|تحریر: ایلے ساندرو گیاردیلو، ترجمہ: ولید خان|
”جب چین جاگے گا تو دنیا لرز اٹھے گی“۔ نپولین کی اس شہرۂ آفاق پیش گوئی کو تاریخ نے سچ ثابت کر دیا ہے۔ خاص طور پر پچھلے بیس سالوں میں چین ایک ایسی اہم معاشی قوت بن چکا ہے جو اس وقت امریکہ کی عالمی بالادستی کو کھلم کھلا چیلنج کر رہا ہے۔
لیکن آج کا چین پچھلی تین دہائیوں کے چین سے یکسر مختلف ہے۔ آج کا چین 1990ء کی دہائی اور 2008ء کے بعد سے سرمایہ داری کی لاش کو کندھا دینے کی اہلیت کھو چکا ہے بلکہ آنے والے بحران کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہ گیا کہ ”چین آنے والے بحران کا کیسے شکار ہو گا“ بلکہ سوال یہ ہے کہ ”چین اس بحران سے چھٹکارا کیسے حاصل کرے گا؟“
تجارت
چین کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے دسمبر میں چین سے امریکی درآمدات میں 63فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ اسی دوران بیجنگ کی طرف جانے والی بیرونی سرمایہ کاری میں بھی بڑی گراوٹ آئی۔ وزارتِ تجارت کے مطابق نومبر میں سرمایہ کاری میں 26.3 فیصد کمی واقع ہوئی تھی اور آنے والے مہینوں میں یہی رجحان رہا گو شرح نسبتاً کم تباہ کن تھی۔ اسی دوران شنگھائی اسٹاک ایکسچینج میں اسٹاک قیمتوں میں 20فیصد گراوٹ واقع ہوئی۔
لیکن جریدے ایل سول 24 اورے کے مطابق سب سے زیادہ دلچسپ اعدادوشمار نجی سرمایہ کاری سے متعلق ہیں جن میں ”نمایاں کمی“ واقع ہوئی ہے اور ”ریاستی کمپنیوں کو قابلِ ذکر سرمایہ کاری کرنی پڑ رہی ہے“ جو پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کے بالکل خلاف ہے۔
دوسرے الفاظ میں ریاستی اخراجات کے ذریعے بحران کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ ورلڈ بینک کے مطابق ”چین اورعالمی معیشت گہرا تعلق ہے“۔ یہ کہنا ہی کافی ہے کہ عالمی سرمایہ کاری میں چین کاپانچواں حصہ ہے اور 15-2010ء کے دوران ہونے والی عالمی معاشی بحالی میں چین کا حصہ 42فیصد تھا۔
چین میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں تیز ترین گراوٹ حکومت کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث ہے۔ چین کی معاشی نمو 2010ء میں 10.6 فیصد تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 2020ء میں 6 فیصد ہو جائے گی۔ سرکاری طور پر آج یہ 6.4 فیصد ہے۔ یورپی معیار کے حوالے سے یہ مثبت ہو سکتی ہے لیکن آبادی میں سالانہ 4 فیصد شرح نمو اور سالانہ کروڑوں چینیوں کی دیہی علاقوں سے شہر کی طرف روزگار کی تلاش میں اندرونی دیو ہیکل ہجرت کے سامنے یہ اعدادوشمار ایک جمود کا شکار معیشت کی عکاسی کر رہے ہیں اور آنے والے وقت میں صورتحال مزید گھمبیر ہوتی چلی جائے گی۔
قرضوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر
مزید برآں، تاریخی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی طرح چینی معیشت بھی تیزی سے قرضوں کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیجنگ نے یہ سفر انتہائی کم عرصے میں طے کیا ہے۔
عالمی مانیٹری فنڈ (IMF) کے مطابق چین کا ریاستی قرضہ 6ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا ہے جبکہ کل قرضہ (جس میں گھریلو، نجی اور بینکوں کے قرضہ جات شامل ہیں)23 ٹریلین کی ہوشربا سطح تک پہنچ چکا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ شی جن پنگ کی امریکہ کے ساتھ تجارت پر کسی معاہدے تک پہنچنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ اس کے معیشت پر کوئی دیرپا مثبت اثرات سامنے آئیں۔ دباؤ کا بڑھتے چلے جانا ناگزیر ہے۔
گو کہ دونوں ممالک کی جانب سے آبرومندانہ صلح کی جانب بڑھنے کے لئے وقتاً فوقتاً بیان بازی کی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ چین کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے امریکی حکومت کے خلاف ایک ارب ڈالر کا ہرجانے کا دعویٰ تیار کر رہی ہے۔ دوسری طرف ظاہر ہے کہ کینیڈین حکام کو امریکہ کی یہ درخواست کہ کمپنی کی فنانس ڈائریکٹر (اور کمپنی مالک کی بیٹی) مینگ وان زوکو نظر بند رکھا جائے، بیجنگ کے ساتھ مفاہمت کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں ہے۔
اطالوی حکومت پر امریکی اور یورپی یونین کا دباؤ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اٹلی پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ چین کے سامراجی منصوبے ون بیلٹ، ون روڈ (نئی شاہراہِ ریشم) میں شمولیت اختیار کر کے یورپی منڈی میں چینی پیداوار کی کھپت میں معاونت کر رہا ہے۔
حال ہی میں 22 مارچ کو چینی صدر شی جن پنگ کے دورے کے دوران اٹلی نے سرکاری طور پر چینی پراجیکٹ میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ یہاں ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ چین کا کیا کردار بن رہا ہے اور آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر پکنے والا بحران کس نہج پر پہنچ رہا ہے۔
زائد پیداوار
پچھلے کافی عرصے سے زائدپیداوار کا شکار ہونے کی وجہ سے چین اس وقت ہیجانی کیفیت میں نئی تجارتی راہیں تلاش کر رہا ہے، حالانکہ شی جن پنگ کی حکومت سرمایہ داری کے ”فطری اصولوں“ کو پامال کرتے ہوئے معیشت کو مصنوعی طور پر سہارا دینے کے لئے مستقل دیو ہیکل سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
قرضوں کی مسلسل بڑھوتری کی پالیسی (جسے معیشت دان مقداری آسانی بھی کہتے ہیں) جس میں دنیا کے تمام مرکزی بینکوں نے 2008ء بحران کے بعد دیو ہیکل اضافہ کیا، کا استعمال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے(بلوم برگ، 17جنوری 2019ء)۔
امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کو یہ پالیسی ترک کئے ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے جبکہ یورپی مرکزی بینک نے بھی اس سال جنوری میں یہ پالیسی ترک کر دی ہے۔ جاپان میں اس پالیس کا کم از کم پچھلی ایک دہائی میں تو کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑا۔
اب چین کی باری ہے۔ چین ایک ایسی متضاد کیفیت کا شکار ہو چکا ہے کہ اس پر لدے دیو ہیکل قرضے کا ایک چھوٹا حصہ ہی نئی صنعتی ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے جبکہ قرضے کی بھاری مقدار قومی کرنسی اور مردہ عوامی اداروں کی معاونت میں استعمال ہوتی رہی ہے جو اپنے بل پر اب منڈی میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ اگر چینی ریاست ایسا نہ کرتی تو پہلے سے ہی نجی کمپنیوں کی پیدا کردہ بیروزگاری میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں ریاستی کمپنیوں سے کروڑوں چینی مزدوروں کو برخاست کرنا پڑتا۔
پس اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں دیو ہیکل مالیاتی وسائل رکھنے و الے آخری ملک چین میں بھی ”کینیشیئن“ پالیسیوں کا خاطر خواہ اثر نہیں پڑ رہا۔ بیجنگ کا غیر ملکی زرِ مبادلہ آج بھی قابل ذکر ہے (3.2ٹریلین ڈالر، حالانکہ چند سال پہلے یہ 4.4ٹریلین ڈالر تھا) جبکہ اس کے بینک دنیا کے سب سے بڑے بینک ہیں،لیکن معاشی افق پر تاریک بادل تیزی سے چھا رہے ہیں۔
قرضوں کے بلبلے کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا بلبلہ اور ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیوں کی وجہ سے پچھلے چند سالوں سے چین کو اپنے حامیوں کو نئی شاہراہِ ریشم میں شمولیت کے لئے آمادہ کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ ان میں سے کئی ممالک ”قرضوں کے گھن چکر“ میں پھنس چکے ہیں اور ان کے بیرونی قرضے ایسی سطح پر پہنچ چکے ہیں جن کو معیشت مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ ملائشیا، پاکستان، میانمار، سری لنکا وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ملائشیا نے حال ہی میں چینی سرمایہ کاری کے22ارب ڈالر کے منصوبے منسوخ کئے ہیں۔ سری لنکا IMF سے مدد مانگ رہا ہے۔ پاکستان بھی لائن میں لگا ہوا ہے حالانکہ امریکی سیکرٹری خارجہ مائک پومپیو نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ امریکہ، پاکستان کو ایک ڈالر بھی نہیں دے گا اگر یہ پیسہ چینی قرضوں کی ادائیگیوں کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ بھارت کو اس پراجیکٹ میں شامل کرنے کے لئے چینی دباؤ کے نتیجے میں پہلے بھوٹان کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے اور اب حال ہی میں کشمیری سرحد پر پاکستان بھارت تناؤ میں شدت آئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی افواج نے دو بھارتی ہوئی جہاز بھی مار گرائے۔
ایشیا اور دنیا میں چینی اثرورسوخ کو محدود کرنے کے لئے اس وقت امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا میں ہم آہنگی پائی جا رہی ہے۔
امریکی فیڈرل بینک کی جانب سے مقداری آسانی کی پالیسی ترک کرنے اور ڈالر کی شرح سود بڑھنے کے بعد چینی معیشت کو مزید دھچکا لگا ہے جس کے بعد سرمایہ کاری بیرونِ ملک منتقل ہو رہی ہے۔2015ء میں اپنی کرنسی کو مستحکم رکھنے کی کوششوں میں چینی ریاست کے اربوں ڈالر لگ گئے۔ دوسری طرف کرنسی کی قدر میں کمی کا مطلب نئے اندرونی (شرح سود اور درآمدگی میں اضافہ)اور بیرونی (تجارتی جنگ میں مزید اضافہ)تضادات کو جنم دینا ہے۔
امریکہ کے ساتھ بڑھتے تضادات کا اظہار چینی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں سے ہو رہا ہے جو ماضی میں بہت محتاط ہوا کرتی تھی۔ اس کی واضح مثال وینزویلا میں امریکہ کے خلاف ماڈورو حکومت کی حمایت ہے۔ انہیں نئے تجارتی مراکز کی اشد ضرورت ہے اور انہیں نئی سیاسی اور معاشی شراکت داریوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ان کا امریکی اور یورپی یونین کے مفادات سے براہِ راست ٹکراؤ ہو گا۔ اس وجہ سے سرکاری اعلانات کے باوجود تجارتی تناؤ نہ صرف موجود رہے گا بلکہ آنے والے وقت میں اور بھی بڑھے گا۔
محنت کش طبقہ اور طلبہ: 1968ء کا چین؟
ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود بحران کی وجہ سے چین میں کمپنیاں بند ہو رہی ہیں۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے (اگرچہ ریاستی اعداد و شمار میں انہیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا) اور ٹریڈ یونینز کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔
اس وقت ریاست کے لئے سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ 2008ء کے بعد سے مسلسل بڑھتی یہ ٹریڈ یونین سرگرمیاں اب طلبہ کو بھی تحرک فراہم کر رہی ہیں۔ دنیا اور چین کے مینوفیکچرنگ مرکز گوانگ ڈونگ میں پچھلے سال جولائی کے آخر میں 50 طلبہ نے Jasic انٹرنیشنل کے محنت کشوں کے ساتھ شامل ہو کر ACFTU کے تحت پر امن یونین سازی کا مطالبہ کیا۔ ابتداء میں محنت کشوں کو ACFTU سے یونین سازی کی اجازت مل گئی لیکن بعد میں انہوں نے اپنی ہی اجازت منسوخ کر دی جس کے بعد محنت کشوں کی ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔
محنت کش
جیسے ہی مزدور اور طلبہ ہوئی زو کے ایک ہوٹل میں اکٹھے ہوئے، رائٹ پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ چین کی بڑی یونیورسٹیوں میں پچھلے سال موسمِ خزاں سے طلبہ نے مارکسزم پر منعقد ہونے والی سرکاری کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے (جنہیں ”معاشی نشوونما کی تھیوری پر کورسز“ کے طور پر پڑھایا جاتا رہا ہے) اور وہ خود سے کورسز چلا رہے ہیں جن میں زائد پیداوار کا بحران اور طبقاتی جدوجہد کو پڑھایا جاتا ہے۔بیجنگ یونیورسٹی کے ریکٹر نے دھمکی دی ہے کہ طلبہ کی منظم کردہ ”مارکسسٹ سوسائٹی“ کو بند کر دیا جائے گا کیونکہ اس کے ممبران ایک ایسی حکمت عملی پر گامزن ہیں جس سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کردہ لائن کی اطاعت کے بجائے محنت کش طبقے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
نان جنگ میں ”مارکسسٹ سوسائٹی“ کو تسلیم نہ کرنیپر احتجاج کرنے پر دو طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا اور نومبر سے لے کر دسمبر تک بیجنگ، شنگھائی، گوان زہو، شین زین اور ووہان میں 12 طلبہ پراسرار طور پر گمشدہ ہو گئے۔
حکومت نے غنڈے پال رکھے ہیں جو گمشدہ طلبہ کو تلاش کرنے والے طلبہ کو نہ صرف ہراساں کرتے ہیں بلکہ مارتے پیٹتے بھی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر ”مجرمانہ سرگرمیوں“ کا الزام بھی لگایا ہے۔
ان طلبہ سے خوفزدہ ہونے کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ ان طالبِ علموں کا تعلق چین کی چوٹی کی یونیورسٹیوں سے ہے۔ یہ نئے چینی حکمران طبقے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ اشرافیہ کے بچے ہیں۔ یہ نوجوان ہونہار اور بااثر ہیں، انہیں ہمیشہ نیو لبرل بننے کی ترغیب دیتے ہوئے صرف اپنے کیریئر کے بارے میں سوچنا ہی سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے تو ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت میں زندگی گزارتے ہوئے صرف پیسہ کمانے کا ہی سوچنا تھا۔ لیکن پھر کسی موقعے، کسی موڑ پر انہیں یہ احساس ہوا کہ انہیں وہ نوکریاں ملنی ہی نہیں جن کے لئے وہ دن رات تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اب انہوں نے مارکس کو ایک بار پھر جاننا شروع کر دیا ہے۔
اس وقت چین میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم نے مئی1968ء میں فرانس اور موسمِ خزاں 1969ء میں اٹلی میں ہوتے دیکھا تھا جہاں بورژوا اور پیٹی بورژوا گھرانوں کے بچوں نے محنت کش طبقے سے جڑت کے لئے فیکٹریوں کا رخ کیا تھا۔
ان واقعات اور آج کے حالات میں فرق یہ ہے کہ نہ صرف عمل کا حجم دیو ہیکل ہے (چین کی آبادی 1.4 ارب ہے جبکہ ملک کا مزدور طبقہ تاریخ کا سب سے زیادہ طاقتور، بڑا اور ہنر مند مزدور طبقہ ہے) لیکن سب سے بڑھ کر چینی مزدور طبقے کے شعور پر ماضی کا کوئی سیاسی یا ٹریڈ یونین روایت کا بوجھ موجود نہیں ہے۔ یہ نوجوان مزدور 1990ء کی دہائی میں دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے پہلے مزدوروں سے زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں۔یہ دوسری نسل نہ صرف حکمران کمیونسٹ پارٹی اور سرکاری ٹریڈ یونینز پر کوئی اعتبار نہیں کرتی بلکہ اس کا نئی آزاد ٹریڈ یونینز بنانے کا رجحان زیادہ ہے جس وجہ سے یہ بے قابو تحرک اور ریاست کے خلاف جدوجہد کا حقیقی موجب بن سکتے ہیں۔
چین میں 1960ء یا 1970ء کی دہائیوں کی طرز پر کوئی حزبِ اختلاف بھی موجود نہیں جیسے کہ فرانس میں مارچیس یا اٹلی میں برلینگوئر کی تھیں جنہوں نے عوامی تحریکوں کو ”مناسب“ اصلاح پسند راستوں پر زائل کر دیا تھا۔ آج چین میں یہ کردار کون ادا کرے گا؟
مارکسی سوسائٹیوں کو منظم کرنے والے ایک نوجوان سے پوچھا گیا کہ ”چینی نوجوانوں میں مارکسزم کی طرف واپسی کی وجوہات کیا ہیں؟“ اس کا جواب تھا کہ ”حکومت کی مکمل توجہ کنفوشین ازم، خاندان اور قوم پرستی پر ہے لیکن اب یہ کارآمد نہیں رہ گئے۔ آج اگر نوجوانوں میں کم از کم 20 فیصد مارکسزم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، یعنی معیشت کی سست روی اور ملک کی انقلابی روایات۔“
پس اس مضمون کے آغاز پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے معاشی بحران میں چین ایک ایسے ملک کے طور پر داخل ہو گا جو سرمایہ دارانہ ملک کی قیادت کا خواہش مند ہے لیکن درحقیقت وہ ایک نئے انقلابی نکتہ آغاز کے طور پر ابھرتے ہوئے نپولین کے قول کو شاندار اور زلزلہ خیز حقیقت میں تبدیل کر دے گا۔