|تحریر: ایریکا روئیڈلینڈ اور ارمان ابراہیمی، ترجمہ: یار یوسفزئی|
پچھلے موسمِ گرما میں، امریکی ریاست کے اندر کروڑوں افراد نے بلیک لائیوز میٹر کی تحریک میں شرکت کی، جو پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کے نسل پرستانہ قتل کے خلاف ابھری تھی۔ تقریباً ایک سال بعد، 20 اپریل 2021ء کو، اس کا قاتل ڈیرک شاوین تین الزامات کے تحت سزاوار قرار پایا؛ سیکنڈ ڈگری غیر ارادی قتل؛ تھرڈ ڈگری ”شیطانی ذہنیت“ کے تحت قتل؛ اور سیکنڈ ڈگری قتلِ عام۔ شاوین کو مجرم قرار دیے جانے سے حقیقی انصاف کا دور تک کوئی واسطہ نہیں، جارج فلوئیڈ اور وہ سب جو مسلسل پولیس کے جبر کا شکار ہیں، اب بھی انصاف سے محروم ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انفرادی طور پر ایک پولیس والے کو اس کے اعمال کا ”ذمہ دار قرار دینا“ محض اس دیوہیکل عوامی توانائی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا جو پچھلے سال کی تحریک کے دوران دیکھنے کو ملی۔
دراصل پچھلے موسمِ گرما کی تحریک کا محرک محض جارج فلوئیڈ کا قتل نہیں تھا، یہ تسلسل کے ساتھ جاری اس ہراسانی اور استحصال کے خلاف جمع شدہ غصّے کا ایک دھماکہ خیز انداز میں اظہار تھا جس کا سامنا روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں مظلوم عوام کرتے ہیں۔ اکیلے منیاپولس میں، پچھلے 20 سالوں کے دوران پولیس نے تقریبا 50 سیاہ فاموں کے قتل کیے ہیں۔ 2013ء اور 2020ء کے بیچ، امریکی ریاست میں پولیس افسران کے ہاتھوں 9 ہزار سے زائد افراد قتل کیے جا چکے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی سیاہ فام تھے۔ پچھلے سال کی تحریک کے دوران بھی کینٹکی میں بری اونا ٹیلر کو قتل کر کے وسکونسن میں جیکب بلیک پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس تحریک نے صرف جارج فلوئیڈ کے لیے نہیں، بلکہ ان تمام گمنام مقتولین کے لیے انصاف طلب کیا جن کے قاتلوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے لا کر کھڑا نہیں کیا گیا تھا۔
پچھلے آٹھ سالوں میں، پولیس کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں سے صرف 151 افسران پر جرم کی دفعات لگی ہیں، پھر بھی وہ سارے سزاوار نہیں قرار پائے۔ یہ مجموعی تعداد کا محض 1.6 فیصد بنتا ہے۔ مثال کے طور پر جس افسر نے کینوشا میں جیکب بلیک کو گولیاں ماری تھیں، وہ اپنے اعمال کی کوئی سزا نہیں بھگتے گا۔ اسے ان اعداد و شمار میں بھی شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ جیکب ابھی تک زندہ ہے، جو کمر میں سات گولیاں لگنے کے بعد کمر کے نیچے سے فالج کا شکار ہے۔ جن افسران نے بری اونا ٹیلر کو قتل کیا تھا، ان پر کوئی دفعات نہیں لگیں۔ نہ ہی 13 سالہ ایڈم ٹولیڈو کو قتل کرنے والے شکاگو کے افسر پر کو ئی دفعہ لگی، اس کے باوجود کہ وہ ویڈیو میں قتل کیے جانے سے پہلے اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
29 مارچ کو شاوین کا مقدمہ شروع ہونے کے بعد سے، پولیس نے روزانہ کے حساب سے 3 لوگوں کو قتل کیا ہے۔ 11 اپریل کو، جب شاوین کے وکیل نے اس کا دفاع ابھی شروع بھی نہیں کیا تھا کہ ڈاؤن ٹاؤن منیاپولس سے تھوڑے فاصلے پر واقع بروکلین سینٹر میں ڈاؤنٹے رائٹ نامی شخص پولیس کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔
اس حالیہ قتل کے خلاف فوری ردّ عمل دیکھنے کو ملا، جس میں سینکڑوں لوگ احتجاج کرنے نکل آئے۔ نیشنل گارڈ کے دستے، جن کو شاوین کے فیصلے کے پیشِ نظر تیار کیا گیا تھا، وقت سے پہلے ہی تعینات کر دیے گئے ڈیموکریٹک گورنر ٹِم والز نے مینیسوٹا کے لوگوں کو اطلاع دی کہ ”مینیسوٹا کی تاریخ میں پولیس کی سب سے بڑی تعداد“ کرفیو نافذ کرے گی، جو مکارانہ چال کے تحت شام سات بجے شروع ہوگا، عین اس وقت جب رائٹ کے قتل کے خلاف احتجاج ہونے تھے۔ مگر مظاہرین اس کے باوجود اکٹھے ہو گئے، جن کو شدید جبر کا سامنا کرنا پڑا، اور تقریباً ہر رات ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس سے لوگ زخمی ہوتے رہے۔ شاوین کو مجرم قرار دینے کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے خلاف پولیس کا یہ تشدد بھی ریاستی طاقت کا مظاہرہ بالکل نہیں ہے، بلکہ یہ اس چیز کا اظہار ہے کہ حکمران طبقہ ایک اور عوامی تحریک کے خوف سے انتہائی پریشان ہے۔ پچھلے سال کے بلیک لائیوز میٹر تحریک کے احتجاجوں نے حکمران طبقے کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ تحریک کے عروج پر، صدر ڈونلڈ ٹرمپ زیرِ زمین بنکر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا تھا، جو نہتے شہریوں کے خلاف بھرپور انداز میں فوجی قوت استعمال کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔
بہت جلد ہی (30 اپریل کو) بائیڈن کو اقتدار میں آئے سو دن گزر جائیں گے، اور ٹرمپ کی صدارت کے ہنگامہ خیز چار سالوں کے بعد، بورژوازی نظام کی ساکھ دوبارہ سے بحال کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ نرم رویے کا ناٹک بھی کیا جا رہا ہے۔ مقدمے کے دوران، بائیڈن نے جارج فلوئیڈ کے خاندان کو کال کر کے کہا کہ وہ ”صحیح فیصلے“ کے لیے ”دعا گو“ ہے، جبکہ کانگریس کی ممبر میکسین واٹرز نے کہا کہ وہ امید کر رہی تھی کہ شاوین کو ”مجرم، مجرم اور مجرم“ قرار دیا جائے گا۔ پولیس کے سربراہ نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شاوین کے اعمال غیر قانونی تھے۔ مجرم قرار دینے کا فیصلہ حکمران طبقے کی جانب سے عدالتی نظام کو ”غیر متعصب“ ثابت کرنے کی ایک مشترکہ کوشش ہے، تاکہ کروڑوں افراد پر مشتمل کسی دوسری ملک گیر تحریک سے بچا جا سکے۔
شدید خطرات کا سامنا ہونے کی وجہ سے، حکومت نے مقدمے کے دوران اطلاعات اور مکالمے کو اپنے قابو میں رکھنے کی کی کوشش کی، اور نام نہاد ”استحکام“ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ مقدمہ شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے، منیاپولس کی حکومت نے عدالت کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیں، جس سے ”خود مختار، غیر متعصب اور اعتماد دلانے والے“ عدالتی نظام کا حقیقی چہرہ واضح ہو جاتا ہے۔ منیاپولس کے شہر میں مقدمے کے دورانیے کے لیے گورنر والز کے تعاون سے ”حفاظتی اقدامات“ (آپریشن سیفٹی نیٹ) کے نام پر 2 ہزار نیشنل گارڈ تعینات کیے گئے۔ پولیس نے مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لیے حکومتی عمارتوں کے گرد خار دار تاریں بچھا دیں۔ پھر بھی تقریباً 1 ہزار لوگوں نے مقدمے کے پہلے دن ہینیپن کاؤنٹی گورنمنٹ سینٹر (عدالتی عمارت) کے باہر احتجاج کیا، اور اس کے بعد وہاں تقریباً روزانہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
حکومت کی جانب سے مقدمے کے بارے میں رائے عامہ پر ”اثر انداز“ ہونے کی کوشش بھی گئی اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا کرایا گیا۔ اس حوالے سے خاص کر نسلی اقلیتوں کو ٹارگٹ گیا گیا، اور ان چھے لوگوں کو فی کس 2 ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی گئی جو ”حکومتی تصدیق شدہ پیغامات“ کو پھیلائیں گے۔ اس شہر کی حکومت میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے اور انہوں نے وہی کیا جو ڈیموکریٹس اچھی طرح سے کرنا جانتے ہیں؛ یعنی تحریک کے قائدین کو قابو کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ مگر بالآخر عوامی غم و غصے کے خوف سے اس پروپیگنڈے کو روک دیا گیا۔
اس کے علاوہ، بورژوا میڈیا نے مقدمے کے دوران ”غیر جانبدار“ اور ”بالکل صحیح“ کوریج کرنے کا دکھاوا بھی کیا اور ریاست کی جانب سے پریس کو ”حقائق دکھانے“ کی کھلی اجازت دینے گا دکھاوا بھی کیا گیا، یہ ریاست کی تاریخ میں جرم کا پہلا مقدمہ تھا جس کو ٹی وی پر دکھایا گیا۔ سینٹ پال پائیونیر پریس کی جانب سے ”غیر جانبدارانہ“ کوریج میں یونیورسٹی آف مینیسوٹا لاء سکول کے پروفیسر رچرڈ فریز کی آراء بھی شامل کی گئیں، جس نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ جیوری کے لیے ہینیپن کاؤنٹی کے دیہات میں سے ان لوگوں کو چنا جائے ”جو اس کیس کے حوالے سے پہلے سے اپنا کوئی ذہن بنائے نہ بیٹھیں ہوں“؛ جن میں قدامت پرست اور سفید فام اکثریت میں ہیں۔
پائیونیر پریس کی ”غیر جانبداری“ کے خیال کے برعکس، جس جیوری میں سارے افراد سفید فام ہوں، وہ سیاہ فام ملزمان کو سفید فاموں کے مقابلے میں 1.25 گنا زیادہ مجرم قرار دیتے ہیں۔ اگر کہیں سیاہ فاموں کو چنا بھی جاتا ہیں تو جیوری کے لیے چنے جانے والے 50 یا 100 افراد کی فہرست میں محض ایک یا دو سیاہ فام ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ملک کی ان کاؤنٹیوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جہاں کی آبادی سب سے زیادہ ڈائیوَرس (مختلف نسلوں پر مشتمل) ہو۔ اس مقدمے میں، شاوین اور فلوئیڈ کی جانب سے کیس لڑنے والے دونوں فریقین نے 300 افراد پر مشتمل جیوری کی فہرست تیار کی۔ 12 لوگوں کی حتمی جیوری اور دو متبادل افراد کو ”منیاپولس سے بھی زیادہ ڈائیوَرس“ قرار دیا گیا، جس کا مطلب یہی تھا کہ یہ صرف سفید فاموں پر مشتمل نہیں۔
در اصل سرمایہ داری کے تحت حقیقی ”غیر جانبداری“ اور ”عدم تعصب“ کبھی بھی قائم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حکمران طبقہ ہی ہوتا ہے جو جبلی طور پر نسل پرست نظام کے قوانین و ضوابط وضع کرتا ہے۔ جیسا کہ ”کمیونزم کی ابجد“ میں لکھا گیا ہے: ”عدالتی عملہ چاہے جیسے بھی ترتیب دیا جائے، اس کے فیصلے ان قوانین کے تحت کیے جائیں گے جن میں سرمائے کی مراعات کی موجودگی اور مشقت کرنے والے عوام کی مراعات کی عدم موجودگی درج ہوتی ہے۔“ سماج سے منظم نسل پرستی کا خاتمہ عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ”ڈائیورسیٹی“ لا کر نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس کا کام ان نسل پرستانہ قوانین کو لاگو کرنا ہوتا ہے جن کو ملکیتی اقلیت کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے منظور کیا جاتا ہے، اور عدالتیں ان کو قانونی شکل دے کر برقرار رکھتی ہیں۔
جرائم کے سرمایہ دارانہ عدالتی نظام میں خصوصی طور پر غریبوں اور محنت کش طبقے سے وابستہ سیاہ فاموں کے خلاف دھاندلی ہوتی رہتی ہے۔ جیوری کے ممبران کو نسل کی بنیاد پر باہر کرنا غیر قانونی ہے، مگر وکلاء انہیں نا اہل قرار دینے کے لیے ”نسل پرستی سے پاک غیر جانبدارانہ“ وجوہات آسانی سے پیش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شاوین کے وکیل ایریک نیلسن نے جیوری کی فہرست میں شامل ایک کو یہ کہہ کر برخاست کر دیا کہ وہ ”منیاپولس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے خلاف تعصب رکھتا ہے“، جس کی بنیاد بھی درحقیقت روزانہ کی بنیاد پر نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا تھا۔ اس شخص نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اس کے محلے میں گرفتاری یا گولی مارنے کے بعد چلّا کر کہتی ہے کہ ”ایک اور زمین بوس ہو گیا“۔ بہرحال جیوری کا ایک سفید فام ممبر، جو ”بلیک لائیوز میٹر کے بارے میں غیر جانبدار نقطۂ نظر“ کا دعویٰ کرتا ہے اور پولیس کا ادارہ ختم ہونے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، کو ”متعصب“ قرار نہیں دیا گیا۔
ایک جانب سیاہ فام ہونے کے جرم میں جارج فلوئیڈ کا ما ورائے عدالت قتل کیا گیا، جبکہ دوسری جانب سرمایہ داری کے محافظ کتوں نے شاوین کے لیے خطیر رقم اکٹھا کرنے کے لیے اپنی جیبیں کھول دیں۔ شاوین نے منیاپولس پولیس اور پِیس آفیسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے عدالتی امداد کی مد میں 10 لاکھ ڈالر سے زائد رقم وصول کی، اور اس کو بچانے کے لیے ذاتی وکیل کے علاوہ 11 مزید وکلاء حاضر ہو گئے۔
دفاع کرنے والے وکلاء نے اس بناوٹی بیان کو پیش کیا کہ جارج فلوئیڈ کی موت کی اصل وجہ اس کی گردن کو 9 منٹ تک دبائے رکھنا نہیں تھا، بلکہ اس کی بجائے نشے کا استعمال اور صحت کے دیگر مسائل تھے۔ مگر ثبوت بہت واضح ہے اور اس بیانیے سے مکمل متضاد ہے؛ فلوئیڈ کا گلا دبا کر اسے دھیرے دھیرے موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ وہ اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ مقدمے کے شروع میں فلوئیڈ کے وکیلوں کی جانب سے سیکورٹی کیمروں اور موبائل فونز سے بنائی گئی وڈیوز پیش کیں گئیں۔ فلوئیڈ کے حق میں مختلف گواہان کو سامنے لایا گیا جس میں سابقہ پہلوان بھی شامل تھا، اس نے وضاحت کی کہ شاوین ”بلڈ چوک“ کا طریقہ استعمال کر رہا تھا (جس میں گلے کو اس انداز سے دبایا جاتا ہے کہ دماغ تک خون کی گردش رک جاتی ہے)۔ 36 سال سے زائد تجربہ رکھنے والے ایک تفتیشی ماہرِ امراضیات نے پوسٹ مارٹم کے نتائج صاف الفاظ میں بیان کیے: ”قانون نافذ کرنے والے افسر کی حرکات مسٹر فلوئیڈ کی موت کا سبب بنیں۔“
جن کروڑوں افراد نے جارج فلوئیڈ کو مارے جانے کی مشہور ویڈیو دیکھی ہے، ان کے نزدیک اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ اسے دن دہاڑے بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اگرچہ اس نسل پرست جرم کا براہِ راست ارتکاب ڈیرک شاوین نے کیا، وہ ان اداروں کے سلسلے کی محض ایک کڑی ہے جن کو ایک ایسے نظام کی بالادستی کے لیے بنایا گیا ہے جس کی بنیادیں ہی استحصال اور نسل پرستی پر کھڑی ہیں۔ سرمایہ داری میں فطری طور پر ایک مسلح فوج کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ نجی ملکیت کا دفاع کیا جا سکے اور محنت کش طبقے اور غریبوں کو دبایا جا سکے۔ یہ سرمایہ داری ہی تھی جس نے محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے ان پر حکمرانی کرنے کے لیے نسل پرست نظریات اور تشدد کو ابھار دیا۔ سرمایہ داری نے جارج فلوئیڈ کے قتل میں مدد کی۔ ڈیرک شاوین اور اس کے گرد کھڑے دیگر افسران اس نظام کی پیداوار ہیں۔
پھر بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ پر مقدمہ نہیں چلایا گیا، نہ ہی ڈیرک شاوین کے ساتھ موقعِ واردات پر موجود باقی تین پولیس افسران کے اوپر، جن کا مقدمہ اگست میں چلایا جائے گا۔ سٹی کونسل (مقامی حکومت) پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا، جس نے پولیس فورس کے خاتمے کا وعدہ کرنے کے بعد پچھلے سال دسمبر میں پولیس افسران کی تعداد مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جب تک یہ نظام برقرار رہے گا، تب تک سینکڑوں قاتل پولیس والے قتل کی سزا سے بچ کر نکلتے رہیں گے۔
ایک ایسا سماج جو ظلم و استحصال پر تعمیر کیا گیا ہو، میں غیر جانبدارانہ انصاف جیسی کوئی چیز نہیں پائی جا سکتی۔ کوئی چیز اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نسل پرست اور استحصالی سماج کے اندر غیر متعصب عدالتی نظام، رنگ کی بنیاد پر تفریق نہ کرنے والی پولیس فورس، یا انسانیت پر مبنی جیل خانے تعمیر نہیں کیے جا سکتے۔ عدالتیں انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے غیر جانبدار نہیں ہوا کرتیں، بلکہ یہ ایک ریاستی ادارہ ہوتا ہے جو حکمران طبقے کے مفادات کی خدمت پر مامور ہوتا ہے، اور ہمیں اس سراب کا شکار بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ عدالتیں اس نظام کو مجرم قرار دے سکتی ہیں جس سے وہ وابستہ ہیں اور جن کا کام اس کی بالادستی کرنا ہے۔ جب تک اس پولیس فورس کو برقرار رکھا جائے گا، جس کا ارتقاء غلاموں کو پکڑنے والوں سے ہوا ہے، انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔
پچھلے موسمِ گرما میں، تحریک میں شامل بہت سے افراد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ پولیس کا ”بجٹ روکنا“ یا ان کا ”خاتمہ کرنا“ ہے۔ مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان قوانین کو جاری کرنے والے نظام کا تختہ الٹ دیا جائے۔ حتمی تجزیے میں، یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ محض منیاپولس میں پولیس کا خاتمہ کرنے سے حل ہو جائے، اس کے لیے سارے نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے، بلیک لائیوز میٹر تحریک کو بڑے پیمانے پر تنظیم سازی، باہمی تعاون اور جدوجہد کے لیے ایک واضح پروگرام کی ضرورت ہے۔ منظم مزدور طبقے کو اس تحریک کے اندر بھرپور انداز میں شامل ہونا پڑے گا۔ ڈاؤنٹے رائٹ کے قتل کے خلاف احتجاجوں کے دوران منظم مزدور طبقے میں مضمر قوت کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی تھی۔ جب پتہ چلا کہ نیشنل گارڈ کے سپاہی سینٹ پال ریجنل لیبر فیڈریشن کی عمارتوں کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، تو عام محنت کش وہاں پر ان سے عمارتیں خالی کرانے کا مطالبہ کرنے جمع ہو گئے، اور نیشنل گارڈ بلا چوں چراں وہاں سے نکل گئے۔ کئی یونینز نے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جن میں مینیسوٹا نرسز ایسوسی ایشن اور سینٹ پال فیڈریشن آف ایجوکیٹرز بھی شامل ہیں۔
پچھلے موسمِ گرما میں منیاپولس کے اندر محلّوں کی سطح پر جو نگران کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں، وہ ایک ٹھوس نمونہ تھا کہ کس طرح محنت کشوں کی دفاعی اور تنظیمی کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ جیسا کہ حالات کا تقاضا ہے، ان کمیٹیوں کو دوبارہ اس طرز پر قائم کیا جائے تا کہ ان کی معاونت کے لیے مزدور تحریک منظم انداز میں موجود ہو، اور جس کی قیادت جمہوری طور پر منتخب شدہ نمائندگان کر رہے ہوں، جن کو ہر کام کی جگہوں اور محلّوں میں قائم کیا جائے، اور مینیسوٹا کے خطے سے لے کر ملک بھر میں پھیلا دیا جائے۔ اگر اپنے محلوں کو پولیس اور انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ کمیٹیاں محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت قائم کر یں، تو یہ عام ہڑتال کی باہمی تیاریوں میں اہم کردار ادا کریں گی، جس کی کال دے کر مزدور قائدین کو اس کے لیے لوگ متحرک کرنے چاہئیں۔ سرمایہ داروں اور ان کے نظام کے غلبے کو للکارنے کا واحد یہی سنجیدہ طریقہ کار ہے!
جارج فلوئیڈ اور اس نظام کے دیگر اربوں متاثرین کو اگر ذرہ برابر انصاف بھی دلانا ہے، تو اس کے لیے ایک دیوہیکل تحریک اور محنت کش طبقے کی با شعور قوت کی ضرورت پڑے گی۔ نسل پرستی کا خاتمہ کرنے کے لیے، ہمیں سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے عالمی مارکسی رجحان جدوجہد کر رہی ہے، اور ہم آپ کو بھی عالمی مارکسی رجحان کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔