|تحریر: لی شی یے، ترجمہ: جوریہ ملک|
چین میں ایک ویڈیو فوٹیج سامنے آنے کے بعد 28 جنوری 2022ء سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ ویڈیو میں جیانگسو کے شہر شوزو میں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے جسے آٹھ بچے پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو دراصل دیہی علاقوں میں غریبوں کے لیے شاندار خیراتی کام فلمانے کے ارادے سے بنائی جا رہی تھی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون ممکنہ طور پر انسانی سمگلنگ کا شکار ہے۔ اگرچہ مقامی فینگ کاؤنٹی حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے میں ”انسانی سمگلنگ نہیں کی جاتی“، مگر عوام نے ان انکشافات کی روشنی میں ریاست کی وضاحت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ چین میں انسانی سمگلنگ اور خواتین پر ظلم کا سوال ایک بار پھر زیرِ بحث آیا ہے۔
واقعہ کی تفصیلات
مذکورہ ویڈیوز 28 جنوری سے پہلے ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ ابتدائی طور پر، کیمرہ مین نے ایک مخیر شخص کو ریکارڈ کرنے کا ارادہ کیا تھا جب وہ جیانگسو کے علاقے شوزو میں واقع تینگسی گاؤں کے آٹھ بچوں کے ایک غریب خاندان کو سامان عطیہ کرنے کے لیے گئے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، چینی کمیونسٹ پارٹی حکومت نے آبادی پر قابو پانے کی سخت پالیسیاں قائم کی ہیں اور اس نے خواتین کے بچے جنم دینے کے حق کو (نام نہاد ’ایک بچہ پالیسی‘ کے تحت) سختی سے محدود کر دیا ہے۔
لہٰذا، یہ حقیقت کہ ایک خاندان آٹھ بچے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا، بذاتِ خود قابلِ ذکر واقعہ تھا، جس کی خبر تیزی سے پھیل گئی۔ ابتدائی ویڈیوز میں بچوں کی ماں، جسے یانگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو نہیں دکھایا گیا۔ لیکن جب وہ سامنے آئی تو اس نے پورے چینی سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔
ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یانگ کی گردن لوہے کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے اور وہ مٹی کے خستہ گھر میں قید ہے۔ صفر ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچتے درجہ حرارت کے باوجود یانگ نے صرف ایک پتلا سویٹر پہن رکھا تھا۔ جھونپڑی کے حالات بھیانک تھے، جہاں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یانگ کے ’خاندان‘ نے دعویٰ کیا کہ اسے ایسے حالات میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہے۔
یانگ کے حالاتِ زندگی کی ویڈیوز پھیلتے ہی چینی انٹرنیٹ پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ سوال کرنے لگے کہ اسے زنجیروں میں باندھا ہی کیوں گیا تھا؟ اگر اسے کوئی دماغی بیماری تھی تو اسے جھونپڑی میں قید کرنے کی بجائے ہسپتال منتقل کرنا چاہیے تھا۔ بہت سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہے۔ چین میں، خاص طور پر 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کے دوران، خواتین کی بڑی تعداد کو دھوکے یا اغواء کاری کے ذریعے سمگل کیا گیا۔ یہ خواتین اپنے اغواء کاروں کے ہاتھوں کئی سالوں تک عصمت دری، جبری شادی اور جبری طور پر بچے جنم دینے کا شکار رہیں۔ انسانی سمگلنگ کی اس لہر میں 2010ء کے بعد کمی پیش آئی۔ اس کے باوجود، آج تک، بہت سے متاثرین اب بھی اپنے اغواء کاروں کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔
28 جنوری سے، یانگ کی صورتحال پر چیخ و پکار زوروں پر تھی۔ فینگ کاؤنٹی کی حکومت نے عجلت میں ایک ناقص بیان جاری کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ”ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ۔۔۔یہاں انسانی سمگلنگ نہیں کی جاتی،“ اور یہ کہ ”یانگ ذہنی طور پر بیمار ہے۔“
اس واقعے نے بہت سے خاندانوں کے پرانے زخموں کو دوبارہ تازہ کر دیا، اور انہوں نے اپنے پیاروں کے اغواء اور سمگل کیے جانے کے تجربات آن لائن شیئر کیے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر یہ تحقیقات بھی شروع کر دیں کہ کہیں یانگ رپورٹ کیے گئے لا پتہ افراد میں سے تو نہیں ہے۔ 30 جنوری کو، فینگ کاؤنٹی کی حکومت نے تفصیلی رپورٹ جاری کی، اور پھر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس معاملے میں انسانی سمگلنگ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، حالانکہ وہ اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی قابلِ اعتماد ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
دوسرے سرکاری بیان میں یانگ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ علاج کے لیے ہسپتال میں داخل ہے، جبکہ تونگ خاندان کی جھونپڑی کی مرمت کی جا رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس واقعے کی آن لائن خبروں کو دبایا جانے لگا۔ حکومت ایک ایسی تصویر پیش کرنا چاہتی ہے کہ پورا مسئلہ بخوبی حل ہو گیا ہے، اور یہ کہ سوائے یانگ کے سب کچھ ٹھیک ہے۔ اس کے باوجود عوام نے اس واقعے پر بحث جاری رکھی ہے۔ وہ کسی طور پر بھی بے وقوف نہیں بن رہے ہیں، اور اس واقعے کے سنجیدہ حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بیجنگ سرمائی اولمپکس کا افتتاح اس واقعے سے توجہ ہٹانے میں میں ناکام رہا، اور 7 فروری کو ریاست نے ایک تیسرا بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ در اصل یانگ کا تعلق یُنان کے دور دراز صوبے سے ہے، وہ پہلے ایک مختلف نام سے جانی جاتی تھی اور اسے ذہنی بیماری کے علاج کے لیے اس کے رشتہ دار جیانگسو لائے تھے۔ بظاہر اس بیان کے ذریعے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسے سمگل نہیں کیا گیا تھا، لیکن ان عجیب و غریب تفصیلات نے لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ کچھ انٹرنیٹ صارفین نے خود تینگسی گاؤں کا دورہ کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے انہیں وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
بالآخر، 10 فروری کو، شوزو شہر کی حکومت نے ’وائیبو‘ کے ذریعے اعلان کیا کہ جناب تونگ اور دو دیگر افراد، جن میں ایک جیانگسو اور ایک یُنان سے ہے، اب حراست میں ہیں۔ جناب تونگ پر یانگ کو ’غیر قانونی حراست‘ میں لینے جبکہ دیگر ملزمان پر انسانی سمگلنگ کے جرائم کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
ریاست کی مجرمانہ بے حسی اور غفلت
اس واقعے کی تفصیل ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئی۔ تاہم، حکومت اس حوالے سے واضح طور پر بے نقاب ہو گئی ہے کہ وہ ایسے واقعات کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر اس واقعے کے خلاف ملک گیر سطح پر شور نہ اُٹھتا تو ریاست یقینی طور پر سنجیدگی سے تحقیقات کرنے میں ناکام ہوتی۔
واقعے کی پہلی رپورٹ میں ریاست نے کہا کہ یانگ انسانی سمگلنگ کا شکار نہیں ہے، کیونکہ گمشدہ افراد کے قومی ڈی این اے ڈیٹا بیس میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اور پھر، ہفتوں کے عوامی دباؤ کے بعد، حکومت اب معجزانہ طور پر دعویٰ کرتی ہے کہ یہ انسانی سمگلنگ کا معاملہ ہے۔۔۔ڈی این اے کی تفتیش کے بعد!
ریاست اگرچہ آخر کار ملزمان کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہے، مگر ان حالات کو پیدا کرنے میں ریاست کے کردار پر کوئی تحقیقات نہیں کی جا رہیں جس کے تحت یانگ متاثر ہوئی۔ مثال کے طور پر، یانگ، جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ سنگین ذہنی بیماری میں مبتلا ہے، تونگ سے سرکاری طور پر شادی کرنے کے قابل کیسے تھی؟ تعجب کی بات یہ ہے کہ تونگ نے دعویٰ کیا کہ اس کی یانگ سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ سڑکوں پر گھوم رہی تھی، اور وہ اس کی دیکھ بھال کے لیے اسے گھر لے آیا۔ یہ واقعی عجیب بات ہے کیونکہ چین میں ہر گھرانے کی رجسٹریشن کر کے ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود مقامی پولیس کو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ تونگ مستقل طور پر کسی کو اپنے گھر میں لے آیا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں مقامی افسر شاہی اور پولیس فورس کی بدعنوانی کے بارے میں آن لائن قیاس آرائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
یانگ کی ذہنی بیماری، جیسا کہ تونگ خاندان اور ریاست کی ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے، نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ انسانی سمگلنگ کے متاثرین کا بدترین حالات میں رہنے کی وجہ سے ذہنی بیماری میں مبتلا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایک انٹرنیٹ صارف، جو گاؤں کے دیگر مکینوں سے رابطے میں ہے، نے دعویٰ کیا کہ جب یانگ پہلے پہل گاؤں میں آئی تو وہ ذہنی طور پر تندرست اور تعلیم یافتہ دکھتی تھی، اور حتیٰ کہ انگریزی بھی بول سکتی تھی۔
دوسری جانب، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یانگ کو برسوں سے زنجیروں میں باندھا گیا تھا اور اس کے زیادہ تر دانت گر چکے ہیں۔ ریاست کی دوسری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تونگ کے خاندان نے اسے اس کے ”غیر مستحکم رویے“ کی وجہ سے باندھ کر رکھا تھا، اور تیسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یانگ کے دانت مسوڑھوں کی شدید بیماری کی وجہ سے گر گئے ہیں۔ لیکن انسانی سمگلنگ کے دیگر متاثرین کے تجربات کی بنیاد پر، بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ یانگ نے فرار ہونے کی کوشش کی ہو اور اس کے اغواء کاروں نے اسے مار پیٹ کر زنجیروں میں باندھ دیا ہو۔ اب جب ریاست نے اعتراف کیا ہے کہ اس واقع میں انسانی سمگلنگ کا شبہ ہے تو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ یانگ پر اغواء کاروں کی طرف سے جسمانی تشدد کے واضح نشانات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا تھا۔
کیا یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے؟
کیا وہ خوفناک اور وحشیانہ حالات جن میں یانگ کو رکھا گیا، اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے؟ ہر گز نہیں۔ چین میں خواتین کی حیثیت، جو 1949ء کے انقلاب کے بعد نمایاں طور پر بہتر ہوئی تھی، کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی افسر شاہی نے سرمایہ داری کی جانب واپسی کے نتیجے میں بری طرح مجروح کیا ہے۔ اقربا پروری کے سلسلے، منظم جسم فروشی، اور بہت سے دوسرے خواتین دشمن رجعتی ادارے اور ثقافتی رجحانات چین میں دوبارہ عام ہوئے ہیں۔ خواتین کی سماجی حیثیت کو ایک بار پھر حقیر بنا دیا گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ بحالی کے دوران، انسانی سمگلنگ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن گیا۔ دیہی اور غریب علاقوں میں خواتین کی بڑی تعداد کو ایک ساتھ اپنے آبائی دیہات سے دھوکہ دے کر نکالا گیا اور دیگر جگہوں پر فروخت کیا گیا۔ 1989ء میں، ژجیانگ لٹریچر اینڈ آرٹس پبلشر نے ’قدیم برائی؛ خواتین کی سمگلنگ پر ایک رپورٹ‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 1986ء اور 1989ء کے دوران 4 لاکھ 80 ہزار سے ذائد خواتین کو شوزو، جیانگسو سمگل کر کے فروخت کیا گیا۔
یہاں تک کہ 2000ء کی دہائی تک انسانی سمگلنگ باقاعدگی سے جاری رہی۔ اغواء شدہ خواتین کو ایسی جگہوں پر فروخت کیا جاتا جہاں انہیں تشدد اور عصمت دری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ان کا وہاں سے فرار ہونا مشکل ہوتا۔ اگرچہ سمگلرز ذہنی یا جسمانی طور پر معذور خواتین کا شکار کرتے ہیں، بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جہاں صحت مند اور تعلیم یافتہ خواتین انسانی سمگلنگ کا شکار بنیں۔ متاثرین کو اکثر ایسے دیہی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں دوسرے ممالک کی سرحدیں ہیں، یا ایسے علاقے جہاں مقامی حکومت خاص طور پر بدعنوان سمجھی جاتی ہو۔
پیپلز یونیورسٹی کے سکول آف جرنلزم پبلک اکاؤنٹ RUC کی طرف سے جاری کردہ شماریاتی رپورٹ کے مطابق، سمگلنگ کے اکثریتی متاثرین کو 10 ہزار ین (تقریباً 1 ہزار 570 امریکی ڈالر) سے کم قیمت میں فروخت کیا گیا۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سرمایہ داری کی بحالی کے بعد سے خواتین کی زندگیوں کی ’قیمت‘ کتنی سستی ہو گئی ہے۔ درحقیقت اس نظام کے تحت انسانی زندگی کا مقصد حکمران طبقے کی منافع خوری میں کام آنا ہی رہ گیا ہے۔
یاسنگ کے واقعے سے متاثر ہو کر انسانی سمگلنگ کے تجربات سے گزرنے والے افراد کے بیچ اس حوالے سے وسیع پیمانے پر بحث کا آغاز ہوا ہے۔ کچھ نے بتایا کہ وہ کس طرح متاثرہ خواتین کو ذاتی طور پر جانتے تھے، اور یہاں تک کہ ان کی اپنی ماؤں کو بھی اغواء اور سمگل کیا گیا تھا۔ بعض نے یہ کہانیاں سنائیں کہ وہ خود انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے سے کیسے بال بال بچ گئی تھیں۔ یہ اغواء کاریاں کہیں بھی ہو سکتی ہیں؛ سٹیشن پر، گلیوں میں، یہاں تک کہ سکولوں کے دروازے کے باہر۔ چین کا کوئی علاقہ انسانی سمگلنگ کی لعنت سے محفوظ نہیں رہا، جو اس ہولناکی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہاں تک کہ جب خوش قسمتی سے کچھ متاثرین تک پولیس یا ان کے اہل خانہ پہنچ پاتے، تب بھی انہیں اکثر اسی گاؤں میں اغواء کاروں اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
2007ء کی فلم ’بلائنڈ ماؤنٹین‘ اور 2009ء کی فلم ’ایک اغواء شدہ عورت کی کہانی‘ میں یہ تجربات زبردست انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ ’بلائنڈ ماؤنٹین‘ میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی کہانی دکھائی گئی ہے جسے اغواء کر لیا گیا لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئی۔ ’ایک اغواء شدہ عورت کی کہانی‘ میں بھی ایسی ہی صورتحال کی تصویر کشی کی گئی تھی، لیکن اس کہانی میں متاثرہ لڑکی کو اسی جگہ پرائمری سکول ٹیچر بننے پر مجبور کیا گیا جہاں اسے رکھا گیا تھا۔ متاثرین کا اپنے اغواء کاروں یا قید کی جگہوں کے ماحول کے ساتھ اس قسم کی ’موافقت‘ قائم کرنے والی کہانیوں کے اوپر درحقیقت لوگوں نے غم و غصّے کا اظہار کیا ہے۔
مثال کے طور پر، ’ایک اغواء شدہ عورت کی کہانی‘ حقیقی زندگی میں سمگلنگ کا شکار ہونے والی خاتون گاؤ یانمین کے اوپر بنائی گئی تھی، جسے ”ہیبئی صوبے میں سال کے سب سے متاثر کن دس افراد“ کی فہرست میں نامزد کیا گیا تھا! گاؤ کی المناک اور ہولناک کہانی کا کسی بھی طرح سے ”متاثر کن“ ہونا خود میں ہی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس کا واقعہ عوام کی نظروں میں نہ آتا تو اسے بالکل بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ اور وقتی طور پر ملکی سطح پر توجہ کا موضوع ہونے کے باوجود اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ ان گمشدہ متاثرین کی طرح ہی رہ رہی ہے، جو ابھی تک نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
درحقیقت، ایسے واقعات جن میں سمگلنگ کے شکار افراد کو ڈھونڈ لیا جاتا ہے لیکن ان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، ملک بھر میں عام ہیں۔ سی سی پی کی افسر شاہی ان مظالم کو معاف کرنے میں بڑی حد تک کردار ادا کرتی ہے، حتیٰ کہ اس نے متاثرین کو مورد الزام ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ 2015ء کے پیپلز ڈیلی کے ایک مضمون نے صوبہ ہونان کے علاقے شاؤ یانگ میں ایک ”بن ماں کا گاؤں“ کے بارے میں رپورٹ کیا، جہاں 100 سے زیادہ بچوں کی مائیں بھاگ کر یا دوسری شادیاں کر کے اپنے بچوں کو چھوڑ چکی ہیں۔ پیپلز ڈیلی نے ان ”غیر ذمہ دار ماؤں“ سے واپس آنے اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کا مطالبہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے بیشتر مائیں دراصل انسانی سمگلنگ کا شکار تھیں جو وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
سی سی پی کی رجعتی سرمایہ دارانہ حکومت میں ان متاثرین کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ بچے، اور وہ مظلوم خواتین جو ان کی مائیں ہیں، تقریباً مکمل طور پر ’حقوق‘ سے محروم ہیں۔ ممکنہ طور پر ان بچوں کو بے پرواہی سے چھوڑ دیا جائے گا، اور وہ تعلیم اور مناسب پرورش حاصل کرنے سے محروم رہیں گے۔ جبکہ بہت سی متاثرہ خواتین جو فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، یا تو انہیں ان کے اغواء کاروں کے پاس واپس بھیج دیا گیا، یا دوبارہ کہیں اور فروخت کیا گیا۔
عورتوں اور غریبوں کو درپیش یہ نا قابلِ بیان بربریت، سی سی پی کی سربراہی میں سرمایہ داری کی بحالی کی پیداوار ہے۔ جبر اپنی ان گنت شکلوں میں واپس لوٹ رہا ہے کیونکہ سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو ان چند حکمرانوں کی خدمت کرتا ہے جو خود کو اکثریت کے استحصال سے مالا مال کرتے ہیں۔ صرف سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور حقیقی سوشلسٹ جمہوریت کے قیام سے ہی چین میں ان برائیوں کے مستقل خاتمے کی کوئی امید مل سکتی ہے۔