تحریر:| آدم پال|
ان دنوں بہت سے منصوبوں کے افتتاح کیے جا رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ عنقریب اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ جائیں گی ۔ چین کی طرف سے 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا راگ الاپا جا رہا ہے اور حکمران طبقے کے تمام حصے بشمول سیاستدان اور جرنیل اپنے اپنے ٹکڑوں کے حصول لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے گن گانے والوں میں ٹی وی اور اخباروں کے کرائے کے دانشور بھی شامل ہیں جوگلا پھاڑ کر اس کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ چین کی مثالی دوستی کا ذکر اب ملاؤں سے لے کر جرنیلوں اور دائیں بازو سے لے کر نام نہاد بائیں بازو والوں تک سب جگہ ملتا ہے۔ لیکن ترقی کے نام پر اپنے کمیشن کھانے کے خواب بننے والوں کے علاوہ آبادی کا وسیع حصہ شدید بحرانوں کا شکار ہے۔ شدید ترین گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے جو سینکڑوں لوگوں کی جان لے چکی ہے اور لاکھوں کی زندگیوں میں سے کئی سال حذف ہو گئے ہیں۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی جیسے مسائل نے محنت کشوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے اور انہیں سیاسی افق پر کسی لیڈر اور کسی جماعت سے بہتری کی کوئی امید، کوئی توقع نہیں ہے۔ خالی پیٹ گرمی کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے حکمرانوں نے جھوٹی ترقی اور روزگار کی فراہمی کا ایک نیا فریب تیار کیا ہے جس کا نام پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔
اس منصوبے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ پر آنے والے سامان کی چین تک ترسیل کے لیے سڑکوں اور ریلوے لائن کا جال بچھایا جائے گا۔ اس میں خنجراب سے گوادر تک جدید سڑکوں کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ جس میں لاہور کراچی موٹر وے، قراقرم ہائی وے کی مرمت اور وسعت، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں نئی سڑکوں کا جال و دیگر بہت سے نئے راستوں پر سڑکوں کی تعمیر شامل ہے۔ اسی طرح گوادر میں جدید طرز کے ائرپورٹ سے لے کر دیگر بہت سے منصوبے شامل ہیں جو اس بندر گاہ کو اس تمام کام کے لیے قابل عمل بنائیں گے۔منصوبہ سازوں کے مطابق اس رستے کے فعال ہونے سے چین کو مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں سے تجارت کرنے میں آسانی ہو گی اور چین آنے یا جانے والے بحری جہازوں کو پہلے چین کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے جو اضافی سفر کرنا پڑتا اس میں بچت ہو گی۔اسی طرح چین کے مغربی حصے جو چین میں ہونے والی ’’ترقی‘‘ سے فیض یاب نہیں ہو سکے وہ بھی اس ترقی کے سفر میں شامل ہو جائیں گے۔
لیکن اس تمام تر بحث میں الجھنے سے پہلے یہاں کے لوگوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ چین میں محنت کشوں کے کیا حالات ہیں اور کیا چین جو آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے اور پوری دنیا میں برآمدات کر رہا ہے اس میں غربت کم ہوئی ہے یا بڑھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج چین میں دنیا کے سب سے زیادہ غریب رہتے ہیں۔ چینی ریاست کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث وہاں سے درست اعداد و شمار کا ملنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 90کروڑ سے زائد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بیجنگ اورشنگھائی کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی کُل آبادی سے زیادہ بیروزگار افراد چین میں موجود ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چین کی آبادی کا بڑا حصہ دیہاتوں میں آباد ہے جہاں غربت، بیماری اور پسماندگی شہروں سے کہیں زیادہ ہے۔ شہروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے حالات زندگی بھی بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ چین میں ایک صوبے سے دوسرے میں جانے کے لیے ویزہ لینا پڑتا ہے، اگر وہ نہ ہو تو چین کے اندر ہی انہیں غیر قانونی طور پر کام کرنا پڑتا ہے۔ غیر قانونی محنت کشوں کو پنجروں میں قید رکھا جاتا ہے اور ان کی اجرت بھی انتہائی کم ہے۔
جہاں ایک طرف کروڑوں لوگ غربت اور تنگدستی میں رہ رہے ہیں وہاں ارب پتیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور چین امارت اور غربت کی خلیج کے حوالے سے دنیا میں صف اول کے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں مہنگی گاڑیا ں خریدنے والے ممالک میں یہ سر فہرست ہے۔ اسی طرح چینی ارب پتیوں کے بچوں کے کارنامے اکثر لوگوں کو حیران کرتے رہتے ہیں۔ ایک ارب پتی ریاستی اہلکار کے بچے نے ڈالروں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگا کر اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر شیئر کی جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ چین کا حکمران طبقہ اور ریاست دنیا کی سب سے کرپٹ ریاستوں میں شما ر ہوتی ہے۔ حالیہ پانامہ لیکس میں چینی حکمران طبقے کے بہت سے افراد کے نام شامل ہیں جنہوں نے اربوں ڈالر کی کرپشن کی ہے۔ اس سے پہلے بھی چین کے سابق صدر ہوجن تاؤ اوردیگر اہم ریاستی اہلکاروں کے نام کرپشن کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔ بظاہر چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ نے ملک میں کرپشن کیخلاف ایک آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں بہت سے لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں لیکن خود اس کے رشتہ داروں کا نام پانامہ لیکس میں آ گیا ہے۔ چینی ریاست نے انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور پانامہ لیکس کے بعد اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔اس کے علاوہ چین میں محنت کشوں کی ہڑتالیں اور بغاوتیں عروج پر ہیں اور ان میں ہر سال اضا فہ ہور ہا ہے۔ پورے ملک میں ہر سال لاکھوں ہڑتالیں ہوتی ہیں جبکہ بڑی اور اہم صنعتوں میں ہونے والی ہڑتالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی طرح گزشتہ عرصے میں چین کی شرح ترقی میں بھی کمی آئی ہے اور ایک وقت میں دس فیصد کی شرح سے ترقی کرنے والی معیشت سات فیصد سے بھی کم شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ یہ بہت بڑی گراوٹ ہے اور چین میں شرح ترقی کی سست روی سے پوری دنیا کی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ چین میں تیل کی کھپت میں کمی ہے جس کی وجہ صنعتوں کا بڑے پیمانے پر بند ہونا ہے۔اسی طرح چین نے افریقہ، لاطینی امریکہ اور آسٹریلیا سے خام مال کی درآمد میں کمی کی ہے جس سے ان خطوں کی معیشتیں بھی بحران کا شکار ہوئی ہیں۔ چین کی معیشت جو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں صنعتی ترقی پر انحصار کرتی تھی اب اسٹاک ایکسچینج کی سٹہ بازی، پراپرٹی کے بلبلے اور قرضوں کے پھیلاؤ پر انحصار کرتی ہے جو اب تیزی سے بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں چین کی ریاست بڑے پیمانے پر شرح ترقی کو گراوٹ سے روکنے کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کر رہی ہے تا کہ ریاستی اخرجات کے ذریعے اپنی صنعت کو تحرک دیا جا سکے لیکن ابھی تک معاشی سست روی میں کمی نہیں آئی۔
اس تمام عرصے میں ایک اہم عنصر چین کے سامراجی کردار کا ابھار ہے۔ خام مال کے حصول کے لیے جہاں چین نے پوری دنیا میں سرمایہ کاری کی وہاں اپنی اس اس سرمایہ کاری کے تحفظ اور ان خطوں میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے دفاعی ضروریات کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اسی طرح پوری دنیا میں برآمدات کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں سستی اشیاء کی رسد ضروری ہے وہاں منڈی میں مقابلہ بازی کے لیے بھی اثر و رسوخ میں اضافہ ضروری ہے۔ اس دوران چین اور امریکہ کے سامراجی مفادایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہے ہیں۔ ایشیا میں جاپان امریکی پشت پناہی سے چین کے اس سامراجی پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اسی طرح امریکہ نے چین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے بھارت اور مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی ہے۔ لیکن موجودہ عہد کا اہم عنصر امریکی سامراج کی کمزوری اورخصی پن ہے۔2008ء میں عالمی معاشی بحران کے بعد امریکی معیشت شدید بحران کا شکار ہوئی ہے اور امریکی سامراج کو مختلف محاذوں پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عراق اور افغانستان کی شکست کے بعد وہ لیبیا اور شام میں فوجی مداخلت نہیں کر سکا۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں بھی امریکی سامراج اپنی کٹھ پتلی ریاستوں سعودی عرب، اسرائیل اور دیگر کی لگامیں کھینچنے کے قابل نہیں رہا اور خود ایرانی ملاؤں سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوا ہے۔ اسی طرح روس نے شام اور یوکرائن میں امریکہ کو متعدد بار شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔ایسی صورتحال میں چینی سامراج کو اپنا اثر رسوخ پھیلانے کا موقع ملا ہے اور وہ خطے میں اپنے پنجے گاڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی سامراج کی پشت پناہی سے قائم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک میں اپنے بڑھتے ہوئے حجم کے برابر حصہ نہ ملنے کے باعث چین نے ان مالیاتی سامراجی اداروں کے مقابلے میں اپنے بینک قائم کیے ہیں۔ ان میں ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک AIIBاور برکس BRICSبینک شامل ہیں۔ان بینکوں کا مقصد چین کے سامراجی کردار کو مالیاتی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ AIIBکے 57ممبر ممالک ہیں جبکہ بہت سے یورپی ممالک نے بھی ان بینکوں میں دلچسپی کا اظہار کیا اور ان میں شامل ہونے کے لیے بیتاب ہیں۔
موجودہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی AIIBکے ’’نئی شاہراہ ریشم‘‘ منصوبے کا ایک حصہ ہے جو 64ممالک پر محیط ہے۔ اس منصوبے پر 890ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ چین کا ایکسپورٹ امپورٹ بینک اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔2015ء میں اس بینک نے 80ارب ڈالر کے قرضے دیے جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 27.1ارب ڈالر کے قرضے دیے۔ لیکن یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ بینک جو قرضے دیتے ہیں وہ سود سمیت واپس کرنے پڑتے ہیں اور قرضے کی ادائیگی سے پہلے اس کی واپسی کی تمام تر ضمانت طلب کی جاتی ہے۔ فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی بینک ان تمام منصوبوں سے لمبے عرصے کے دوران 6سے 8فیصد کی شرح سے واپسی کی لالچ میں ایسا کر رہے ہیں۔ یعنی یہ تمام تر جو سڑکیں اور دیگر تعمیرات کام کیے جائیں گے وہ اس ملک کے محنت کش عوام کو سود سمیت واپس کرنے پڑیں گے۔
یہاں کے عوام جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے لیے جانے والے 6 سے7ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی کے لیے ان پر کیا قیامت گزری ہے۔ بجلی کے بلوں، تیل کی قیمت سے لے چائے کی پتی اور موبائل کے کارڈ پر اتنے زیادہ ٹیکس لگائے گئے کہ محنت کشوں کو قرضے لے کر بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر 46ارب ڈالر کا قرضہ مکمل طور پر جاری ہو بھی جاتا ہے تو اس کے سود کی ادائیگی کے لیے محنت کشوں کا کیا حشر کیا جائے گا یہ تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضے پہلے ہی 60ارب ڈالر سے تجاوزکر چکے ہیں اور اب ملک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے قرضہ لیتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر چین سے مزید قرضے لینے کے بعد معیشت کے دیوالیہ ہونے کے امکانات میں مزید اضا فہ ہوگا۔ حکمرانوں کی تمام جائدادیں اور بینک اکاؤنٹس تو پہلے ہی بیرون ملک ہیں اور وہ ہر وقت یہاں سے بھاگنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دیوالیہ معیشت کا تمام تر ملبہ محنت کشوں پر ہی پڑے گا اور اسی معیشت کے نیچے لاکھوں غریبوں کا خون بہے گا۔
چین کی اسی سرمایہ کاری کے بدلے میں یہاں حکمران طبقات چین سے فری ٹریڈ معاہدےFTA بھی کر رہے ہیں۔جس کے باعث پورے ملک میں چینی اشیا کی آمد کے باعث لاکھوں صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلی ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ تجارت میں ابھی بھی تقریباً5ارب ڈالر کے خسارے میں ہے۔ اور اس منصوبے کی اگر تکمیل ہوتی ہے تو اس میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح ان منصوبے پر کام کے لیے چینی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جائیں گے اور اس میں کرپشن کے نئے ریکارڈ بنائے جائیں گے۔ پہلے ہی نندی پور پاور پلانٹ کا قصہ سامنے آ چکا ہے جس میں کروڑوں ڈالر پھونکنے کے بعد بھی ایک یونٹ بجلی کا پیدا نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح اس منصوبے کی آڑ میں چین کی استعمال شدہ خراب مشینری نئی کی قیمت یہاں پر لگائی جائے گی جس کا تمام تر خرچہ محنت کش ادا کریں گے۔ اس لیے اس منصوبے کے حوالے سے بجلی کے منصوبے بڑے پیمانے پر کرپشن کی نذر ہوں گے۔ اسی طرح ان کے ساتھ بجلی خریدنے کے جو معاہدے کیے جا رہے ہیں وہ بھی محنت کش عوام پر ایک بہت بڑا بوجھ بنیں گے۔ ماضی میں آئی پی پی کے ساتھ جو معاہدے کیے گئے تھے ان کے مطابق اگر وہ بجلی پیدا نہ بھی کریں تو بھی حکومت ان کو ادائیگی کرنے کی پابند تھی اور اسی لیے ہر سال گردشی قرضہ جمع ہو جاتا تھا جبکہ پورا ملک بد ترین لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں ہوتا تھا۔ ان معاہدوں کے بعد اس صورتحال میں مزید اضا فہ ہوگا اور لوڈ شیڈنگ خریدنے کی قیمت بھی بڑھ جائیگی۔
اسی طرح ان سڑکوں کے ساتھ ساتھ جن صنعتوں کے قیام کے خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ بھی ایک کھلا دھوکہ ہے۔ ابھی تک پندرہ سال قبل بننے والی موٹروے کے ساتھ لگنے والی صنعتیں نہیں بنی تو نئی کہاں سے بنیں گے جبکہ اس دوران لاکھوں صنعتی یونٹ بند ہوئے ہیں۔ اسی طرح گوادر میں چین کے SEZ(خصوصی معاشی خطے) کی طرز پر صنعتی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ چین کے ان SEZکو اب ’’خصوصی استحصالی خطے‘‘ کہا جاتا ہے جہاں محنت کشوں کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ لیکن گوادر کی بندر گاہ خود چین کے سامراجی عزائم کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہاں پر اپنا بحری اڈہ قائم کر کے خلیج فارس میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چینی حکمران اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ان کی 80فیصد سرمایہ کاری ضائع بھی ہو جاتی ہے تو انہیں اس کی پرواہ نہیں۔ یعنی چین پاکستانی ریاست اور عوام کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرے گا۔
ایسے میں ایران اپنی چاہ بہار کی بندر گاہ کو گوادر سے مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر پابندیاں ہٹنے کے بعد ایک طرف تو ایران اپنے تیل کے ذخائر دنیا میں بیچنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس سے ہونے والی آمدن اپنے سامراجی پھیلاؤ کے لیے استعمال کرے گا۔ دوسرا امریکی پشت پناہی سے خطے میں اثر ورسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان نے بھی چاہ بہار کی بندر گاہ میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اس میں20کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس بندر گاہ کے ذریعے ہندوستان افغانستان سے تجارت کے لیے پاکستان کا مرہون منت نہیں رہے گا۔ وز یر اعظم مودی کے ایران کے دورے سے قبل ہندوستان نے تیل کے بقایا جات کی رقم بھی ادا کرنی شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے چین اور ایران کے مضبوط تعلقات میں تناؤ آ سکتا ہے۔ اسی طرح چین اور ہندوستان کی مخاصمت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور پاکستانی ریاست اپنے مفادات کے لیے چین اور ہندوستان کی دشمنی پر خوش ہوتی ہے جبکہ چین اور ہندوستان کے مابین تجارت کا حجم سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور چین کبھی بھی اتنے بڑے تجارتی حجم کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب معیشت سست روی کا شکار ہو۔
اس حوالے سے چین کے عمومی سامراجی کردار کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک وقت میں برطانوی سامراج نے اس خطے میں ریلوے لائن اور نہروں کا جال بچھایا تھا جس کے متعلق کارل مارکس نے لکھا تھا کہ برطانوی سامراج کا یہاں دوہرا کردار ہے جو ترقی پسند بھی ہے اور رجعتی بھی۔ یہاں قدیم سماجی معاشی نظام کو اکھاڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں رکھی گئیں۔ ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر کاریگر اور انجینئر برطانیہ سے آئے لیکن حتمی طور پر یہاں بھی لوہے کی صنعت اورپرولتاریہ وجود میں آیا۔ لیکن یہ سب کسی انقلاب کے ذریعے نہیں بلکہ سامراجی جبر کے ذریعے اور لوٹ مارکی ہوس کے لیے کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان نے امریکی غلامی کا طوق گلے میں پہنا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سرمایہ داری کو ترقی کا ایک غیر معمولی دور دیکھنے کو ملا جس کی بنیاد پر امریکی سامراج نے اپنا اثر و رسوخ پوری دنیا میں پھیلایا۔ اسی بنیاد پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کو وہ بنیادیں ملیں جس کے باعث انہوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کو سودی قرضوں کے ذریعے اپنا غلام بنایا اور وہاں کے محنت کشوں کا خون چوستے رہے۔ لیکن اب چینی سامراج ایک ایسے عہد میں پروان چڑھ رہا ہے جب عالمی معیشت روبہ زوال ہے اور بڑے پیمانے پر بحرانوں کا شکار ہے۔ ایسے میں اس سامراج اور اس کے مالیاتی اداروں کا مستقبل قطعاً وہ نہیں جو دیگر سامراجوں کا ماضی ہے۔ آنے والے عرصے میں خود بورژوا معیشت کے ماہرین ایک بہت بڑے معاشی بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں جو چین سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ ایسے میں خود چین کی اس سرمایہ کاری اور سامراجی منصوبوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ دوسرا ایسی بحران زدہ حالت میں چین کبھی بھی امریکی سامراج کا متبادل نہیں بن سکتا۔ اسی طرح خطے میں مختلف ریاستوں کے تضادات میں اضافہ ہو گا۔ سعودی عرب اور ایران پہلے ہی برسر پیکار ہیں اور ایک خونی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس خونریزی میں اضافہ ہوگا اور وہ خطے جو ابھی تک اس سے محفوظ ہیں تیزی سے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ چین بھی اپنی سرمایہ کاری کے دفاع کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا جبکہ معاشی بحرانات مزید انتشار پھیلانے کا باعث بنیں گے۔
اس دوران پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست کے تضادات میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورہ چین اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس راہداری کے منصوبے اور آنے والے ممکنہ 46ارب ڈالر پر موجودہ حکمران اکیلے ہی ہاتھ صاف کرنا چاہتے تھے لیکن ریاست کے دیگر حصے اتنی بڑی رقم کسی کو اکیلے ہڑپ کرنے نہیں دے سکتے۔ راحیل شریف نے چینی وزیر اعظم اور افواج کے کمانڈر سے ملاقات میں اپنے مکمل’’ تعاون‘‘ کا یقین دلایا ہے۔ اس کے علاوہ خصوصی فوجی دستے کی تشکیل سے بھی آگاہ کیا ہے جو اس منصوبے کی حفاظت کرے گا۔ خبروں میںیہ نہیں بتایا گیا کہ ان خدمات کا کیا معاوضہ طے کیا گیا ہے اوراس کی ادائیگی کس ذرائع سے ہو گی۔ لیکن جلد یا بدیر یہ بھی کسی لیکس کے ذریعے منظر عام پر آجائے گا۔
یہ تمام تر منصوبہ اس ملک کے عوام کے لیے خسارے کا سودا ہی ہے۔ بلوچستان کے عوام پر جہاں مظالم کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں اور اس خطے کے قدرتی وسائل کو نوچا جا رہا ہے اس کی کوئی خبر میڈیا میں نہیں آتی۔ ایک بہت بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے بے گناہ نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور انہیں اس لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس خونریزی میں اضافہ ہو گا۔ چین کے مد مقابل دیگر سامراجی قوتیں محرومی کے ان جذبات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں گی اور ریاستی جبر میں مزید اضافہ ہو گا۔ افریقہ، لاطینی امریکہ و دیگر علاقوں میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے لیے پہلے ہی سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے چلنے والے تنازعے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی لاکھوں معصوم افراد کی ہلاکتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس منصوبے کے ثمرات ٹیکسوں اور لوڈ شیڈنگ میں اضافے، صنعتوں کی بندش اور نجکاری میں نازل ہوتے رہیں گے۔ اسی طرح حکمران طبقے کی لڑائیوں میں مارے جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ دنیا کی جدید موٹروے بننے سے اس کے قریب گاؤں کی ایک بوسیدہ سی کٹیا میں رہنے والوں کی تقدیر تو نہیں بدلی البتہ چورحکمرانوں کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس منصوبے کے تحت امارت اور غربت کی یہ خلیج نئی انتہاؤں کو چھوئے گی اور طبقاتی تفریق کو مزید شدت سے واضح کرے گی۔
اس تمام تر لوٹ مار اور سامراجی طاقتوں اور ریاستی جبر سے لڑنے کا واحد طریقہ محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہے۔ اس وقت اس منصوبے کی اگر کوئی مخالفت ہے تو صرف انہی سیاستدانوں کی طرف سے جنہیں اپنے حصے کے ٹکڑے نہیں ملے۔ لیکن اس کی حقیقی مزاحمت محنت کشوں کی طرف سے ابھرے گی۔ نام نہاد بائیں بازوکے دانشوروں کی جانب سے ان تحریکوں کو جدت اور ترقی کے رستے کی رکاوٹ قرار دیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی ترقی خوشحالی نہیں لا سکتی۔ چین کے ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ اس کے گواہ اور عینی شاہد ہیں۔ اس نظام زر میں ہونے والی ترقی صرف احتیاج، بھوک بیماری اور غربت ہی لاتی ہے اور یہی حال اس منصوبے کا بھی حاصل ہو گا۔ اس منصوبے سے ابھرنے والی محرومی اور مزاحمت کو اگر طبقاتی بنیادوں پر استوار کر کے اس پورے نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑا جاتا ہے تو اس کے انقلابی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس منصوبے سمیت حکمرانوں کی تمام تر لوٹ مار اور مظالم سے نجات کا واحد رستہ ایک سوشلسٹ انقلاب میں ہے۔یہ انقلاب کسی ایک خطے اور علاقے کے محنت کشوں کی نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں کے لیے راہ نجات ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا سب سے بہتر عنصر یہی ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر چینی محنت کشوں کو پاکستان میں کام کے مواقع فراہم کرے گا جو محنت کش طبقے کی جڑت میں اہم قدم ہو گا۔ چین میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر مزدوروں کی تحریکیں موجود ہیں جو آنے والے دنوں میں دھماکہ خیز واقعات کا باعث بنیں گی۔ اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے محنت کشوں کی باہمی طبقاتی جڑت اس سامراجی کھلواڑ کے فیصلہ کن انجام کی جانب بڑھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔