ کونسی چیز ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ ایک مخصوص سماجی و معاشی تشکیل ترقی پسند ہے یا نہیں؟ وہ بلاشبہ اس مخصوص سماج کی مادی پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کی صلاحیت ہے، اور یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جس پر تمام تر انسانی ثقافتیں ابھرتی اور ترقی پاتی ہیں۔
اس امر کی وجہ کہ آخر انسانی ترقی کی رفتار ایک لمبے عرصے تک تکلیف دہ حد تک سست رو کیوں تھی صرف اور صرف پیداواری قوتوں کی ترقی کی نہایت پست سطح تھی۔ حقیقی ترقی عہدِ بربریت میں ہی شروع ہوئی جیسا کہ اوپر وضاحت کی جا چکی ہے۔ عہدِ بربریت کا ظہور اپنے وقت میں ایک ترقی پسند جست تھی لیکن اس کی نفی، اور خاتمہ اس سے بھی اعلیٰ تشکیل نے کیا جسے ہم غلام داری کے نام سے جانتے ہیں۔ ہیگل، جو بلاشبہ ایک عظیم مفکر تھا، لکھتا ہے کہ”انسانیت نے آزادی غلام داری سے نہیں بلکہ غلام داری کے ذریعے حاصل کی۔“ (تاریخِ فلسفہ پر خطبات، صفحہ 407)
رومنوں نے دوسرے لوگوں کو مطیع بنانے کیلئے بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا، پورے کے پورے شہر اور ان کے باسی فروخت کے لئے غلام بنا لیے، ہزاروں جنگی قیدیوں کو تفریح کی خاطر عوامی سرکسوں میں ذبح کیا گیا اور موت کے گھاٹ اتارنے کے ایسے ایسے ’شائستہ‘ طریقے دریافت کیے جیسے کہ مصلوب کرنا۔ جی ہاں یہ سب کچھ سچ ہے، لیکن اس کے باوجود جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ آج کی ہماری جدید تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارا ادب، ہمارا فنِ تعمیر، ہمارا طب، ہماری سائنس، ہمارا فلسفہ اور بہت حد تک ہماری زبان کی بنیادیں کہاں پیوست ہیں، تو اس کا جواب قدیم یونان اور قدیم روم ہی میں ملتا ہے۔
رومیوں کے جرائم کی فہرست گنوانا (یا جاگیر داروں اور آج کے سرمایہ داروں کے جرائم کی) کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ حتیٰ کے غیر سائنسی انداز میں رومیوں کا بربر قبیلوں، جن کے ساتھ رومی کم و بیش ہر وقت حالت جنگ میں رہے، کے ساتھ مختلف حوالوں سے موازنہ کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ کوئی نیا کام نہیں ہے۔ بلکہ آپ رومن مورخ تاسیت کی تحریروں میں ایسی بہت سی باتیں پڑھ سکتے ہیں جس نے بعینہ یہی کام کیا۔ لیکن یہ سب ہمیں تاریخ کو سمجھنے میں رتی برابر مدد نہیں کرسکتے۔ تاریخ کو سمجھنا صرف اور صرف تاریخی مادیت کے طریقہ کار کے مستقل مزاجی سے تاریخ پر اطلاق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
روم کا عروج و زوال
اگرچہ ایک انفرادی غلام کی محنت کچھ خاص بار آور نہیں تھی (غلاموں کو کام پر مجبور کرنا پڑتا ہے) مگر جب بڑی تعداد میں غلام اکٹھے ہوئے تو انہوں قابل ذکر مقدار میں زائد پیداوار (Surplus) کو تخلیق کیا۔ مثال کے طور پر رومن جمہوریہ کے آخری ایام اور سلطنت روم کی کانوں اور Latifundia یعنی بڑے بڑے زرعی رقبوں پر کام کرنے والے غلام۔ اپنے عروج پر سلطنت کو غلاموں کی کوئی کمی نہ تھی جو کہ ارزاں بھی تھے۔ اور رومنوں کے لیے جنگوں کا بنیادی مقصد بڑے پیمانے پر غلام بنانا ہوتا تھا۔ لیکن ایک مخصوص مرحلے پر آکر یہ نظام اپنی حدود کو پہنچ گیا اور زوال کے ایک طویل عہد کا آغاز ہوا۔
روم میں بحران کی شروعات کے آثار جمہوریہ (رومن) کے آخری دنوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دور گہری سماجی اور سیاسی بغاوتوں اور طبقاتی جنگوں سے لبریز تھا۔ بحران کے آغاز سے ہی روم میں امیروں اور غریبوں میں شدید کشمکش جاری تھی۔ لیوی اور دیگر کی تحاریر میں ہمیں بڑی تفصیل میں پلیبیئنز (عام آزاد رومن شہری) اور پیتریشیئنز (غلام مالکان پر مشتمل اشرافیہ) کے مابین ہونے والی لڑائیوں کا احوال ملتا ہے جن کا انت وقتی مفاہمت کی صورت میں ہوا۔ بعد ازاں، جب روم اپنے سب سے طاقتور حریف سلطنت قرطاج (Carthage) کو شکست دینے کے بعد پورے کے پورے بحیرہئ روم اور اطراف کا مالک بن گیا تو ہمیں شدید لڑائی دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ درحقیقت جنگ میں لوٹے گئے مال پر ہونے والی لڑائیاں تھیں۔
تیبیرئیس گریکس (روم کا ایک عوامی سیاستدان) نے مطالبہ کیا کہ روم کی دولت کو اس کے آزاد شہریوں میں بانٹا جائے۔ اٹلی کو کسان جمہوریہ بنانا اس کا مقصد تھا لیکن اس کو اشرافیہ اور غلام مالکان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حتمی تجزیے میں یہ روم کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ تباہ حال کسان، جو کہ رومن جمہوریہ اور اس کی فوج کی ریڑھ کی ہڈی تھے، جوق در جوق روم کا رخ کرنے لگے جہاں یہ لمپن پرولتاریہ کی شکل اختیار کر گئے۔ یوں یہ کسان ایک غیر پیداواری طبقے میں بدل گئے جو کہ ریاست سے ملنے والی امداد پر گزر بسر کرتے تھے۔ اگرچہ یہ اشرافیہ سے شاکی تھے تاہم غلاموں کے استحصال پر ان کے اور اشرافیہ کے مفادات میل کھاتے تھے۔۔۔غلام جو کہ رومن جمہوریہ اور سلطنت دونوں ادوار میں واحد پیداواری طبقہ تھے۔
سپارٹے کس کی قیادت میں برپا ہونے والی عظیم غلام بغاوت ماضی بعید کی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے۔ اس دیوہیکل بغاوت کی بازگشت بعد ازاں آنے والی صدیوں تک سنائی دیتی رہی اور آج بھی جوش و جذبہ پیدا کردیتی ہے۔ افتادگان خاک کی بغاوت کے یہ مناظر، جہاں وہ ہاتھوں میں ہتھیار تھامے دنیا کی طاقتور ترین فوج کو پے درپے شکست سے دوچار کرتے چلے گئے، تاریخ کے تابناک ابواب میں سے ایک ہے۔ اگر وہ رومن ریاست کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے تو تاریخ کا دھارا واضح طور پر تبدیل ہوجاتا۔
یقینا، من وعن یہ بتانا تو ممکن نہیں کہ کیا نتائج نکلتے لیکن بلاشبہ غلام آزاد ہوجاتے۔ پیداواری قوتوں کی ترقی کی سطح کو دیکھتے ہوئے عمومی دھارا جاگیرداری سے ملتے جلتے کسی رجحان کی جانب ہی ہوتا۔ لیکن کم ازکم نوع انسان عہد تاریک کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہتی اور عین ممکن ہے کہ معاشی و ثقافتی ترقی کو بھی مہمیز ملتی۔
سپارٹے کس کی شکست کی بنیادی وجہ غلاموں کا شہری نیم پرولتاریہ کے ساتھ جڑت نہ بنا پانا تھا۔ جب تک موخرالذکر کی حمایت ریاست کے ساتھ تھی، غلاموں کا فتح یاب ہونا ناممکن تھا۔ لیکن رومن پرولتاریہ، آج کے پرولتاریہ کے برعکس ایک غیر پیداکار اور طفیلیہ طبقہ تھا جو کہ غلاموں کی محنت پر پلتا تھا اور اس کے مفادات غلام مالکان اشرافیہ سے جڑے تھے۔ رومن انقلاب کی ناکامی کی وجہ اسی حقیقت میں مضمر ہے۔
مارکس اور اینگلز نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ طبقاتی کشمکش کا نتیجہ یا تو متحارب طبقات میں سے کسی ایک کی مکمل کامیابی یا بصورت دیگرمتحارب طبقات کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ رومن سماج کا انجام موخر الذکر معاملے کی ایک واضح مثال ہے۔ غلاموں کی شکست نے رومن ریاست کی بربادی کی راہ ہموار کی۔ آزاد کسانوں کی عدم موجودگی میں جنگیں لڑنے کے لیے ریاست بھاڑے کے سپاہیوں پر انحصار کرنے پر مجبور تھی۔ طبقاتی جدوجہد میں تعطل سے جنم لینے والی یہ صورتحال اس سے کافی مماثلت رکھتی تھی جسے آج بونا پارٹ ازم کہا جاتا ہے۔ قدیم روم کے حوالے سے اس کو ’سیزر ازم‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
رومن سپاہیوں کی وفاداریاں جمہوریہ کی بجائے اب اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ تھیں جو کہ ان کی تنخواہ، لوٹ کے مال میں حصے اور فوج سے فارغ ہونے پر ملنے والی اراضی کے ذمہ دار تھے۔ جمہوریہ کے آخری دور میں مختلف طبقات کے مابین جاری کشمکش میں شدت آنے لگی لیکن کوئی بھی طبقہ حتمی فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست (جسے لینن ”مسلح جتھوں“ کا نام دیتا ہے) زیادہ سے زیادہ آزادانہ حیثیت اختیار کرتے ہوئے سماج سے بالاتر ہوتی گئی اور روم میں جاری اقتدار کی رسہ کشی میں فیصلہ کن ثالث کے طور پر ابھری۔
عسکری مہم جوؤں کا ایک پورا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں مارئیس، کراسس، پومپئی اور آخر میں جولیئس سیزر شامل ہیں۔ سیزر ایک زیرک سیاستدان اور ایک عیار کاروباری تھاجس نے جمہوریہ کی وکالت کرتے کرتے اس کو انجام تک پہنچا دیا۔ گال، ہسپانیہ، برطانیہ میں ہونے والی فوجی فتوحات نے اس کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے اور اس بنیاد پر اس نے طاقت اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنا شروع کردی۔ اگرچہ وہ ایک قدامت پرست دھڑے کے ہاتھوں قتل ہوا جو جمہوریہ کو بچانا چاہتے تھے مگر پرانی ریاست بربادی کو پہنچ چکی تھی۔
اپنے ڈرامے جولیئس سیزر میں شیکسپئیر بروٹس کے بارے میں لکھتاہے کہ ”وہ ان تمام میں سے سب سے Noblest شخص تھا۔“ یقینی طور پر بروٹس، اور سیزر کو قتل کرنے والے دیگر سازشیوں میں انفرادی جرات و بہادری کی کوئی کمی نہیں تھی اور ہوسکتا ہے کہ ان کی نیت بھی صاف ہو مگر وہ یاسیت کے مارے یوٹوپیائی تھے۔ جس جمہوریہ کو وہ بچانے کے درپے تھے، حقیقت میں وہ ایک لمبے عرصے سے زندہ لاش میں تبدیل ہوچکی تھی۔ بروٹس اور دیگر کی اتحاد ثلاثہ کے ہاتھوں شکست کے بعد جمہوریہ کو اگرچے باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا اور پہلے شہنشاہ آگسٹس نے بھی کسی طور اس ڈھونگ کو قائم رکھا۔ مگر ’شہنشاہ‘ کا خطاب بذات خود ایک فوجی خطاب ہے اور اس کو بس اسی لیے استعمال کیا جانے لگا کہ’بادشاہ‘ کا لفظ جمہوریہ کے حامیوں کی سماعتوں پر گراں گزرتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ (آگسٹس) بادشاہ ہی تھا۔
پرانی جمہوریہ کی ہئیت بعد ازاں کافی عرصے تک قائم رہی۔ لیکن یہ محض خالی خول شکل ہی تھی جو کہ اصل جوہر سے عاری ہوچکی تھی۔ بالکل کسی تنکے کے مانند جس کو ہوا اڑا لے جائے۔ سینیٹ کے ہاتھ میں حقیقی معنوں میں کوئی طاقت اور اختیار نہ تھا۔ ایک گال کو سینیٹ کا ممبر بنانے کے سیزر کے اقدام نے رائے عامہ کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ شہنشاہ کیلیگلا نے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو بھی سینیٹ کا ممبر بناڈالا۔ کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا اور اگر کسی کو کوئی اعتراض تھا بھی تو اس میں اعتراض اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔
شہنشاہوں نے سینیٹ کے ساتھ ”صلاح مشورے“ کے سلسلے کو جاری رکھا اور وہ اس بات کا بھی خیال کرتے کہ اس دوران اونچی آوازمیں ان کی ہنسی نہ نکل جائے۔ سلطنت کے آخری وقتوں میں جب پیداوار میں گراوٹ، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے باعث خزانہ خالی ہونے لگاتو مالدار رومن امرا کو ”ترقی“ دے کر سینیٹ کا حصہ بنایا جانے لگا تاکہ ان پر زیادہ ٹیکس لگا کر ان کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا جا سکے۔ ایسے ہی ایک مالدار شخص کے بارے میں جو سینیٹ کا حصہ بننے سے کترا رہا تھا، کسی رومن مزاح نگار نے کہا کہ اس کو (سزا کے طور پر) ”ملک بدر کرکے سینیٹ بھیج دیا گیا ہے۔“
تاریخ میں اکثر ایسے ہوتا دیکھا گیا ہے کہ وہ ادارے جو متروک ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کے وجود کاجواز ختم ہوچکا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ لمبا عرصہ قائم رہتے ہیں۔ وہ کسی زندہ لاش کی صورت بستر مرگ پر پڑے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک انقلابی ریلا ان کو بہا لے جاتا ہے۔ رومن سلطنت کا انہدام لگ بھگ چار صدیوں تک محیط تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس عمل میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ ایسے ادوار بھی آئے جب بحالی نظر آئی اور یوں معلوم ہونے لگتا جیسے پرانے دن لوٹ آئے ہوں مگر اس سب کے باوجود عمومی دھارا مائل بہ زوال تھا۔
ایسے ادوار میں عمومی طور پر ایک بے کلی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ تشکیک پسندی، بے یقینی اور قنوطیت سماج پر غالب آجاتی ہے۔ قدیم روایات، اخلاقیات اور مذہب، وہ سب چیزیں جو ایک سماج کو مضبوطی سے جوڑے رکھتی ہیں، اپنا اعتبار کھونے لگتی ہیں۔ پرانے خداؤں کو چھوڑ کر لوگ نئے خدا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اپنے زوال کے عہد میں، روم مشرق سے آنے والے مذہبی گروہوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عیسائیت انہی میں سے ایک تھی۔ گوکہ اس کو حتمی طور پر کامیابی ملی لیکن اس کو متھراجیسے کئی مخالف مذاہب کا مقابلہ کرنا پڑا۔
جب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس دنیا میں وہ زندہ ہیں وہ دم توڑ رہی ہے، ان کا اپنے تمام تر وجود پر کوئی اختیار نہیں رہا اور ان کی زندگیاں اور تقدیر کسی غیر مرئی قوتوں کے ہاتھ میں ہے تو (ناگزیر طور پر) ایسے حالات میں مذہبی اور غیر تعقلی رجحانات غلبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے۔ ابتدائی عیسائیوں کو اس بات پر پختہ یقین تھا لیکن ایسے بھی کئی لوگ تھے جو اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ در حقیقت، جو چیز اپنے انت کو پہنچ رہی تھی وہ دنیا نہیں بلکہ سماج کی ایک مخصوص شکل یعنی غلام داری کا خاتمہ ہو رہاتھا۔ عیسائیت کی کامیابی کی وجہ بھی حقیقت میں یہی تھی کہ یہ عمومی موڈ کے ساتھ میل کھاتی تھی۔ دنیا بدی اور برائی کا منبع ہے۔ (اس لیے) یہ لازم ہے کہ اس دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر موت کے بعد کی زندگی کی فکر کی جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ روم میں پنپنے والے مختلف فلسفیانہ رجحانات اس قسم کے خیالات کی بابت پہلے سے خبردار کر چکے تھے۔ جب موجود دنیا سے جڑی تمام امیدیں دم توڑ جائیں تو دو ہی راستے بچتے ہیں، یا تو جو کچھ ہورہا ہے اس کو تعقلی بنیادوں پر سمجھا جائے تاکہ سماج کو بدلنے کی لڑائی کو منظم کیا جاسکے یا سرے سے دنیا سے ہی منہ موڑ لیا جائے۔ اپنے زوال کے عہد میں رومن فلسفے پر موضوعیت غالب تھی۔ Stoicism اور تشکیک پرستی جیسے رجحانات غالب تھے۔ ایپی کیورس نے ایک مختلف نقطۂ نظر سے آگے بڑھتے ہوئے لوگوں کو سکھایا کہ کس طرح خوشی حاصل کی جاسکتی ہے اور بغیر کسی خوف کے زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ یہ ایک sublime فلسفہ تھا لیکن درپیش حالات میں یہ صرف اور صرف مراعات یافتہ طبقات کے ذہین حصوں کے لیے ہی پرکشش ثابت ہوسکتا تھا۔ اور آخر میں پلو ٹینس کا (رومن مصر کا ایک فلسفی) نو افلاطونی فلسفہ تصوف اور توہم پرستی کو مہمیز دیتا ہے اوربالآخر عیسائیت کو فلسفیانہ بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
بربروں کی چڑھائی کے وقت پورے کا پورے ڈھانچہ نا صرف معاشی لحاظ سے بلکہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی انہدام کے دہانے پر کھڑا تھا۔ یہ قطعاً کوئی حیران کن امر نہیں تھا کہ غلاموں اور سماج کی غریب پرتوں نے بربروں کا استقبال کسی نجات دہندہ کے طور پر کیا۔ بربروں نے تو بس اس کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچایا جس کے لیے پیشگی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ بربروں کے حملے ایک تاریخی حادثہ تھا جس کی شکل میں ایک تاریخی ضرورت نے اپنا اظہار کیا۔
بربر کیونکر فتح یاب ہوئے
ایسا کیسے ممکن ہوا کہ ایک انتہائی ترقی یافتہ ثقافت ایک نہایت پسماندہ اور قدیم ثقافت کے ہاتھوں مغلوب ہوگئی؟ روم کی تباہی کے بیج بربروں کے حملوں سے کہیں پہلے بوئے جا چکے تھے۔ غلام دارانہ معیشت کا بنیادی تضاد یہ تھا کہ یہ کم تر افزودگی محن پر استوار تھی۔ غلاموں کی محنت اسی وقت پیداوار کے لیے موزوں ہوتی ہے جب ان کو ایک وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے۔ غلاموں کی ارزاں اور وسیع پیمانے پر دستیابی اس کے لیے اولین شرط تھی۔ کیونکہ محکومی کی حالت میں غلاموں کی نسل بڑی سست روی سے آگے بڑھتی ہے، اس لیے غلاموں کی حسب ضرورت رسد کا واحد رستہ مستقل جنگیں اور فتوحات تھیں۔ ہیڈرین کی قیادت میں جب سلطنت کا پھیلاؤ اپنی حدود کو پہنچا تو یہ کام (غلاموں کی رسد) مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔
جیسے ہی سلطنت اپنی حدود کو پہنچی تو غلام داری میں چھپے تضادات کا اظہار بھی سطح پر ہونے لگا۔ روم چار صدیوں پرمحیط زوال کے ایک طویل عہد میں داخل ہوگیا اور یہ اس وقت تک جاری رہا جب تک بربروں نے پورا روم تاراج نہ کرکے رکھ دیا۔ سلطنت کے زوال کا باعث بننے والی بڑی بڑی ہجرتیں بہت ساری وجوہات کی بنا پر قدیم خانہ بدوش گلہ بان لوگوں میں معمول سمجھی جاتی تھیں۔ مثلاً آبادی کے بڑھنے سے چراگاہوں پر آنے والا دباؤ، موسمیاتی تبدیلیاں وغیرہ وغیرہ۔
زیر نظر معاملے میں، مشرق سے آنے والے سیوونگ نو خانہ بدوش قبائل، جنہیں عرف عام میں ہنز (Huns) کہا جا تا ہے، کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے زیر اثر مغربی گھاس کے میدانوں اور مشرقی یورپ میں لمبے عرصے سے بسنے والے لوگوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل ہونا پڑا۔ کیا ان بربروں کی کوئی ثقافت تھی؟ جی ہاں ان کی بھی اپنی ثقافت تھی جیسے انسانی تاریخ کے آغاز سے لے کر اب تک تمام لوگوں کی کوئی نہ کوئی ثقافت تھی۔ فن زراعت کے بارے میں ہن کوئی خاص علم نہیں رکھتے تھے مگر ان کا ریوڑ ایک طاقتور جنگی مشین جیسا تھا۔ ان کی گھڑ سوار فوج کااس وقت پوری دنیا میں کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ گھوڑے کی پشت ہی ان کا دیس ہے۔تاہم، یہ یورپ کی بدقسمتی تھی کہ چوتھی صدی عیسوی میں ہنز کا پالا چین سے پڑ گیا۔ چین اس وقت ایک جدید تہذیب و ثقافت تھا جو کہ فن تعمیر جانتا تھا اور جہاں لوگ شہروں اور قصبوں کی شکل میں رہتے تھے۔ لیکن منگولیا کے میدانوں سے آنے والے ان ہیبت ناک جنگجوؤں کی جنگی مہارت کے سامنے یہ مہذب چینی ہیچ تھے، جنہیں اپنے بچاؤ کی خاطر عظیم دیوار چین جیسا عجوبہ تعمیر کرنا پڑا جو کہ اپنے آپ میں انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔
چینیوں کے ہاتھوں شکست اٹھانے کے بعد ہنز نے مغرب کی جانب رخ کیااور وہ جہاں سے گزرے اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستانیں چھوڑتے چلے گئے۔ موجودہ روس سے گزرتے ہوئے، 355 عیسوی میں ان کا مقابلہ موجودہ رومانیہ کے علاقے میں گوتھ قبائل کے ساتھ ہوا۔ اگرچہ گوتھ، ہنز سے ترقی یافتہ تھے، اس کے باوجود ہنز نے ان کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے اور وہ جان بچا کر مغرب کی جانب بھاگ نکلے۔ بچ جانے والے لگ بھگ اسی ہزار لوگ، جن میں مرد، عورتیں، بچے سب شامل تھے، اپنے قدیم چھکڑوں پر روم کی دہلیز پر دستک دینے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت کا زوال اس نہج تک پہنچ چکا تھا کہ اس کے لیے اپنا دفاع کرنا بھی مشکل تھا۔ ویزی گوتھس (مغربی گوتھ)، جو کہ رومنوں سے پسماندہ تھے، اس کے باوجود انہوں نے رومنوں کو شکست سے دوچار کر ڈالا۔ رومن تاریخ دان امیانس مارشیلینس ان دو بے گانہ دنیاؤں کے مابین ہونے والے اس تصادم کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ یہ ”کینائی (کی جنگ) کے بعد سے اب تک رومنوں کے لیے سب سے تباہ کن شکست تھی۔“ (Ammianus, xxxi, 13)۔
کمال سرعت سے بیشتر قصبے بیکار اور ویران ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ اس عمل کا آغاز بربروں کی آمد سے نہیں ہوا تھا۔ غلام دارانہ معیشت کی شکست و ریخت، درندہ صفت سلطنت، افسر شاہی کی ایک فوج ظفر موج اور محصول اکٹھا کرنے والے لالچی کارندے، ان سب عناصر کی بدولت پورے کا پورا نظام کھوکھلا ہو چکا تھا۔ دیہاتوں کی جانب جوق در جوق نقل مکانی کا سلسلہ جاری تھا جہاں پہلے ہی ایک مختلف طبع پیداوار یعنی جاگیرداری کے لیے راہ ہموار ہوچکی تھی۔بربر وں نے تو محض اس گلے سڑے اور جاں بلب نظام(غلام داری) کو موت کے گھاٹ اتارا۔پورے کا پورا ڈھانچہ ٹوٹ کر بکھر رہا تھا اور انہوں نے بس ایک فیصلہ کن دھکا دیا۔
دریائے ڈینیوب اور دریائے رائن تک پھیلی ہوئی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی رومن سرحد اپنے وزن تلے لرزی اور دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔ایک مخصوص مرحلے پر مختلف بربر قبائل بشمول ہنزنے متحد ہوکر روم پر چڑھائی کردی۔چالیس ہزار گوتھوں، ہنز اور آزاد غلاموں نے گوتھک سردار الیرک(جو کہ اتفاقاً ایک آریائی مسیحی اور رومن فوج میں سابقہ کرائے کا سپاہی تھا) کی قیادت میں جولین الپس کو عبور کیا اور آٹھ سال بعد پورے روم کو شکست دے دی۔ اگرچہ، الیرک بذات خود ایک روشن خیال شخص تھا اور اس نے کوشش کی کہ روم کے شہریوں کو بخش دیا جائے مگر وہ ہنز اور آزاد غلاموں کے سامنے بے بس تھا جنہوں نے وہ قتل عام، لوٹ مار اور بلادکاری کی کہ خدا کی پناہ۔ کئی انمول مجسموں کو تباہ اور لاتعداد آرٹ کے نمونوں کو محض قیمتی دھات حاصل کی خاطر پگھلا ڈالا گیا۔یہ محض آغاز تھا۔آنے والی صدیوں میں مشرق سے آنے والے بربروں کے قبائل در قبائل، جن میں ویزی گوتھس، الانز، لمبارڈز، سویوی،آلیمانی، برگنڈیئینز، فرانکس، تھورنگیئنز، فرائسیئنز، ہیرولی، گیپیڈائی، اینگلز، سیکسون، جیوٹس، ہنز اور مگیارز شامل ہیں، نے یورپ کا رخ کیا۔ مختار کُل اور لافانی سمجھی جانے والی سلطنت راکھ کا ڈھیر بن گئی۔
کیا تہذیب پیچھے دھکیل دی گئی؟
کیا یہ کہنا درست ہے کہ بربروں کے ہاتھوں رومن سلطنت کی شکست نے تہذیب کو پیچھے دھکیل دیا؟ ”فرینڈز آف باربرزم سوسائٹی“ کے تمام تر شور شرابے کے باوجود، یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے اور اس کو حقائق اور اعداد و شمار کی مدد سے باآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے۔بربروں کے حملوں کا فوری نتیجہ تہذیب کے انہدام اور انسانی سماج اور فکر کے ایک ہزار سال پیچھے دھکیلے جانے کی صورت میں نکلا۔
پیداواری قوتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ شہروں کے شہر یا تو تباہ ہوگئے یا لوگوں کے خوراک کی تلاش میں نکل جانے سے ویران ہوگئے۔ جیسا کہ ہمارا پرانا دوست رَجلے بھی یہ ماننے پر مجبور ہے کہ”ہنز کے ہاتھوں بچ جانے والی واحد باقیات جلائے گئے شہروں کی راکھ ہے۔“ اور اس میں صرف ہنز ہی شامل نہیں تھے۔ گوتھوں کا پہلا کارنامہ مینز نامی شہر کو جلاکر راکھ کرنا تھا۔انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے اس پر قبضہ کیوں نہ کیا؟ اس جواب یہ ہے کہ حملہ آور ایک ایک پسماندہ معاشی و سماجی نظام سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ زراعت سے وابستہ دیہاتی لوگ تھے جو شہروں اور قصبوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔بربروں کا شہروں اور ان کے باشندوں کی جانب رویہ عمومی طور پر معاندانہ تھا(یہ نفسیات ہر عہد کے کسانوں میں خاصی حد تک مشترک ہے)۔
سینٹ جیروم اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:
”کہ ان اجاڑ و بیاباں شہروں میں زمین و آسمان کے سوا کچھ بھی نہ بچا تھا۔شہروں کی بربادی اور نسل انسانی کے مٹ جانے سے اس زمین پر جنگل اور گھنی جھاڑیاں اگ آئیں۔اور پیغمبر زیفانیہ کی آفاقی ویرانی کی پیش گوئی کچھ یوں پوری ہوئی کہ جنگلی جانور اور پرندے تو کیا مچھلی بھی دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔“ (گیبن کی کتاب سلطنت روم کا زوال و انہدام سے اقتباس، جلد 3، صفحہ 49)
درج بالا سطور شہنشاہ ویلنز کی وفات کے بیس سال بعد لکھی گئیں جب ابھی بربروں کے حملوں کا آغاز ہوا تھا۔ یہ سطور جیروم کے اپنے صوبے پینونیا (موجودہ ہنگری) کا احوال بیان کرتی ہیں جہاں یکے بعد دیگرے آنے والے بیرونی بربر حملہ آوروں نے ناقابل تصور قتل و غارت اور تباہی مچائی۔ آخر میں، پپینونیا سے آبادی کا صفایا ہو گیا اور بعد ازاں اس پر ہنز اور آخر میں موجودہ میگیار آبادی کا قبضہ ہو گیا۔ تباہی، غارت گری، لوٹ کھسوٹ کا یہ عمل صدیوں تک جاری رہا جس نے ورثے میں پسماندگی بلکہ بربریت چھوڑی جسے آج ہم عہد تاریک(Dark Ages) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ہم بس ایک اقتباس نقل کرنا چاہیں گے:
”عہد تاریک ہر لحاظ سے مختلف تھا۔ قحط، وبائیں، جو کہ بلیک ڈیتھ پر منتج ہوئے اور اس وباء کی باربار واپسی کی وجہ سے آبادی گھٹ کر کم ہوگئی۔غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں طوفان اور سیلاب معمول بن گئے اور سلطنت کے بنائے نکاسی آب کے نظام کے باقی انفرا سٹرکچر کی طرح کار آمد حالت میں نہ رہنے کے سبب، یہ آفات بڑے بڑے سانحوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہ ایک امر ہی قرون وسطیٰ کے بارے میں بتانے کے لیے کافی ہے کہ پندرہویں صدی عیسوی میں ہزار سال کی شکست و ریخت کے بعد بھی رومنوں کی بنائی گئی سڑکیں سب سے بہتر تصور کی جاتی تھیں۔ باقی ماندہ مرمت نہ ہونے کے باعث ناقابل استعمال تھیں، یہی حال اٹھارہویں صدی تک تمام یورپی بندرگاہوں کا تھا، جب دوبارہ سے تجارت نے زور پکڑنا شروع کیا۔گم شدہ فنون میں سے ایک اینٹیں جوڑنا بھی تھا؛ دس صدیوں تک پورے جرمنی، انگلستان، ہالینڈ، سکینڈے نیویا میں ماسوائے کلیساؤں کے پتھروں سے بنی کوئی عمارت تعمیر نہ ہوئی۔مزارعے کئی، کدال، پھاوڑا، کھرپا اور درانتی جیسے اوزار استعمال کرنے پر مجبور تھے، کیونکہ اتنا لوہا میسر نہیں تھا جس کو پگھلا کر پہیہ دار ہل بنائے جا سکتے۔جنوبی علاقوں کے لیے ہل کی عدم موجودگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا جہاں کسان مٹی ہلکی ہونے کے سبب زمین کو باآسانی تیار کر سکتے تھے مگر شمال کی سخت مٹی کو ہاتھ سے توڑنا، حرکت دینا اور پلٹنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔اگرچہ، گھوڑے اور بیل دستیاب تھے مگر ان کا استعمال بہت محدود تھا۔ گھوڑے کاگلوبند، زین اور رکاب نویں صدی عیسوی تک ناپید تھے جس کی وجہ سے ان کو بگھی میں جوڑنا ناممکن تھا۔کسان محنت شاقہ کے باعث اکثر جانوروں سے زیادہ تھک کر پہلے گر جاتے تھے۔“(ولیم مانچسٹر، A World Lit Only by Fireصفحہ 5-6)
سلطنت روم کے انہدام کے بعد جنم لینے والے جاگیردارانہ نظام میں ایک طویل عرصے تک پائرینیز کے مغرب میں واقع پورے یورپ میں ثقافتی جمود دیکھنے کو ملتا ہے۔ پن چکی اور ہوائی چکی کو چھوڑ کر لگ بھگ ایک ہزار سال تک کوئی قابل ذکر ایجاد نہیں ملتی۔ باالفاظ دیگر، ثقافت کو گرہن لگ چکا تھا۔ یہ پیداواری قوتوں کے انہدام کا نتیجہ تھا جن پر حتمی طور پر ثقافت استوار ہوتی ہے۔ اس امر کو سمجھنے میں ناکامی تاریخ کی سائنسی سمجھ بوجھ کو ناممکن بنا دیتی ہے۔
انسانی فکر، آرٹ، سائنس اور کلچر کو انتہائی پسماندہ درجے تک دھکیل دیا گیا اور اس وقت کچھ بہتری کے آثار رونما ہوئے جب قدیم یونان اور روم کے افکار عربوں کے ذریعے قرون وسطیٰ کے یورپ تک پہنچے۔ یہ درست ہے کہ نشاۃ ثانیہ میں تاریخ کا یہ دھارا پھر سے جڑ گیا۔ تجارت میں ہونے والی سست رو بحالی نے بورژوازی کو جنم دیا اور بالخصوص فلینڈرز، ہالینڈ اور شمالی اٹلی میں شہر پھر سے آباد ہونے لگے۔لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تہذیب کو ہزار سال پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ یہ تاریخی نشیب یا زوال کی ایک زبردست مثال ہے۔ اور کوئی یہ سوچنے کی جسارت بھی نہ کرے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوسکتا۔
سوشلزم یا بربریت
تمام انسانی تاریخ نوع انسان کی خود کو جانوروں کے درجے سے بلند کرنے کی جدوجہد پر مشتمل ہے۔اس جدوجہد کا آغاز ستر لاکھ سال قبل ا س وقت ہوا جب ہمارے انسان نما قدیم آباؤاجداد پہلی بار سیدھے (دو پیروں پر) کھڑے ہوئے اور ان کے ہاتھ محنت کے لیے آزاد ہوگئے۔پتھر سے نوک دار اوزاروں کو بنانا اس عمل کا آغاز تھا جس میں مرد وزن نے خود کو محنت کے ذریعے انسان بنایا۔تب سے لے کر اب تک، پیداواری قوت محن، یعنی دوسرے الفاظ میں فطرت پر ہماری قوت، میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر ایک کے بعد دوسرے سماجی و معاشی نظاموں نے جنم لیا۔
انسانی تاریخ کے ایک طویل حصے تک یہ عمل تکلیف دہ حد تک سست رو تھا جیسا کہ نئی میلینئیم کے آغاز پر جریدے اکانومسٹ نے لکھا:
”کم و بیش پوری انسانی تاریخ میں معاشی ترقی اس قدر سست رو تھی کہ اس کو ایک زندگی کے عرصے میں محسوس کر پانا ممکن نہ تھا۔صدیوں کی صدیاں گزریں مگر معاشی ترقی کی سالانہ شرح تقریباً صفر رہی۔جب ترقی ہوئی بھی تو یہ اس قدر سست تھی کہ معاصرین کے لیے اس کو محسوس کر پانا ممکن نہ تھا اور اگر ہم ماضی پر نظر بھی دوڑائیں تو ہمیں معیار زندگی میں کوئی بہتری آتی دکھائی نہیں دیتی (جن معنوں میں آج ترقی کو دیکھاجاتا ہے)، محض آبادی میں قدرے اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔پچھلے ایک ہزار سال میں ایک محدود سی اقلیت کے سوا باقی ماندہ کے لیے ترقی کا مطلب یہ تھا: آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے ہستی کے کم ترین درجے پر زندہ رہنے کا ممکن ہو جانا۔“ (اکانومسٹ، 31 دسمبر1999ء)
Antiquity کے عظیم دماغ ارسطو کے نزدیک بھی انسانی ثقافت اور پیداواری قوتوں کی ترقی کا یہ تعلق واضح تھا جس کو وہ اپنی کتاب میٹا فزیکا میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ ”آدمی اسی وقت تفلسف کا آغاز کرتا ہے جب اسے زندگی گزارنے کے ذرائع میسر ہوں“ اور مزید برآں کہتا ہے کہ فلکیات اور ریاضی کے علوم کی قدیم مصر میں دریافت کی وجہ یہ تھی کہ مصری کاہن کام کی مشقت سے آزاد تھے۔یہ قطعی طور پر تاریخ کو دیکھنے کا مادی نقطہئ نظر ہے۔ یہ ان تمام یوٹوپیائی بکواسیات کا جواب ہے جو یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ ”اگر وہ فطرت کی جانب لوٹ جائیں“ تو زندگی کس قدر شاندار ہو جائے گی۔فطرت کی جانب لوٹ جانے سے ان کی مراد جانوروں کی سطح کی زندگی کی جانب لوٹنا ہے۔
حقیقی سوشلزم اسی وقت ممکن ہے جب ذرائع پیداوار ترقی اس منزل پر جا پہنچیں جو موجودہ امریکہ، جرمنی یا جاپان جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہو۔ مارکس نے یہ بات کمیونسٹ مینی فیسٹو سے بھی پہلے بیان کی۔ جرمن آئیڈیالوجی میں مارکس لکھتا ہے کہ ”جیسے ہی قلت بڑھنے لگتی ہے ماضی کی تمام غلاظتیں پھر سے سر اٹھانے لگتی ہیں“۔ یہاں ”ماضی کی تمام غلاظتوں“ سے اس کی مرادطبقاتی جبر، عدم مساوات اور استحصال ہے۔انقلاب کا ایک پسماندہ ملک میں مقید ہو کر رہ جا نا جہاں سوشلزم کی تعمیر کے لیے درکار ذرائع ناپید ہوں، یہی وجہ اکتوبر انقلاب کی افسر شاہانہ انحطاط پذیری کا شکار ہونے اور سٹالنزم کے جنم کا سبب بنی۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سرمایہ داری اب تک آنے والے تمام نظاموں میں سے سب سے زیادہ استحصالی اور جابرانہ نظام ہے؛ اور اس حقیقت کے باوجود بھی کہ مارکس نے کہا تھا کہ ”جب سرمائے کا جنم ہوا تو اس کے پور پور سے خون رِس رہا تھا“، یہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور ہمارے فطرت پر غلبے میں ایک عظیم جست تھی۔ صنعت، زراعت، سائنس اور تکنیک میں ہونے والی ترقی نے کرۂ ارض کو بدل کر رکھ دیا اور ایک ایسے انقلاب کے لیے راہ ہموار کی جو پہلی بار حقیقی معنوں میں انسان کو آزاد کرے گا۔
ہمارا جنم عہد وحشت، عہد بربریت، غلام داری اور جاگیر داری سے ہوا اور یہ پیداواری قوتوں کی ترقی اور ثقافت کے ایک مخصوص مرحلے کی عکاسی کرتے ہیں۔پھول کھلتا ہے اور کلی غائب ہوجاتی ہے؛ ہم اس کو نفی کا نام دے سکتے ہیں جہاں ایک شے دوسرے کے ساتھ تضاد میں ہے۔مگر حقیقت میں یہ تمام ضروری مرحلے ہیں اور ان کو وحدت میں ہی دیکھنا ہوگا۔عہد بربریت یا انسانی ترقی کے کسی بھی مرحلے سے انکار کرنا نری بیہودگی ہوگی۔مگر تاریخ کا پہیہ آگے بڑھتا ہے۔
انسانی ترقی کے ہر مرحلے کی جڑیں ماضی کی تمام تر ترقی میں پیوست ہیں۔انسان کا ارتقا ہو یا سماجی ارتقا یہ بات دونوں پر صادق آتی ہے۔ ہمارا جنم ادنیٰ حیاتیاتی انواع سے ہوا اور ہم جینیاتی لحاظ سے قدیم ترین حیاتیاتی اشکال سے منسلک ہیں۔ انسانی جینوم اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ محض دو فیصد کا جینیاتی فرق ہمیں اپنے قریب ترین رشتے دار چیمپنزی سے ممتاز کرتا ہے۔لیکن یہ دو فیصد کا معمولی فرق حقیقت میں ایک دیوہیکل معیاری جست ہے۔
بالکل اسی طرح، سرمایہ داری میں ہونے والی ترقی نے انسانی ترقی کے معیاری طور پر بلند مرحلے کی راہ ہموار کردی ہے جسے ہم سوشلزم کا نام دیتے ہیں۔ موجودہ بحران اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ نجی ملکیت اور قومی ریاستوں کی جکڑبندی میں پیداواری قوتوں کا دم گھٹنے لگا ہے اور ان کے مابین تضاد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری کب کا اپنا ترقی پسندانہ کردار ادا کرچکی اور اب مزید ترقی کے راستے میں ایک دیوہیکل رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔انسانیت نے آگے جانا ہے تو اس رکاوٹ کو راہ سے ہٹاناہوگا۔اور اگر وقت پر یہ کام نہیں کیا جاتا تو پوری نوع انسان خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔
نیا سماج پرانے سماج کے بطن میں نشوونما پا رہا ہے۔ محنت کشوں کی تنظیموں، مزدوروں کے منتخب نمائندوں، ٹریڈ یونینز اور کوآپریٹوز کی شکل میں نئے سماج کی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔جس عہد کا آغاز ہو رہا ہے، اس میں زندگی اور موت کی شدید کشمکش دیکھنے کو ملے گی۔ نئے سماج کا خواب دیکھنے والوں اور پرانے سماج کو بچانے والوں کے مابین جو ایسا ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔
ایک مرحلے پر یہ لڑائی جس کے نقوش آج ہمیں یورپ میں ہونے والی عام ہڑتالوں، ارجنٹائن اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں جاری انقلابی تحریکوں اور جابجا نوجوانوں کی بغاوت کی صورت میں دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک خاص نہج تک جا پہنچے گی۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکمران طبقے نے شدید لڑائی کے بنا ہی اپنی طاقت اور مراعات سے ہاتھ کھینچ لیے ہوں۔سرمایہ داری کا یہ بحران محض ایک معاشی بحران نہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں روزگار اور معیار زندگی خطرے میں ہے بلکہ یہ پوری انسانی تہذیب کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ ہر محاذ پر نوع انسان کو پیچھے دھکیلنے کے درپے ہے۔ اگر واحد حقیقی انقلابی طبقہ یعنی پرولتاریہ بینکوں اور اجارہ داریوں کے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر کرۂ ارض پر تہذیب کے خاتمے اور یہاں تک کہ بربریت کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
درحقیقت، سرمایہ داری کا بحران لوگوں کی اکثریت کی انفرادی زندگیوں کو انتہائی حساس اور جذباتی حوالوں سے متاثر کر رہا ہے جیسے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، جرائم و تشدد کی وباء، پرانی اقدار اور اخلاقیات کا انہدام کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا، اور جنگوں کا تسلسل وغیرہ۔ یہ سب کچھ عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے اور موجودہ نظام اور مستقبل پر یقین ختم ہوتا جا رہا ہے۔یہ درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ سرمایہ داری بند گلی میں پھنس چکی ہے اور حتمی تجزیے میں (صرف اور صرف حتمی تجزیے میں) اس کی وجہ پیداواری قوتوں کی نجی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑبندی کے خلاف بغاوت ہے۔یہ مارکس ہی تھا جس نے یہ واضح کیا تھا کہ نوع انسان کے سامنے دو ہی راستے ہیں، سوشلزم یا بربریت۔ رسمی جمہوریت، جسے یورپ اور امریکہ کے محنت کش ازلی و ابدی خیال کرتے ہیں، حقیقت میں اس قدر کمزور ہے کہ ایک کھلی طبقاتی جنگ کے تھپیڑے برداشت نہیں کرسکتی۔(ایسی کسی صورتحال میں)نام نہاد مہذب بورژوازی ایک ننگی آمریت مسلط کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔تہذیب و ثقافت کی اس پتلی سی تہہ کے پیچھے بربریت کی انتہائی غلیظ قوتیں چھپی ہوئی ہیں۔ بلقان میں ہونے والے حالیہ واقعات محض اس کی ایک جھلک ہیں۔ مہذب اقدار کی شکست و ریخت میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور ماضی کی بھولی بسری قوتیں پھر سے زندہ ہو کر ترقی یافتہ ترین قوم پر بھی غلبہ حاصل کرسکتی ہیں۔جی ہاں تاریخ صرف عروج کا ہی نام نہیں بلکہ زوال بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
چنانچہ یہ سوال دو ٹوک انداز میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہے، یا تو محنت کش اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے بستر مرگ پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کو موت کے گھاٹ اتارے گا اور اس کی جگہ پیداواری قوتوں کی تعقلی منصوبہ بندی پر مبنی ایک ایسا نظام لے کر آئے گا جو کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور جس میں مرد و زن کی زندگیوں اور تقدیر ان کے اپنے ہاتھوں میں ہو یا بصورت دیگر سماج، معیشت اور تہذیب کا وہ بھیا نک انہدام ہوسکتا ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔
ہزار ہا سال سے تہذیب و ثقافت ایک مراعات یافتہ اقلیت کی لونڈی بنی رہی ہیں اور انسانوں کی ایک بھاری اکثریت کے لیے علم، سائنس، آرٹ، امور حکومت شجر ممنوعہ تھے۔تمام تر ڈھونگ کے باوجود ہم قطعاً تہذیب یافتہ نہیں۔ یہ دنیا ایسے وحشیوں سے بھری پڑی ہے جو تاحال اپنے بربریت زدہ ماضی سے جان نہیں چھڑوا سکے۔ اس کرہئ ارض پر بسنے والے انسانوں کی ایک بھاری ترین اکثریت کے لیے، خواہ وہ نام نہادتیسری دنیا میں ہوں یا ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملکوں میں ہوں، زندگی انتہائی کٹھن اور ایک جہد مسلسل سے کم نہیں۔
تاہم، تاریخی مادیت قطعی طور پر اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم قنوطیت کی دلدل میں جا گریں۔حقیقت اس کے الٹ ہے۔ انسانی تاریخ کا عمومی دھارا پیداواراور تہذیب کے میدان میں زیادہ سے زیادہ ترقی کی جانب ہے۔پچھلی ایک صدی کی حاصلات نے تاریخ میں پہلی بار ایسے حالات کو جنم دیا ہے جن میں انسانیت کو درپیش مسائل با آسانی حل کیے جاسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر ایک غیر طبقاتی سماج کا پوٹینشل موجود ہے۔ جس چیز کی کمی ہے وہ پیداواری قوتوں کی ہم آہنگ اور تعقلی منصوبہ بندی کی ہے جس کی بنا پر ان بے پایاں اور لا محدود امکانات کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے۔
پیداوار میں ایک حقیقی انقلاب ہی اس افراط کو یقینی بنا سکتا ہے کہ مرد و زن کو روزمرہ کی ضروریات کی فکر سے آزاد کیا جاسکے اوران کے دل و دماغ میں بسے ڈر، خوف اور وسوسے ہوا ہو جائیں۔ تاریخ میں پہلی بار حقیقی معنوں میں آزاد انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہوگا۔پہلی بار وہ واقعتاً انسان بنیں گے۔اس وقت ہی نوع انسان کی حقیقی تاریخ کا آغاز ہوگا۔