|تحریر: فضیل اصغر|
آج تک تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ اسی کشمکش کی بدولت انسانی سماج کا ارتقا ممکن ہوااور انسان غاروں سے نکل کر خلا تک پہنچا۔ اس ارتقا میں مختلف عہدوں میں مختلف نظام رہے جن میں غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پچھلے تمام نظاموں کی نسبت جدید ترین نظام ہے۔ اور اس نظام نے انسان کو تقریبا 350 سال میں جتنی ترقی دی اتنی غلام داری اور جاگیرداری ہزاروں سال میں نہ دے پائے۔ دنیا میں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ انقلابات برپا ہوئے وہاں بے تحاشہ ترقی ہوئی۔ اور جن خطوں میں سرمایہ دارانہ انقلابات برپا نہ ہو پائے وہ خطے جدید سرمایہ دارانہ ممالک کے زیر تسلط آگئے اور ان ممالک میں جدید سرمایہ دارانہ ممالک کی بدولت ٹوٹا پھوٹا سرمایہ دارانہ نظام پہنچا جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان اور افریقہ وغیرہ۔ ان ممالک کا حکمران طبقہ اپنی تاخیر زدگی اور تاریخی نااہلی کی وجہ سے کبھی بھی وہ ترقی پسند کردار ادا نہ کر پایا جو جدید سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمران طبقے نے اپنے ممالک میں ادا کیا۔
پاکستان کا شمار بھی ان پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام انقلاب کی صورت میں نہیں آیا بلکہ سامراجی مداخلت کی بدولت آیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنا کوئی بھی تاریخی فریضہ سرانجام نہیں دے پایا۔ پچھلے 70 سالوں میں پاکستانی محنت کش طبقے کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔ چاہے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہو، صاف پانی کی قلت ہو، بے روزگاری ہو، دہشت گردی ہو، مہنگائی ہو، انفراسٹرکچر کا مسئلہ ہو، صحت کے شعبے کا مسئلہ ہو، تعلیم کے شعبے کا مسئلہ ہو الغرض اس ملک میں کوئی بھی بنیادی انسانی ضرورت کا مسئلہ آج تک یہاں کا حکمران طبقہ حل نہیں کر پایا۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر
پاکستان میں بے تحاشا مسائل موجود ہیں اور انہی مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ چائلڈ لیبر کا بھی ہے۔ چائلڈ لیبر سے مراد کم عمر اور نابالغ بچوں سے مزدوری کروا ناہے۔ پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر کم عمر اور نابالغ بچوں سے محنت مزدوری کرائی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر شہروں اور دیہاتوں دونوں میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ واحد معاملہ ہے جس میں بغیر کسی تفریق کے چاروں صوبے ہی آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان چائلڈ لیبر کے حوالے سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ ویسے تو جب بھی بات بنیادی انسانی ضروریات کی ہو تو پھر ملک کا حکمران طبقہ عوام کو کم سے کم دینے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اس کام میں حکمران طبقے کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے کہ محنت کشوں کو کون کم سے کم دے گا۔ حکمران طبقے کا وہ حصہ اس کھیل کا فاتح قرار پاتا ہے جو محنت کشوں کو اذیت دینے میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ 1996ء کے بعد سے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بھی سروے نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان میں چائلڈ لیبر کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں۔ ILO (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے 2012 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد تقریبا 1کروڑ 25 لاکھ تھی۔ جبکہ SPARC نامی ایک این جی او کے کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 50لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔ یقیناًیہ اعداد و شمار حقیقی صورت حال سے کم ہیں۔ اسکی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی بہت بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے اگر 2کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے تو اسکا سیدھا سا مطلب یہ کہ وہ تمام بچے جرائم اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اتنی کم عمر میں اور اتنی مہنگائی کے عالم میں زیادہ مواقع چائلڈ لیبر کے ہی ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سروے کرنا ممکن ہی نہیں جیسے بلوچستان اور پختونخواہ کے بہت سے دشوار گزار، پسماندہ اور خطرناک علاقے اور ان کے ساتھ ساتھ فاٹا کے قبائلی علاقے۔ ان علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے لہٰذا ان علاقوں میں چائلڈ لیبر کے لئے حالات سازگار ہیں اور یقیناان علاقوں میں چائلڈ لیبر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہو گی۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھریلو سطح پر ہونے والی چائلڈ لیبر چونکہ عام طور پر نہایت بے قاعدگی سے ہوتی ہے اور اس کے اعداد و شمار اکٹھا کرنا بہت مشکل بھی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی درست تعداد ان سرویز سے بھی زیادہ ہے۔
شہروں اور دیہاتوں میں چائلڈ لیبر
پاکستان میں چائلڈ لیبر نا صرف بڑے اور چھوٹے شہروں میں بلکہ دیہاتوں میں بھی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اگر شہروں کی بات کی جائے تو زیادہ تر تعداد ہمیں چھوٹی صنعتوں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی دکانوں میں اور اسی طرح ان سے جڑے ہوئے اور بہت سے شعبوں میں نظر آتی ہے مثلا اشیاء کی لوڈنگ وغیرہ۔ دیہاتوں میں وسائل کی کمی اور غربت کی وجہ سے ماں باپ اپنے آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بچوں کو قریبی شہروں میں کمانے کیلئے بھیج دیتے ہیں اور کوئی بھی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچے ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی موٹی دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بچوں کو ماں باپ شہروں میں کوئی ہنر سیکھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں کہ چلو کوئی ہنر سیکھ کے اچھے پیسوں والی نوکری مل جائے گی اور مستقبل میں لڑکا خود اپنی دکان لگا لے گا۔ مگر یہ بچے جب شہروں میں پہنچتے ہیں تو آگے ان کی مجبوری اور سستی لیبرکو دیکھ کر آٹو موبائل، الیکٹریکل اور لوہے کی دکانوں وغیرہ کے مالکان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ان معصوم بچوں کی محنت کا شدید ترین استحصال کرتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کو وہ مالکان دن بھر کی شدید محنت اور مشقت کے بعد معمولی سی دیہاڑی دے کر ساتھ یہ احسان بھی چڑھاتے ہیں کہ وہ انہیں سکھا رہے ہیں اور سارا سارا دن ان سے شدید گرمی میں نا صرف دکان کا کام لیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتے ہوئے ان معصوم بچوں سے سارا دن فالتو کام جیسے بوتلیں، جوس یا چائے وغیرہ بھی منگواتے ہیں۔ یہ عمل آج کے عہد میں غلامی کی منظر کشی کرتا ہے۔ اسی طرح شہروں میں حکمران طبقے کی دیکھا دیکھی مڈل کلاس طبقہ بھی ویسے مہنگے کھانا بنانے والے یا پھر ہر کام کیلئے علیحدہ علیحدہ ملازم تو نہیں رکھ پاتے مگر ایک دس، بارہ سال کا معصوم بچہ یا بچی گھر میں کام کرنے کیلئے رکھ لیتے ہیں اور ان معصوموں سے سارا دن کام کرواتے ہیں اور ان پر رعب جھاڑ کر اپنے آپ کو حکمران طبقہ محسوس کرتے ہیں۔ اس گھریلو چائلڈ لیبر کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح اگر دیہاتوں کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں یہاں پر چائلڈ لیبر میں زیادہ تر تعداد معصوم بچیوں کی نظر آتی ہے جو اپنی ماؤں کیساتھ کھیتوں میں کام کرنے آتی ہیں۔ یہ بچیاں سارا سارا دن تپتی گرمی اور یخ سردی میں کام کرتی ہیں۔ اور اپنی قوت کے مطابق کام کرنے کے بعد ماں کیساتھ کچھ نہ کچھ انہیں بھی مل جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے والد کی طرح بہت سے معصوم بچے بھی سارا سارا دن کھیت مزدوری کرتے ہیں اور اس کوشش میں کہ ایک ہی گھر سے زیادہ سے زیادہ لوگ زمیندار یا امیر کسان کے کھیت میں کام کر کے زیادہ پیسہ کما سکیں، گھر کا ہر چھوٹا بڑا کھیت کا رخ کرتا ہے۔ اسی طرح بہت سے غریب لوگ زمیندار یا امیر کسانوں سے لئے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے پھنس کر اپنے بچوں کو بھی بانڈڈ لیبر کا شکار بنا ڈالتے ہیں اور پھر جب تک وہ اس زمیندار یا امیر کسان کے قرضے واپس نہیں کرتے وہ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بھٹوں پر بھی بانڈڈ لیبر اپنی گھٹیا ترین شکل میں موجود ہے۔ بھٹوں پر چائلڈ لیبر کے متعلق HRCPکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 80 لاکھ کے قریب بانڈڈ لیبر کا شکار مزدور ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق بھٹہ مزدوری سے ہے۔ UNICEF کی ایک رپورٹ کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں پر تقریبا 2 لاکھ 50ہزار چائلڈ لیبر موجود ہے۔
اصل وجوہات اور این جی اوز کا دھندا
پاکستان کا نام نہاد بایاں بازو اپنی نظریاتی غلطیوں اور پیٹی بورژوا جہالت کی وجہ سے پاکستان میں 69-1968ء میں سوشلسٹ انقلاب کرنے کا موقع گنوا بیٹھا۔ اور اپنی نظریاتی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی غلطیوں کا دفاع کرتا رہا۔ مزدور افسر شاہی کی عقیدہ پرستی کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ جب 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا تو پاکستان کے نام نہاد لیفٹ نے کثیر تعداد میں این جی اوز کا دھندا شروع کر دیا۔
این جی اوز سے مراد وہ تنظیمیں ہیں جو ریاست کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا ڈرامہ کرتی ہیں اور بیرونی ممالک سے فنڈ لے کر ترقی پذیر ممالک میں وہ کام کرتی ہیں جو ریاست نہیں کر پائی۔ جی ہاں یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ این جی اوز کا کام ہر اس مسئلے کو جو بنیادی انسانی ضرورت سے جڑا ہو، ریاست کو بری الذمہ کرانا ہوتا ہے اور اپنے دھندے کیلئے نیا پراجیکٹ شروع کرنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ تعلیم کا مسئلہ ہو، دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا پھر چائلڈ لیبر کا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔ اور اس سارے عمل میں یہ این جی اوز محنت کش طبقے کی جدوجہد کی مخالفت کرتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرتی ہیں۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس نظام کو انجکشن لگا کر چلایا جاسکتا ہے اور ایسے ہی چلانا چاہیئے۔ در حقیقت ان کو بیرونی فنڈ ملتے ہی اسی کام کیلئے ہیں۔ ان این جی اوز کے مالکان میں ایک بہت بڑی تعداد ملٹری کے ریٹائرڈ افسروں کی بھی ہے۔ جو جب تک سروس میں ہوتے ہیں تو اداروں کے اندر کرپشن کے ذریعے مال بناتے ہیں اور حب الوطنی کا ناٹک کرتے ہیں اور جب ریٹائرہوجاتے ہیں تو پھر خدمت خلق کا ناٹک کرتے ہوئے این جی اوز کے ذریعے خوب مال بھی بناتے ہیں اور عوام کو بھکاری بھی بناتے ہیں۔ ویسے تو ان این جی اوز کے مالکان کا حکومتی عہدیداروں کیساتھ براہ راست رابطہ ہوتا ہی ہے مگر بہت سی این جی اوز بذات خود حکومتی عہدیداروں کی ہیں جنہیں ان کے بچے یا بیویاں چلاتی ہیں۔
اگر چائلڈ لیبر کے مسئلے پر غور کیا جائے تو ہمیں این جی اوز کا یہ رونا دکھائی دیتا ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ماں باپ بچوں سے کم عمری میں کام کرواتے ہیں۔ اور یہ سب جہالت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اگر تعلیم عام ہو تو چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو جائے گا وغیرہ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اس طرح چائلڈ لیبر کو اخلاقی معاملہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر یہ تصویر کے ایک رخ کا بھی دسواں حصہ ہے۔ حقیقت میں چائلڈ لیبر کا معاملہ اخلاقی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تو 8 سال کا بچہ بھی اپنے بچپن میں ہی جوان ہو جاتا ہے اورروزی روٹی کمانے کی بھاگ دوڑ میں شامل ہونااس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اسے اپنی زندگی کا سنہری دور جی میڈم، جی صاحب، جی استاد کرتے ہوئے گزارنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری پائی جاتی ہے جس کے متعلق درست اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ اس بے روزگاری کی وجہ سے غربت بھی اپنی انتہاوں کو چھو رہی ہے۔ آئے روز ہمیں معاشی تنگدستی کی وجہ سے خودکشیاں نظر آتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو بھوکا مرتے دیکھنے کے بجائے ان کے ساتھ خود کشی کرنے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی محنت کے استحصال کی بدولت ہی قدر زائد پیدا ہوتی ہے اور اسی قدر زائد سے سرمایہ دار کو منافع ملتا ہے۔ اور جتنا زیادہ محنت کا استحصال ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ قدر زائد پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ پیداواری عمل میں سستی سے سستی لیبر کے ذریعے پیداوار کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جاسکے۔ چنانچہ پاکستان جیسے ممالک کے سرمایہ دار اور پیٹی بورژواطبقے کو سستی لیبر چائلڈ لیبر کی صورت میں ملتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ ریاست کی جانب سے ہر شہری کو باعزت روزگار، مفت علاج، تعلیم اور رہائش مہیا کی جائے۔
ڈوبتی ہوئی معیشت اور سیاہ مستقبل
2016ء کے اختتام تک پاکستان کا کل قرضہ23.14 کھرب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اور جس رفتار کیساتھ پہلے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکہ اور دیگر سامراجی ممالک سے قرضے لیے گئے اب اس سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتار کیساتھ چین سے قرضے لئے جارہے ہیں بلکہ چین کو تو پاکستان کی پوری منڈی ہی دے دی گئی ہے کہ وہ یہاں آکر خوب مال بیچے اور اپنے سٹریٹیجک مفادات حاصل کرے اور اس کے بدلے میں پاکستانی حکمرانوں کو بس اپنا اپنا کمیشن چاہیئے۔ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرضہ 75ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے جس کے متعلق بہت سے سنجیدہ معیشت دانوں کی یہ پیش گوئی ہے کہ 2020ء تک یہ قرضہ 110ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی معیشت کا دیوالیہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے متعلق پاکستانی سول حکومت اور ملٹری دونوں کی جانب سے میڈیا پر خوب بیان بازی کی گئی اور اس منصوبے کو پاکستان کی تقدیر بدل دینے والا منصوبہ بنا کر پیش کیا گیا۔ ہر طرف سی پیک کے گن گائے گئے اور عام عوام کے سامنے ایک جھوٹ کو بار بار بول کر اسے سماج میں سچ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اور اس عمل میں ہمیشہ کی طرح مڈل کلاس نے اپنی جہالت کا اظہار کھل کر کیا اور حکمران طبقے کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سی پیک کی بہت سی معلومات کو آغاز میں منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا جو وقت کیساتھ ساتھ اب منظر عام پر آ رہی ہیں۔ سی پیک کی مد میں جو رقم پاکستان آرہی ہے وہ انوسٹمنٹ نہیں بلکہ بھاری شرح سود پر قرضہ ہے جو پاکستان کی آنے والی نسلوں کو اتارنا پڑے گا۔ آج پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کا مقروض ہے۔ آنے والے عرصے میں معاشی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے مستقبل سیاہ ہے اور ہر آنے والا دن اپنے ساتھ اذیتیں اور پریشانیاں لے کر آئے گا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ خاص طور پر سعودی معیشت کے بحران کے پاکستانی معیشت اور سماج پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ اور اسی طرح آج دنیا ایک عالمی معاشی بحران کی زد میں ہے اور 2008ء سے شروع ہونے والے اس بحران سے عالمی معیشت پچھلے 9سالوں میں نہیں نکل پائی اور اب ایک اور بحران کی باتیں کی جا رہی ہیں جو 2008ء سے کئی گنا بلند پیمانے پر ہوگا اور اسکے اثرات بھی بلند پیمانے پر ہونگے۔
مسائل کی جڑ اور حل
اگر آج دنیا میں موجود مسائل جیسے چائلڈ لیبر، دہشتگردی، بے روزگاری، معیاری تعلیم کی عدم فراہمی، معیاری علاج کی عدم فراہمی، سمگلنگ، چوریاں، اورماحولیاتی مسائل وغیرہ پر نظر دوڑائی جائے تو ان تمام مسائل کی وجوہات میں جو قدر مشترک نظر آتی ہے وہ انسانی ضروریات اور منافع کا تضاد ہے۔ مثلا اگر ریاست معیاری اور مفت تعلیم مہیا کرے تو پھر پاکستان میں موجود اربوں روپے کے پرائیوٹ تعلیمی سیکٹر کا کیا ہوگا۔ یہ سب تو بند ہو جائیں گے۔ اور چونکہ انہی پرائیویٹ اداروں کے مالکان ہی کے پیسوں سے حکومتیں بنتی ہیں اور ملک کے اصل مالک یہی ہوتے ہیں لہذا انسانی ضرورت کی نسبت ان کے منافعوں اور کاروبار کو اس سرمایہ دارانہ نظام میں جیت ملتی ہے۔ اور اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ انسانی ضرورت اور منافع کا تضاد درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی خاصہ ہے اور اس سے چھٹکارا صرف اور صرف اس نظام کو ختم کر کے ایک ایسے نظام کی تخلیق سے ہی ممکن ہے جس میں انسانی ضرورت کو بنیاد بناتے ہوئے پیداوار کی جائے نہ کہ منافع کے لئے۔
پاکستان جیسے ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام اپنی کلاسیکی شکل میں نہیں آ پایا، یہاں پسماندگی وحشت کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چائلڈ لیبر جیسے مسائل زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مگر اس بات سے اگر یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آج پاکستان میں بھی پہلے کلاسیکی شکل میں سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھایا جائے تو یہ جہالت کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا۔ کیونکہ آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور پر ایک ایسی بحرانی کیفیت میں ہے جس سے باہر نکلنے کے دور دور تک کوئی آثار موجود نہیں اور یہ نظام آج ترقی یافتہ ممالک میں محنت کش طبقے اور عوام کو ماسوائے ذلت، بے روزگاری اور کٹوتیوں کے کچھ نہیں دے پارہا اور آئے دن ننگا ہوتا جارہا ہے اور اپنے خلاف تحریکیں پیدا کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان جیسے ممالک میں دیگر مسائل کی طرح چائلڈ لیبر کے مسئلے کا حل بھی سرمایہ دارانہ نظام کو ایک انقلاب کی صورت میں اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تعمیرکر کے ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ نظام میں ذرائع پیداوار کی ملکیت محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور پیداوار انسانی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے نہ کہ منافع کے لئے۔ ایک سوشلسٹ معیشت میں تعلیم، علاج اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات میں کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی اور یہ ادارے محنت کشوں کی منتخب شدہ حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ رہائش، علاج، تعلیم اور روزگار حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا چائلڈ لیبر اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ ہی ایک سوشلسٹ نظام میں ختم ہو جاتی ہے۔