|تحریر: پارسن ینگ، ترجمہ: یار یوسفزئی|
کورونا وباء کے بعد آنے والے معاشی زوال میں چین کی معیشت بظاہر نسبتاً بہتر طریقے سے بحال ہو رہی تھی، مگر نومبر کے مہینے میں کامیاب ترین ریاستی اداروں کے بانڈ ڈیفالٹ (جاری کیے گئے بانڈز کی رقم ادا کرنے میں ناکامی) کا آغاز ہو گیا جس سے چین کی معاشی صورتحال بگڑنے لگی۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ چینی ریاست بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران سے خود کو نہیں بچا سکتی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
بانڈ ڈیفالٹ
اس سال اب تک چین کے 11 ریاستی ادارے بانڈ ڈیفالٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر وہ اپنے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کے مطابق ریاستی اداروں کو چینی ریاست کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور اس لیے ان کے دیوالیہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور سرمایہ کاری کا بدلہ یقینی ہوتا ہے۔ البتہ اس سال سرمایہ کاروں کو دھچکا لگا ہے اور ان کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ چینی میڈیا گروپ کائشن کے مطابق اس سال ریاستی اداروں کے بانڈ ڈیفالٹ کا اندازہ 47 بلین یوان سے زیادہ (تقریباً 7.1 بلین امریکی ڈالر) لگایا گیا ہے۔ ریاستی اداروں کا دیوالیہ پن اس سال چین کے مجموعی دیوالیہ پن کا 35.05 فیصد بنتا ہے۔ یہ صورتحال کوئی معمولی بات نہیں جبکہ ریاستی میڈیا گلوبل ٹائمز نے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا تھا کہ چین دنیا کی دوسرے نمبر پر بڑی بانڈ مارکیٹ ہے۔
اس سال جو 11 ریاستی ادارے دیوالیہ ہوئے، ان میں کئی صوبوں میں موجود کارپوریشنیں اور صنعتیں شامل ہیں۔ جس نے کان کنی، جنگلات، کیمیکل، بجلی، مشینری، رئیل اسٹیٹ اور الیکٹرونکس کی صنعتوں سے وابستہ لاکھوں نوکریوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مگر سب سے زیادہ یہ یونگ چینگ کول، سنگوا یونی گروپ اور بریلینس آٹو کا دیوالیہ ہونا تھا جس نے منڈی اور ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ان اداروں کو سب سے بہترین گردانا جاتا تھا اور اس کے باوجود یہ ایک مہینے کے اندر ہی دیوالیہ ہو گئے۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے وضاحت کی:
”اس صورتحال سے چین کی تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کارپوریٹ قرضے کی منڈی متاثر ہوئی ہے، جس میں آدھے سے زیادہ ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔ یونگ چینگ کول کے دیوالیہ ہونے کے ایک ہفتے بعد کم از کم بیس چینی کمپنیوں نے قرض جاری کرنے کا ارادہ ترک کر دیا جو 15.5 بلین یوان (2.4 بلین ڈالر) بنتا ہے، وہ سب اس کی وجہ منڈی کا حالیہ بحران بتا رہے تھے۔“
”بہترین“ اداروں کا سراب
ان ریاستی اداروں میں سے کئی کے چین کے علاقائی حکومتوں کے ساتھ براہِ راست تعلقات تھے اور اسی وجہ سے شروع میں انہیں ”AAA“ کے بہترین درجے دیے گئے، اور اس کے ساتھ یہ سراب بھی دکھایا گیا کہ یہ ادارے انتہائی قابلِ اعتماد ہیں۔ البتہ اس سراب کے پیچھے دھوکہ دہی، غیر ذمہ دارانہ انداز سے خطرے مول لینا، اور غلط کاموں کا انبار لگا ہوا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان اداروں کی انتظامیہ کے لیے ایک چینی کہاوت ہے کہ ”آگ کو کاغذ میں نہیں لپیٹا جا سکتا“، مطلب یہ کہ کسی کام پر ہمیشہ کے لیے پردے نہیں ڈالے جا سکتے۔
اس حوالے سے یونگ چینگ کول کی مثال دی جا سکتی ہے جو کوئلے اور بجلی کا ایک بڑا کاروبار چلاتی ہے اور جس کا خالص منافع 2019ء میں 995 ملین یوان (152 ملین ڈالر) رہا ہے۔ یہ ہینان انرجی اور کیمیکل انڈسٹری گروپ کا ماتحت ادارہ ہے جس کی واحد مالک ہینان کی صوبائی حکومت ہے۔ کائشن کے مطابق یونگ چینگ کول، ہینان انرجی اینڈ کیمیکل کا منافع بخش ادارہ تھا مگر حالیہ برسوں میں آخر الذکر بے دریغ توسیع اور انضمام کے منصوبوں میں لگا ہوا ہے جس سے اس کے بہت سے ماتحت ادارے خسارے کا شکار ہوئے ہیں۔ ان نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ہینان انرجی اینڈ کیمیکل نے ”یونگ چینگ کول کے نقد پذیر اثاثوں کو متعدد کاموں کے لیے استعمال کیا۔ آخر میں یونگ چینگ کول کے کندھوں پر بوجھ بھاری ہوتا گیا اور وہ کئی ناقص اداروں کے بیچ پھنس کر رہ گیا، جو آخرکار قرضے کے بحران کا سبب بنا۔“
ہینان انرجی اینڈ کیمیکل نے اپنا بوجھ محض ماتحت اداروں کے کندھوں پر ہی نہیں بلکہ مزدوروں کے کندھوں پر بھی منتقل کر دیا ہے۔ ہینان انرجی اینڈ کیمیکل میں 1 لاکھ 78 ہزار سے زیادہ محنت کش کام کرتے ہیں۔ 2018ء کے اواخر سے ریاستی اداروں نے مزدوروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کو تاخیر کا شکار کیے رکھنا شروع کر دیا اور چار، پانچ مہینوں تک اس میں تاخیر کرتے رہے۔ دسمبر 2019ء سے کئی مزدوروں نے انکشافات کیے ہیں کہ انہیں سرے سے تنخواہیں ادا ہی نہیں کی گئیں۔ ہینان کی حکومت نے بالآخر اپریل میں، اور پھر ستمبر 2020ء میں، ان شکایات کا جواب دیا اور اس مسئلے کو تسلیم کیا۔ انہوں نے مالی معاملات حل کرنے اور تنخواہوں کی ادائیگی کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا۔ البتہ ان وعدوں پر ابھی تک کوئی عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
دوسری مثال بریلینس آٹو کی دی جا سکتی ہے جو گاڑیوں کے بین الاقوامی برانڈز جیسے بی ایم ڈبلیو، رینالٹ اور دوسرے چینی برانڈز کا شراکت دار ہے۔ یہ لائیوننگ حکومت کی ملکیت ہے جس میں 40 ہزار مزدور کام کرتے تھے اور اس کی آمدنی 200 بلین یوان (30.6 بلین ڈالر) ہوا کرتی تھی۔ مگر اب اسے دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے سی ای او شی یومین پر ”قوانین و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی“ کا الزام ہے اور اس بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ شی، لائیوننگ کے ریاستی اداروں میں کام کرتا تھا اور کمیونسٹ پارٹی میں اعلیٰ درجے کا افسر تھا جو ڈالین شہر کا سابقہ نائب ناظم بھی تھا۔ بریلینس آٹو کے معاملے میں بھی اس کے پر اعتماد تاثر کے پیچھے ایک بلین یوان سے زیادہ عدم ادا شدہ بانڈز کے پیسے، سپلائرز کے غیر ادا شدہ قرضے اور عمومی بد انتظامی کھڑی ہے۔ بریلینس آٹو کے مسائل کو سب سے پہلے بینکوں نے بھانپ لیا تھا۔ ایک خبری نے چین کے ٹائم نیوز فنانس کو بتایا کہ:
”اس معاملے (دیوالیہ پن) کے آثار در حقیقت اگست سے نظر آنے لگے تھے۔ اس وقت بریلینس بی ای اے آٹو فنانس کمپنی کا گاڑیوں کے تاجروں کو دیا جانے والا ہول سیل قرضہ رک گیا، کیونکہ بینکوں نے انہیں پیسے دینے بند کر دیے۔ بینکوں کا خیال تھا کہ بریلینس آٹو کو بہت بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اس واقعے سے ہمیں (اس وقت) حیرانگی ہوئی کیونکہ اس کاروبار میں منافع یقینی ہوا کرتا تھا۔“
کالے کرتوتوں پر پردے ڈالنے کے قصوں سے مغربی قارئین خوب واقف ہوں گے جو اس طرح کے کارپوریٹ اسکینڈل اور کئی برسوں کے جمع شدہ عوامل کی وجہ سے آنے والے زوال کے واقعات کے عادی ہیں۔ کچھ اس جانب نشاندہی کریں گے کہ مغربی ممالک اور چین کے بیچ فرق ریاست کے کردار کے حوالے سے ہے، جو ان بڑے ریاستی اداروں کی مالک ہے اور جس کی حمایت کی وجہ سے یہ ادارے منڈی کے اتار چڑھاؤ کے برے اثرات سے محفوظ رہے اور نتیجتاً اس کی انتظامیہ اپنی حرکات میں آزاد بن گئی، اور مسائل کا انبار اسی وجہ سے لگنا شروع ہوا جو آخرکار پھٹ کر سامنے آگیا۔ یقیناً اس معاملے میں ریاستی کردار نے مسائل کو مزید شدید تر کیا مگر یہ بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ زائد پیداوار کے بحران کا نتیجہ ہے، جو چین کا سرمایہ داری کی جانب منتقلی کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سماج کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نہیں چلتا، نہ ہی یہ لوگوں اور ریاست کے ذاتی ارادوں کو ملحوظ خاطر لاتا ہے۔ اس کا واحد مقصد منافع خوری ہوتا ہے۔ ہر ایک سرمایہ دار دوسروں کے ساتھ مقابلے میں ہوتا ہے، جو اپنے منافعے بڑھانے کے لیے اپنی پیداوار کو وسعت دینے پر مجبور ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ پیداوار کی قیمت، جیسے کہ تنخواہیں کم رکھنا بھی اس کی مجبوری ہوتی ہے۔ سارے سرمایہ دار اسی طریقے سے عمل کر رہے ہوتے ہیں اور نتیجتاً پیداوار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ منڈی اسے ہضم نہیں کر پاتی۔ اشیاء اور مشینوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے جس کا ناگزیر نتیجہ بحران کی صورت میں نکلتا ہے۔ سرمایہ دار اس کے اوپر قرضوں کی مدد سے عارضی طور پر قابو پا لیتے ہیں۔ مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرضے جلد یا بدیر واپس کرنے پڑتے ہیں۔ سرمایہ داری میں زائد پیداوار کا بحران ناگزیر ہوتا ہے۔ پچھلے 12 سال سے چین کا حکمران طبقہ زائد پیداوار سے نمٹنے کے لیے بھاری قرضے وصول کر رہا ہے۔ ریاستی افسر شاہی، انتظامیہ اور سرمایہ دار منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے قرضے لے کر پیداوار بڑھا رہے تھے۔ البتہ یہ عمل اب چین کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے۔
ریاست کا مسئلہ
دیوالیہ پن کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد نام نہاد چینی ”کمیونسٹ“ پارٹی نے اعلیٰ مالی افسران کا اجلاس طلب کیا، جس کی صدارت چین کے معاشی بادشاہ اور نائب وزیراعظم لیو ہی نے کی۔ لیو نے اعلان کیا کہ مالی معاملات میں دو نمبری بالکل برداشت نہیں کی جائی گی، جیسا کہ گمراہ کن انکشافات، یا کمپنیوں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کی کوشش وغیرہ۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ ریاستی اداروں کی خطرے مول لینے کی عادت کو ریاست مزید برادشت نہیں کرے گی اور ایسا کرنے پر ان کی مدد کرنے نہیں آئے گی۔ سرمایہ کاروں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ ریاستی اداروں کے بانڈز پر مزید مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ریاستی بیل آؤٹ کے ختم ہونے کے فوری مضمرات کیا ہوں گے؟ ریاستی میڈیا پیپلز ڈیلی کو انٹرویو دیتے ہوئے زونگشان سیکیورٹیز کے مرکزی معیشت دان لی ژان نے کہا کہ ان واقعات کے بعد ان علاقائی حکومتوں کو قرض کے معاملے میں کم ترجیح دی جائے گی جو مالی طور پر کمزور ہیں اور جن کو قرض دینا خطرے سے خالی نہیں، جیسا کہ ہینان اور دیگر شمال مشرقی صوبے۔ جن ریاستی اداروں اور صنعتوں کو زائد پیداوار کے مسائل درپیش ہیں، انہیں بھی قرضوں کے بحران کا سامنا ہوگا۔ بہ الفاظ دیگر قرضے برے اداروں کی نسبت اچھے اداروں کو دیے جائیں گے، جو اچھی کارکردگی دکھا رہے ہوں، اور اسی طرح کمیونسٹ پارٹی کا ہدف پورا ہوگا یعنی معیشت کو اچھی منڈی کے ذریعے بہتر بنانا۔
مگر کیا کہانی اتنی سیدھی سادی ہے جتنا کہ لیو ہی (جو ژی حکومت کے اندر منڈی کی مضبوط حمایت کرنے والی شخصیت ہے) کا خیال ہے؟ اگرچہ ان اداروں کے اپنے مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا، تاہم وہ دیوالیہ تب ہوئے جب بینکوں نے انہیں قرضے دینے بند کر دیے، جس کا سلسلہ کورونا وباء کے بعد تیز ہونے والے معاشی زوال کے عرصے میں جاری کیا جا چکا تھا تاکہ کاروباروں کو بچایا جا سکے۔ دیوالیہ پن کا اسی قسم کا ایک سلسلہ 2018ء میں بھی دیکھنے میں آیا تھا جب ایک مہم کا آغاز کیا گیا جس میں علاقائی حکومتوں، مالیاتی اداروں، کاروباروں اور لوگوں کو قرض دینے سے روکا گیا۔ 2018ء والی مہم کے آغاز سے پہلے والے سالوں تک قرض دینے کی ریاستی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا تھا، جو 2008ء کے معاشی بحران کے اثرات سے چین کو بچانے کے لیے لاگو کیے گئے تھے۔
مگر یہ ریاستی ادارے علاقائی حکومتوں کے خزانوں پر منحصر ہیں، جو خود کو بحران سے نمٹنے کی ذمہ داری سے بری نہیں کر سکتے، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں تشویشناک سماجی اور معاشی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، اور مزدوروں کی مزاحمت اس کے علاوہ ہو گی جو افسروں کی ناکامیوں کی بدولت اپنی نوکریاں کھو دیں گے۔ شینیانگ شہر کی عدالت نے 20 نومبر کو بریلینس آٹو کی درخواست کو منظور کر لیا جو انہوں نے مکمل دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے دائر کی تھی۔ ریاستی اداروں کی حفاظت کے لیے ریاست حرکت میں آنے پر مجبور ہو گئی تاکہ سماجی بحران سے بچا جا سکے۔
محض علاقائی حکومتوں کو ہی ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ اگرچہ 2014ء میں مرکزی حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ علاقائی حکومتیں اپنے قرضوں کی خود ذمہ دار ہیں اور ریاست ان کی مدد کرنے نہیں آئے گی، مگر اس دفعہ حالات مختلف ہیں اور مرکزی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے علاقائی حکومتوں کو مالیاتی بحران میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ چینی ایورگریڈ گروپ کے مرکزی معیشت دان رین ژیپنگ اور دیگر نے اس سال جنوری میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ علاقائی حکومتوں کی آمدنی ان کے اخراجات کی 89 فیصد بنتی ہے، یعنی ان کے 11 فیصد اخراجات قرضوں کی بدولت ممکن ہو پاتے ہیں۔ اس صورتحال کو چین کی معاشی سست روی نے مزید بد تر کر دیا ہے۔ افسر شاہی کے کیرئیر میں جی ڈی پی کی بڑھوتری مرکزی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے وہ علاقائی افسران سے لاپرواہ انداز میں قرضے لیتے رہتے ہیں تاکہ حکومتی اخراجات کے ذریعے جی ڈی پی میں بڑھوتری لائی جا سکے۔
نتیجتاً یہ ساری صورتحال تضادات سے بھرپور بن جاتی ہے، جہاں ایک جانب فوری زوال اور عدم استحکام سے بچنے کے لیے قرضوں کے ذریعے ریاستی اداروں اور علاقائی حکومتوں کو دھکے دے کر چلایا جاتا ہے، تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے مستقبل میں مزید گہرے بحران کے گڑھوں میں گرنے کا امکان زیادہ ہوتا جاتا ہے۔
آنے والے دن
دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کو اسی مسئلے کا سامنا ہے، فرق صرف شدت کا ہے۔ اگرچہ چین کی قرض اور جی ڈی پی کی مجموعی شرح (Debt to GDP Ratio) جاپان یا کئی مغربی ممالک سے کم ہے، مگر بعض علاقائی حکومتوں کو آنے والے عرصے میں ہنگامہ خیز دنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رین ایٹ آل کی رپورٹ کے مطابق قرض کے معاملے میں سب سے زیادہ خطرہ چنگھائی، گیزاؤ اور ہینان کے صوبوں کو لاحق ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020ء سے 2024ء کے بیچ قرضے اپنی آخری حدوں کو چھو جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ رپورٹ کورونا وباء سے پہلے کی ہے۔
ریاستی اداروں کے بانڈ ڈیفالٹ کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر بحران ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے خیر خواہان چاہے جتنا مرضی دعویٰ کرتے رہیں کہ چین ایک ”سوشلسٹ ملک“ یا ”مزدور ریاست“ ہے، مگر چین کے معاشی مسائل کی وجہ اس کی سرمایہ دارانہ معیشت ہی ہے جو زائد پیداوار کے بحران میں داخل ہو رہی ہے۔ شی جن پنگ کے دور حکومت میں ہونے والی قرضوں کی توسیع اور مالی منڈیوں کی آزادی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے محض تاخیر کا شکار کیا ہے۔ روزا لکسمبرگ اپنی کتاب ”اصلاحات یا انقلاب“ میں قرض کے دوہرے اثر کو جامع انداز میں سمیٹتی ہے:
”ہمیں نظر آتا ہے کہ قرض کے ذریعے بحرانات کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ بحرانات کے وقوع پذیر ہونے کا ایک خصوصی اور بڑا ذریعہ ہے۔ اس کا نتیجہ کسی اور صورت نہیں نکل سکتا۔ قرض سرمایہ دارانہ تعلقات کی رہی سہی سخت گیری کو ختم کردیا ہے۔ یہ ہر جگہ پر جتنا زیادہ ممکن ہو، لچک دار رویہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ تمام سرمایہ دارانہ قوتوں کو نرم مزاج، تعلق دار اور باہمی طور پر انتہائی حساس بنا دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے یہ بحران کو شدید تر کر کے اس کی مدد کرتا ہے، اور بحرانات سرمایہ دارانہ معیشت کی متضاد قوتوں کا وقفے وقفے سے ہونے والا تصادم ہی ہوتا ہے۔“
کمیونسٹ پارٹی اور اس کے حامیوں نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مضبوط پارٹی اور ریاستی مشینری، کڑی نگرانی اور ضرورت پڑنے پر شدید مداخلت کے ذریعے، ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی اہل ہے، مگر ”سوشلسٹ منڈی کی معیشت“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ در حقیقت یہ منڈی ہے جو نام نہاد ”سوشلسٹ“ ریاستی افسر شاہی کو گھسیٹ رہی ہے، نہ کہ اس کے برخلاف۔ معیشت کی سست روی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ قرضے برابر بڑھتے جا رہے ہیں۔
مزید یہ کہ چین خلا میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں موجود ہے جو صدیوں کے بد ترین بحران سے گزر رہی ہے۔ امریکی ریاست کے ساتھ تجارتی جنگ کی شدت میں کمی کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ بائیڈن حکومت چین کے خلاف یورپی یونین کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اور یہ بہت سے بیرونی عناصر میں سے ایک ہے جس سے چینی معیشت پر دباؤ پڑے گا۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آنے والے عرصے میں حالات کو کس طرح سنبھالے گی۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کینشین اقدامات لینے کی طرف جا ئیں۔ سماجی بحران سے بچنے کے لیے ضرورت پڑنے پر بعض اداروں کو قومیانے یا دوبارہ قومیانے کی جانب بھی بڑھا جا سکتا ہے۔ وہ چاہے جو بھی کریں، جلد یا بدیر قرض چکانا ہی پڑے گا۔ چین میں ہلچل اور عدم استحکام کا دور شروع ہو چکا ہے، اور اسی کے ساتھ طبقاتی جدوجہد میں بھی شدت آئے گی۔