|تحریر: ژان -ڈو- ژے|
| ترجمہ: ولید خان|
حالیہ مہینوں میں مزدوروں اور طلبہ کے اکٹھ کی سرمایہ نواز چینی ریاست کیخلاف جدوجہد زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سرگرم طلبہ کے خلاف خوفناک کریک ڈاؤن اس کی واضح جھلک ہے۔اگرچہ کریک ڈاؤن کی وجہ مقامی JSAIC فیکٹری مزدوروں کی ایک حقیقی آزاد ٹریڈ یونین کی جدوجہد تھی اور حکومت کا سارا جبر ان مزدوروں اور طلبہ کے’JASIC یکجہتی‘ گروہ پر تھا لیکن یہ جھڑپ سماج میں پنپتی سماجی قوتوں کی سیاسی بے چینی کا درست اظہار ہے۔
9 اور 11 نومبر کو ریاستی اداروں نے ایک بار پھر بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے گرفتاریوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے دس سے زیادہ مزدوروں اور طلبہ کو 9 تاریخ کو گرفتار کیا جبکہ 11 تاریخ کو مزید تین کو گرفتار کر لیا۔ یہاں پیکنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل زینگ شینگ یی کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جسے کیمپس سے اغوا کیا گیا جبکہ یکجہتی گروپ کے کیڈر تانگ زیانگ وی کو کیمروں کے سامنے تین چار آدمیوں نے زدوکوب کرتے ہوئے گرفتار کیا۔
اس سے پہلے ہی جولائی سے پولیس اس گروہ پر کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ اگست میں پچاس سرگرم طلبہ کو چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیاجن میں سے کئی افراد بشمول شین مینگوے اور یو زن ابھی تک لاپتہ ہیں۔
ہم پہلے بھی اس طرح کی گرفتاریوں پر باقاعدگی سے رپورٹ کرتے آ رہے ہیں جن کا سلسلہ ملک کے طول و عرض میں مختلف شہروں، جیسے بیجنگ، شنگھائی اور گوانگ زو میں پھیلے سرگرم افراد کے خلاف جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان طلبہ کی سرگرمیاں صرف JASIC کے مزدوروں تک ہی محدود نہیں تھیں، جیسے یوزن پیکنگ یونیورسٹی میں #MeToo تحریک کا کلیدی منتظم تھا اور انہوں نے ایک فیکٹری میں حالاتِ روزگار کی تفتیش بھی کی جو ایوانکا ٹرمپ کے برانڈ کے لیے جوتے بناتی ہے اور کالے پھیپڑوں کے موذی مرض میں مبتلا مزدوروں کی حمایت بھی کی۔
یہ واضح ہے کہ چینی حکمران طبقہ پوری طرح چوکس ہے اور اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ہر طرح سے مستعد ہے۔ سرگرم تنظیم کے چھوٹے قد کاٹھ کے باوجود چینی کمیونسٹ پارٹی (CCP) کو ادراک ہے کہ یہ گروپ مزدوروں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں موجود شدید غم و غصے کا اظہار ہے۔ یہ پھر چینی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا اظہار ہے جو سماج کے صرف اکا دکا حصوں میں نہیں بلکہ پوری قوم میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔
بہادر طبقاتی جنگجو
اگرچہ یہ بہادر طبقاتی جنگجو نام نہاد ’مارکسی‘ حکمران پارٹی کے ماؤاسٹ جھنڈے کے نیچے اپنی جدوجہد آگے بڑھا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ان کی حفاظت کا ہر گز ضامن نہیں۔ چینی ریاست کا کمیونزم کا جعلی نقاب اٹھ چکا ہے اور حقیقی طبقاتی مفادات کا بھیانک چہرہ منظر پر آ گیاہے۔
ہم نے پہلے بھی خبر دی تھی کہ کس طرح پیکنگ یونیورسٹی میں سرکاری مارکسی سوسائٹی کو بندش کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سرکار کی پسپائی اور اجازت ملنے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کی پوری معاونت کے ساتھ ایک طالب علم کا کیمپس سے اٹھایا جانا حکومت کی وعدہ کردہ رعایت کا منہ چڑاتا ثبوت ہے۔
اسی طرح 7 نومبر کے دن ہنان صوبے سے 300 مزدور کام کے دوران کالے پھیپڑوں کے موذی مرض میں مبتلا ہونے پر شین زن پہنچ کر لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے پرامن احتجاج کرنے پہنچے تو ان کا استقبال لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ سے کیا گیا۔
اگر کسی کے ذہن میں کوئی ابہام رہ گیا تھا کہ ’حقیقی‘ ماؤازم اور کمیونزم کے نام پع اپیلیں کرتے ہوئے چین کی کمیونسٹ پارٹی یا صدر ژی کی حمایت حاصل کی جا سکے گی تو اس طرح کے واقعات (جن کی تعداد اور شدت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جائے گی) مزدوروں اور طلبہ کا شعور عملی طور پر بلند تر کرنے کا موجب بن رہے ہیں اور ان کا ابہام دور کر رہے ہیں۔
ریاستی اداروں میں موجود وہ جعلسازجو کمیونزم کے نام پراپیلیں کرتے نہیں تھکتے، حکمران طبقے کی جبری مشین کے اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے کھلم کھلا اپنے آپ کو سرمایہ دار کہنے والے ہیں۔ ان کے لیے’مارکسزم‘ جیسے الفاظ ایک میٹھی گولی ہیں جن کی مدد سے عوام کو مدہوش کر دیا جاتا ہے۔ ان الفاظ کا دہرایا جانا معیوب نہیں۔۔اس وقت تک جب تک مزدور انہیں سنجیدہ لے کر آزادانہ سوچنا نہ شروع کر دیں!
مزدوروں اور طلبہ کے ساتھ یکجہتی
ان جنگجوؤں کو کسی بھی قسم کاجبر شکست نہیں دے سکتا جو محنت کش طبقے کی آزادی کے خواب سے سرشار ہیں۔۔جبر صرف ان کو اور زیادہ بہادر بنانے کا ہی سبب بنے گا۔ JASIC یکجہتی کی ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل لکھے گئے الفاظ شاندار انداز میں ان جذبات کی عکاسی کرتے ہیں،
’’اغوا کیے گئے کامریڈوں میں پیکنگ یونیورسٹی اور کئی چوٹی کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل شامل ہیں۔ سماج کی نظر میں ان پر چوٹی کی یونیورسٹیوں کی چھاپ تھی اور ناقابل فہم شہرت اور دولت ان کی منتظر۔ لیکن ان چوٹی کے طلبہ نے سماج کی عمومی چوہے دوڑ میں حصہ لینے کے بجائے مزدوروں کی ہمدردی اور سماجی بہتری کے جذبات کو زندہ رکھا۔ وہ دوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے آنیوالے مزدوربہن بھائیوں کی مدد کے لیے صنعت میں داخل ہوئے یا پھر خود مزدور بن گئے، انہوں نے صنعت میں اپنی جڑیں بنائیں اور کسی شہرت یا شکوے شکایت کے بغیر محنت کش طبقے کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔‘‘
طلبہ انتہائی جانفشانی سے اپنے گرفتار کئے گئے ساتھیوں کی رہائی مہم چلا رہے ہیں۔ اس دوران یو تیان فو جیسے لوگوں، جنہوں نے ان اغوا کی کاروائیوں کی خبریں دیں، کے وی چیٹ (چینی سوشل میڈیا ایپ) اکاؤنٹ منجمند کر کے انہیں جبری طور پر گھر بھیج دیا گیا۔ لیکن اس تمام جبر کے باوجود لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں یہ جدوجہد پسپائی کا شکار ہو گی۔
ہم مارکس وادی مکمل طور پر چین میں ان سرگرم مزدوروں اور طلبہکے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ ایک کا دکھ سب کا دکھ ہے اور ان کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے۔ جبر انقلابیوں کو تو کیا کمزور کرے گا لیکن اپنی شدت کے تجربات سے بہت کچھ سکھا ضرور دے گا۔ ان تجربات کو واضح سائنسی مارکسی تناظر سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نعروں کے پس پردہ حقیقی طبقاتی مفادات کو بے نقاب کیا جا سکے۔ اس بنیاد پر ہی چین کی طبقاتی جدوجہد تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔