انقلاب چین 49-1925ء

|تحریر: زین العابدین|

1949 ء میں ماؤ کی قیادت میں برپا ہونے والا چینی انقلاب، انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ 1917ء کے انقلابِ روس کے بعد، یہ پہلا موقع تھا جب صدیوں سے پسے ہوئے کروڑوں عوام نے نہ صرف نیم جاگیر دارانہ رشتوں کے جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات حاصل کی بلکہ سامراجی طوق کو بھی اتار پھینکا۔چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں محنت کشوں اور کسانوں نے ناقابل تصور جرات اور بہادری کی مثالیں قائم کرتے ہوئے پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر ایک متحد اور جدید’’عوامی جمہوریہ چین“ کی بنیاد رکھی۔ ناصرف یہ بلکہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی تمام تر غداریوں اور ماؤ کے نظریاتی تذبذب اور کمزوریوں کے باوجود، چین سے سرمایہ داری کا خاتمہ اور ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کا قیام، ٹراٹسکی کے نظریہ انقلاب مسلسل کی درستگی کا بھی ثبوت تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی فتح نے مغربی اور امریکی سامراج کو لرزا کر رکھ دیا اور دنیا بھر کے محنت کشوں اور بائیں بازوکے کارکنان کو ایک نئی شکتی بخشی۔ چین اور سوویت یونین پر مبنی ایک متحد سوشلسٹ بلاک ناصرف سامراجی حملوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتا تھا بلکہ یہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بھی ایک اہم قدم ثابت ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا بلکہ سوویت اور چینی بیوروکریسی کے اپنے اپنے تنگ نظر قومی مفادات کے تحفظ کی تگ و دو عالمی مزدور تحریک کو مضبوط کرنے کی بجائے اس میں پھوٹ کا باعث بنی اور پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں بیجنگ نواز اور ماسکو نواز دھڑوں میں بٹ گئیں۔ اپنے نظریاتی و سیاسی جوہر میں ایک ہونے کے باوجود سٹالنزم اور ماؤازم دنیا بھر کی مزدور تحریکوں میں پھوٹ اور کمزور ی کا باعث بنے۔ ماؤازم اور اس سے نکلنے والے مسلح جدوجہد کے غیر سائنسی طریقہ کار نے بعد ازاں برپا ہونے والے کئی نوآبادیاتی انقلابات پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ مگر سوویت یونین کے انہدام اور چین کے سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ اور ایک مسخ شدہ مزدور ریاست سے سامراجی قوت بننے تک کے سفر نے ان دونوں رجحانات کے دیوالیہ پن کو آشکار کردیا ہے اور یہ اپنے منطقی انجام یعنی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود چینی انقلاب خطے کے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کی ترقی اور بڑھوتری کے حوالے سے ایک عظیم جست تھی جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد چین کو سامراجی چنگل میں جکڑی ایک نیم جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ ریاست سے ایک جدید اور ترقی یافتہ سماج میں تبدیل کردیا تھا۔ ’چینی معجزے‘ کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے والے نام نہاد دانشوروں اور معیشت دانوں کے اس معجزے کو حقیقت کا روپ دینے والی منصوبہ بند معیشت کا ذکر کرتے ہوئے بھی پر جلتے ہیں۔ آج کے سرمایہ دارانہ چین میں بھوک، غربت، بیروزگاری، استحصال، لوٹ مار غرض سرمایہ داری سے جڑی ہر لعنت بدرجہ اتم موجود ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کے باعث چین میں طبقاتی جدوجہد ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے اور چینی محنت کش طبقہ ایک لمبی نیند کے بعد انگڑائی لے رہا ہے۔ بگڑتی ہوئی معیشت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی افسر شاہانہ آمریت کی پورے چینی سماج پر آہنی جکڑ بندی، جہاں جمہوری آزادیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، ایک دیوہیکل سماجی دھماکے کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دے گا۔ ایسے میں چینی انقلاب، اس کی حاصلات، ماؤازم کے جنم، اس کی فکری غربت وغلطیوں اور سوویت سٹالنسٹ بیوروکریسی کی غداریوں اور نتیجتاً ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کا قیام، بیجنگ -ماسکو پھوٹ اور چین کی سرمایہ داری کی جانب واپسی میں بہت سے اہم اسباق ہیں جن سے مارکسسٹوں کی نئی نسل کو مسلح کرنا ہی اس تحریرکا مقصد ہے۔ خاص طور پر ء27-1925 کے پہلے چینی انقلاب، اس کی ناکامی اور اس دوران سوویت بیوروکریسی کی طبقاتی مفاہمت کی غلط پالیسیوں اور اس کے خلاف ٹراٹسکی کی قیادت میں لیفٹ اپوزیشن کی جدوجہد، ایک نظریاتی خزانہ ہے جس کی جانکاری کے بغیرآج مارکس وادیوں کی نئی نسل کی سیاسی تعلیم وتربیت ادھوری رہے گی۔

قدیم چین اور سامراجی تسلط

انیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے جب عالمی سامراجی طاقتیں بالخصوص برطانیہ چین پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی تھیں، قدیم ایشیائی طرز پیداوار اپنے بستر مرگ پر تھا۔ پچھلی ایک صدی میں ہونے والی کئی بغاوتیں اس قدیم نظام کے اپنی انتہا کو پہنچ جانے کا اظہار تھیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی بغاوت بادشاہت اور اس کے ساتھ قدیم ایشیائی طرز پیداوار کا خاتمہ کرنے اور اس کا متبادل دینے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ مگر اس دوران برطانیہ اور فرانس میں بورژوا انقلابات کے ذریعے جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری لے چکی تھی۔ برطانیہ ایک نئی سامراجی طاقت بن کر ابھر رہا تھا اور ایک عالمی منڈی کی تشکیل جاری تھی۔ کئی صدیوں پوری دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بعد بالآخر سرمایہ داری یورپی سنگینوں سے قدیم چین کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ اور جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا کہ چین کی شمولیت کے ساتھ ہی ایک عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کی تخلیق ہوسکے گی۔ مارکس لکھتا ہے کہ:
”بورژوا سماج کا مخصوص فریضہ عالمی منڈی کی تشکیل ہے۔۔۔کیونکہ دنیا گول ہے،اس لیے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ (عمل) کیلیفورنیا اور آسٹریلیا کی نو آبادکاری اور چین اور جاپان کی (منڈی) کھلنے سے ہی مکمل ہوگا۔“(مارکس، یورپ اور چین میں انقلاب1853ء)

مگر چین میں سرمایہ داری کی آمد اور سرمایہ دارانہ رشتوں کی چینی سماج میں سرایت کا سفر کوئی سیدھی لکیر میں طے نہیں ہوا بلکہ یہ انتہائی پر پیچ اور تکلیف دہ تھا۔ افیمی جنگوں (42-1839ء اور 60-1856ء) میں چینی فوج کی شکست کے بعد سامراجی مداخلت کے ایک نئے دورکا آغاز ہوا جس نے چینی سماج کو عالمی منڈی کے ساتھ جوڑ دیا۔اس جنگ کے نتیجے میں جہاں برطانوی سامراج نے اپنی مرضی کے معاہدے کیے وہیں افیم کی تجارت اور اس میں ملوث چینی بادشاہ کے افسروں کو رشوت اورلوٹ مار کا گھن لگ گیا۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان میں کاشت ہونے والی افیم کی تجارت سے چینی منڈی پر اپنا تسلط مضبوط کیا۔ برطانوی توپوں کے بلبوتے پر سرمایہ داری کی چینی سماج میں اس دھماکہ خیز آمد نے چنگ بادشاہت کے حتمی زوال کی بنیاد رکھ دی جو کہ بعد ازاں 1911ء کو اپنے انجام کو پہنچی۔ برطانوی سامراج نے جہاں ایک طرف تجارت اور فوجی طاقت کی بنا پر خوب لوٹ مار کی اور قدیم چینی سماج کو تاراج کر کے رکھ دیا وہیں اس نے چین میں سرمایہ داری جو کہ ایک نیا اور جدید نظام تھا، کی بھی بنیادیں رکھیں۔ اس حوالے سے ہندوستان کی طرح چین میں بھی سامراج کا دوہرا کردار تھا جس کی مارکس نے 1857ء کی بغاوت ہند کے دوران نیویارک ٹریبیون میں لکھے گئے مضامین میں وضاحت کی تھی۔ اس شرمناک شکست سے بادشاہت کے خلاف نفرت کو مزید ہوا ملی۔ بعد ازاں، ”تائی پنگ بغاوت“ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور بادشاہت کو لرزا کر رکھ دیا، جب پورے چین کے طول و عرض میں لاکھوں مفلس کسان اور نیم پرولتاریہ بادشاہت کے خلاف میدان میں اتر آئے۔اس بغاوت بالخصوص اس کے طبقاتی مطالبات (زمینوں پر قبضے، نجی تجارت پر پابندی وغیرہ) کی بنیاد بھی برطانوی تجارت کے چینی سماج پر پڑنے والے تباہ کن اثرات تھے۔ لاکھوں میل دور برطانوی اور یورپی منڈیوں سے چین پہنچنے والی سستی اشیانے ہزاروں سالوں سے قائم چینی سماج کا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ چینی کسان اپنی پیداوار انتہائی سستے داموں بیچنے جبکہ در آمد شدہ اشیا انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور تھے۔

”افیون کے عام استعمال کا نتیجہ دولت کی دیہاتوں سے قصبات کو منتقلی اور اندرونی منڈی کے خطرناک حد تک سکڑنے کی صورت میں نکلا۔ملکی منڈی سے اخراج کے نتیجے میں چاندی کی قلت کی وجہ سے عام استعمال ہونے والی تانبے کی کرنسی کی قدر 20 سے 30 فیصد گرگئی اور روز مرہ کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔کپاس سے بنی مصنوعات اور دیگر غیر ملکی اشیا نے چینی دستکاری کو برباد کرکے رکھ دیا، خاص طور پر جنوبی صوبوں میں۔۔۔ان صنعتوں کے ختم ہونے کا مجموعی نتیجہ بڑے پیمانے پر مفلسی کی صورت میں نکلا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ خانہ بدوش بن گیا۔“(آئزک، انقلاب چین کا المیہ)

جہاں ایک طرف نام نہاد ترقی پسند جمہوری برطانیہ نے افیون کا زہر بیچ کر چینی سماج کو تاراج کیا اور مستقبل کے چینی انقلاب کے سپاہیوں کو جنم دیا وہیں سرمایہ دارانہ منڈی کی حرکیات کے تحت قدیم زرعی اشرافیہ کے جبر واستحصال کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید مضبوط اور گہرا کرنے کا موجب بنا۔اس کے بعد امریکہ اور فرانس کی بھی چین میں سامراجی مداخلت میں اضافہ ہوا۔

”ان تاجروں اور سرکاری اہلکاروں میں سے ایک نئے طبقے کا جنم ہوا، ایک گماشتہ طبقے کا جو کہ چینی منڈی میں بیرونی سرمایے کا دلال تھا۔۔۔معیشت سے جڑے کلیدی عہدوں پر بیرونی(اہلکاروں کے) قبضے نے مقامی اور آزاد سرمایہ دارانہ ترقی کے رستے میں دیوار حائل کردی۔ ان چینی تاجروں اور اہلکاروں کی اکٹھی کی گئی دولت کسی سرمایہ دارانہ صنعت میں لگنے کی بجائے واپس زمین (کی خرید و فروخت) میں خرچ ہونے لگی۔ زرعی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان بیشتر افراد نے اس عمل کا آغاز کیا اور اپنی دولت کو اپنی خاندانی جاگیروں کو توسیع دینے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے واضح طور پر بڑی بڑی جاگیروں کی بڑھوتری اور چھوٹے زمینداروں کے اپنی زمین سے ہاتھ دھونے کے عمل کو مہمیز دی۔۔۔منافعوں سے ناصرف مزید زمینیں بلکہ بلند شرح سود پر کسانوں کوقرضے دئیے گئے، جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتی آمدن اور بڑھتے اخراجات اور محصولات کے باعث قرضے لینے پر مجبور تھے۔۔۔کسان تبدیلی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے سے قاصر تھا۔ بلکہ اس کے ہاتھوں برباد ہوگیا۔۔۔۔اپنی زمین سے ہاتھ دھو کر وہ کھیت مزدور بن گیا۔۔۔یہ (زمیندار اشرافیہ) طبقہ، جو کہ زمین کے ساتھ جڑی تمام تر عدم مساوات کو ہر صورت قائم رکھنا چاہتا تھا اور اس سے منافع بٹورتا تھا، غیر ملکی نفوذ اور کنٹرول کا بنیادی اوزار بنا۔“(ایضاً)

یوں، یہ نیا طبقہ اپنے جنم سے ہی رجعتی اور بیرونی سرمایے پر انحصار کرتا تھا اور کسی قسم کا ترقی پسند کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ 1880ء کی دہائی میں سامراجی آشیرباد میں ہی ان انفرادی سرمایہ داروں نے شنگھائی، ووہان، گوانگ ڈونگ اور دیگر شہروں میں کپڑے، کاغذ، ماچس اور ریشم کی صنعتیں لگانا شروع کیں مگر یہ عمل ہر حوالے سے بیرونی سرمائے کی مرہون منت تھا۔ریل اور ڈاک کے جدید نظام کی آمد کے ساتھ ہی چین میں سرمایہ داری کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔

تائی پنگ بغاوت کی شکست کے بعد چین کسی بورژوا انقلاب کے بغیر ہی عالمی منڈی کا حصہ تو بن گیا مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ یورپ کی طرح جدید اور جمہوری چین کے قیام کے لیے کون اس گلی سڑی بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے بورژوا انقلاب کے فرائض پورے کرتے ہوئے اس کی جگہ لے گا؟

بادشاہت کا خاتمہ اور 1911ء کا بورژوا انقلاب

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی چینی سماج میں پرانے نظام سے نفرت اور تبدیلی کی خواہش اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ اس وقت چین پر ایک بادشاہت مسلط تھی اورچنگ شاہی خاندان اقتدار پر قابض تھا۔بادشاہت سے نفرت بڑھتی چلی جارہی تھی اور عوام اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔اوپر سے مسلط کئے گئے بورژوا رشتوں کا استحصال،نیم جاگیردارانہ اشرافیہ کا جبر اور اس پر سامراجی محکومی اور لوٹ مار چینی سماج کو تاراج کر رہے تھے۔ ایسے میں ناصرف کسانوں اور شہری مزدوروں بلکہ انٹیلی جنشیہ میں بھی اس پورے نظام کے خلاف نفرت نقطہ ابال کو پہنچ چکی تھی۔ خاص طور پر نوجوانوں کی پرت میں چین کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے حوالے سے گرماگرم اور پرجوش بحثیں عام تھیں۔ آغاز میں یہ خیال راسخ تھا کہ موجودہ چینی ریاست میں ہی اصلاحات کرکے برطانیہ یا امریکہ کی طرز پر ایک آئینی بادشاہت یا پارلیمانی جمہوریت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ موجودہ ریاست کی اصلاح ناممکن ہے جو کہ کسی طور اپنی طاقت اور مراعات چھوڑنے پر راضی نہیں ہوگی۔ اسی اثنا میں کئی انقلابی تنظیمیں اور جرائد ابھرے۔ اس حوالے سے چین کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں خاص طور پر گرماگرمی تھی جن کا مرکز کنٹن (موجودہ گوانگ ژو) اور شنگھائی تھے۔ ان میں سے کم وبیش ہر تنظیم کا مقصد چنگ بادشاہت کو اکھاڑ پھینک کر ایک جمہوریہ کا قیام تھا۔ تاہم، اس عرصے میں مارکسی یا سوشلسٹ نظریات ابھی چینی سماج میں کوئی خاطر خواہ جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ ایسے میں بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں، دو شخصیات اور ان کی تنظیمیں اور جرائد ابھر کر سامنے آئے جن میں سے ایک سن یات سین اور اس کی تنظیم تونگ منگ ہوئی (جو بعد ازاں کومنٹانگ کے نام سے جانی جانے لگی) تھی اور دوسری، چین دو زیااور اس کے Anhui Common Speech Journal اور New Youth نامی جرائد تھے۔

1905ء سے 1912ء کے درمیان، سن نے چنگ بادشاہت کو فوجی قوت کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک سیاسی تحریک کو فروغ دیا۔ اس دوران قومی جدوجہد کو مضبوط اور توانا کرنے کے لیے، سن نے کئی چھوٹی بڑی تنظیموں کو ایک پارٹی میں اکٹھا کردیا جس کی وجہ سے سن کی شہرت اور اثرورسوخ میں اضافہ ہوا۔سن کا مقصد چین میں ایک بورژوا جمہوری انقلاب کرتے ہوئے ایک جدید جمہوری چین کی تعمیر تھی۔ اس مقصد کے لیے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں، سن کی قیادت میں بادشاہت کے خلاف پانچ بغاوتیں ہوئیں مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکی۔مگر 1911ء میں کنٹن بغاوت کی ناکامی کے بعد، بالآخر ہوبے صوبے میں سپاہیوں نے بغاوت کردی اور جمہوریہ کے قیام کا باضابطہ اعلان کردیا۔ تاریخ میں اس کو’’شن ہائی انقلاب“ یا پہلا چینی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

گوکہ اس بغاوت کے نتیجے میں کوئی عوامی ردعمل سامنے نہ آیا نہ ہی اس میں عوام کی شمولیت تھی مگر بادشاہت اور موجودہ حکومت اس قدر گل سڑ چکے تھے کہ ان کو اشرافیہ سے بھی حمایت میسر نہ آسکی۔ بادشاہ نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کردیا اور جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ہی، نان جنگ میں سن کے حمایتیوں نے قومی اسمبلی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ سن کو نئی جمہوریہ کا صدر چن لیا۔

سن سیاسی طور پرایک پیٹی بورژوا ریڈیکل تھا جس کے نزدیک سوشلزم ایک واضح سیاسی اور معاشی نظام کی بجائے ایک مبہم سا عوامی بہتری کا کوئی ذریعہ تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت سن کے مشہور زمانہ ”تین اصول“ ہیں جن میں چین کو سامراجی چنگل سے نجات دلانے کے لیے طبقاتی جدوجہد کا ذکر ہی نہیں اور اس کی بجائے ’عوام‘ کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے چین میں نہ کوئی طبقاتی تفریق وجود رکھتی تھی اور نہ ہی مختلف طبقات کے متضاد اور ناقابل مصالحت مفادات تھے۔

سن کی ان نظریاتی کمزوریوں کا اظہار آنے والے واقعات میں ہوا۔بجائے اس کے کہ سن حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک ریڈیکل سیاسی و سماجی پروگرام پر ملک کے طول و عرض میں عوام کو متحرک کرتا، سن نے پرانی بادشاہت کے وزیر اعظم کے ساتھ ڈیل کر لی تاکہ بادشاہ کی بے دخلی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے بدلے میں کئی شرمناک مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا۔

چین کا یہ انقلاب، چینی سماج میں سلگتے کسی ایک مسئلے کو بھی حل کرنے میں قاصر رہا اور کسی بنیادی تبدیلی کی بجائے صرف چہروں کی تبدیلی ثابت ہوا۔انقلاب فرانس کی طرح جس نے شہری نیم پرولتاریہ پرتوں اورکسانوں کی حمایت اور عملی شرکت کے ساتھ جاگیرداری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک نئے ترقی پسند نظام سرمایہ داری کی راہ ہموار کی، اس کے بالکل برعکس شن ہائی انقلاب میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی، گو کہ پرانی بادشاہت سے نفرت کی وجہ سے انقلاب کے لیے عوام کی ہمددریاں موجود تھیں، اور بنیادی طور پر پربادشاہت سے خائف مقامی اشرافیہ، فوجی اور سول افسران کے بلبوتے پر انقلاب کیا گیا۔ انقلاب کی قیادت رائج الوقت سرمایہ دارانہ نظام اور ماضی کی تمام تر باقیات کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے سے قاصر تھی کیونکہ اس کی قیادت وہی اشرافیہ اور بیوروکریسی کر رہی تھی جن کے اسٹیٹس کو کے ساتھ مفادات جڑے تھے۔

نتیجتاً اقتدار پر قبضے کی لڑائی کے دوران پھوٹ پڑی اور بادشاہت کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوسری جانب، نوزائیدہ جمہوری حکومت بھی ٹوٹ پھوٹ اور آپسی لڑائیوں کا شکار تھی کیونکہ اس کی حمایت کے لیے کوئی مضبوط اور آزاد قومی بورژوازی ہی موجود نہ تھی۔ گو کہ بادشاہت کا خاتمہ ایک ترقی پسند قدم تھا مگر شن ہائی انقلاب اور اس کو برپا کرنے والی پارٹی کومنٹانگ کوئی ایک بھی جمہوری فریضہ سر انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ قومی آزادی، قومی وحدت، ریڈیکل زرعی اصلاحات، جدیدانفرا سٹرکچر کی تعمیر اور سامراجی تسلط سے چھٹکارے سمیت کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوسکا۔ اس انقلاب کی نااہلی نے نام نہاد قومی بورژوازی کی کمزوری کو مکمل طور پر عیاں کردیا۔رد انقلابی قوتوں کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سن کی پارٹی کومنٹانگ کو غیر قانونی قرار دے دیا گیااور سن کو جاپان جلا وطن ہونا پڑا۔ پوراچین جاگیرداروں اور وار لارڈز میں منقسم ہوگیا۔ خانہ جنگیوں نے دیہاتوں میں محرومی اور ذلت میں مزید اضافہ کردیا۔

اس شکست کے چینی نوجوانوں بالخصوص نوزائیدہ پرولتاریہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور سامراجی بندر بانٹ نے سامراج سے وابستہ رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا جس کے نتیجے میں ’’4مئی کی تحریک“ کا جنم ہوا۔ مگر یہ بدنظمی اور انتشار 1949ء کے انقلاب تک جاری رہا اور یوں جمہوری انقلاب کے فرائض کی تکمیل بھی محنت کش طبقے کے کندھوں پر آن پڑی جس کے پوٹینشل کا اظہار دوسرے چینی انقلاب میں ہوا۔

پہلی عالمی جنگ اور مزدورتحریک کا احیا

جہاں نظریاتی اور فکری محاذ پر چن چینی سماج کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سرگرداں تھا وہیں دوسری طرف شنگھائی، ووہان، کنٹن، گوانگ ڈونگ، گوانگ ژو اور دیگر بڑے شہروں کی صنعتوں میں مستقبل کے چینی انقلاب کا اوزار تیار ہو رہا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر چینی سماج میں ایک تاریخی تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ ایک نیا، ترقی پسند اور انقلابی طبقہ چینی صنعتوں میں پروان چڑھ رہاتھا۔ سامراجی تسلط کے زیر اثر ہونے والی یہ صنعتی ترقی اپنے اندر بہت سے تضادات لیے ہوئے تھی۔ مثال کے طور پر پہلی چین-جاپان جنگ کے بعد سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر چین میں تیزی سے ریل بچھائی گئی مگر 1925ء تک آتے آتے چین جیسے لاکھوں مربع کلومیٹر پر پھیلے ایک وسیع و عریض خطے میں ریل کی پٹری کی کل لمبائی محض 12ہزار کلومیٹر تھی اور اس کا بھی بیشتر حصہ مشرقی صوبوں میں تھا۔ اسی طرح، یورپ سے آنے والی سستی مصنوعات کی بھرمار نے دیہی آبادی کی ایک بڑی اکثریت کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا تھا جن کا اب صنعتوں میں استحصال کیا جاسکتا تھا۔ جہاں ایک طرف، سامراجی تسلط میں ہونے والی اس سرمایہ دارانہ ترقی نے قدیم سماجی رشتوں کو مسخ کرتے ہوئے انہیں اور بھی زیادہ ناقابل برداشت بنا دیاوہیں دوسری طرف چینی سماج کو عالمی منڈی سے بھی جوڑ دیا۔ دیہی آبادی کے اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھ کر خانہ بدوشی اور شہروں کی جانب آمد نے سستی محنت بھی فراہم کی جن کاا ب صنعتوں میں استحصال کیا جاسکتا تھا۔ ایک طرف زرعی پیداوار میں بڑی کمی ہوئی تو دوسری جانب جدید تکنیک سے لیس صنعتوں کے لگنے سے بڑے شہروں جیسے شنگھائی میں محنت کش طبقے کی بڑھوتری بھی ہوئی۔ 1905ء کے بعد چینی شہروں کے حجم میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1919ء تک شنگھائی کی آبادی 19 لاکھ تک جا پہنچی۔ 23-1919ء محض چار سالوں میں بیجنگ کی آبادی 6 لاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ اسی مظہر کو ٹراٹسکی ”مشترکہ اور ناہموار ترقی“ کا نام دیتا ہے۔ اور یہی نو آبادیاتی ممالک میں سامراج کا دوہرا کردار تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران چینی صنعت اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نوزائیدہ محنت کش طبقے کی تیز ترین بڑھوتری ہوئی۔ جدید تکنیک سے لیس فیکٹریاں، ملیں اور شپ یارڈ شنگھائی اور کنٹن جیسے بڑے شہروں میں ابھریں جن کی بھاری اکثریت عالمی سرمائے کے فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والے چینی سرمایہ داروں کی ملکیت تھی۔ اس دوران شنگھائی مشرق بعید کی اہم ترین بندرگاہ بن گیا۔ اسی اثنا میں چین میں صنعتی مزدورں کی تعداد میں بھی تیز ترین اضافہ ہوا جو کہ 1916ء میں 10 لاکھ سے بڑھ کر 1922ء تک 20 لاکھ تک جا پہنچی۔ جبکہ 20 لاکھ دیگر شعبوں کے مزدور بھی تھے جن میں کان کن،ریل مزدور اور بحری جہازوں کے مزدور نمایاں تھے۔ اس ترقی کی ایک اور اہم خاصیت اس محنت کش طبقے کا بڑے شہروں اور بالخصوص بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں میں مرتکز ہونا تھا۔مثال کے طور پر، 1923ء میں شنگھائی کی 57 فیکٹریوں میں 5 سو سے 1 ہزار تک مزدور کام کرتے تھے۔ اسی طرح، 1927ء تک صرف شنگھائی میں کام کرنے والے صنعتی مزدوروں کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہوچکی تھی۔ مزید برآں، لگ بھگ 8 لاکھ چینی مزدور ایسی صنعتوں میں مرتکز تھے جن کی فی فیکٹری ور ک فورس 500 سے زائد تھی۔ مگر یہ سامراجی سرمایہ داری اپنے ساتھ بدترین استحصال بھی لے کر آئی جن میں محنت کشوں کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے۔ بالغ محنت کشوں کے لیے کام کے اوقات کار بارہ سے چودہ گھنٹے تھے مگرکئی صنعتیں ایسی تھیں جہاں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بھی کام لیا جاتا تھا۔ اسی طرح شنگھائی کے صنعتی مزدوروں کالگ بھگ نصف خواتین محنت کشوں پر مشتمل تھا جن کا مردوں سے بھی زیادہ استحصال کیا جاتا تھا اور ان کو انتہائی غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اجرتوں میں تفاوت کے ساتھ ساتھ ان محنت کشوں کا جنسی استحصال بھی عام تھا۔ جبکہ اسی دوران شنگھائی میں طبقاتی تفاوت بھی واضح نظر آتا تھا۔ ایک طرف غربت کا سمندر تھا تو دوسری جانب ان محنت کشوں کے استحصال سے منافعے کمانے والے سرمایہ داروں، بینکاروں، اور افسران کے لیے ہر آسائش موجود تھی۔ یہ طبقاتی تفاوت اور استحصال اس نوزائیدہ مگر مضبوط اور مرتکز محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہا تھا۔ آئزک ”چینی انقلاب کے المیے“ میں لکھتا ہے کہ:
”1916ء کے اختتام تک چین میں صنعتی مزدورں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی تھی اور جو 1922ء تک دگنی ہوچکی تھی۔ دولاکھ چینی محنت کشوں کی ایک فوج کو جنگ کے دوران یورپ بھیجا گیا۔ ان میں سے کئی محنت کشوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور سب سے بڑھ کر وہ یورپی محنت کشوں کے ساتھ تعلق میں آئے اور یورپ کے بلند معیار زندگی سے روشناس ہوئے۔ وہ نئے خیالات کے ساتھ واپس آئے کہ کس طرح جدوجہد سے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ان محنت کشوں نے نئی مزدور تنظیموں کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا جن میں انہوں نے مضبوط اور پرجوش مراکز بنائے۔۔۔1919ء میں یہ شنگھائی اور دیگر شہروں میں ہونے والی ہڑتالیں ہی تھیں جنہوں نے حکومت کو پیکنگ میں گرفتار طلبہ کو رہا کرنے اور قابل نفرت سرکاری اہلکاروں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔“

اس تمام تر استحصال کے دوران چین کی مزدور تحریک بھی منظم ہو رہی تھی۔ کنٹن میں یکم تا 6 مئی 1922ء میں چینی محنت کشوں کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں 200 یونینوں کے 160 مندوبین شریک تھے جو تین لاکھ محنت کشوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔اس کانفرنس میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار، ہڑتالیوں کی باہمی امداد، ایک مستقل ملکی تنظیم اور صنعتی یونینوں کے لیے پالیسی سازی کے حق میں قراردادیں منظور کی گئیں۔اس کانفرنس کے بعد چائینیز نیشنل لیبر فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ مئی 1925ء میں دوسری ملکی سطح کی لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 285 مندوبین نے شرکت کی جو ساڑھے چار لاکھ محنت کشوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس فیڈریشن کو ماسکو کی سرخ انٹرنیشنل لیبر یونینز (RILU) کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔

1922 ء سے پہلے مزدور تحریک مختلف تحریکوں اور ہڑتالوں کے ذریعے پھیل رہی تھی۔ بہت سے چینی سرمایہ دار بیرونی سرمایہ داروں کی فیکٹریوں میں ہونے والی ہڑتالوں کی مدد کرتے تھے تاکہ ان کا خاتمہ کر کے کاروبار پر اپنا تسلط حاوی کر سکیں۔ لیکن 1922ء تک خود چینی سرمایہ داروں کی فیکٹریوں میں بھی ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھاجس کے خلاف مقامی سرمایہ داروں اور حکومت کا رویہ اب سخت تھا۔اکتوبر 1922ء میں تان شینگ کے کان کنوں کی ہڑتال کو توڑنے کے لیے حکومت نے پولیس اور فوج کا بھی استعمال کیا۔اس کے علاوہ ریلوے، شپنگ اور دیگر شعبوں میں بڑی ہڑتالیں ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔لیکن چین میں محنت کش طبقے کی تحریک کے ابھار کا آغاز 4 مئی 1919ء کی تحریک سے ہوا تھا جو چین کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تحریک طبقاتی توازن میں واضح تبدیلی اور محنت کش طبقے کی طاقت کا پہلا اظہار تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ورسائی معاہدے کے تحت ہونے والی سامراجی بندر بانٹ نے ناصرف چینی حکمران طبقے کے خصی پن کو مزید عیاں کردیا بلکہ ساتھ ہی سامراج کے حوالے سے موجود تمام تر خوش فہمیوں کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں شین ٹونگ کی جاپان کو حوالگی کا اعلان اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 4 مئی 1919ء کو مختلف یونیورسٹیوں کے لگ بھگ پانچ ہزار طلبہ پیکنگ کی سڑکوں پر نکل آئے اور سامراج کے دلال کئی وزیروں کی رہائش گاہوں پر حملہ کردیا۔ کئی طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔جاپانی اشیا کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ اس سامراجی بندر بانٹ میں ملوث اہلکاروں کو سزا دی جائے۔ اگلے روز پورے پیکنگ کے طلبہ ہڑتال پر چلے گئے اور یہ مظاہرے چین کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی فیکٹریوں کے مزدور طلبہ کے ساتھ یکجہتی میں ہڑتال پر چلے گئے۔ محنت کش طبقے کی اس تحریک میں شمولیت نے صورتحال کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ شنگھائی کے مزدوروں کی ہڑتال خاص طور پر قابل ذکر ہے جنہوں نے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اعلامیہ جاری کیا اور گرفتار طلبہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ناصرف گرفتار طلبہ کو رہا کر دیا گیا بلکہ ان افسران کو بھی برخاست کردیا گیا جو اس معاہدے میں شامل تھے۔ یہ محنت کش طبقے کی چین کے سیاسی منظر نامے پر پہلی آمد اور اپنی قوت کا اولین اظہار تھا۔

اس دوران 1911ء کے انقلابیوں کی پارٹی کومنٹانگ اپنی متروکیت کے باعث کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔ اس کے ”دائیں“ بازو سے وابستہ افراد مختلف علاقائی جنگی سرداروں کے رحم و کرم پر تھے جبکہ سن یاٹ سین ابھی بھی سیاسی طریقہ کار کی بجائے عسکری طریقہ کار کے ذریعے مختلف علاقائی سرداروں کے ساتھ مل کر انقلاب کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس نے ’’تین عوامی اصولوں‘‘ کی پالیسی دی جو درپیش سماجی ومعاشی مسائل کا واضح حل دینے کی بجائے متذبذب نقطہ نظرکا اظہار تھی۔ اس کا نیشنلزم کا اصول سامراجی طاقتوں کے خلاف لڑنے کا کوئی طریقہ نہیں پیش کرتا تھا۔ بلکہ پہلے صدر کی حیثیت سے اپنے دور اقتدار میں سن ان طاقتوں کے آگے جھک گیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد سن مختلف عالمی طاقتوں سے رحم کی اپیل کرتا ہوا ان کے بہتر برتاؤ کے ذریعے کوئی حل تلاش کرنا چاہتا تھا۔ سن چین میں رہنے والی مانچو، منگول، تبتی اور دیگر اقلیتی قومیتوں کو بھی چینی نیشنلزم کے تحت ہان چینیوں کے اقتدار میں اکٹھا کرنا چاہتا تھا اور ان قومیتوں کے حقِ خود ارادی کا مطالبہ بہت تاخیر سے اس کے پروگرام میں شامل ہوا۔
اس کی سوچ تھی کہ جمہوریت کے اصول کے تحت ’جاہل‘اور پسماندہ عوام کو روشن خیال راہنما اندھیروں سے باہر نکالیں گے۔ اس کی ’جمہوریت‘ میں عوام کے سیاسی حقوق او ر آزادی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔اس کے ”عوام کی زندگیوں“ کے اصول کے تحت زرعی سوا ل کو حل کرنے کے بارے میں بھی مبہم رائے دی گئی تھی جسے سن مختلف تشریحوں کے ذریعے وقت کی مناسبت سے موزوں بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ 4 مئی کی تحریک کے بعد سن کی کومنٹانگ بھی اس سیاسی ہلچل میں قدم رکھنے کی کوشش کر رہی تھی اور اسے سامعین بھی مل رہے تھے۔مختلف طلبہ کے اکٹھ میں وہ تقریریں کر کے اپنی سیاست کو ختم ہونے سے بچانے کی کوشش میں مصروف تھا۔

انقلابِ روس اور چینی کمیونسٹ پارٹی کا قیام

1917ء کے روسی انقلاب نے باقی دنیا کی طرح چینی محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ورسائی معاہدے کے نتیجے میں ہونے والی بندر بانٹ کے مقابلے میں سوویت حکومت نے جولائی 1919ء میں کاراکھان مینی فیسٹو پر عملدرآمد کرتے ہوئے زار شاہی کے عہد میں چین کے علاقوں، اور مراعات کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔اس اعلان کے چینی عوام پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور بالشویک نظریات کو حمایت میسر آئی۔ انقلابِ روس کے بعد مارکسی نظریات بھی چینی نوجوانوں میں اپنی جگہ بنا رہے تھے اور بہت سی سوشلسٹ سوسائیٹیاں اور گروپ ابھر رہے تھے جن میں ان نظریات پر گرماگرم بحثیں جاری تھیں۔ یہی گروپس چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد بنے۔اس دوران 1919ء میں عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں تیسری انٹرنیشنل یا کومنٹرن کی بنیاد بھی رکھی جا چکی تھی۔

4مئی کی تحریک نے چن دوشو پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے جو اپنے میگزین ”New Youth“ کی بدولت پورے چین میں جانا جاتا تھا جو کہ کلاسیکی چینی زبان کی بجائے عام فہم زبان میں چھپتا تھا۔ چن اس نتیجے تک پہنچ چکا تھا کہ چینی عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے اور روسی انقلاب کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کی صورت میں اس کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا اور اس نے بالآخر مارکسی نظریات کو اپنایا۔ چن کے قریبی ساتھی لی دا ژاؤ کا کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل میں اہم کردار تھا جس نے چن کو مارکسی نظریات کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لی نے بھی اپنی ایک مارکسسٹ سوسائٹی بنا رکھی تھی جس کے ممبران میں ماؤ زے تنگ بھی شامل تھا۔ لی نے چن ڈوشو اور دیگر بے شمار ساتھیوں کے ساتھ مل کر کمیونسٹ انٹرنیشنل سے رابطہ کیا اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی تیاریوں کا آغاز کردیا۔

لی ہانجن کوکمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب سے ہدایات ملیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف چین (CCP) کا تاسیسی اجلاس منعقد کیا جائے۔اس نے مختلف شہروں سے ممبران کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دینی شروع کر دی۔ اسی دوران وہ مختلف رسالوں اور اخباروں میں سوشلسٹ نظریات کا پرچار بھی کر رہا تھا۔ 21 تا 23 جولائی 1921ء کو ہونے والے اجلاس میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے حصے کے طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی اور چن ڈو شو کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ شنگھائی میں ایک لیبر سیکرٹریٹ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور چین کے محنت کش طبقے کو منظم کرنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

کمیونسٹ انٹرنیشنل اور چینی کمیونسٹ پارٹی کا ابتدائی سفر

کمیونسٹ انٹرنیشنل نے نا صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کے قیام بلکہ اس کی نظریاتی سمت متعین کرنے اور ایک ٹھوس بالشویک طرز کے ڈھانچے کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔چن اور لی کو کومنٹرن سے میسر آنے والی تنظیمی اور نظریاتی امداد نے دہائیوں پر محیط ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے سفر کو سہل بنادیا۔

1920 ء میں پیٹروگراڈ میں ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں نوآبادیاتی ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے کردار پر بحث کی گئی اور اس کانگریس میں قومی اور نوآبادیاتی سوال پر لینن کے تھیسز کے ساتھ ایک دستاویز بھی اتاری گئی جسے ایم این رائے نے تیار کیا تھا۔اس بحث میں نو آبادیاتی ممالک میں سامراجی ممالک کیخلاف قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی کشمکش سے جوڑتے ہوئے انقلاب کے سفر کو سوشلسٹ منزل کی جانب لے جانے پر تفصیلی غور کیا گیا۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے فوری بعد جو اہم مسئلہ درپیش تھا وہ ایک پرولتاری پارٹی کی حیثیت سے کومنٹانگ سے اس کے تعلق کا تھا۔قومی آزادی کی تحریک سے محنت کش طبقے کے تعلق کی بحث آنے والے دور میں جدوجہد کی بنیاد بنی۔کومنٹرن کی دوسری کانگریس میں لینن نے واضح کر دیا تھا کہ سامراج کے اس عہد میں نوآبادیاتی اور نیم نوآبادیاتی ممالک میں قومی آزادی کی تحریکوں میں مداخلت کر کے ان کو محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ان قومی تحریکوں سے تال میل ضروری ہے لیکن پرولتاری پارٹیوں کی آزادانہ تنظیم سازی اور نظریاتی پوزیشن کو اس اتحاد پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن دوسری جانب ماسکو میں بیٹھی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی قیادت کی زوال پذیری کا عمل بھی شروع ہوچکا تھا جس کا پہلا اظہار سٹالن اور زینوویف کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں 1923ء میں جرمنی کے دوسرے انقلاب کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔ سٹالن اور بخارن کے دھڑے نے لینن کی یونائیٹڈ فرنٹ کی پالیسی کو ایک مسخ شدہ حالت میں اپناتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی کو بورژوا پارٹی کومنٹانگ کے تابع کردیا جس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے۔ سٹالن اور بخارن کا موقف انتہائی میکانکی، تاریخی طور پر غلط اور طبقاتی مفاہمت پر مشتمل تھا۔ سٹالن اور بخارن کے دھڑے کا کہنا تھا کہ چین اس وقت ایک سوشلسٹ انقلاب کے لیے تیار نہیں اور اس کا قومی جمہوری انقلاب کے مرحلے سے گزرنا لازمی ہے۔ سامراجی مداخلت نے تضادات کو بڑھا دیا ہے۔ کیونکہ چین کا انقلاب ایک قومی جمہوری انقلاب ہوگا اور اس کا کردار سرمایہ دارانہ ہوگا اس لیے کمیونسٹ پارٹی کو اس نام نہاد ’قومی بورژوازی‘ کی حمایت کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے چار طبقاتی اتحاد کی بات کی گئی۔ چین کے موجودہ جھنڈے پر موجود چار چھوٹے ستارے انہیں چار طبقات کے نمائندہ ہیں یعنی مزدور، کسان، پیٹی بورژوازی(بشمول طلبہ اور انٹیلی جنشیہ وغیرہ) اور قومی بورژوازی۔ اس کا انتہائی غلط جواز یہ پیش کیا گیا کہ چینی سماج میں ماقبل از سرمایہ داری کی باقیات اور سماجی و معاشی ر شتے حاوی ہیں۔ محنت کش طبقہ انتہائی کمزور اور قلیل تعداد میں ہے۔ کیا ہمیں کچھ یاد نہیں پڑتا؟ کیا انقلاب روس سے قبل روسی منشویکوں کی روسی انقلاب کے حوالے سے بعینہ یہی پوزیشن نہیں تھی جس کے خلاف لینن اور ٹراٹسکی نے لڑائی لڑی اور خود روس کے انقلاب نے ٹراٹسکی کے انقلاب مسلسل کے نظریے کو تاریخ کی کسوٹی پر سچااور درست ثابت کیا تھا۔ مگر سٹالن اور بخارن جس رد انقلابی افسر شاہانہ پرت کی نمائندگی کر رہے تھے، اس کا انقلاب روس کے اسباق سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ سٹالن اور بخارن کی یہ پوزیشن نہ صرف غیر مارکسی بلکہ روسی بیوروکریسی کی قومی بنیادوں پر زوال پذیری کا بھی اظہار تھی اور غالباً یہ پہلا موقع تھا جب ایک ملک میں سوشلزم کے غیر مارکسی نظریے کی بات کی گئی۔

بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ سامراجی مداخلت اور جبر کو بنیاد بناتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پہلے مرحلے میں قومی بورژوازی اور کمیونسٹوں یعنی محنت کش طبقے کو مل کر سامراج کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی اور جمہوری انقلاب کے فرائض پورا کرنا ہوں گے۔ سامراجی جبر کے خلاف جدوجہد نے قومی سرمایہ داروں اور مزدوروں کے مفادات کو یکجا کردیاہے۔ چین کی قومی بورژوزی نا صرف سامراج کو نکال باہر کرے گی بلکہ قومی جمہوری انقلاب کے فرائض بھی پورے کرے گی یعنی ریڈیکل زرعی اصلاحات اور وار لارڈز کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ایک آزاد، جدید اور متحد چین کی بنیاد رکھے گی۔ اس لیے ابھی طبقاتی جدوجہد کا وقت نہیں آیا بلکہ ضرورت صرف اس ا مر کی ہے کہ کومنٹانگ کی قیادت میں سامراج کے خلاف لڑائی کو منظم کیا جائے۔ اس لیے اب کمیونسٹوں کا کام صرف کومنٹانگ کو مضبوط کرنا ہے۔ لہٰذا کمیونسٹ پارٹی کے ممبران اور محنت کشوں کو طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی بجائے قومی جمہوری انقلاب کا درس دیا جانے لگا۔سٹالن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کمیونسٹ اور کومنٹانگ اتحاد کوئی عارضی اتحاد نہیں بلکہ مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد کا عملی سیاسی اظہار ہے۔

”کومنٹانگ مزدوروں، کسانوں، دانشوروں اوربورژوازی کے ایک انقلابی اتحاد کی نمائندہ ہے۔ اسی بنیاد پرسماج کا یہ حصہ اپنے طبقاتی مفادات کے لیے سامراجیوں کے خلاف بر سر پیکار ہے اور یہ ایک انقلابی جمہوری حکومت کے لیے اور ملک کی آزادی کے لیے اس فوجی اور جاگیر دارانہ کُل کے خلاف لڑ رہے ہیں۔“(چینی سوال پر قرارداد،کومنٹرن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں منظور ہوئی،13 مارچ 1926ء)

سٹالن اور بخارن کے دھڑے کی زوال پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سٹالن نے 1926ء میں کمیونسٹ انٹر نیشنل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں سن یات سین کی وفات کے بعد کومنٹانگ کا لیڈر بننے والے اور محنت کشوں کے قاتل چیانگ کائی شیک کو کومنٹرن کی ایگزیکٹو کمیٹی کا باقاعدہ ممبر بنانے کی تجویز پیش کی جو ٹراٹسکی کی سخت مخالفت کے باعث منظور نہ ہوسکی۔یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا چینی کمیونسٹوں کی جانب سے اس مہلک پالیسی کے خلاف کوئی رد عمل نہیں آیا اور کیا وہ اس طبقاتی مفاہمت کی پالیسی کے مضمرات سے مکمل طور پر بے بہرہ تھے۔ اپنی نوزائیدگی اور کومنٹرن کی دیوہیکل اتھارٹی کے باعث چینی کمیونسٹوں کو اس خود کش پالیسی کو تسلیم کرنا پڑا۔ 1923ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرضی کے بغیر کومنٹرن کے نمائندے نے کومنٹانگ کے ساتھ اتحاد کے معاہدے کوچینی کمیونسٹوں پر مسلط کردیا۔ اسی طرح، ٹراٹسکی کے علاوہ، چینی کمیونسٹ پارٹی میں چن دوشو وہ واحد آدمی تھا جس نے کئی مواقع پر کومنٹانگ کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی جس کی پاداش میں 1927ء میں انقلاب کی ناکامی کے بعد چن کو اس ناکامی پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی قیادت سے نکال باہر کیا گیا۔ کومنٹرن اور سوویت بیوروکریسی کے افسر شاہانہ رویے اور غلط پالیسیوں کے بھاری بوجھ کے باعث چینی کمیونسٹ پارٹی کبھی آزادانہ وجود اور کوئی تناظر تشکیل ہی نہیں دے پائی تھی اور یہی سٹالن اور بخارن کے دھڑے کی منشا تھی۔

کمیونسٹ انٹرنیشل کی اس افسر شاہانہ زوال پذیری اور سٹالن اور بخارن کے دھڑے کی ان غیر مارکسی لیننی پوزیشنوں کے خلاف ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن نے ایک شدید لڑائی لڑی۔ ٹراٹسکی وہ پہلا شخص تھا جو سٹالن اور بخارن کے دھڑے کی اس طبقاتی مفاہمت کی پالیسی کے مضمرات بھانپ کر اس کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اترا۔ اس وقت چینی انقلاب اور بالخصوص چینی کمیونسٹ پارٹی کو کومنٹانگ کے تابع کرنے کی سٹالن اور بخارن کی پالیسی کے خلاف ٹراٹسکی کی پوزیشن کوئی نئی نہیں تھی بلکہ یہ وہی پوزیشن تھی جو روس میں محنت کشوں کی فتح کی صورت میں تاریخ کی کسوٹی پر درست ثابت ہوئی تھی۔ روس کے انقلاب سے قبل روسی انقلاب کے حوالے سے منشویکوں کی یہ پوزیشن تھی کہ کیونکہ روس ایک پسماندہ ملک ہے جہاں ابھی جمہوری انقلاب کے فرائض کی تکمیل باقی ہے اس لیے روس کا انقلاب ایک بورژوا انقلاب ہوگا اور کیونکہ یہ ایک بورژوا انقلاب ہوگا اس لیے اس کی قیادت بھی بورژوازی کرے گی۔ اپریل 1917 ء سے قبل لینن اور بالشویک پارٹی کا یہ مؤقف تھا کہ روسی بورژوازی انتہائی رجعتی ہے۔ ایک طرف وہ بیرونی سرمائے یعنی سامراج اور دوسری جانب ہزار تانوں بانوں سے جاگیر دار اشرافیہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، اس لیے روس کے بورژوا جمہوری انقلاب کی قیادت مزدور اور کسان کریں گے اور بادشاہت اور جاگیردارانہ باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے ”مزدورں اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت“ قائم کریں گے جس کے نتیجے میں سماج میں بورژوا بنیادوں پر تیز ترین ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی جو کہ مستقبل میں سوشلسٹ انقلاب کے لئے درکار سماجی و مادی بنیادیں مہیا کرے گی۔لیکن لینن کا یہ بھی ماننا تھا کہ روس کا انتہائی ریڈیکل بورژوا جمہوری انقلاب ترقی یافتہ مغربی ممالک کے پرولتاریہ کو زبردست انقلابی تحریک دے گا اور یورپ میں سوشلسٹ انقلاب کا سبب بنے گا اور نتیجتاً یورپ کے برسراقتدار سوشلسٹ پرولتاریہ کی معاشی و تکنیکی مدد سے روسی سماج سرمایہ داری اور سوشلسٹ تبدیلی کے مابین فاصلے کو بہت تیزی سے طے کرے گا۔ ٹراٹسکی کی پوزیشن ان دونوں سے مختلف تھی جو کہ اس کی 1905ء میں لکھی جانے والی دستاویز ”Results and Prospects“ اور بعد ازاں نظریہ انقلابِ مسلسل کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ٹراٹسکی کا موقف تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے پرولتاریہ کی فتح سے قبل پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں پرولتاریہ غریب کسانوں کی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ اگرچہ انقلاب روس کے ابتدائی فرائض بورژوا جمہوری نوعیت کے ہوں گے لیکن ایک بار جب پرولتاریہ اقتدار میں آئے گا تو وہ صرف جمہوری مطالبات تک نہیں رکے گا بلکہ اس سے آگے جاتے ہوئے سوشلسٹ اقدامات کرنے کی جانب بڑھے گا۔ اس لیے بورژوا جمہوری فرائض کی تکمیل سے آغاز کرنے کے باوجود روسی انقلاب کا مجموعی کردار سوشلسٹ ہوگا جس کی قیادت کسانوں اور دیگر مظلوم پرتوں کی حمایت رکھنے والا محنت کش طبقہ کرے گا۔ روسی انقلاب کے دوران اپریل 1917ء میں لینن نے اپریل تھیسس لکھا جس میں اس نے کہا کہ روس کا انقلاب ایک سوشلسٹ انقلاب ہوگا جس کی قیادت کسانوں کی حمایت رکھنے والا محنت کش طبقہ کرے گا۔ بعد ازاں، اکتوبر 1917ء میں بالشویک انقلاب کی کامیابی نے ٹراٹسکی کے موقف کو درست ثابت کیا اور دنیا کی پہلی مزدور حکومت قائم ہوئی۔ مگر سٹالن اور بخارن کا دھڑا یہ سبق بھول چکا تھا اور اپنے تنگ نظر مفادات کی تکمیل کے لیے کوشاں تھا۔

چین کے انقلاب میں سٹالن نے لینن کے ’’انقلابی جمہوری آمریت“ کے موقف کو قبر سے نکال کر دوبارہ زندہ کیا اور چین پر مسلط کردیا۔ لینن کی یونائیٹڈ فرنٹ کی پالیسی کو پہلے مسخ کیا گیا اور پھر اسے بنیاد بنا کر چینی کمیونسٹ پارٹی کوکومنٹانگ کے تابع کردیا گیا۔ چیانگ کائی شیک اور چینی سرمایہ داروں کے ساتھ طبقاتی مفاہمت کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے لکھا کہ :
”یہ خیال کرنا بہت بڑی حماقت ہوگی کہ سامراج چین کے تمام طبقات کو ایک میکانکی انداز میں باہم جوڑ دیتاہے۔۔۔سامراج کے خلاف جدوجہد مختلف طبقات کے مابین سیاسی تفریق کو ماند نہیں کرتی بلکہ اور زیادہ تقویت بخشتی ہے۔۔۔ہر وہ چیز جو مظلوم اور استحصال کا شکار عوام کو ان کے قدموں پر کھڑا کرتی ہے، وہ ناگزیر طور پر قومی بورژوازی کو سامراجیوں کے ساتھ ایک کھلا اتحاد بنانے پر مجبور کردیتی ہے۔ سامراجی جبر طبقاتی جدوجہد کوکمزور کرنے کی بجائے اس کے بالکل برعکس شدید کرنے کا سبب بنتا ہے یہاں تک کہ ایک سنجیدہ لڑائی میں صورتحال ایک خون ریز خانہ جنگی تک پہنچ جاتی ہے۔“ (ٹراٹسکی، انقلاب چین اور سٹالن کے تھیسس)

ٹراٹسکی کا موقف تھا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو کومنٹانگ کے تابع کر نا سراسر خودکشی ہے۔ سامراجی جبر کو بنیاد بنا کر قومی بورژوازی اور اس کی پارٹی کی حمایت کرنے کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کو اپنی سیاسی پہچان اور آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے سوشلسٹ پروگرام(بشمول جمہوری فرائض کی ادائیگی) پر محنت کشوں کو منظم کرنا ہو گا تا کہ وہ کسانوں،طلبہ اور پیٹی بورژوازی سمیت سماج کی وسیع تر پرتوں کی قیادت حاصل کر سکیں۔ اسی طرح قومی بورژوازی کے مفادات بھی محنت کش طبقے کے مفادات سے متصادم ہیں اور ایک فیصلہ کن مرحلے پر یہ اپنے منافعوں، نجی ملکیت اور مراعات کے تحفظ کے لیے سامراج کی گود میں جا کر بیٹھنے میں ذرا بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

اسی طرح ٹراٹسکی انقلاب کے کردار اورسٹالن،بخارن کی مفاہمت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
”چلو یہ مان لیتے ہیں کہ کینٹن کے محنت کش ابھی اتنے کمزور ہیں کہ اپنا اقتدار قائم نہیں کر سکتے۔ عوام کا کمزور نکتہ کیا ہے؟یہی، استحصال کرنے والوں کے پیچھے چلنے کا رجحان۔یہاں انقلابیوں کا پہلا فریضہ یہ بنتا ہے کہ وہ محنت کشوں کو اس عدم اعتماد سے نجات دلائیں۔لیکن کومنٹرن کی بیوروکریسی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اس کے بالکل الٹ ہیں۔ انہوں نے عوام میں یہ خیال مضبوط کیا ہے کہ سب کچھ بورژوازی پر چھوڑ دیا جائے اور انہیں کہا ہے کہ بورژوازی کے دشمن محنت کشوں کے دشمن ہیں۔“ (ٹراٹسکی، چین پر مضامین)

ٹراٹسکی کا یہ موقف اس وقت بالکل درست ثابت ہوا جب 1927ء میں سٹالن کے منظور نظر چیانگ کائی شیک نے شنگھائی میں ہزاروں محنت کشوں اور کمیونسٹوں کا قتل عام کرتے ہوئے چین کے پہلے مزدور انقلاب کو خون میں ڈبو دیا۔

دوسرا چینی انقلاب 27-1925ء

اس کو تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے جب سٹالنسٹ بیوروکریسی قومی جمہور ی انقلاب کے نام پر چیانگ کائی شیک کے ساتھ گٹھ جوڑ میں مصروف تھی اس وقت چین کامحنت کش طبقہ 4 مئی سے کہیں بلند پیمانے پر جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہا تھا۔

یکم مئی 1925ء کو کینٹن میں مزدوروں او ر کسانوں کا ایک عظیم الشان اکٹھ دیکھنے میں آیا۔ کئی سالوں سے مزدوروں اور کسانوں کی تحریک سماج میں پنپ رہی تھی اور مختلف ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے ایک بہت بڑی تحریک کی پیشین گوئی کر رہے تھے۔ یکم مئی کو دوسری قومی لیبر کانفرنس منعقد کی گئی جبکہ اسی دوران کسان تنظیموں کی پہلی صوبائی اسمبلی کا بھی انعقاد ہوا۔ لیبر کانفرنس میں 230 مندوب شریک تھے جو 5 لاکھ 70 ہزارمنظم مزدوروں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ کسان تنظیمیں ابھی کوانگ تنگ خطے کے 22 علاقوں تک ہی محدود تھیں، لیکن اس کے باوجود اس اجلاس میں 117 مندوب تھے جو 1 لاکھ 80 ہزار کسانوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس روز چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مزدورو ں اور کسانوں نے اکٹھے مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں مندوبین کے علاوہ کینٹن شہر میں رہنے والے ہزاروں مزدور اور کسان بھی شریک ہوئے۔ مظاہرے کے دوران طلبا نے بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ایک عظیم انقلاب کی بنیاد رکھی۔

چند ہفتوں بعد کینٹن پر براجمان وار لارڈز نے اپنا تسلط جمانے کی دوبارہ کوشش کی لیکن ایک مسلح جدوجہد کے بعد انہیں مزدوورں اور کسانوں نے شکست دے دی۔ اسی دوران شنگھائی کے محنت کش بھی غلامی کی طرز کی زندگی کے خلاف احتجاج میں ابھر رہے تھے اور 1925ء کے آغاز میں بڑی ہڑتالیں دیکھنے میں آ رہی تھیں۔ خاص طور پر جاپانی سرمایہ داروں کی فیکٹریوں میں زیادہ ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔ سنگ تاؤ میں ہڑتالی محنت کشوں پر گولی چلانے اور خاص طور پر ایک جاپانی فورمین کی جانب سے ایک چینی مزدور کے قتل کے بعد حالات سنگین ہو گئے اور سطح کے نیچے پکتا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔ شنگھائی کے محنت کشوں اور طلبہ نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد مظاہرین پولیس اسٹیشن کی جانب بڑھے تو ایک برطانوی افسر نے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ طلبہ زمین پر گرنے لگے۔ 12 طالب علم ان گولیوں کی نذر ہو گئے۔ یہ 30مئی کا دن تھا۔

اس کے انتہائی طوفانی اثرات مرتب ہوئے۔ شنگھائی جو سامراجی طاقتوں کا مرکز تھا اور جہاں غیر ملکی بینک اور فیکٹریاں بڑی تعداد میں تھیں، ایک عام ہڑتال سے جام ہو گیا۔ ایسا لگا کہ ایک بہت بڑا دیو متحرک ہو گیا ہے۔ سرمایہ داروں اور سامراجی اہلکاروں کے دل دہل گئے۔ اس طوفان کے اثرات سمندر پار بھی محسوس کیے جانے لگے۔ یہ ہڑتال پورے ملک میں پھیل گئی۔ ایک غیر مکمل اندازے کے مطابق صرف 30 مئی کے واقعے کے خلاف 130 ہڑتالیں ہوئیں جس میں 4 لاکھ محنت کشوں نے حصہ لیا۔ یہ ہڑتالیں جنوب میں کینٹن اور ہانگ کانگ سے لے کر شمال میں پیکنگ تک پھیلی ہوئی تھیں۔

عام ہڑتال کے دوران برطانوی اشیا کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ ہانگ کانگ جو چین میں برطانوی سامراج کا قلعہ تھاان ہی کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ ایک بھی پہیہ نہیں گھوم رہا تھااور نہ ہی سامان کا کوئی ایک ڈبہ جہاز سے اتا رایا چڑھایا جا رہا تھا۔کوئی جہاز بندرگاہ سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ ہانگ کانگ کے ایک لاکھ سے زیادہ محنت کش اکٹھے کینٹن چلے گئے۔

کینٹن میں محنت کشوں نے جوئے اور منشیات کے اڈوں کی صفائی کی اور انہیں ہڑتالیوں کی رہائش اور کھانے کی جگہ کے طور پر استعمال کرنے لگے۔دو ہزار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جو ہانگ کانگ اور شامین کے گرد رکاوٹیں کھڑی کرے گی اور ان کا تحفظ بھی۔ پوری تحریک کو انتہائی مہارت سے منظم کیا گیا۔ ہر پچاس ہڑتالی ایک مندوب منتخب کرتے جو ہڑتالیوں کے مندوبین کی کانفرنس میں شرکت کرتا اور یہ کانفرنس تیرہ افراد پر مشتمل ایگزیکٹو کمیٹی منتخب کرتی۔ چین میں سوویتوں (محنت کشوں کی پنچائتوں) کا جنم ہو چکا تھا۔ اسی انتظام کے تحت محنت کشوں کے لیے ایک ہسپتال اور 17سکولوں کا اہتمام کیا گیا۔ فنڈ ز اور دیگر معاشی معاملات کے لیے خصوصی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ہڑتالیوں کی عدالت بھی قائم کی گئی جس میں بائیکاٹ کی خلاف ورزی کرنے اور امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں پر مقدمہ چلایا جاتا۔

سامراجی قوتوں نے غنڈوں کی مدد سے ہڑتال کو توڑنے کی متعدد کوششیں کیں اور اس دوران دیہاتوں میں رہنے والا کوئی ایسا غنڈہ نہیں تھا جس نے برطانوی پاؤنڈ کی شکل نہ دیکھی ہو۔ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ہڑتال کو نہیں توڑ اجا سکا۔اس ہڑتال کا فائدہ کومنٹانگ کو پہنچا جس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور جون کے آخر تک قومی حکومت قائم کر لی۔1925ء کے آخر تک کومنٹانگ نے مقامی جنگجو سرداروں کے خلاف فتوحات حاصل کرتے ہوئے وسیع حصے پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا۔

اس عوامی تحریک کے باعث، جس کے روحِ رواں کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان تھے، دوسالوں میں کومنٹانگ ایک شکستہ حال پارٹی کی شکل میں اقتدار پر براجمان ہو گئی تھی۔ جنوبی علاقوں میں اقتدار مضبوط کرنے کے بعد اس نے شمالی علاقوں کی جانب پیش قدمی کی۔ کومنٹانگ کی شکل میں چین میں ایک پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی لیکن اسے کس طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کیا جانا تھااس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔ 1925ء کی انقلابی تحریک نے درحقیقت چین میں طبقاتی کشمکش کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا تھا۔

اس وقت اگر کمیونسٹ پارٹی اپنے آزادانہ تشخص اور انقلاب مسلسل کے پروگرام کے ساتھ مسلح ہوتی تو محنت کشوں اور کسانوں کی وسیع پرتوں کو جیتتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کیا جا سکتا تھا۔ مگر کومنٹرن کی مرحلہ وار انقلاب کی مجرمانہ سٹالنسٹ پالیسی کی بدولت چینی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے ممبران کی کبھی ایسی تربیت ہی نہیں ہوسکی تھی اور نہ ہی وہ ایسے کسی تناظر سے مسلح تھے۔ ان کو ہمیشہ سے کومنٹانگ کے پیچھے چلنا سکھایا گیا تھا۔ اگر ایسا کوئی تناظر موجود ہوتا تو محنت کشوں اور کسانوں کی سوویتیں بناتے ہوئے بیک وقت سامراج اور بورژوازی کو بے دخل کرتے ہوئے ایک مزدور حکومت بنائی جاسکتی تھی جو کہ چینی سماج کے لیے ایک بہت آگے کا قدم ہوتا۔ معروضی حالات بھی پک کر تیار ہوچکے تھے۔ چین میں پیداواری رشتے معیاری طور پر سرمایہ دارانہ رشتوں میں تبدیل ہوچکے تھے اور محنت کشوں کا معیشت میں کردار کلیدی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ روس میں بالشویک پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک مزدور ریاست کا قیام نا صرف سوویت محنت کش طبقے کو ایک نئی توانائی بخشتا اور اس کی تنہائی ختم کرنے کا باعث بنتا بلکہ پیداواری قوتوں کی ترقی کے حوالے سے بھی یہ ایک بڑی چھلانگ ثابت ہوسکتا تھا۔ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ :
”اگر اس سوال کو اس حوالے سے دیکھا جائے کہ جاگیر دارانہ باقیات چین کے سماج پر حاوی تھیں تو تاریخ میں بھلا ایسے کبھی ہوا ہے کہ عمومی طور پر باقیات کہیں غالب آ سکیں، لیکن اگر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کا عمل دیکھیں تو تجارتی (مرکنٹائل) اور بینکوں کے سرمائے کے ذریعے چین میں صنعت میں تیز اضافہ ہوا تھا۔ زیادہ تر زرعی اضلاع کا منڈی پر انحصار بہت بڑھ گیا تھا۔ بیرونی تجارت کا کردار مسلسل بڑھتا اور پھیلتا جا رہا تھا۔ ہر پہلو سے چین کے دیہات چین کے شہروں کے ماتحت ہو چکے تھے اور سرمایہ دارانہ رشتے پوری طرح حاوی ہو گئے تھے۔ جبکہ مزارع اور دیہی غلامی کے رشتے بھی موجود تھے۔یہ جاگیر داری دور کا تسلسل تھے لیکن ان کی ہیئت میں تبدیلی آچکی تھی۔اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ماضی کے رشتے حال پر اس لیے غالب آ رہے تھے کیونکہ ذرائع پیداوار کا ارتقا مسخ شدہ کیفیت اختیار کر گیاتھا جبکہ دوسری جانب فاضل زرعی آبادی کا ابھرنا، تاجروں کی سرگرمیاں اور سود خوروں کی کاروائیاں بھی اس صورتحال کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ لیکن عمومی طور پر غالب رشتے سرمایہ دارانہ تھے، جاگیر دارانہ اور قبل از سرمایہ دارانہ رشتے حاوی نہیں تھے، ان کی باقیات ہی رہ گئیں تھیں۔ ان سرمایہ دارانہ رشتوں کے سماج پر غلبے کی وجہ سے ہم کسی قومی انقلاب میں پرولتاریہ کی سربراہی، قیادت اور حاوی پن کی بات سنجیدگی سے کر سکتے ہیں۔ ورنہ یہ جوڑ ملایا ہی نہیں جا سکتا۔“(لیون ٹراٹسکی، لینن کے بعد تیسری انٹرنیشنل، صفحہ 159)

مگر سٹالن اور بخارن نے اپنی مجرمانہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا اور چیانگ کو سخت سامراج مخالف بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اس دوران چیانگ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے محنت کشوں اور کمیونسٹوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کر رہا تھا۔ مارچ 1926ء میں چیانگ نے چینی پرولتاریہ کے خلاف پہلا وار کیااور ایک جھوٹی افواہ کی بنیاد پر کینٹن میں کمیونسٹوں اور محنت کشوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دئیے۔ کینٹن -ہانگ کانگ ہڑتالی کمیٹی کے دفتر پر چھاپے مارے گئے۔ قومی انقلابی فوج سے کمیونسٹوں کو نکال باہر کرتے ہوئے اسے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ سوویت مشیروں کے گھروں کا محاصرہ کر لیا گیا۔کومنٹانگ ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے تمام کمیونسٹوں کو بیدخل کر دیا گیا۔دوسری جانب سامراجیوں نے بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انقلاب کو کچلنے کا کام تیز کر دیا۔24مارچ 1927ء کو انہوں نے نانجنگ کے شہر پر شدید بمباری کی۔چیانگ کائی شیک جس کو سامراج دشمنی کے نام پر کمیونسٹوں کی مکمل حمایت دلوائی گئی تھی اب سامراجیوں کے ساتھ مل کر انقلاب کو کچلنے میں مصروف تھا۔

اس سب کے باوجود سٹالن اور بخارن نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اور جس کسی نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی اس کو خاموش کروا دیا گیا۔

کینٹن میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد چیانگ نے شمالی علاقوں پر قابض وار لارڈز کے خلاف جنگی مہم کاآغاز کیا۔ اس مہم میں چیانگ کی فوجوں کو بڑی کامیابی ملی جس کے پیچھے بھی ان علاقوں میں جاری محنت کشوں کی ہڑتالیں اور کسان بغاوتیں تھیں۔ محنت کش اور کسان بدترین حالات میں ان جنگی سرداروں کے جبر کا صرف اس لیے مقابلہ کر رہے تھے کہ کومنٹانگ کی فتح شائد ان کے حالات زندگی میں بہتری لے آئے۔ اس دوران بھی، کمیونسٹ پارٹی نے ان کے اس تاثر کو ختم کرنے کی بجائے مزید مضبوط کیا بلکہ اگر مزدور اور کسان ایک حد سے بڑھ جاتے تو ان کو ہڑتالیں ختم کرنے اور کسانوں کو زمینوں پر قبضوں سے روکا جاتا۔ بوروڈن کے الفاظ میں کمیونسٹ پارٹی اور محنت کشوں کا کام صرف کومنٹانگ کے لیے قلی کی خدمات سر انجام دینا ہے۔

جب کومنٹرن اور کمیونسٹ پارٹی کی قیادت محنت کشوں اور کسانوں کو”زیادہ“ آگے بڑھنے سے روک رہی تھیں تو چیانگ محنت کشوں اور کسانوں کو کچلنے کی تیاری کررہا تھا۔ شمال کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے چیانگ نے کینٹنن کیانگ سی اور دیگر علاقوں میں ہڑتالوں پر پابندی لگاتے ہوئے محنت کشوں کو محصور کردیا۔ کوانگ تنگ کسانوں کی بڑی بغاوت کو بیدردی سے کچل دیا گیا۔ اس کا انت شنگھائی کے قتل عام پر ہوا۔

شنگھائی قتلِ عام اور ردِ انقلاب

شنگھائی ایک اہم بندرگاہ اور صنعتی شہر ہونے کے ناطے چینی پرولتاریہ کا گڑھ تھا۔ یہ جنگی سرداروں کے کنٹرول میں تھا اور محنت کشوں کی ان مقامی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کو ”قومی جمہوری انقلاب“ کی فتح کا پیش خیمہ قرار دیا جارہا تھا۔ جیسے ہی کومنٹانگ فوج نے شہر کی جانب پیش قدمی کی تو کمیونسٹ پارٹی کی جنرل لیبر یونین نے کومنٹانگ فوج اور چیانگ کے ساتھ یکجہتی میں اور مقامی حکمران اشرافیہ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے عام ہڑتال کی کال دے دی۔ اس دوران شہری انتظامیہ نے بدترین جبر کیا اور ہڑتال کو ناکام بنادیا۔ 21 مارچ کے دن دوبارہ ہڑتال کی کال دی گئی۔ لگ بھگ 8 لاکھ محنت کشوں نے اس عام ہڑتال اور مسلح سرکشی میں عملی کردار ادا کیاجس میں 5ہزار افراد پر مشتمل مزدورملیشیا بھی شامل تھی۔ محنت کشوں نے پولیس تھانوں اور فوجی چھاؤنیوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کر لیا اور ہتھیار عام محنت کشوں میں بانٹ دئیے گئے۔ اگلی صبح تک پورا شہر محنت کشوں کے کنٹرول میں تھا۔

جب چیانگ شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس کا سامنا مسلح محنت کشوں سے ہوا جو ایک سرکشی کے ذریعے پورے شہر پر قبضہ کرچکے تھے۔ چیانگ نے اس سرکشی کو خون میں ڈبونے کے لیے مقامی سرمایہ داروں، سامراجیوں اور غنڈوں سے مدد کی درخواست کی تاکہ اس شہرکو بھی ویسے ہی ”آزاد“ کروایا جا سکے جیسے وہ اپنی مہم میں پچھلے شہروں کو آزاد کروا کر یہاں پہنچا تھا۔ اس وقت تک چیانگ کے جبر کو دیکھتے ہوئے نا صرف چین بلکہ روس سے بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ چیانگ کی ساتھ اتحاد کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے اس کے اور جنگی سرداروں کے خلاف ایک لڑائی کا آغاز کرنا ہوگا۔ ٹراٹسکی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر مطالبہ کیا کہ محنت کشوں اور کسانوں کی سوویتیں بنائی جائیں تا کہ چیانگ کو شکست دیتے ہوئے محنت کشوں کی حکومت قائم کی جاسکے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی میں چیانگ کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے لیے نیچے سے دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔ مگر پارٹی قیادت کومنٹرن کی لائن کے ساتھ چمٹی رہی کہ چیانگ کے خلاف کوئی بھی اقدام ”رد انقلاب“ کا ساتھ دینے کے مترادف ہوگا۔ بجائے اس کے کہ مزدوروں کو سوویتوں میں منظم کیا جاتا، کمیونسٹ پارٹی نے عبوری حکومت قائم کی جس میں مقامی سرمایہ دار بھی شامل تھے اور محنت کشوں کو چیانگ کے ارادوں سے خبر دار کرنے کی بجائے کمیونسٹوں نے چیانگ کی فوجوں کا استقبال کیا۔ اسی اثنا میں، جنرل لیبر یونین نے خودرو ہڑتالوں کی مخالفت کرتے ہوئے ہڑتالی کمیٹیوں کے اختیارات بھی سلب کرلیے جن کا شہر پر عملاً کنٹرول تھا۔وقت اور حالات رد انقلابی حملے کے لیے سازگار تھے۔

12 اپریل کو چیانگ نے جب اپنے کرائے کے قاتلوں اور غنڈوں کو حملے کا حکم دیا تو محنت کش اس سے بالکل بے خبر تھے۔ اس کے باوجود محنت کشوں اور کمیونسٹوں نے بے جگری سے اس حملے کا مقابلہ کیا۔ اس دوران چیانگ کی فوجوں اور کرائے کے غنڈوں نے ہزاروں محنت کشوں اور کمیونسٹوں کا قتل عام کیا۔ ان کی لاشوں کامثلہ کیا گیا اور سینکڑوں کو زندہ اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ جلد ہی چیانگ نے شہر میں ’امن و امان‘ بحال کردیا۔ یہ چینی انقلاب کے لیے ایک فیصلہ کن جھٹکا تھا۔ سٹالن کی آنکھوں کے تارے نے شنگھائی شہر کو خون میں نہلا دیااور اسی خون میں کمیونسٹوں اور کومنٹانگ کا اتحاد بھی دفن ہوگیا۔

شنگھائی کے اس قتل عام کے بعد بھی حیران کن عمل ہے کہ چین میں کومنٹرن کے نمائندوں ایم این رائے اور ڈوراؤٹ نے چیانگ کو تار بھیجا کہ وہ یکطرفہ کاروائی نہ کرے۔اس کے بر عکس چیانگ نے سامراجیوں کے ساتھ مل کر نانجنگ میں ایک انقلاب دشمن حکومت قائم کر لی۔

15 جولائی کو، کومنٹانگ کے نام نہاد بائیں بازو کی وانگ حکومت نے بھی اپنے زیر کنٹرول علاقے میں مارشل لا نافذ کر کے تمام محنت کشوں کی تنظیموں پر پابندی لگا کر بڑے پیمانے پر کمیونسٹوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کا قتل عام شروع کر دیا۔سوویت یونین اور کومنٹرن سے آئے ہوئے مشیروں کو بھی ان مجرمانہ پالیسیوں اور انقلاب کی تباہی کی وجہ سے چین چھوڑنا پڑا،ایم این رائے اور بوروڈن واپس بلا لیے گئے اور سٹالن نے اپنے خصوصی نمائندے لومی ناڈزے (Luminadse)کو چینی کمیونسٹ پارٹی کو ہدایات دینے کے لئے چین بھیجا۔

15 جولائی کو ہی ماسکو میں ہونے والی کومنٹرن کی میٹنگ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کی مذمت کی گئی۔7اگست کو انہی احکامات کے تحت لومی ناڈزے کی سربراہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی غیر معمولی کانگریس کی گئی جس میں چن ڈوشو کو ”مفاد پرست“ کہہ کر اس کی مذمت کی گئی اور اس کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے سٹالن اور کومنٹرن کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہونے والی شکست کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔یہی حشر کسانوں کے کمیونسٹ لیڈر تانگ پن سان (Tang pin San) کے ساتھ بھی ہوا۔چوکیوی بائی (Qu Quibai) کو کمیونسٹ پارٹی کا نیا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔

سٹالنسٹ بیوروکریسی کی موقع پرستی سے انتہا پسندی کی جانب چھلانگ

چیانگ کا حقیقی رد انقلابی چہرہ عیاں ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اس ناکامی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا اور نئے حالات کے مطابق کام کرنے کا طریقہ کار طے کیا جاتا اور مستقبل کے لیے ایک درست سمت کا تعین کیا جاتاچن دوشو کو قربانی کا بکرا بنا کر سٹالن اور بخارن نے ناکامی کا سارا ملبہ ’چینی کمیونسٹ پارٹی کی موقع پرستانہ‘ پالیسیوں پر ڈال دیا۔ لیکن اس کے ساتھ اچانک یہ بھی انکشاف ہوا کہ انقلاب کی انتہا پر پارٹی کا رویہ اور طریقہ کار انتہائی محتاط اور قدامت پرستانہ تھا اور اب پارٹی کو انقلاب کو مکمل اور کامیاب کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔یہ انکشاف ایک ایسے وقت پر ہوا جب محنت کش طبقے کا انقلابی موڈ روبہ زوال تھا۔ یہ، درحقیقت، سٹالنزم کے موضوعی رجحانات کی عکاسی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اور انقلاب معروضی حالات کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کی افسر شاہی کے ا حکامات کے تابع ہیں۔

یہ انکشاف کومنٹرن قیادت کی موقع پرستی سے مہم جوئی کی جانب چھلانگ تھی۔ اپنی خفت مٹانے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ابھی انقلاب ناکام نہیں ہوا اور ایک (موضوعی) کوشش سے انقلاب کو فتح یاب کیا جا سکتا ہے، کومنٹرن بیوروکریسی کے احکامات پر چوکیوبائی نے 1927ء میں کئی مسلح بغاوتیں برپا کرنے کی کوششیں کیں جوکہ ناکام ثابت ہوئیں۔ دسمبر 1927ء میں کینٹن میں ایک مسلح سرکشی کی گئی مگریہ انتہا پسندی اور مہم جوئی کمیونسٹ پارٹی اور 27-1925ء کے انقلاب کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔اس کو چیانگ کی فوج نے سامراجی امداد سے خون میں ڈبو دیا۔ 70 ہزار کمیونسٹوں کو اس غیر منظم، مہم جوئیانہ اور قبل از وقت سر کشی کے دوران چیانگ کی فوجوں نے قتل کیا۔ 1927ء کی شکست کے بعد کے پانچ سال کے عرصے میں ایک لاکھ انقلابیوں اور محنت کشوں کا قتل عام کیا گیا۔ان میں کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے اہم اور نظریاتی طور پر پختہ لیڈر بھی شامل تھے۔ اس انقلاب کی شکست صرف چین کے پرولتاریہ اور محنت کش عوام کی شکست نہیں تھی بلکہ اس شکست سے بین الاقوامی انقلاب اور محنت کش طبقے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اس سے عالمی انقلاب اور کمیونسٹ تحریک پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوئے جس کا خمیازہ آج بھی اربوں انسان بھگت رہے ہیں۔

ان سرکشیوں کا ملبہ بھی چو کیو بائی پر ڈالتے ہوئے ستمبر 1928ء میں ماسکو میں ہونے والی پارٹی کانگریس میں (یہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی 1945ء تک آخری کانگریس ثابت ہوئی) اس کو پارٹی قیادت سے ہٹا کر لی لی سان کو پارٹی جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ اسی کانگریس میں بالآخر ”قومی بورژوازی“ کو رد انقلابی قرار دے دیا گیا(جبکہ اس سے قبل قومی بورژوازی انقلابی حلیف اور صرف سامراجی گماشتہ بورژوازی ردانقلابی تھی) اورساتھ ہی کومنٹانگ کو بھی انقلاب دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ (ایک سال بعد) یہ بھی تسلیم کرلیا گیا کہ انقلاب کو شکست ہوچکی ہے۔ مگر یہ تو وہی مؤقف تھا جس کے لئے جدوجہد کی پاداش میں ٹراٹسکی کو پہلے پارٹی اور پھر سوویت یونین سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے سٹالنسٹ بیوروکریسی کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکالے جس سے یہ تاثر نہ ملے کہ ٹراٹسکی کی پوزیشن بالکل درست تھی۔ اس کوشش نے نا صرف چیانگ کی فوجوں کے ہاتھوں 1930ء میں ووہان اور چینگ شا میں ہونے والی مسلح سرکشیوں میں محنت کشوں اور پارٹی کارکنان کا ہزاروں کی تعداد میں مزید قتل عام کروایا اور پارٹی کی محنت کش طبقے میں بنیادوں کو مٹا کر رکھ دیابلکہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کی یہی موضوعی خواہش بعد ازاں ماؤازم کے جنم کی وجہ بنی۔

ماؤازم کی ابتدا: سٹالنسٹ بیوروکریسی کی ایک تاریخی غلطی

اگر سٹالنسٹ بیوروکریسی ایسا نہ کرتی تو اس کا نتیجہ چینی کمیونسٹ پارٹی پر سٹالنسٹ کنٹرول کے خاتمے کی صورت میں نکلتا اور لامحالہ طور پر بچ جانے والے ممبران ٹراٹسکی کی پوزیشنز کی جانب مائل ہوتے۔ اس لیے ماسکو کے لیے ناگزیر تھا کہ یہ پالیسی کسی طور ٹراٹسکی کی پوزیشن سے میل نہ کھاتی ہو۔ اس لیے کومنٹانگ کو انقلاب دشمن ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ چینی کمیونسٹ پارٹی کو انتہائی متضاد پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس کا مقصد انقلاب کوایک نئی اور بلند سطح تک لے کر جانا ہے۔ اس لیے چینی کمیونسٹ پارٹی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس ابھرتی انقلابی لہر کے ثبوت تلاش کرتے ہوئے اس انقلابی پالیسی پر فوری طور پر عمل پیرا ہو۔ یہ سٹالنزم کی موضوعیت کا ایک اور ثبوت تھا کہ وہ حقیقت کو بھی اپنے تنگ نظر مفادات کے لیے’تبدیل‘ کرسکتے تھے۔

اس انقلابی لہر کے ”ثبوت“ تلاش کرنے کی کوشش میں ماسکو بیوروکریسی نے چینی کمیونسٹ پارٹی میں انتہائی خطرناک مگر مضبوط رجحانات کو جنم دیا کہ پارٹی محنت کش طبقے کا نعم البدل بن سکتی ہے اور اسی پالیسی نے مہم جوئی اور ارادیت پسندی کو فروغ دیا۔ اگر انقلابی ابھار کا ثبوت نہیں بھی ملتا تو پارٹی پر بے پناہ دباؤ تھا کہ وہ اس ”انقلابی ابھار“ کو مصنوعی طور پر تخلیق کرے۔

”لی کا اس بات پر کامل یقین تھا کہ کومنٹانگ کے وجودمیں ایک پنکچر بھی انقلابی سیلاب کو جنم دینے کے لیے کافی ہوگا۔ بعد ازاں ایک جگہ اس کی بات نقل کی گئی کہ ’جب انقلابی لہر ابھرے گی تو 9 کروڑ ایک دن میں منظم کیے جاسکتے ہیں۔‘ جون میں پیش ہونے والی ایک قرارداد میں اس نے لکھا کہ ’ایک عرصہ قبل عوام یہ کہا کرتی تھی کہ جب بغاوت ابھرے ہمیں لازمی بتائیے گا اور ہم لازمی پہنچ جائیں گے۔‘ اب وقت آگیا ہے جب پارٹی جرات مندی سے عوام کو بلاوا بھیجتی ہے، ’سرکشی کا وقت آن پہنچا ہے! خود کو منظم کریں!‘۔۔۔ شنگھائی میں اس نے ”چوتھی بغاوت“ کی تیاری کے لیے پورے 176محنت کشوں پر مشتمل ایک ”سرخ دستہ“ تیار کیا۔ اس نے مٹھی بھر فوجیوں کے ساتھ نان جنگ (کائی شیک حکومت کا ہیڈ کوارٹر)میں سرکشی کا منصوبہ بنایا۔“ (آئزک، انقلاب چین کا المیہ)

سٹالنسٹ بیوروکریسی کا حالات کے درست اور سائنسی تجزیے کی بجائے بغیر سوچے سمجھے یہ ردعمل ہی ماؤازم کی ابتدا کی وجہ بنا۔ 1930ء کے بعد ماؤ ازم یا دوسرے الفاظ میں دیہی علاقوں سے مسلح سرکشی کا طریقہ کار، چینی کمیونسٹ پارٹی کی نمایاں پالیسی لائن بن کر سامنے آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہی جدوجہد کا یہ طریقہ کار ماسکو کی انقلاب کی ناکامی کو تسلیم نہ کرنے کی موقع پرستانہ پالیسی اور پارٹی قیادت کی خواہش پر انقلاب کو جاری رکھنے کے لیے عین موزوں تھا۔ یہ ماؤ کا کوئی حقیقی نظریاتی ارتقا ہرگز نہیں تھا جس کا ا ظہاربعد ازاں چین کے منفرد انقلاب میں ہوا۔ گو کہ، ماؤ دیہی علاقوں سے کسانوں کی مسلح جدوجہد کا لیڈر بنا مگر یہ طریقہ کار اس کی ذاتی اختراع نہیں تھی۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ سوشلسٹ نظریات کی بڑھوتری میں بہت سے نظریاتی کاموں کا سہرا ماؤ کے سر سجایا جاتا ہے مگر تھوڑی سی تحقیق ہی یہ ثابت کر دیتی ہے کہ ماؤازم اپنی بنیاد میں سٹالنزم یعنی مارکسزم لینن ازم کی قوم پرستانہ بنیادوں پر افسر شاہانہ زوال پذیری ہی ہے اور ماؤ نے سٹالنسٹ بیوروکریسی کی ہی نقالی کی۔ ماؤ کے نظریاتی کاموں میں ”نئی جمہوریت“ کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر حقیقت میں اس میں کچھ بھی نیا نہیں اور اس کی بنیاد بھی سٹالنسٹ بیوروکریسی کا مرحلہ وار انقلاب کا غیر مارکسی نظریہ ہے جس میں پہلے مرحلے پر چین میں سرمایہ داری اور مستقبل بعید میں کہیں جاکر سوشلزم کی جانب سفر شروع ہوگا۔

1928 ء کی چینی کمیونسٹ پارٹی کی قرارداد میں دیہی علاقوں میں کسانوں کی فوج منظم کرنے پر زور دیا گیا اور اس کو کسان تحریک کے لیے اہم قرار دیا گیا، جس میں کامیابی ایک نئے انقلابی ابھار کو جنم دینے کا باعث بن سکتی تھی۔ اس قرارداد میں واضح طور پر کسانوں میں کام کرنے کو ترجیح دی گئی کہ کسان فوج تشکیل دی جائے اور عوام کی وسیع اکثریت کو اس میں شامل کیا جائے۔ یہی ماؤازم کی پالیسی ہے کہ پرولتاریہ اور محنت کش عوام کی دیگر پرتوں کے ایک شہری انقلاب، جس میں محنت کش طبقہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور پارٹی اس کی قیادت جیتتے ہوئے انقلاب کرتی ہے، کی بجائے دیہی علاقوں سے مسلح کسان جدوجہد کی جائے۔ یہاں یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ یہ سب کچھ ایک تاریخی غلطی کے باعث ممکن ہوا۔ 27-1925ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد حاوی ہونے والے رد انقلاب کے ماحول میں شہری علاقوں میں پرولتاریہ کو منظم کرنے اور اس کی سیاسی تربیت کرنے سے یہ کہیں آسان تھا کہ دیہی اور دشوار گزار پہاڑوں میں چھپ کر کسانوں کے گوریلا حملوں کے ذریعے ’انقلاب‘ کو جاری رکھا جائے۔ متعدد مہم جوئیانہ مسلح سرکشیوں کی ناکامیوں نے پارٹی قیادت کو اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ دیہاتی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ ابتدا میں تو یہ پالیسی شنگھائی پارٹی مرکز کے ہی تابع تھی۔شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی جانب پارٹی کا یہ سفر کوئی نرالا طریقہ کار نہیں تھا بلکہ حقیقت میں انقلابی قوتوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا جس میں آہستہ آہستہ پارٹی کا پرولتاریہ سے تعلق کم سے کم ہوتا چلا گیا،1930ء تک آتے آتے پارٹی میں صنعتی مزدورں کا حصہ صرف 1.2فیصد رہ گیا تھا جوکہ 1927ء میں 58 فیصد تھا۔ یہیں سے اس طویل اور کٹھن سفر کا آغاز ہوا جسے تاریخ میں ماؤ کے لانگ مارچ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ماؤ کا لانگ مارچ

انقلاب کی شکست کے بعد دیہی علاقے کمیونسٹ پارٹی کے کام کا مرکز و محور بن گئے۔ چنگ گانگ شین سے شروع ہونے والا یہ سفر اکتوبر 1935ء تک جاری رہا اور لگ بھگ 9ہزارکلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد شمال مغربی صوبے شان زی پر ختم ہوا۔ اس دوران سرخ فوج بنائی گئی اور ماؤ کمیونسٹ پارٹی کالیڈر بن کر ابھرا۔ کمیونسٹوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں کئی ریڈیکل زرعی اصلاحات کی گئیں جن میں زمینوں کی کسانوں میں تقسیم بھی شامل تھی۔ اس سے ماؤ اور سرخ فوج کی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔اس دوران جنگوں اور قحط میں لاکھوں افراد نے قربانیاں دیں۔ مگر اس تمام تر مشکل اور کٹھن سفر کے باوجود نظریاتی زوال پذیری کا سلسلہ جاری رہا۔ اگست 1935ء میں جاپانی سامراج کے خلاف جدوجہد کے نام پر ایک بار پھر چیانگ کی سرمایہ دار حکومت کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے قومی نجات کا پاپولر فرنٹ تشکیل دیا گیا۔ سرخ فوج کی آزادانہ شناخت کو ختم کرتے ہوئے اسے چیانگ اور حکمران طبقے کی فوجوں کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔ یہ اتحاد دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940ء تک جاری رہا۔ مگر اس سارے عرصے میں چینی بورژوازی اور چیانگ آمریت مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی اور جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی سر انجام نہ دے سکی۔

ردِ انقلابی چینی بورژوازی اور سرمایہ داری کی بند گلی

1927ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے بورژوا قوم پرست چیانگ کائی شیک کو چین کے ”قومی جمہوری انقلاب“ کے فرائض پورے کرنے کے لیے دو دہائیاں میسر آئیں۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد چین کا سامراج پر انحصار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا۔ زرعی سوال تاحال سلگ رہا تھا۔ کئی علاقے جنگی سرداروں کی عملداری میں تھے۔ اور چین اب بھی ایک پسماندہ، نیم جاگیر دارانہ اور نیم نوآبادیاتی ملک تھا۔چینی سرمایہ دار طبقے سمیت حکمران طبقے کے تما م حصے سامراج کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تھے جو کہ کسی بھی قسم کی ترقی اور تبدیلی کے سخت مخالف تھے۔ چینی حکمران طبقے کی غلاظت اور پسماندگی کا واضح اظہار جاپانی سامراج کے خلاف جدوجہد میں ہوا جب چیانگ آمریت کو جاپانی سامراج کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔ مگر اس کے باوجود چیانگ اور اس کی فوج جاپانی سامراج کے خلاف لڑنے کی بجائے سرخ فوج کے خلاف کاروائیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے جنہوں نے جاپانی سامراج کے خلاف حقیقی جدوجہد کی اور ہزاروں قربانیاں دیں۔

دوسری عالمی جنگ کاا ختتام اور خانہ جنگی کا آغاز

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکی سامراج اورسٹالنسٹ روس کہیں زیادہ طاقتور بن کر ابھرے اور جنگ کے اختتام سے قبل ہی ان دونوں طاقتوں کے مابین رسی کشی اور لڑائی افق پر نظر آرہی تھی۔ امریکی سامراج جاپان کو شکست دینے کے بعد چین کو اپنی کالونی بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے چیانگ کی شکل میں ایک مہرہ اس کے مکمل قبضے میں تھا۔یہ قوتیں چین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے خائف تھیں اور یہ واضح نظر آرہا تھا کہ جنگ کے اختتام پر چیانگ اور ماؤ کے درمیان لڑائی ایک خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

ادھر ماؤزے تنگ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی چونکہ سٹالنسٹ نظریات کے تحت مرحلہ وار انقلاب کے نظریے پر کاربند تھے اس لیے ان کا مقصد چین میں ایک سرمایہ دارانہ قومی جمہوری انقلاب برپا کرنا تھا۔ماؤ کی کتاب نیو ڈیموکریسی (نئی جمہوریت) میں اس نے واضح لکھا تھا کہ ”سرخ فوج کی فتح کے بعد بھی ہمیں چین میں 50 سے 100 سال تک سرمایہ دارانہ نظام میں سے گزرنا پڑے گا“۔

ان نظریات کے تحت جو لائحہ عمل اور طریقہ کار بنتا تھا وہ مذاکرات اور حکمرانوں سے مصالحت کا تھا۔ 28 اگست 1945ء کو ماؤ چونگ کوئنگ (Chong Quing) گیا جہاں کومنٹانگ حکومت تھی۔ایک ماہ مسلسل مذاکرات کے بعد دس اکتوبر کو ماؤزے تنگ اور کومنٹانگ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ”امن اور جمہوریت“ کے اصولوں کو تسلیم کر لیا گیا اور ”خانہ جنگی کو ہر صورت روکنے“ پر اتفاق کیا گیا۔

لیکن جب مذاکرات جاری تھے اس وقت بھی کومنٹانگ کی فوجوں کی خفیہ نقل و حرکت جاری تھی۔ وہ سرخ فوج کے زیر کنٹرول علاقوں پر چار اطراف سے حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ ابھی معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کومنٹانگ نے ایک بڑی فوج شانکسی صوبے میں سرخ فوج کے مرکز شینگ ڈانگ (Shangdong) پر حملے کے لیے روانہ کر دی۔ یہی صورت حال ہیبئی (Hebei) صوبے کے ہان وان علاقے میں ہوئی۔

مذاکرات ناکام ہو گئے اور پھر جنگ بھڑک اٹھی،اس خانہ جنگی میں دس سے تیس اکتوبر کے بیس دنوں میں کومنٹانگ کو ایک لاکھ دس ہزار فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔اس واقعہ کے بعد بھی ایک شکست خوردہ کومنٹانگ حکومت کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی نے پھر امن معاہدہ کر لیا جس پر 10 جنوری 1946ء کو دستخط کیے گئے۔ دونوں اطراف نے جنگ بندی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ ان مذاکرات میں امریکی صدر کے خصوصی نمائندے جنرل جارج سی مارشل نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔یہ معاہدہ کروا کے امریکی سامراج کے اس فوجی جرنیل نے کومنٹانگ کو یہ موقع فراہم کروایا کہ وہ اپنی فوجوں کی صف بندی اور تنظیم نو کر کے پھر حملہ آور ہو سکے۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کا کومنٹانگ سے بار بار معاہدے کرنا اس معذرت خواہانہ رویے کی غمازی کرتا ہے جو مرحلہ وار انقلاب کے منشویک اور سٹالنسٹ نظریے کے تحت ان نو آبادیاتی ممالک کے فرسودہ، رجعتی اور مفلوج سرمایہ دار طبقے کے مختلف حصوں پر انحصار اور جھوٹی امیدیں پیدا کرتا ہے کہ یہ ان ممالک میں کوئی قومی جمہوری انقلاب برپا کر سکیں گے۔ اب اس نظریے کا اجرا سٹالن اپنی گرفت میں مختلف ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں سے کروا رہا تھا۔ اس پالیسی کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلا کہ چین کے انقلاب کے برپا ہونے میں تاخیر ہوتی گئی اور کومنٹانگ اور چین کے قومی سرمایہ داروں کے ہاتھوں چین کے لاکھوں مزدوروں اور کسانوں کا ناحق خون بہتا رہا۔

جس دن اس معاہدے پر دستخط ہوئے اسی روز چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ’جمہوری‘ قوتوں کی ایک سیاسی مشاورتی کانفرنس چونگ کوئینگ میں بلائی۔اس میں شریک ’جمہوری‘ قوتوں میں کومنٹانگ بھی شامل تھی! اس میں منظور ہونے والی قراردادیں پھر طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی بجائے ”امن، جمہوریت اور قومی یکجہتی“ پر مبنی تھیں۔

اس کانفرنس کے اجلاس ابھی جاری تھے کہ کومنٹانگ حکومت نے بڑے فوجی دستے خانہ جنگی کے مختلف محاذوں پر حملہ آور ہونے کے لئے روانہ کر دئیے۔ ان حملوں نے سمجھوتے کے کچھ عرصے بعد ہی اس کے پرخچے اڑانے شروع کر دیے۔اپریل اور مئی 1946ء میں ان میں زیادہ شدت آ گئی۔ جنرل مارشل اور دوسرے امریکی نمائندے جو ان سمجھوتوں میں ثالث کا کردار ادا کرنے آئے تھے وہ دراصل کومنٹانگ کے فوجی مشیر وں کا کردار ادا کر رہے تھے اور فوجوں کی تمام نقل و حرکت، حملوں اور دوسری فوجی کاروائیوں کی بھی نگرانی کر رہے تھے۔ چیانگ کائی شیک یہ خانہ جنگی امریکہ کی آشیر باد اور حمایت کے زور پر لڑ رہا تھا۔

26جون 1946ء کو چیانگ کائی شیک نے ہوبئی-ہینان کے وسیع میدانی علاقے (سرخ فوج کے زیر انتظام) پر حملے کے لیے تین لاکھ فوجوں کا اجتماع کر کے محاصرہ کرنا شروع کر دیا۔ وسطی میدانی علاقوں کی پیپلز لبریشن آرمی’PLA‘ نے لی ژیانیان (Li Xinanian)، ژینگ وی سان (Zheng Weisan) اور وانگ ژین (Wang Zhen) کی قیادت میں 60 ہزار فوج کے ذریعے یہ حصار توڑ کر نئی پوزیشنیں سنبھال لیں۔

اس کے بعد جولائی میں چیانگ کائی شیک نے امریکی مشیروں کی راہنمائی اور مشوروں کے ذریعے 16 لاکھ باقاعدہ فوج کے ساتھ بڑا حملہ کر دیا۔یہ حملہ چین میں سرخ فوج کے زیر انتظام تقریباً تمام علاقوں پر کیا گیا۔ یہ چین کی تاریخ کی سب سے بڑی خانہ جنگی تھی۔ اس جنگ کے آغاز پر چیانگ کائی شیک کی فوج کی کُل تعداد 43 لاکھ تھی جبکہ اس وقت PLA (سرخ فوج) کی تعداد 12 لاکھ 80 ہزار تھی۔ کومنٹانگ حکومت کی یہ جارح حملہ آور فوج تیزی سے مختلف شہروں اور علاقوں پر قبضہ کر کے امریکی امداد کے ساتھ ایک تیز فتح حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کاربند تھی۔ 1947ء کے پہلے حصے میں یہ حملہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔

لانگ مارچ کے دوران ماؤزے تنگ اور چھو تہہ (Chu Teh) بہت ہی ذہین اور قابل فوجی حکمت عملی استوار کرنے والے کمانڈر بن کر ابھرے تھے۔ متحرک دفاع کے طریقہ کار کے مطابق کومنٹانگ کی فوجوں پر حملوں کے ذریعے کاری ضربیں لگنا شروع ہو گئیں۔ چھو تہہ نے 1922ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کی کمان میں فوجی قوتوں نے 1928ء میں ماؤ کی فوجوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ چھو نے لانگ مارچ اور جاپان کے خلاف سول وار میں کمیونسٹ پارٹی کے اہم فوجی کمانڈر کا کردار ادا کیا تھا۔

زرعی اصلاحات

اس متحرک دفاع کی پالیسی کے تحت PLA نے رضاکارانہ طور پر اپنے کچھ زیر انتظام علاقوں سے انخلا کر کے متحرک حملوں کے ذریعے دشمن کے 7 لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ PLA نے اپنے آپ کو زیادہ تر دشمن سے چھینے ہوئے ہتھیاروں سے لیس کر کے یہ جنگ لڑی۔ بہت سے جنگی قیدیوں نے PLA میں شامل ہونا شروع کر دیا جس سے اس فوج کی تعداد تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی۔ اس جنگ کے دوران PLA آرمی بڑی مضبوط اور دلیر ہوتی گئی جبکہ کومنٹانگ کی فوجیں بزدل، کمزور اور بدظن ہوتی گئیں۔ اس وجہ سے مارچ 1947ء کے بعد کومنٹانگ نے ملک گیر جنگ بند کر کے مخصوص علاقوں پر حملوں کو مرکوز کر دیا۔ ان میں شین ڈونگ اور شانکسی کے شمالی علاقہ جات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے بعد شمال مشرقی اور شمالی چین کے علاقوں میں PLA نے جوابی حملہ کرنا شروع کر دیا۔ایک سال کی اس خانہ جنگی میں چیانگ کائی شیک کے 11 لاکھ 20 ہزار فوجیوں کو ناکارہ کر دیا گیا تھا اور PLA کی فوجوں کی تعداد 12 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 20 لاکھ ہو گئی تھی۔ جولائی سے ستمبر 1947ء میں PLA نے ملک گیر جوابی حملے شروع کر دئیے۔ جنگ میں بازی کا یوں الٹ جانا تاریخ کے ایک اہم موڑ کو جنم دے رہا تھا۔

اس جنگ کا پانسہ پلٹنے میں فوجی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ 13 ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ پارٹی نے ایک قومی زرعی کانفرنس منعقد کی جس میں ایک زرعی قانون پاس کیا گیا۔ جو مندرجہ ذیل نکات پر مبنی تھا۔
آرٹیکل 1: جاگیر دارانہ اور نیم جاگیر دارانہ استحصال کے نظام پر مبنی زرعی نظام کا خاتمہ اور زمین کی کاشتکار کو ملکیت
آرٹیکل 2: جاگیر داروں کے تمام مالکانہ حقوق کا خاتمہ
آرٹیکل3: تمام مزارعوں، درسگاہوں، عبادت گاہوں، سکولوں، اداروں اور تنظیموں کی زمین کی وراثتی، خاندانی اور انفرادی ملکیت کا خاتمہ
آرٹیکل4: ان اصلاحات سے پیشتر دیہی علاقوں میں کسانوں کو دیے گئے تمام قرضوں کا خاتمہ اور عام معافی
اس زرعی قانون کے آرٹیکل دس کی مختلف شقوں کا اطلاق کومنٹانگ کے فوجی سپاہیوں پر ہوتا تھا جس کے تحت،
سیکشن سی: PLA جمہوری حکومتوں اور تمام عوامی تنظیموں کے افراد کو جو دیہی علاقوں کے رہنے والے ہیں اور ان کے خاندانوں کو مزارعوں کے برابر زمینیں اور جائدادیں دیہی علاقے میں دی جائیں گی۔
سیکشن ڈی:جاگیر داروں اور ان کے خاندانوں کو کسانوں کے برابر زمینیں دی جائیں گی۔
سیکشن ای: کومنٹانگ کے افسروں اور سپاہیوں اور اس پارٹی کے ممبران کے خاندانوں (جن کے گھر دیہی علاقوں میں ہیں) کو کسانوں کے برابر زمین اور جائیداد دی جائے گی۔

یہ پالیسی اور پروگرام نہ صرف عام غریب کسانوں کی سرخ فوج میں شمولیت اور حمایت کا باعث بنے بلکہ کومنٹانگ فوج کے بہت سے سپاہی اور کچھ افسران بھی اس پروگرام کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ شریک ہو گئے۔یہ اصلاحات PLA کے زیر انتظام علاقوں میں تیزی سے نافذ کی گئی تھیں۔ اس قانون کے تحت ان علاقوں کے دس کروڑ کسانوں میں زمین تقسیم کی گئی جو وسیع عوامی حمایت کے حصول اور عوامی پھیلاؤ میں بہت ہی اہم اقدام ثابت ہوا۔

انقلابِ چین 1949ء

10 اکتوبر 1947ء کو PLA نے ایک منشور جاری کیا جس کے تحت چیانگ کائی شیک حکومت کو اکھاڑ کر ایک مخلوط جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ حکومت مزدوروں، کسانوں، سپاہیوں، دانشوروں اور ’محب وطن قومی بورژوازی‘ پر مبنی ہونا تھی۔ اس میں تمام محکوم طبقات، تمام عوامی تنظیموں، اقلیتوں، بیرون ملک چینیوں اور دوسرے ’محب وطن‘ عناصر کی یکجہتی کی بات کی گئی تھی۔ اس منشور نے کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں ایک عوامی جمہوری متحدہ محاذبنانے کی اپیل بھی کی تھی۔

اس اپیل کے تحت کومنٹانگ کی ڈوبتی کشتی کو دیکھتے ہوئے بہت سے سرمایہ دار اور اس طبقے کے دانشور اور سیاسی لیڈر اس چھتری تلے کمیونسٹ پارٹی کی جانب راغب ہونا شروع ہوئے۔ 1948ء کے موسم بہار میں مختلف بورژوا سیاست دانوں نے ہانگ کانگ میں ڈیموکریٹک لیگ بنا کر کمیونسٹ پارٹی سے الحاق کر لیا۔ اسی طرح کومنٹانگ کے بہت سے دوسرے لیڈر بھی کمیونسٹ پارٹی میں آنا شروع ہو گئے۔ یکم مئی 1948ء کو کمیونسٹ پارٹی نے ان تمام جمہوری عناصر کے ساتھ الحاق بنانے کے لیے پھر نئی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی کال دی اور ان عناصر کو ساتھ ملاناشروع کر دیا۔

لیکن دوسری جانب جنگ کا پانسہ مکمل طور پر پلٹ چکا تھا اور 1948ء کے موسم بہار میں PLA نے اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے شہروں اور دیہی علاقوں کی بڑی تعداد پر قبضہ کر کے کومنٹانگ کے تسلط سے ان کو آزاد کروانا شروع کر دیا۔

ستمبر 1948ء میں PLA نے تین بڑی فوجی مہمات شروع کیں۔ یہ لیاکژائی شینیانگ (Liooxi-Shenyang)، ہوائی ہائی (Huai-hai) اور بیپنگ تیانجن (Beiping-Tian jin) کی مہمات تھیں۔

پہلی مہم میں شمال مشرق میں PLA نے 47 ہزار کومنٹانگ فوجوں کا صفایا کر دیا اور پورے شمالی چین کو آزاد کروا لیا۔ اس وقت کومنٹانگ کی فوجوں کی کل تعداد 29 لاکھ افراد تک رہ گئی تھی جبکہ PLA کی تعداد بڑھ کر 30 لاکھ ہو گئی تھی۔ ہوا ہائی مہم 7 نومبر 1948ء سے 10 جنوری 1949ء تک چلی جس میں مشرقی چین میں کومنٹانگ کی 5 لاکھ 50 ہزار فوج کو شکست دے کر پورے خطے کو آزاد کروایا گیا۔ اس مشرقی فوجی کمان اور فوج کا سیاسی سیکرٹری ڈینگ ژیاؤپنگ تھا۔ اس طرح تاکجنگ (جو کومنٹانگ کا دارالحکومت تھا) اور شنگھائی PLA کے کنٹرول میں آگئے۔

بیپنگ، تیانجنگ فوجی مہم کی پیش قدمی پانچ دسمبر 1948ء کو شروع ہوئی اور31 جنوری 1949ء کو اس کا خاتمہ ہوا۔ اس حملے میں کومنٹانگ کی 5 لاکھ 20 ہزار افراد پر مبنی فوج کو مکمل شکست اور خاتمے سے دوچار کیا گیا۔ اس طرح چین کا انقلاب بڑی حد تک فتح مند ہو چکا تھا۔

مارچ 1949ء میں کمیونسٹ پارٹی کی ساتویں مرکزی کمیٹی کے دوسرے پلینری سیشن کا اجلاس بلایا گیا۔ پارٹی کے کام کو دیہاتوں سے شہروں کی جانب منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میں کمیونسٹ پارٹی اور PLA کے مراکز کو بیجنگ منتقل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔


کومنٹانگ کا زوال اور سقوط قریب آ رہا تھا۔ اس شکست سے بچنے کے لئے کومنٹانگ نے امن کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا۔یکم جنوری 1949ء کو چیانگ کائی شیک نے امن کی اپیل کر دی۔ لیکن جواب نہ آنے اور شکست کے آثار واضح ہوجانے کی صورت میں اس نے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا اور نائب صدر کو عہدہ سونپ دیا۔اس اپیل کا جواب ماؤزے تنگ نے آٹھ شرائط عائد کر کے دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے نمائندوں اور کومنٹانگ کی نئی صدر لی زنگرین کی حکومت کے مابین پندرہ روزہ مذاکرات کے بعد ’داخلی امن‘ کا ایک اور سمجھوتہ طے پایا لیکن 20 اپریل کو یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا۔

21 اپریل کو PLA کے دستوں نے دریائے چانگ جیانگ کوعبور کرنا شروع کر دیا۔ 23 اپریل 1949ء کو کومنٹانگ حکومت کے مرکز نانجنگ میں یہ فوجیں داخل ہوئیں اور اس حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔اس کے بعد کومنٹانگ کے زیر انتظام دوسرے علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کی گئی اور مختلف جنگوں اور جھڑپوں کے بعد تبت کے علاوہ باقی تقریباً سارے چین کو آزاد کروا لیا گیا۔ جولائی 1946ء اور جون 1950ء کے درمیان PLA نے کومنٹانگ کے 80 لاکھ 70 ہزار افراد کو ناکارہ بنا دیا۔ توپخانے کے54400 ہتھیاروں پر قبضہ کیا۔ 319900 مشین گنوں، 1000 ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں 20 ہزار فوجی گاڑیوں اور بے پناہ دوسرے ہتھیاروں اور اسلحہ پر قبضہ کر لیا گیا۔

21 ستمبر 1949ء کو چین کی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس بیجنگ میں بلائی گئی۔ چین کا نام عوامی جمہوریہ چین رکھا گیا اور ماؤزے تنگ کو حکومت کی مرکزی کونسل کا چیئرمین چنا گیا۔ ژوڈے، لیو شاؤچی، سونگ چنگ لنگ، لی جی شین، ژانگ لان اور گواگانگ کو نائب چیئرمین مقرر کیا گیا۔ چو این لائی سمیت 55 دوسرے ممبران کی مرکزی حکومت کی کونسل تشکیل دی گئی۔عوامی جمہوریہ چین کی فتح کا جشن یکم اکتوبر 1949ء کو منایا گیا اور بیجنگ کے تیانامن اسکوائر سے ماؤ نے اس کا اعلامیہ جاری کیا۔

انقلابِ چین: ایک عظیم جست

1949 ء کا انقلاب چین بلا شبہ ایک عظیم جست تھی جس نے ا س خطے سمیت پوری دنیا پر اہم اثرات مرتب کیے۔دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا اورمارکسزم کی نظریاتی سچائی کا ثبوت تھا۔ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیا کہ مزدور اور غریب کسان مل کر نہ صرف اقتدار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا نفاذ بھی کر سکتے ہیں۔اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک پسماندہ ملک میں بھی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے اور ترقی یافتہ سامراجی ممالک کو شکست دی جا سکتی ہے۔ لیکن 27-1925ء کے انقلاب کے بر عکس 1949ء کا انقلاب، 1917ء کے انقلاب روس کی طرح کا کلاسیکی مزدور انقلاب نہیں تھا۔ وہ مزدور طبقے کی شعوری مداخلت کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں مسلح کسانوں کی ایک تحریک تھی۔ اس انقلاب کی کامیابی کی عمومی وجوہات کو دیکھا جائے تو وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ چین کی قومی بورژوازی اتنی کمزور، بد عنوان، پراگندہ، بزدل اور ظالم تھی کہ وہ ٹوٹ پھوٹ کر گر رہی تھی۔ امریکی، برطانوی اور دیگر سامراجیوں کی حمایت اور فوجی امداد بھی انہیں نہیں بچا سکی۔
2۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجی قوتیں اپنے باہمی تصادم میں ٹکرا کر اتنی کمزور اور بحران کا شکار ہو چکی تھیں کہ ان میں انقلابی تحریک اور PLA کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی اہلیت ہی نہیں رہی تھی۔ سامراجی فوجیں جنگ میں تھک چکی تھیں اور امریکی اور برطانوی فوجوں میں بغاوت کے رجحانات ابھر رہے تھے۔ ان کو چین میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کے خلاف استعمال کرنے سے پورے خطے میں سامراج کے تسلط اور فوجی جبر کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ امریکی جرنیلوں کی سخت ضد کے باوجود امریکہ کے سیاسی حکمرانوں نے اس انقلاب کو روکنے اور چین میں فوجی جارحیت کی حکمت عملی کو مسترد کر دیا تھا۔
3۔ چین میں گوریلا جنگ اور کسان تحریکوں کی روایات اور تاریخی بنیادیں موجود تھیں جن میں یہ کسان جنگ اس دفعہ بالکل مختلف قسم کے انجام کو پہنچی۔
4۔ کمیونسٹ پارٹی میں ایسے افراد موجود تھے جنہوں نے اس جنگ کے دوران فوجی حکمت عملی اور ہنر میں کمال مہارت حاصل کی اور کمیونسٹ پارٹی کی زرعی انقلاب کی پالیسی نے وسیع پیمانے پر کمیونسٹ پارٹی کو حمایت دلوائی جس سے سرخ فوج نے بہت تیزی سے بڑھنا شروع کر دیا اور اس کی پیش قدمی کے آگے کومنٹانگ حکومت کا ریت کی دیوار کی طرح گر جانا نہ صرف امریکہ اور چیانگ کائی شیک کے لیے حیران کن تھا بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور ماسکو میں سٹالنسٹ قیادت بھی حیران رہ گئی تھی۔

لیکن اس انقلاب کا یکطرفہ تجزیہ تاریخ کے اہم واقعات کو چھپا دیتا ہے۔ اس انقلاب کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ اس انقلاب کے نتائج اس کی قیادت کے تناظر اور نظریات کے بالکل بر عکس تھے۔ ماؤاور کمیونسٹ پارٹی کی حاوی قیادت کا 27-1925ء کے انقلاب کی خونی شکست کے بعد نظریاتی زوال پذیری کا عمل زیادہ تیز ہو گیا تھا۔ سٹالن کی قیادت میں کومنٹرن کی زوال پذیری کے بعد جو مرحلہ وار انقلاب کی پالیسی اپنائی گئی تھی وہ 50-1949ء کے انقلاب میں اور اس کے بعد بھی جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ماؤزے تنگ نے 1940ء میں یہ بنیادی نظریاتی لائحہ عمل اپنی مشہور کتاب ”نئی جمہوریت“ میں وضع کیا تھا۔

”۔۔۔آج کے وقت کے چینی سماج کے نوآبادیاتی، نیم نو آبادیاتی اور نیم جاگیردارانہ کردار سے چین کے انقلاب کو لازماً دو مرحلوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم نو آبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی اور نیم جاگیر دارانہ سماج کی کیفیت کو آزادانہ اور جمہوری سماج میں تبدیل کرنا ہے۔ دوسرا مرحلہ (جن کے درمیان اس کتاب میں پچاس سے سو سال کے وقفے کا ذکر کیا گیا ہے)اس انقلاب کو آگے بڑھا کر چین میں ایک سوشلسٹ سماج استوار کرنے کی ضرورت ہے۔“(ماؤزے تنگ منتخب تصانیف، بیجنگ 1975ء، جلد نمبر 2، صفحہ 342)

لیکن سرخ فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد بھی جب سرمایہ داری کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی اور مختلف سرمایہ دار پارٹیوں سے الحاق کر کے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عوامی جمہوریت قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ماؤ اور قیادت کی توقعات اور تناظر کے بر عکس انقلاب کی اپنی حرکت، جدوجہد اور عمل کے مختلف پہلوؤں اور گرمائش نے صورتحال کو اتنا ریڈیکل بنا دیا تھا کہ انقلاب کی حمایت میں متحرک ہونے والا محنت کش طبقہ قیادت کی تمام رکاوٹوں کو توڑتا اور ان کے تخلیق کردہ مصنوعی نظریاتی مراحل کو پاش پاش کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور بورژوا نجی ملکیت سے متصادم ہو گیا۔ قیادت نے ابتدا میں تو صورتحال کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی اور ہڑتالی یا قومی سرمایہ داروں کی فیکٹریوں پر قبضے کرنے والے مزدوروں پر گولیاں تک چلائی گئیں لیکن بالآخر انہیں محنت کشوں کی اس جستجو اور جدوجہد کی شدت اور عمل کی پیروی کرنی پڑی۔مزید برآں مختصر عرصے کے عملی تجربے سے ماؤ اور باقی قیادت کو یہ ادراک بھی ہو گیا تھا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چینی سماج کو آگے بڑھانا نا ممکن ہے۔

انقلابی فتح حاصل کرنے کے بعد سرخ فوج اور اس کی انقلابی تبدیلی سے چین کے محنت کشوں کو جس آزادی اور زنجیروں کے ٹوٹنے کا احساس ہوا تھا وہ چین کی قومی یکجہتی اور فرسودہ قومی جمہوری مرحلے کے لیے قومی سرمایہ داروں کی بیڑیاں پہننے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا۔ دیہاتوں میں تو زمینوں کی تقسیم اور زرعی انقلاب کو کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے قومی جمہوری انقلاب کے مرحلے کے حوالے سے کیا تھا۔لیکن تحریک کی یہ شدت شہروں میں سرمایہ داری کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور چین میں بہت تیزی سے سرمایہ داری کا خاتمہ ہونا شروع ہو گیا۔ ماؤ اور دوسری پارٹی قیادت نے اس صورت حال کو پھر اپنے رنگ میں موڑ لیا کیونکہ مزدوروں کی جمہوری شراکت کی بجائے یہ انقلاب کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں کسانوں کی مسلح تحریک کے بلبوتے پر ابھرا تھا اس لیے اس قیادت نے سرمایہ داری کے خاتمے پر چین میں نئی ریاست کو جس بنیاد پر تشکیل دیا وہ سوویت یونین اور ماسکو کے ماڈل پر مبنی تھی لیکن المیہ یہ تھا کہ یہ 1917ء کا لینن کا روس نہیں تھا بلکہ 1949ء کا سٹالن کا افسر شاہانہ ماڈل تھا جس کی وجہ سے چین کی مزدور ریاست اپنے جنم ہی سے افسر شاہانہ مسخ شدگی کا شکار تھی۔

ماؤ نے جس سٹالنسٹ ڈھانچے کو چین میں ابتدا ہی سے استوار کیا تھا وہ عمل شعوری تھا اور ماؤ، لی شاؤ چی، چو این لائی، ڈینگ ژیاؤ پنگ سمیت تمام لیڈران کو اس کا پوری طرح احساس تھا کہ ایک کسان فوج پر کنٹرول آسان ہوتا ہے چونکہ اس کا ڈھانچہ اور سماجی مواد مختلف ہوتا ہے جبکہ کسی صنعتی مزدوروں کی تحریک، تنظیم، پارٹی، جدوجہد اور انقلاب کا ڈھانچہ، سماجی مواد، طریقہ کار، سوچ، شعور، لائحہ عمل، قیادت کا کردار اور قیادت پر کنٹرول بالکل مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔اس وجہ سے کینٹن، شنگھائی، نانجنگ اور دوسرے بڑے صنعتی شہروں میں جب کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں سرخ فوج کے دستے پہنچے تو لال جھنڈے اٹھائے ہوئے استقبال کرنے والے صنعتی مزدوروں کے جلوسوں پر کئی شہروں میں گولیاں برسائی گئیں کیونکہ مزدوروں کا انقلابی عمل اور مزدور جمہوریت پر مبنی سماجی ڈھانچہ ابتدا ہی میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی بیوروکریٹک قیادت کے تسلط اور سٹالنسٹ ڈھانچے کے کنٹرول کے لیے خطرہ بن سکتا تھا، لیکن ہڑتالوں اور فیکٹریوں پر مزدوروں کے قبضے اور سرمایہ داروں کو بھگانے کے اس سارے عمل کو واپس پلٹانا ماؤ کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایسا اقدام اس کی ساکھ اور بنیادیں منہدم کر سکتا تھا۔ سٹالنزم کا طریقہ کار جس کو چین کے اس انقلاب کی قیادت نے اپنایا بنیادی طور پر مزدور جمہوریت کے فقدان پر مبنی تھا۔ اس انقلاب نے اس پس منظر میں جو راستہ اپنایا اور جو شکل اختیار کی وہ پرولتاری بوناپارٹزم یا ایک افسر شاہانہ مزدور ریاست کی شکل تھی۔

روس (1917ء) اور چین (1949ء) کے انقلابات میں بنیادی فرق یہی تھا کہ روس کے انقلاب کی قیادت محنت کش طبقہ پورے عمل میں شعوری شراکت اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے کر رہا تھا۔ اس میں قیادت پرولتاریہ کے پاس تھی اور پرولتاریہ ہراول دستے کے طور پر کسانوں اور سماج کے دوسرے طبقات کو اپنی قیادت میں ساتھ لے کر چل رہا تھا۔ مزدور طبقے کی اجتماعی تحریک اور کسان جنگوں اور تحریکوں کا فرق صاف ظاہر ہے۔دونوں طبقات تاریخ کے مختلف عہدوں کے طبقات ہیں جن کے انہی عہدوں اور ذرائع پیداوار کی کیفیت کے مطابق ہی سماجی کردار بنتے ہیں۔ اس لیے جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو ابتدا میں حقیقی بنیادوں پر مزدور جمہوریت پر مبنی ایک صحت مند ریاست ابھری جو پانچ سے سات سال کے عرصے کے بعد زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔

لیکن 1949ء میں چین میں ایسا نہیں ہوا۔ چین کے انقلاب نے اپنے آغاز سے ہی سٹالنسٹ شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کا تعین پہلے سے ہی اس کی سرحدوں پر موجود سوویت یونین کی دیو ہیکل مسخ شدہ مزدور ریاست کے وجود سے ہو گیا تھا۔ 27-1925ء کے برعکس اس میں پرولتاریہ نے ہراول کردار ادا نہیں کیا۔ دراصل سٹالنسٹ قیادت نے کسان طبقے کو ایک دیو ہیکل ہتھوڑے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بورژوازی کو کچلا۔ انہوں نے قیادت محنت کش طبقے کے نام پر حاصل کی تھی لیکن یہ محنت کش طبقہ اس عمل میں شعوری شرکت نہیں کر سکا تھا۔ ماؤمحنت کش طبقے کی آزادانہ طبقاتی تحریک سے خوفزدہ تھا اور اس نے اس کو ابھرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کیا تھا۔

اس انقلاب کا دوسرا اہم منفی پہلو بین الاقوامیت کا نہ ہونا تھا۔ طبقاتی مفاہمت کے مرحلہ وار انقلاب کے نظرئیے اور سٹالنزم کی ”ایک ملک میں سوشلزم“ کی قومی تنگ نظری کی سوچ کے تحت یہ ہونا ناگزیر تھا۔لیکن اس تمام تر مسخ شدگی کے باوجود چین میں نیم جاگیر داری، سرمایہ داری اور سامراجی تسلط کا خاتمہ تاریخی اعتبار سے ایک بہت بڑا آگے کا قدم تھا۔ اس سے چین کی معیشت میں موجود بے پناہ امکانات اور اہلیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ چند دہائیوں میں چین ایک پسماندہ ملک کی کیفیت سے نکل کر منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کی بدولت ایک بہت ہی طاقتور صنعتی ملک بن گیا۔

لیکن آج، چینی انقلاب کے ستر سال گزر جانے کے بعد، چین سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ میں کئی منازل طے کرتا ہوا ایک سامراجی ملک بن چکا ہے۔ معاشی لبرلائزیشن اور نجکاری کے عمل نے بڑے پیمانے پر غربت اور بیروزگاری کو جنم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، منڈی کی معیشت کا حصہ بننے کے باعث سرمایہ داری کا موجودہ بحران چین کو بھی متاثر کر رہا ہے اور چین میں ایک نئی مزدور تحریک کا جنم ہو رہا ہے۔ اور جب چینی محنت کش طبقہ جاگے گا تو پوری دنیا لرز اٹھے گی۔ چینی محنت کش، کسان اور طلبہ اپنی ماضی کی انقلابی روایات کی جانب لوٹیں گے اور چین سے سرمایہ داری اور افسر شاہی کے جبر کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک صحت مند سوشلسٹ مزدور ریاست کی بنیاد رکھیں گے جو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب ایک انتہائی اہم قدم ہو گا۔

Comments are closed.