|خصوصی رپورٹ، ورکرنامہ|
گہرے ہوتے معاشی بحران اور مسلسل گرتے معیار زندگی نے چین کے محنت کشوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ جیسے جیسے معاشی بحران بڑھ رہا ہے اور محنت کشوں پر حملے کئے جا رہے ہیں اس کے جواب میں چین کا محنت کش طبقہ بھی متحرک ہو رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے چین میں مینوفیکچرنگ، مائننگ، کنسٹرکشن اور سروسز سمیت تمام شعبوں میں محنت کشوں کی اس بڑھتے ظلم و استحصال کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی مزدور تحریک اس وقت چین میں تیار ہو رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی معاشی ترقی کے ’فضائل‘ چین کا محنت کش طبقہ خوب بھگت رہا ہے۔ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امیر اور غریب کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ چین میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر عملاً پابندی ہے۔ تمام ٹریڈ یونینیں نام نہاد ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے آمرانہ کنٹرول میں ہیں جس پر مزدور اشرافیہ کا قبضہ ہے جس کا کام ہی محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد سے باز رکھنا ہے اور تحریکوں اور ہڑتالوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
معیشت کی مسلسل گراوٹ کے ساتھ ساتھ چین میں ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے عروج پر ہیں۔ چائنا لیبر بلیٹن کے مطابق 2015ء میں چین میں قریباً 2772 چھوٹی بڑی ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ خاص طور پر 2015ء کے آخر میں ان میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح سال 2016ء میں چین میں قریباً 2662 ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ تحرک گوانگ ڈونگ، شنڈونگ، ہیبئے، ہینن اور سچوان میں دیکھنے کو ملا جو کہ چینی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
2016ء کے وسط میں وال مارٹ کے ورکروں کی ہڑتال نے پوری دنیا میں گونج پیدا کی۔ یونین اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے خلاف وال مارٹ کے محنت کش اپنی اجرتوں میں اضافے میں چین بھر میں واقع 400 وال مارٹ سٹوروں پر کام بند کردیا۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی ہڑتالیں اور احتجاج مسلسل جاری و ساری ہیں۔ چند روز قبل واکس ویگن کے 500 ملازمین نے تنخواہوں میں موجود فرق کو ختم کرنے اور مساوی تنخواہوں کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
چینی محنت کشوں کے اس تحرک سے خوفزدہ چینی حکمران طبقے نے ان ہڑتالوں اور احتجاجوں کو سختی سے کچلنے کی تگ و دو میں ہے۔ کئی مزدور لیڈروں کو قیدوبند کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا جبر بڑھتا جا رہا ہے مگر اس سب کے باوجود چینی محنت کش طبقہ اپنے حقوق کی اس لڑائی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کا سامراجی کردار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایشیا، افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک چینی حکمران طبقہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور خوب منافع بٹور رہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے لئے چین کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور پاکستانی حکمران طبقہ سی پیک کو غربت، مہنگائی ، بیروزگاری سمیت ہر قسم کے مسائل کے حل بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ایسے میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب چین میں ہونے والی سرمایہ کاری سے چینی محنت کشوں کے حالات زندگی بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں تو پاکستان میں ہونے والی یہ چینی سرمایہ کاری کس طرح خوشحالی لے کر آئے گی۔ قرضوں کی شکل میں ہونے والی یہ سرمایہ کاری یہاں کی عوام کی حالت کو مزید ابتر کر دے گی۔ اس لوٹ مار سے نجات کا واحد رستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لئے پاکستانی محنت کشوں کو نا صرف چین بلکہ ہندوستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت بنانے کی ضرورت ہے۔