|تحریر: لی چی یے، ترجمہ: یار یوسفزئی|
چین کے تین شمال مغربی صوبوں میں کئی ہفتوں سے لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی یہ پالیسی آگے بھی جاری رہے گی اور اسے مزید پھیلایا جائے گا، گو کہ ابھی کے لیے یہ شمال مغرب میں سب سے شدید ہے۔ یہ صوبے چین کے سابقہ صنعتی مراکز ہیں، جو سرمایہ داری کی جانب واپسی کے بعد بے روزگاری سے تباہ ہو چکے ہیں۔ ابھی یہاں پر لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جس کے باعث پبلک سروسز اور گھرانے دونوں تباہی کا شکار ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک جانب ہمیں کرونا وباء کے نتیجے میں جنم لینے والے معاشی بحران سے چین کی نسبتاً تیز بحالی نظر آئی ہے، اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت متکبرانہ انداز میں ’چینی قوم کی عظیم تجدید‘ اور ’غربت کے خاتمے‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، جبکہ دوسری جانب ابھی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
لوڈ شیڈنگ کے اسباب
در حقیقت، اس صورتحال کے پہلے سے امکانات موجود تھے۔ اس موسمِ گرما کے آغاز سے ہی چین کے بعض علاقوں میں لوڈ شیڈنگ اور بلیک آؤٹ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ شروع میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ کچھ دنوں بعد جا کر لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ ریاست کی جانب سے صنعتی علاقوں تک بجلی کی فراہمی کا نتیجہ تھا۔
حالیہ عرصے میں بجلی کی سپلائی کے اوپر یہ دباؤ چین کے اندر پروان چڑھنے والی صورتحال کا نتیجہ ہے۔
تھرمل پاور پلانٹ میں استعمال ہونے والے کوئلے کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کا ایک سب سے بڑا عنصر چین اور آسٹریلیا کے بیچ جاری تصادم ہے۔ حالیہ عرصے میں سکاٹ موریسن کے تحت آسٹریلیا کی دائیں بازو کی حکومت چین کے ساتھ جاری معاشی و سیاسی جنگ کے باعث امریکی سامراجیت کے قریب تر ہوتی گئی ہے۔
2020ء میں موریسن نے چین کو مزید بھڑکایا جب اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ دیتے ہوئے چین میں کرونا کے ابھرنے کے حوالے سے سخت تحقیقات کرنے کی حمایت کی۔ جواباً چین نے دسمبر 2020ء میں آسٹریلیا سے کوئلے کی درآمدات روکنے کا اعلان کیا، جس کی لاگت 14 ارب امریکی ڈالر سے زائد تھی۔
اس اقدام سے آسٹریلیا کی معیشت پر برے اثرات ضرور پڑے ہوں گے مگر اس کے نتیجے میں ان حالات کی راہ بھی ہموار ہوئی جس سے چین شدید متاثر ہوا۔ 2020ء میں بھی چین کی 70 فیصد بجلی کوئلے سے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس کے ذریعے پیدا ہوتی رہی۔ آسٹریلیا سے اچانک کوئلے کی درآمدات روکنے کے باعث کوئلے کی دیگر اقسام کی قیمتیں بڑھنے لگیں، جیسا کہ ’کوکنگ کوئلہ‘ کی قیمت میں ایک مہینے کے اندر 1 ہزار ین سے زائد (تقریباً 155 امریکی ڈالر) فی ٹن اضافہ ہوا۔
اس صورتحال سے حالات مزید بگڑتے گئے۔ اگرچہ کئی بجلی گھر اب بھی کہنے کی حد تک ریاستی ملکیت میں ہیں، کوئلے کی منڈی کے اوپر ریاست کے کوئی اختیارات نہیں، اور ”انرجی سیکٹر کی نجکاری“ کرنے کی ریاستی کوشش کی وجہ سے کئی بجلی گھروں میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جس کے باعث وہ اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، ریاست کی جانب سے مختص کردہ ضروری وسائل پر انحصار کرنے کی بجائے بجلی گھروں اور بجلی کی کمپنیوں کو زندہ رہنے کے لیے منڈی سے منافعے کمانے پڑیں گے۔
جیسے ہی کوئلے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، کئی بجلی گھروں کو پتہ چلا کہ اگر وہ بجلی پیدا کریں گے تو انہیں مالی نقصان ہوگا۔ دوسری جانب، اپنے کوئلے کے ذخائر فروخت کرنا ان کے لیے منافع بخش ہے۔ یہ منافعوں کی بنیاد پر پیداوار کی غیر معقولیت کی واضح نشانی ہے، جس میں بنیادی ضرورت کی اشیاء وہ وسائل ہیں جن کا استعمال کر کے مالکان اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔
کوئلے کی قیمتوں میں اضافے سے جنم لینے والی صورتحال کے ساتھ ساتھ، کرونا وباء سے چینی معیشت کی نسبتاً طاقتور بحالی نے بھی دیگر شعبوں کے سرمایہ داروں کو بے تحاشہ منافعے کمانے کی خاطر پیداوار بڑھانے کی جانب مائل کیا۔ ان سرمایہ داروں کو چونکہ بجلی کی زیادہ ضرورت پڑنے لگی، اس لیے توانائی کے شعبے کے مالکان نے شمال مغربی صوبوں سے بجلی کا رخ زیادہ منافع بخش خطوں کی جانب موڑ دیا۔
اس کے علاوہ، سی سی پی حکومت کا قابلِ تجدید توانائی کے نئے گرڈ سٹیشن کے غیر ماہرانہ اور جلد باز نفاذ کا نتیجہ بھی دیگر بجلی گھروں میں قلت کی صورت میں نکلا ہے، جس کے باعث بجلی کی سپلائی غیر مستحکم ہو گئی۔ اس صورتحال کو چین کے ’انرجی میگزین‘ میں ایک ماہر نے یوں بیان کیا ہے:
”اگر لوڈ شیڈنگ نہ ہو تو کوئلے کے بجلی گھر سالانہ 80 فیصد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ ونڈ ٹربائن اور شمسی بجلی گھر محض تقریباً 20 فیصد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تیرہویں پانچ سالہ منصوبے (2016ء-2020ء) کے عرصے میں، چین کے اندر ونڈ ٹربائن اور شمسی بجلی گھر کو تیزی سے پروان چڑھایا گیا ہے، جبکہ تھرمل پاور پلانٹس کی تعمیر بڑے پیمانے پر کم ہونے کی طرف گئی ہے۔ نئے نسب شدہ جنریٹرز میں تھرمل بجلی کا تناسب 2015ء میں 50.65 جبکہ 2020ء میں کم ہو کر 29.18 فیصد تھا۔ ونڈ ٹربائن اور شمسی بجلی گھروں کے باعث تھرمل پاور پلانٹس کی صلاحیت کم کی گئی۔“
ظاہر ہے کہ ہم بجلی کی ماحول دوست پیداوار کے حق میں ہیں تاکہ ماحولیاتی بحران کو روکا جا سکے۔ ایک مضبوط مزدور حکومت اور جمہوری منصوبہ بند معیشت کی موجودگی میں قابلِ تجدید توانائی کے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اولین ترجیح ہوگی، جو توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کی جانوں اور ذرائع معاش کو نقصان پہنچائے بغیر ممکن ہوگا۔
مگر حکومت کی واہیات اور یکطرفہ پالیسیوں کے نتیجے میں قابلِ تجدید توانائی کے نئے گرڈ سٹیشن بنائے جا چکے ہیں جو استعمال کے لیے تیار نہیں ہیں، جبکہ پرانے بجلی گھر بند کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باعث ہزاروں لوگ لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو رہے ہیں۔
آخری تجزیے میں، بجلی کی حالیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ متعدد مسائل ہیں، جن سب کے پیچھے منافعوں کی غرض سے چلنے والی منڈی اور سی سی پی کی تنگ نظر بد انتظامی ہے۔
بعض مقامی حکومتوں نے مرکزی حکومت کے احکامات کا انتظار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی، اور رہائشی علاقوں میں بجلی بند کر کے محدود بجلی کا رُخ صنعت کے کلیدی (اور سب سے زیادہ منافع بخش) شعبوں کی جانب موڑ دیا۔
اگر ایک حقیقی سوشلسٹ سماج کو بجلی کی قلت کا سامنا ہوتا تو وہاں محنت کشوں کی اجرت میں کمی یا انہیں بر طرف کیے بغیر غیر ضروری صنعتی پیداوار کو روک کر ضروری شعبہ جات کو بجلی فراہم کی جاتی، جبکہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا تا کہ لوگوں کی روزمرہ زندگی میں کم سے کم خلل پڑے۔
مگر چین سوشلسٹ سماج یا مزدور جمہوریت نہیں ہے۔ سی سی پی حکومت کیلئے لوگوں کی جانوں سے زیادہ اہم سرمایہ داروں کے مفادات ہیں۔
نتائج کون بھگت رہا ہے؟
بلیک آؤٹس سے پہلے، حکومت عوام کو ان پالیسیوں یا اس کی وجوہات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہی اور حتیٰ کہ انہیں پہلے سے اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ شروع میں کئی لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، جن کے لیے یہ اچانک اقدامات حیران کن تھے، جس کے باعث شمال مغربی علاقوں میں مکمل افراتفری پھیل گئی۔
کئی ہسپتالوں کو لوڈ شیڈنگ کی اطلاع نہیں دی گئی، جنہیں اپنے جنریٹروں پر گزارہ کرنا پڑا، جس سے کئی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
اگرچہ کئی کارخانے دوسرے علاقوں کی بجلی استعمال کرتے ہوئے کھلے رہے، مگر کئی دیگر کو لوڈ شیڈنگ کا شکار ہونا پڑا۔ مثال کے طور پر ’لیاؤننگ پینگی کاسٹنگ کارپوریشن‘ کی سٹیل مِل کو دورانِ پیداوار بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غیر متوقع بلیک آؤٹ کا نتیجہ شدید حادثوں کی صورت میں نکلا، جہاں 23 محنت کشوں کو زہریلی گیس نے متاثر کیا۔
کروڑوں افراد کی روزمرہ زندگی انتشار کا شکار ہوئی، حتیٰ کہ بعض کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ بعض لوگوں نے خود کو اچانک لفٹ میں پھنسا ہوا پایا، دیگر اپنے دوستوں اور خاندان سے رابطہ کرنے کی اہلیت کھو گئے، اور کئی افراد بلیک آؤٹس کے باعث گرم خوراک کھانے کے اہل نہیں تھے۔
گھر کے اندر گرمائش کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہونے کے باعث ایک خاندان نے کوئلہ جلایا، ان کی عمارت کا وینٹی لیشن سسٹم بھی بند پڑا تھا جس کے باعث وہ کاربن مونو آکسائیڈ پوائزننگ کا شکار ہوئے۔ خوش قسمتی سے پڑوسیوں نے ان کی جانیں بچائیں۔
بجلی کی یہ لوڈ شیڈنگ راتوں رات کئی گھرانوں کو صنعت کاری سے پہلے والے والے زمانے میں لے گئی! کیا یہی ’عظیم قومی تجدید‘ ہے؟ ایک باشندے نے ’وائبو‘ پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا:
”کوئی بھی بلیک آؤٹ یا لوڈ شیڈنگ ایک مناسب طریقے اور منصوبے کے تحت کرنی چاہیے تھی۔ خصوصاً صنعت اور کان کنی کے شعبوں کی کام کی جگہوں میں۔ اچانک بلیک آؤٹس سے جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے!۔۔۔اگر وہ (حکومت) اسی طرح بد نظم بلیک آؤٹس کرتی رہی، پھر عام لوگوں کی زندگی لازمی طور پر افراتفری کا شکار ہوگی۔ میں امید کرتا ہوں کہ بجلی کا شعبہ بچگانہ حرکتیں کرنا بند کر دے گا!“
غصّے سے بھرپور عوام
اس صورتحال سے ظاہر ہے کہ سی سی پی حکومت کو شمال مغربی صوبوں کے محنت کش طبقے اور غریب عوام کی زندگی کی کوئی فکر نہیں۔ حتیٰ کہ ریاست نے بعض خطوں سے بجلی کا رُخ زیادہ ”اہم“ خطوں کی جانب موڑ دیا۔
مثلاً، شدید سرد اور تاریک شمال مغرب کے مقابلے میں شینزین کا شہر تیز روشنی سے منور تھا۔ چین کی سب سے بڑی کارپوریشنز میں سے بعض شینزین میں واقع ہیں، جن میں ہواوے، ٹینسینٹ اور ایور گرینڈ شامل ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے دوران سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے مفادات کے بیچ موجود تضاد واضح طور پر عیاں تھا۔
جس وقت چین میں لوڈ شیڈنگ سے کروڑوں افراد متاثر ہو رہے تھے، سی سی پی ہواوے کی چیف فنانشل آفیسر مینگ وانزو کی رہائی کا جشن منا رہی تھی، جسے امریکی سامراجیت کے ساتھ معاہدے کے بعد وینکوور سے رہا کیا گیا تھا۔ سی سی پی کے امیر اور غریب میں تفریق کرنے کے رویے کو انٹرنیٹ کے ایک صارف نے ان الفاظ میں سمیٹا:
”۔۔۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ شمال مغرب میں جن لوگوں کو پانی اور بجلی دستیاب نہیں، وہ گھر واپس لوٹتی ہوئی ایک امیر شخص سے کم اہمیت کے حامل دکھائی دے رہے ہیں؟“
اس صورتحال سے نام نہاد کمیونسٹ حکومت کی سراسر منافقت کا پردہ چاک ہوتا ہے، جس نے اپنے پسندیدہ سرمایہ دار کی واپسی پر قوم پرستانہ غرور سے اپنا سینہ چوڑا کر دیا ہے، جبکہ اسی وقت کروڑوں محنت کش شہریوں کو اندھیروں میں دکھیل چکی ہے۔
عظیم قومی تجدید یا دیوہیکل تضاد؟
جیسا کہ ہم نے ایک اور مضمون میں وضاحت کی ہے، سرمایہ دارانہ پیداوار کے اندر موجود فطری تضادات کے باعث چین دیوہیکل عدم استحکام کے دہانے پر ہے۔
ریاست پر مسلط مجرم غنڈے، جن کی قیادت شی جن پنگ کر رہا ہے، اوپر سے احکامات جاری کر کے ان تضادات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت اور منافعے کی غرض سے کی جانے والی پیداوار کی بنیادوں پر یہ افسر شاہانہ احکامات ان مسائل کو حل کرنا تو دور، مزید بحرانات جنم دے رہے ہیں۔
آج چین میں ابھرنے والے بجلی کے بحران کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ سرمایہ داری کے تحت نجی منافعوں کو بنیادی انسانی ضروریات سمیت سب چیزوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ واحد حل جمہوری منصوبہ بند معیشت کا قیام ہے، جو مزدور جمہوریت کے ذریعے نیچے سے تعمیر ہو۔
اسی طریقے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی خاطر توانائی کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ مزدور جمہوریت کے راستے میں حائل اولین رکاوٹ سرمایہ دار طبقہ اور ان کی نمائندگی کرنے والی چینی کمیونسٹ پارٹی ہی ہے۔