چین: بڑھتی طبقاتی خلیج اور ریاستی جبر کے خلاف سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کرتے نوجوان

|تحریر: داؤ فیشیانگ، ترجمہ: یار یوسفزئی|

پچھلے کچھ مہینوں سے چینی نوجوانوں کے بیچ موجود عدم اطمینان، آن لائن اور فزیکل دونوں طریقوں سے، سطح کے اوپر بڑھتی ہوئی تعداد میں اظہار کر رہا ہے، جو ریاستی سنسرشپ اور جبر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر سرمایہ داری مخالف میمز اور حکومت کے خلاف بحث مباحثے عمومی غم و غصّے کا اظہار ہے، ٓاس کا اظہار دو صوبوں کے اندر یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

انتہائی طاقتور نظر آنے والی چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی ریاستی مشینری کے لیے آئے روز مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ موجودہ نظام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا سکیں۔

لیبرَر، انوالوشن، چائیوز، اور لائی فلیٹ

درج بالا الفاظ ان قارئین کو سمجھ نہیں آئیں گے جو چینی انٹرنیٹ سے نا واقف ہیں۔ ان سارے موضوعات پر میمز بنائی جاتی ہیں جن میں مستقبل کے حوالے سے مایوسی اور ان حالات کا اظہار ہوتا ہے جن کا بہت سے چینی نوجوانوں کو سامنا ہے۔

چینی ریاست میں چونکہ آزادئی اظہارِ رائے کے حوالے سے سخت پابندیاں عائد ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان اپنی تنقید کا اظہار انٹرنیٹ کے اوپر مشہور میمز کے ذریعے خفیہ بول چال میں کرتے ہیں، جن سے مایوسی کا شکار نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان میمز میں سے زیادہ تر نے خصوصاً پچھلے سال کے دوران بے تحاشا مقبولیت حاصل کی ہے، اس کے باوجود کہ کرونا وباء پر چین نے نسبتاً زیادہ تیزی سے قابو پایا ہے۔

”لیبرَر“ یا ”ورکنگ مین“ اپنا ہی مذاق اڑانے والی ایک میم ہے جو نچلے درجے کے ملازمین استعمال کرتے ہیں، جو زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، جو زندگی میں اپنی حیثیت مالکان کے لیے قربانی دینے والے استحصال زدہ بکرے کی مانند سمجھتے ہیں۔

ان لوگوں کے برعکس، جو کارپوریشنز اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے اس پراپیگنڈے کا شکار ہیں کہ ’اگر سخت محنت کی جائے تو کیرئیر میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے‘، لیبررز کا ماننا ہے کہ انہیں اپنے مالکان کی سالوں تک غلامی کرنے کا خوش آئند صلہ نہیں ملے گا۔

ایک وائرل لیبرر میم میں طنزیہ انداز میں لکھا گیا ہے کہ ”جب تک لیبرر سخت محنت کرتا رہے گا، یقیناً اس کے مالک کی زندگی بہتر ہوتی جائے گی“۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ قول ہانگ کانگ میں مشہور ہوا تھا مگر اب چین کے نوجوان اور طلبہ محنت کش اسے اپنی حالاتِ زندگی کا نقشہ کھینچنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

Lie flat 2 Image fair use

جب تک مزدور محنت کرتا رہے گا، سرمایہ دار کی زندگی پر سکون رہے گی۔

”انوالوشن“ ایک اور میم ہے، جس کے ذریعے نوجوان موجودہ نظام کے بارے میں اپنی قنوطیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کو پہلی مرتبہ امریکی اکیڈیمک کلیفورڈ گیرتز نے استعمال کیا تھا، جسے اب لاکھوں چینی انٹرنیٹ صارفین اپنی زندگی کے زوال اور جمود بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

بعض اسے اپنے ملک کی ترقی کے حوالے سے قنوطیت کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دیگر اس کے ذریعے یہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح چین کے اندر مالکان اور نظام کے ہاتھوں محنت کشوں کی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کروائی جاتی ہے۔ اس میم کو کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر سب کے اندر موجودہ نظام میں رہتے ہوئے مستقبل سے نا امیدی کا ایک عمومی خاکہ نظر آتا ہے۔

چینی نوجوان ”چائیوز“ (جڑی بوٹیاں) کے ساتھ بھی اپنا موازنہ کرتے ہوئے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ داروں اور سرکاری افسران کے لیے محض خام مال ہیں جنہیں بار بار کاٹا جاتا ہے۔

Lie flat 3 Image fair use

”چائیوز“ میم میں نوجوان یہ بتا رہے کہ وہ ایک فصل کی مانند ہیں جسے حکمران کاٹ کر لے جاتے ہیں۔

اس میم کا ایک اور پہلو چینی سماج میں عائد سخت پابندیوں کے حوالے سے گہری مایوسی کا اظہار ہے، جہاں کسی کو بھی کھلے عام اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو قوتِ گویائی سے محروم جڑی بوٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو حکمران طبقے کے رحم و کرم پر ہیں۔

بالآخر، سب سے زیادہ اہمیت کی حامل میم، ”لائی فلیٹ“ (بے کار لیٹے رہو)، اس سال اپریل میں انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی۔

لائی فلیٹ کو پہلی دفعہ بائیدو تیبا (بحث مباحثے کا آن لائن پلیٹ فارم) پر ”ویل میننگ ٹریولر“ نامی صارف نے پوسٹ کیا، جس کے ذریعے اس نے موجودہ سماج سے نفرت کا اظہار کیا جو بار بار لوگوں سے غیر معقول معیارات پر پورا اترنے کے لیے مادی دولت کا پیچھا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ صارف کے مطابق، اس کا حل مقابلہ بازی کے اس دوڑ میں شامل ہونے سے انکار کر کے ”بے کار لیٹنا“ (لائی فلیٹ) اور سادہ زندگی گزارنی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=OO-UfVCok_k&feature=emb_imp_woyt

یہ پوسٹ بہت جلد ہی وائرل ہوئی اور اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے اس موضوع پر تصاویر اور ویڈیوز بنائیں، جن میں موجودہ سماج کے اصولوں کے مطابق چلنے سے انکار کیا گیا۔ اگرچہ پہلی پوسٹ میں سماج کی دنیا داری کو محض مجرد انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، بہر حال ”لائی فلیٹ“ کے موضوع پر بعد میں بننے والی میمز میں واضح طور پر سرمایہ داری مخالف انداز اپنایا گیا۔

اس کی مثال دوبین (چینی ٹک ٹاک) میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں صارف ”wufu6666“ کی بنائی گئی ایک میوزک ویڈیو کے بول مندرجہ ذیل ہیں:

”لائی فلیٹرز، لائی فلیٹسٹ،
کون کہتا ہے لائی فلیٹ ہمارا مستقبل برباد کر دے گا؟
ان (مکان مالکوں) کو اپنی مرضی کے مطابق کرایہ بڑھانے دو،اگر مجھے یہ عمل پسند نہ آئے تو میں بے کار لیٹا رہوں گا!
زندگی اور موت کی گاڑی چلتی رہتی ہے مگر ہم سے ہمیشہ 996 (ہفتے کے 6 دن روزانہ 12 گھنٹے کام) کروایا جاتا ہے،
تو مجھے سُستی کا کھلاڑی بننے دو،
وہ کہتے ہیں لیٹے رہنے کا مطلب موت کا انتظار کرنا ہے!
میں کہتا ہوں اگر میں لیٹا نہیں رہا تو مرتے دم تک مجھ سے کام کروایا جائے گا!
اگر تم نے لیٹنے میں دیر کر دی،
تو سرمائے کے لیے تمہیں کاٹ دیا جائے گا۔۔۔“

ان مصرعوں سے اس نظام کے خلاف چینی نوجوانوں کے شدید غصّے کا اظہار ہوتا ہے جو انہیں مالکان اور زمینداروں کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے، جبکہ انہیں 996 روٹین کے مطابق سخت محنت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اگرچہ مذکورہ بالا گانے اور میم سے مایوس اور مردہ دل جذبات کا اظہار ہوتا ہے جس کے مطابق لوگوں کو بے کار پڑے رہ کر بغاوت کرنی چاہئیے، لیکن درحقیقت کچھ لوگ لائی فلیٹ میم کو ہر جگہ موجود چینی سنسرشپ سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے تبدیلی کا پیغام عام کر رہے ہیں۔

ریاست سے نافرمانی

انوکھے نوعیت کے ان احتجاجوں میں بڑھوتری کے علاوہ، کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے جب نوجوانوں نے انٹرنیٹ پر براہِ راست ریاست کے اوپر تنقید کی۔ چین کے اندر، جہاں تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس صارفین کی حقیقی شناخت کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور اس لیے ریاست ان کو ٹریک کر سکتی ہے، یہ ایک غیر معمولی عمل ہے۔ چنانچہ محدود قوانین و ضوابط کو توڑتے ہوئے ریاست پر کھلے عام تنقید کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، مگر نوجوان چینی افراد کے دلوں میں آئے روز اس کا ڈر کم ہوتا جا رہا ہے۔

جب انٹرنیٹ پر لائی فلیٹ میم لاکھوں نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتا گیا تو سی سی پی نے شروع میں اسے سنسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوبین اور بائیدو تیبا پر اس میم سے متعلق آن لائن فارمز اور چیٹ گروپس کو بند کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ ان چیٹ گروپس کو بھی بند کر دیا گیا جن کے نام لائی فلیٹ جیسے معلوم ہوتے تھے، جیسا کہ ”کراؤچنگ ڈریگن“ (اکڑوں بیٹھا ڈریگن)۔
سی سی پی کی بدقسمتی یہ تھی کہ لائی فلیٹ اتنا مشہور ہو چکا تھا کہ اسے ایک ہی وقت میں انٹرنیٹ سے ہٹانا ممکن نہیں رہا۔ چار و ناچار انہوں نے اس سوشل ٹرینڈ پر کھلی تنقید شروع کر دی، جس نے نوجوانوں کی جانب سے مزید ردّ عمل کو اشتعال دیا۔

وائیبو پر کمیونسٹ یوتھ لیگ کے مرکزی اکاؤنٹ نے پہلا حملہ کرتے ہوئے نوجوان سپاہیوں اور میڈیکل ورکرز کی ایک تصویر پوسٹ کی، جس پر لکھا ہوا تھا ”آج کے نوجوانوں نے کبھی بھی لیٹے رہنے کا فیصلہ نہیں کیا!“ جس کے ذریعے فوج، ٹیکنالوجی اور میڈیکل کے شعبوں میں موجود ”سخت محنت کرنے والے نوجوان محب الوطنوں“ کو سراہا گیا۔

اس کا فوری طور پر شدید ردّ عمل دیکھنے کو ملا، جب سینکڑوں کمنٹس کے ذریعے بہری ریاستی میڈیا پر براہِ راست تنقید کی گئی، جن میں سے ہر ایک کامنٹ کو ہزاروں لائکس ملے۔

یہاں تک کہ حکومت نے سی سی پی کے انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز میں بھی اس میم کے اوپر حملے کیے، جس میں لکھا گیا کہ ”چین اپنی قومی تجدیدِ نو کے لمبے سفر میں سب سے اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ نوجوان اس ملک کی امید ہیں، اور نہ ان کی ذاتی صورتحال اور نہ ہی ملکی صورتحال انہیں ’اجتماعی طور پر لیٹے رہنے‘ کی اجازت دیتی ہے۔“

سی سی پی حکومت اور بورژوازی نوجوانوں کو اولین صفوں میں کھڑا کر کے ایک بڑی اجتماعی کوشش کی ضرورت پر بات کر رہے ہیں، تاکہ قوم کی ”تجدیدِ نو“ کی جا سکے۔ مگر نوجوان اس بات سے دن بہ دن واقف ہوتے جا رہے ہیں کہ یہ بحیثیتِ مجموعی قوم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے محض سرمایہ دار طبقے کے مفادات ہیں جن کی دولت میں محنت کش طبقے کے خون پسینے کے ذریعے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

Lie flat 4 Image fair use

اس کے علاوہ حالیہ عرصے میں ریاست نے اعلان کر کے تین بچوں کی اجازت دی تھی، جس کے ذریعے وہ عمر رسیدہ آبادی میں کمی لانا چاہتی ہے۔ اس سے قبل سی سی پی ریاست نے عوام کے اوپر ایک بچے کی ظالمانہ پالیسی مسلط کی تھی، جو اب اس اقدام کو چینی لوگوں کے لیے ”بڑے تحفے“ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

اس اعلان کے موقع پر ریاستی میڈیا نیٹ ورک شینوا نے آن لائن رائے شماری کا انعقاد کیا، جس میں لوگوں سے مزید بچوں کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا۔

پہلے کچھ گھنٹوں کے دوران سامنے آنے والے نتائج کے مطابق حصّہ لینے والوں میں سے 93 فیصد سے زائد کا جواب تھا کہ ”وہ بالکل بھی بچوں کی خواہش نہیں رکھتے۔“ ان شرمناک نتائج کی وجہ سے شینوا نے رائے شماری شائع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اسے انٹرنیٹ سے ہٹا دیا۔

یہ نتائج اس بات کا اظہار ہے کہ چین کے اندر بچوں کی پرورش دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہے، جس کے باعث زیادہ تر نوجوان جوڑے بچے پیدا کرنے کی خواہش ترک کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ انٹرنیٹ کے صارفین ریاست کا واضح طور پر ان کی پہنچ سے باہر ہونے پر شدید غصّہ ہیں۔

ایک نوجوان ٹیکنیشن نے ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”زیادہ تر وسائل کے اوپر امیروں اور انتظامیہ کی اجارہ داری ہے، اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے زیادہ سے زیادہ لوگ ہفتے کے چھے دن صبح نو سے رات نو بجے تک کام کرنے پر مجبور ہیں، مگر پھر بھی فلیٹ کا کرایہ اور حتیٰ کہ بچے کی پرورش کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔“

Lie flat 5 Image fair use

حالیہ عرصے میں انٹرنیٹ پر سی سی پی کے اوپر تنقید کے دیگر بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں سے ہر ایک پچھلے سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔

یہ اسی بات کا اظہار ہے کہ کرونا وباء سے چینی معیشت کی نسبتاً جلد بحالی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے باوجود نوجوان نسل کسی قسم کے سکون سے محروم ہیں۔ یہ مایوسی اب سطح کے اوپر ابھر رہی ہے، جس کا اظہار پہلے مرحلے میں انٹرنیٹ پر ہو رہا ہے۔

کیا سڑکوں پر بھی جدوجہد دیکھنے کو ملے گی؟

طاقتور سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے نوجوانوں کے بیچ موجود عدم اطمینان کا زیادہ تر اظہار آن لائن ہو رہا ہے، جو پچھلے دو سالوں کے دوران ایک ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ البتہ بڑھتا ہوا غصّہ اور بے چینی حقیقی دنیا میں بھی امڈتی چلی جا رہی ہے۔

مثال کے طور پر، جون کے شروع میں، جیانگسو اور ژجیانگ کے صوبوں کے اندر طلبہ نے متعدد یونیورسٹیوں میں حکومت کے اس منصوبے کے خلاف شدید احتجاج منعقد کیے کہ یونیورسٹیوں کو ”پیشہ ورانہ تربیت کے اداروں“ (ووکیشنل سکول) کی حیثیت دی جائے گی، جس کے باعث سخت محنت سے حاصل کی گئی ڈگریوں کی قیمت کو کم کیا جائے گا۔

یونیورسٹی کی جگہ ووکیشنل سکول کی ڈگری سے بہتر نوکری حاصل کرنے کے مواقع کم پڑ جاتے ہیں، کیونکہ ووکیشنل سکول سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر غربت کا داغ ہوتا ہے، اور اسی لیے انہیں محض نچلے درجے کی نوکریوں کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

یہ صورتحال حکومت کی جانب سے سوشلسٹ ہونے کے دعوے کو مزید جھوٹا ثابت کرتی ہے، کیونکہ حقیقی سوشلسٹ سماج میں سب کے لیے بہتر تعلیم اور روزگار کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

اچانک ان احتجاجوں کے نمودار ہونے کے باعث انتظامیہ نے اس منصوبے کو ”روک“ دیا، مگر وہ اب بھی اس کا ارادہ رکھتی ہے۔

البتہ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ جب تک ان منصوبوں کو منسوخ نہیں کیا جاتا، وہ احتجاج اور جلسے جاری رکھیں گے۔ اس کے جواب میں ریاست نے خصوصی پولیس تعینات کر کے ظالمانہ کریک ڈاؤن شروع کر دیے۔

اس کے ساتھ، ریاست کی جانب سے احتجاجوں پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ان کے پیچھے غیر ملکی کارندوں کا ہاتھ ہے، جبکہ در حقیقت طلبہ مظاہرین میں سے کئی خود کو حکومت کے وفادار حامی مانتے ہیں (جن میں سے بعض کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2019ء کے ہانگ کانگ مظاہروں کے اوپر کریک ڈاؤن کی حمایت کی تھی)۔

Lie flat 6 Image fair use

جون کے آغاز میں چین کے دو صوبوں شی یانگ اور یانگ شو میں طلبہ نے منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی رد اصلاحات کے خلاف احتجاج کیے۔

ریاست نے اس جھوٹ کو بھی پھیلایا کہ کس طرح نانجنگ نارمل یونیورسٹی ژونگبے کالج کے طلبہ نے اپنے پرنسپل کو یرغمال بنایا، اس جھوٹ کو بی بی سی جیسی غیر ملکی میڈیا بھی دہراتی رہی۔

یہ مضمون لکھتے وقت، ان احتجاجوں کی صورتحال کے حوالے سے زیادہ معلومات حاصل نہیں کی جا سکی ہے۔ ہم ان جدوجہدوں کے نتیجے کی پیش گوئی نہیں کر سکتے، مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ طلبہ جو اپنے مستقبل کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر ریاست خوفزدہ ہو کر ان کے ساتھ جابرانہ سلوک پر اتر آئے گی تو بلاشبہ اس عمل سے چین کے نوجوانوں کی بالکل ایک نئی پرت اپنے اوپر مسلط ریاست کی فطرت کے حوالے سے اسباق اخذ کرے گی۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پچھلے ستمبر کے دوران چین بھر میں طلبہ نے لاک ڈاؤن اقدامات کی آڑ میں سکولوں کی جانب سے منافع خوری کی کوششوں کے خلاف احتجاج منعقد کیے تھے۔ جیسے جیسے چینی سماج میں طبقاتی تضاد شدت اختیار کرتا جائے گا، سڑکوں کے اوپر ظالموں کا مقابلہ کرتے ہوئے لڑاکا نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

تاریک مستقبل کی وارث نئی نسل

چینی نوجوانوں کے بیچ موجود عدم اطمینان، آن لائن اور آف لائن دونوں، اس پیمانے پر پہنچ چکا ہے کہ اسے سنسرشپ کی رکاوٹیں نہیں روک سکتیں، یہ حقیقت اس بحران کا اظہار ہے جس میں چینی سرمایہ داری پھنس چکی ہے۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سی سی پی کی جانب سے ”سوشلزم“ کی ساری ڈرامہ بازی کرنے کے باوجود چین کے اندر رائج سرمایہ دارانہ قوانین نے بحران زدہ سماج کو جنم دیا ہے جو دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایک جیسے مسائل کا شکار کرتی ہے۔

چین کے بورژوا لبرل میڈیا گروپ کائیشین کے متعدد مضامین میں جنہیں اب ہٹایا جا چکا ہے، صورتحال کو معروضی نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ مضامین میں لکھا گیا کہ گھروں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، بہتر روزگار کے مواقعوں میں کمی، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ان کی مہارت کے مطابق روزگار ملنے میں ناکامی، اور سماج کے اوپر اجارہ دار کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ وہ مرکزی عناصر ہیں جن کی وجہ سے چینی نوجوانوں کے اندر پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان میں بجا طور پر یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ یہ ہر گز بھی محض چین کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ پوری دنیا کو درپیش ہے۔

کئی دیگر بورژوا صلاح کاروں کی طرح کائیشین کا طبقاتی مؤقف بھی اسے ضروری نتائج اخذ کرنے سے روکنے کا باعث بنتا ہے؛ یعنی یہ کہ سرمایہ داری ہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔

ان کا ایک تجزیہ سی سی پی ریاست سے امید لگاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے کندھوں سے بوجھ کم کر کے بالآخر ان مسائل کی تصحیح کرے گی:

”خوش قسمتی سے ہمارے ملک پر جاپان یا جنوبی کوریا کی طرح اجارہ دار کارپوریشنز کا غلبہ نہیں ہے۔ چینی ریاست کی مداخلت کی صورت میں سماج میں موجود بڑھتی تقسیم کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مساوات اور انصاف ایک لمبے عرصے سے ہمارے خون میں شامل ہیں۔ حالیہ سالوں میں حکومت نے اینٹی ٹرسٹ اقدامات کے ذریعے (چین کے اندر) انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں کا سامنا کیا ہے، اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔“

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ جب تک سرمایہ داری برقرار رہے گی، ریاست چاہے جتنی بھی مداخلت کرتی پھرے مگر ان مسائل کے ابھار کو روک نہیں پائے گی۔ صرف جمہوری منصوبہ بند معیشت اور مزدور جمہوریت کے قیام کے ذریعے ہی ان سماجی بیماریوں کا با اثر علاج ممکن ہو پائے گا۔

چین کے اندر کئی نوجوان اس بات پر یقین کرنا چھوڑ گئے ہیں کہ سی سی پی حکومت ان مسائل کو حل کرے گی۔ ان پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت خود ان مسائل میں سے ایک ہے۔

سماجی پولرائزیشن اور ریاستی شاونسٹ پراپیگنڈے کا بھیانک انجام

چین کے نوجوانوں میں سیاسی رجحان کے اضافے کا عمل اس سماج کی عمومی پولرائزیشن کا حصّہ ہے جو شدید بحران میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ جیسا کہ عالمی مارکسی رجحان نے پہلے وضاحت کی ہے، خصوصاً ہمارے عالمی تناظر میں، اگرچہ بائیں بازو اور دائیں بازو، دونوں جانب سیاسی رجحانات میں اضافہ ہوگا، محنت کش طبقے کے بیچ عمومی طور پر بڑھتا ہوا سرمایہ داری مخالف رجحان دیکھنے کو ملے گا، جس کا آغاز نوجوانوں سے ہوگا۔

چین کے اندر یہ عمل محنت کش طبقے اور سی سی پی آمریت کے بیچ بڑھتی ہوئی جھڑپوں کا پیش خیمہ ہے۔ حکومت اس حقیقت سے واقف ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک جانب جبر اور سنسرشپ کا سہارا لے رہی ہے جبکہ دوسری جانب شاؤنسٹ اور قوم پرست جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس نقطہ نظر سے سی سی پی کی حالیہ مقامی شاؤنسٹ پالیسیوں اور بیرونی طور پر عسکری قوت کے مظاہروں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ”وولف ویرئیرز“ نامی حکمتِ عملی، جس میں سرکاری افسران یا میڈیا شخصیات بیرونی تنقید کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں، کا مقصد بھی عوام کے بیچ قوم پرست جذبات کو ابھارنا ہے۔

اس کے باعث انٹرنیٹ پر دائیں بازو کی ”لٹل پنکس“ نامی تحریک بنی ہے جو جارحانہ انداز میں (رضاکارانہ طور پر) سی سی پی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انتظامیہ کو چینی انٹرنیٹ پر موجود مخالفین کی شکایت کرتے ہیں۔

سی سی پی کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کا عوام کی مختلف پرتوں پر قابو پانا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ لٹل پنکس کی بڑھتی ہوئی تعداد، جو ریاست کے پلائے گئے قوم پرست زہر سے مدہوش ہے، اب الٹا اپنے آقاؤں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کم قوم پرست ہیں! یقیناً کچھ نام نہاد ”وولف ویرئیرز“ کے اوپر دائیں جانب سے کھلے عام تنقید کی جا رہی ہے۔

مثال کے طور پر ریاستی میڈیا نیٹ ورک گلوبل ٹائمز کا مغرور ایڈیٹر ’ہو شیجن‘ نے سی سی پی سے اپیل کی تھی کہ ایٹمی ہتھیار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ کو قابو میں رکھا جا سکے، جس کے باعث اسے کافی مقبولیت ملی۔

’ہو‘ کو اصلی وولف ویرئیرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو سی سی پی حکومت پر تنقید کرتا رہتا ہے، اور جس کے بڑی تعداد میں حامی موجود ہیں۔

اس کے باوجود اس سال یکم مئی کو اس نے ریاستی میڈیا کی ایک تنظیم کی میم کو ”غیر مناسب“ قرار دیتے ہوئے تنقید کی جس میں کرونا کی وجہ سے بھارتی اموات پر طنز کیا گیا تھا۔ اس کے باعث اس کے کئی حامی اس سے روٹھ گئے جنہیں اس پوسٹ میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

Lie flat 7 Image fair use

چینی ریاست کی آفیشل ویب سائٹ پر یہ تصویر لگائی گئی۔ اس تصویر میں لکھا ہے کہ: ”جب چین آگ لگاتا ہے بمقابلہ جب انڈیا آگ لگاتا ہے“

ایک اور مثال وزارتِ خارجہ میں شامل ژاؤ لیجان کی دی جا سکتی ہے، حکومتی صفوں میں شامل ایک اور وولف ویرئیر، جس کو غیر ملکی میڈیا کے خلاف چین کے جارحانہ اور قوم پرستانہ دفاع کرنے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔

البتہ جب اس نے چینی مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دی تو اس کے کئی حامیوں نے کھلے عام اسے برا بھلا کہا۔ اس کے شدت پسند شاؤنسٹ حامیوں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ژاؤ کسی ”غیر ملکی“ مذہب کے ساتھ ”غیر جانبداری سے پیش آئے“ کیونکہ یہ ”چین مخالف“ حرکت ہے۔

پاگل کتوں کی جانب سے اپنے وولف آقاؤں کی مخالفت کرنے کے یہ بڑے واقعات چینی سماج میں سی سی پی کی غیر مستحکم حیثیت کا اظہار ہیں۔

ایک جانب، سماجی بے چینی اور طبقاتی تضاد میں نہ رکنے والا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جو ریاست اور موجودہ نظام کو نشانہ بنا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ریاست کے پھیلائے گئے دائیں بازو کے جذبات کا ابھار سامنے آ رہا ہے، جو نہ صرف سی سی پی کے خلاف موجود نفرت کو مٹانے کے لیے نا کافی ہے بلکہ حکومت کے قابو سے بھی باہر ہو رہا ہے۔

حکومت کے پاؤں تلے زمین پھسلتی جا رہی ہے اور اسے اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے براہِ راست جبر کے اوپر انحصار کرنا پڑے گا۔

مستقبل کے دیوہیکل واقعات

مارکس وادی اس بات سے واقف ہیں کہ نوجوان سماجی صورتحال کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور بسا اوقات جدوجہد کا آغاز بھی انہی سے ہوتا ہے۔ چینی نوجوان اپنی مایوسی کا کھلے عام اظہار کر رہے ہیں، یہ حقیقت اس جانب اشارہ ہے کہ چینی عوام کے اندر غم و غصّے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

ابھی کے لیے شی جن پنگ کے تحت سی سی پی بہادری کا ناٹک کر رہی ہے، حتیٰ کہ اپنے قیام کی صد سالہ برسی کے موقع پر ”چین نے سوشلزم کا راستہ نہیں چھوڑا“ کے عنوان سے خود پسندانہ مینی فیسٹو بھی شائع کیا۔

مگر در حقیقت، لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس سرمایہ دارانہ نظام نے مایوس کر دیا ہے جو سی سی پی کی نگرانی میں جاری ہے، اور وہ وقت دور نہیں جب وہ حکمران طبقے سے اس کا حساب طلب کریں گے۔ فی الحال ابلتی ہوئی بے چینی کا زیادہ تر اظہار محض اس پلیٹ فارم پر ہو رہا ہے جو سی سی پی آمریت کے تحت نوجوانوں کے لیے دستیاب ہے؛ یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا۔ مگر وہ وقت دور نہیں جب نوجوان اتنے پُر اعتماد ہو جائیں گے کہ سڑکوں کے اوپر اور سکولوں، یونیورسٹیوں، کارخانوں اور دفاتر کے اندر اپنے غم و غصّے کا اظہار کریں گے۔

Comments are closed.