|تحریر: ڈینیل مورلے، ترجمہ: فرحان رشید|
صرف ایک ہفتہ پہلے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نوجوان ٹیک دوستوں کی ایک نئی ٹیم کو اکٹھا کیا تاکہ بڑے فخر سے ”سٹار گیٹ“ کے نام سے منصوبے کا اعلان کر سکے۔ یہ اے آئی اور اس سے منسلک بنیادی ڈھانچے پر 500 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ایک دیوہیکل سرکاری تعاون یافتہ منصوبہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ٹرمپ نے پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ ”اب تک کا سب سے بڑا اے آئی انفراسٹرکچر پراجیکٹ“ ہے، جس کا مقصد ”ٹیکنالوجی کا مستقبل“ امریکہ میں برقرار رکھنا ہے۔
جیسا کہ کہاوت ہے، غرور کا سر نیچا۔ شاندار جیت کے بعد، جب سرمایہ دار اُس کے آگے جھکنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے، ٹرمپ خود کو ناقابل شکست سمجھ رہا تھا۔ اُس نے فوراً چین کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن اُسے اور اُس کے ٹیک دوستوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ چین اتنی تیزی سے بازی پلٹ سکتا ہے۔
ڈیپ سیک، ایک چینی ٹیک سٹارٹ اپ، جس کا مغرب میں دو دن پہلے تک کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا، اچانک ایک جدید ترین اے آئی ”لارج لینگویج ماڈل“ لے کر آیا، جس نے اے آئی اور اس میدان میں امریکہ کی برتری کے تمام دعوؤں کو ہوا میں اڑا دیا۔
نہ صرف چین اس جدید ٹیکنالوجی میں امریکہ کے برابر آ چکا ہے، بلکہ اس نے یہ سب جدید AI، جس کو تربیت دینے کے لیے دنیا کی تیز ترین چپس کی بہت بڑی تعداد درکار ہوتی ہے، کے مفروضے پر مبنی سخت ترین ٹیکنالوجیکل پابندیوں کے باوجود حاصل کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، ڈیپ سیک نے مبینہ طور پر محض 6 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے یہ نتائج حاصل کیے ہیں، جبکہ امریکی ٹیکنالوجی کے دیو ہیکل ادارے اس میدان میں اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں۔
اس لیے یہ صورتحال امریکی ٹیکنالوجی کے سیکٹر اور ٹرمپ کے مہنگے منصوبوں کے لیے دوہرا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ چین پہلے ہی کئی اہم ٹیکنالوجی کے شعبوں میں امریکہ کے برابر آ چکا ہے یا اسے پیچھے چھوڑ چکا ہے، لیکن ایک میدان، ”مائیکرو پروسیسرز اور ان پر مبنی آرٹیفیشل انٹیلنجس“ جو سب سے زیادہ اہم تھا، اس میں امریکہ کو برتری حاصل تھی۔
ٹرمپ اور بائیڈن نے بے تحاشہ رقم خرچ کی اور تجارتی پابندیوں اور ٹیرف کی صورت میں ہر ممکن رکاوٹیں اپنے حریفوں کے راستے میں ڈالیں، تاکہ اپنی ٹیکنالوجیکل برتری کے گرد ایک ’قلعہ‘ تعمیر کیا جا سکے اور چین کو پیچھے رکھا جا سکے۔
اگر چین پرانے اور کم چِپس کے ساتھ بھی اتنے ہی اچھے معیار کا اے آئی بنا سکتا ہے، تو امریکہ کی ٹیکنالوجیکل برتری، نہ صرف اے آئی بلکہ مائیکرو پروسیسرز کے میدان میں بھی، ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
سٹار گیٹ منصوبے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اپنی تمام تر امیدیں صرف اوپن اے آئی پر لگا دی ہیں، جو اس منصوبے میں سافٹ ویئر سائیڈ کی اکلوتی پارٹنر ہے۔ گوگل، میٹا اور دیگر تمام بڑی ٹیک کمپنیوں کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا۔ حکومت نے جوا کھیلا ہے کہ یہ واحد کمپنی ہی اس فیلڈ میں سب سے آگے رہے گی۔
اور ابھی تک اوپن اے آئی کوئی منافع نہیں کماتی۔ اس نے تسلیم کیا ہے کہ حالانکہ 200 ڈالر ماہانہ قیمت ہونے کے باوجود ”چیٹ جی پی ٹی پرو“ کی ہر سبسکرپشن پر اسے پیسوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کو ابھی تک یہ بھی بتانا ہے کہ اس کی سروسز سے کیسے دولت حاصل ہو گی۔ یہ مشہور تو ہیں لیکن اس وجہ سے کہ یہ مفت ہیں اور تفریح بخش ہیں۔ یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو حقیقت میں پیسہ کمانے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے نشاندہی کی ہے کہ ”ایس اینڈ پی 500 کے سب سے بڑے 10 سٹاکس تقریباً اس کا 40 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ جدید دور میں ایسی اجارہ داری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔“ ان 10 میں سے آٹھ کمپنیاں، اور ٹاپ سات تمام کی تمام، ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ہیں (جیسے این ویڈیا، ایپل، گوگل وغیرہ)۔ اگرچہ ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں حقیقی طور پر منافع بخش ہیں، لیکن ان کے گرد سرمائے کی اس قدر بڑی مقدار اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہاں ایک دیوہیکل اے آئی ببل موجود ہے۔
اسی وجہ سے ”China AI shock“ نے امریکی سٹاک مارکیٹ میں زبردست گراوٹ کو جنم دیا ہے۔ تقریباً 1 ٹریلین ڈالر کے سرمائے کا صفایا ہو گیا، اگرچہ اس میں سے کچھ نقصان بعد میں پورا ہو گیا۔ صرف این ویڈیا (Nvidia) کو 600 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جو امریکی سٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں کسی ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان تھا۔ این ویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ کی دولت 21 ارب ڈالر کم ہو گئی۔ جبکہ اوریکل (Oracle) کا سربراہ، جو سٹار گیٹ منصوبے میں بھی شامل ہے، 27.6 ارب ڈالر سے محروم ہوا۔ غیر معرف ٹیک انفراسٹرکچر کمپنیوں نے، اپنے کل سرمائے کے تناسب سے، اس سے بھی زیادہ نقصان جھیلا۔
ہر کوئی یہی سوال کر رہا ہے کہ: کیا 2025ء اور اس کے بعد اے آئی پر لگائے جانے والے سینکڑوں ارب ڈالر واقعی فائدہ مند ثابت ہوں گے؟ کیا چینی کمپنیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس وسیع انڈسٹری کا سارا ماڈل ہی ناقص ہے؟
یہ خدشہ مزید تقویت پکڑ رہا ہے کیونکہ صرف ڈیپ سیک ہی نہیں، بلکہ بائٹ ڈانس (Bytedance) (ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی)، علی بابا، اور مون شاٹ (Moonshot) اور ژیپو (Zhipu) جیسے سٹارٹ اپس بھی حالیہ دنوں میں ایسے ماڈلز لانچ کر چکے ہیں جو کسی نہ کسی طرح امریکی اے آئی کی برتری کو چیلنج کر رہے ہیں۔
یہ تمام صورتحال پہلے سے موجود سوالات کو مزید تقویت دے رہی ہے کہ: ’لارج لینگویج ماڈل‘ اے آئی، مثلاً Chat GPT جیسے چیٹ بوٹس، کیا واقعی معاشی طور پر قابل عمل ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنریٹیو اے آئی (یعنی وہ ٹیکنالوجی جو لارج لینگویج ماڈلز کے پیچھے کام کر رہی ہے) میں زبردست امکانات موجود ہیں: مثلاً اسے ترجمے کو خود کار بنانے، نئی دوائیں تیار کرنے، اور مختلف اشیاء کی پیداوار کو کہیں زیادہ مؤثر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن سرمایہ تو ان لارج لینگویج ماڈلز پر لگایا جا رہا ہے جو صرف توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا ان ماڈلز کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے یا نہیں، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ان کی حقیقی معاشی قدر کیا ہے؟
یہ سوالات پہلے سے موجود تھے۔ ڈیپ سیک اور دیگر کمپنیوں نے انہیں اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ سامنے لایا ہے۔ یہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آخر کیا نتائج دے گی، اور کیا یہ واقعی ضروری بھی ہے؟
اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اپنی ٹیکنالوجیکل برتری پہلے ہی کھو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں، یہ بھی ممکن ہے کہ اوپن اے آئی، جس پر ٹرمپ نے کھلے عام اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں، اور بے تحاشا سرمایہ لگایا ہے، دیوالیہ ہو جائے۔
ڈیپ سیک پہلے ہی ایپل اور گوگل ایپ سٹورز پر سب سے مقبول مفت ایپ بن چکی ہے، اور اس نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ کاروباروں کو بہت سستی ’پرو‘ سبسکرپشنز دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تو پھر کیا چیز ہے جو بہت بڑی تعداد میں لوگوں اور کمپنیوں کو چیٹ جی پی ٹی کو ڈیلیٹ کر کے ڈیپ سیک کو ترجیح دینے سے روک سکتی ہے؟
شاید ٹرمپ پہلے سے ہی ڈیپ سیک کی ایپ پر پابندی لگانے کا سوچ رہا ہو گا۔ لیکن بائیڈن کا CHIPS ایکٹ 2022ء بالکل اس صورتحال کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جو چین کے لیے اے آئی میں استعمال ہونے والی اعلیٰ معیار کی چِپس کی فروخت پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چینی کمپنیوں کو سستی اور کم چپس کے ذریعے نئے کامیاب تجربے کرنے پر مجبور کر کے یہ حکمت عملی بہت بڑا الٹا اثر دیکھا چکی ہے۔ یوں، نہ صرف یہ کہ یہ حکمت عملی چین کی جدید اے آئی کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ اس نے چین کو سستی اور زیادہ مؤثر اے آئی کی صورت میں ایک فائدہ دے دیا۔
یہ ڈویلپمنٹ سب سے بڑھ کر یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ امریکہ کے لیے چینی سرمایہ داری کو الگ تھلگ کرنا اور اسے پیچھے روکنا ممکن نہیں ہے۔ چینی سرمایہ داری کے وسائل بہت زیادہ ہیں۔ عالمی معیشت بہت مربوط ہے، اور جس ٹیکنالوجی پر یہ مبنی ہے وہ بہت پیچیدہ اور ایک دوسرے پر منحصر ہے، یہ علم بہت سے افراد کے ذریعے تیار اور شیئر کیا جاتا ہے، جس سے چین کی معیشت کو الگ تھلگ اور کمزور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں، ڈیپ سیک نے اپنی ایپ کی ٹیکنالوجی کو اوپن سورس کر دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب کوئی بھی اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
یہ صورتحال آج کے دور میں سرمایہ داری کے زبردست ضیاع کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ کھربوں ڈالرز ان اے آئی منصوبوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں، اور جیسا کہ ڈیپ سیک نے ثابت کیا ہے کہ ممکنہ طور پر ان منصوبوں کے نتائج کے حصول کے لیے یہ سب اتنا ضروری نہ ہو۔ شاید یہ مقاصد (یعنی سپر انٹیلیجنٹ اے آئی) نہ تو حقیقت میں قابل حصول ہو سکتے ہیں، اور شاید نہ ہی پسندیدہ ہو سکتے ہیں۔ ان ڈیٹا سینٹرز میں جو توانائی صرف ہو رہی ہے، وہ توانائی کی پائیداری کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حقیقت میں، ہمیں اے آئی سیلزمین اور دھوکہ دہی کرنے والوں کا ایک گروہ نظر آ رہا ہے جو اپنے مفاد کے لیے ایک بلبلے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
چینی اے آئی کی تیز تر ترقی ٹرمپ کی تحفظ پسندی (Protectionaism) کے حوالے سے بھی ایک بُرا شگون ہے کہ یہ امریکہ اور پوری دنیا دونوں کے لیے کتنی مشکلات، غیر پیداواریت اور بحرانوں سے بھرپور ہو گی۔ جلد یا بدیر، اس (ٹرمپ) کی مقبولیت ختم ہو جائے گی۔ بہت سے ناراض امریکی یہ سمجھ جائیں گے کہ ٹرمپ ’امریکہ کو دوبارہ عظیم‘ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی بنائے گا۔