|تحریر: صبغت وائیں|
مجرم ہمیشہ قانون سے ایک قدم آگے کی سوچتا ہے۔ کیوں کہ اس کے سامنے پچھلا سارا ریکارڈ ہوتا ہے۔
باہر کے ملکوں میں ٹیکس بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو وکیل مشورہ دے کر ٹرسٹ بنوا دیتے ہیں۔ یا ’’خیرات‘‘ کے ادارے بنوا کر ٹیکس بچایا جاتا ہے۔این جی اوز والوں نے اس طریقے کو یورپ امریکہ والوں سے سیکھا۔کہ کس طرح سے ’’امداد‘‘ اور خیرات کے پیسے کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے ہڑپ کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کے آپ کا ضمیر بھی ملامت نہ کرے۔
دوہزار پانچ کے زلزلے میں ہم نے دیکھا کہ یورپ امریکہ سے بھی بہت امداد پاکستان آئی۔ اس وقت پاکستان پر فوج کی حکومت تھی۔ اس وقت کے صدر نے ہر طریقے سے امداد کی اپیل کی لیکن پاکستان کے لوگوں نے اس کے فنڈ میں روپیہ بھی جمع نہیں کروایا اور خود جا کر مدد کی۔اس وقت کے اخبار دیکھیں تو بڑے بڑے سول اور فوجی افسر ان بھی امدادی سامان کو غائب کرتے سامنے آئے۔
لیکن ہمارا پالا اس سے بھی بڑے معاملوں سے پڑتا رہا۔
ہم نے دیکھا کہ یورپ امریکہ سے جو امداد آتی اس میں سامان ہوتا جو کہ وہ اپنی من پسند کمپنیوں سے خرید کر بھیج دیتے۔ مثلاً دس کروڑ دینا ہے، تو دس کروڑ کا سامان خریدا اور دے دیا۔
جیسے جب ہم کھلاڑی ہوا کرتے تھے تو ہمیں کیمپوں میں جو ڈیلی ملنی ہوتی تھی وہ ہم کو کھانا کھلا دیا جاتا کہ تم لوگ پیسے ضائع کر دو گے۔ یا پھر ’’مناسب قوت بخش‘‘‘ اجزاء پر مشتمل خوراک نہیں کھاؤ گے۔ اور ہمیں دودھ کا ایک ایک پیالہ پلا دیا جاتا۔ بندہ ان سے پوچھتا کہ ہم جو اتنے اچھے کھلاڑی بنے تھے وہ ان کی خوراک کھا کر بنے تھے؟ یا ان کے پاس کوئی خاص دودھ تھا جو چند دنوں میں ہماری کایا کلپ کر دیتا۔
اصل مسئلہ ہمیں ملنے والے پیسے گول کرنے کا تھا۔
جب میں پہلی بار پنجاب جمناسٹکس ٹیم کا مینیجر بنا تو مجھے سب کھلاڑیوں کے پیسے دے دیے گئے۔ اور پوچھنے پر بتا بھی دیا گیا، کہ تمہاری صوابدید پر ہے۔جو چاہو ان کو کھلا دو۔ میں بھلا کب ان چکروں میں پڑتا۔ آگے لمبی کہانیاں ہیں۔مجھے بہت سوں نے سمجھایا بھی کہ اب تم آفیشل ہو۔۔۔ کھلاڑی نہیں۔۔۔ سنبھل جاؤ۔ دوسرے صوبوں والوں نے بھی کہا کہ تم کو دیکھ کر ہمارے بچے بھی خراب ہوتے ہیں، کہ ہمیں بھی پیسے ہی دیں۔تو اس طرح سے ان یورپی اور امریکی امداد دینے والے اپنے خاص بندوں کو نوازتے ہیں، یا ان لوگوں کا مال بکواتے ہیں جو کمیشن اور کک بیک دے یا کوئی اور راستے۔
ہماری این جی اوز نے بھی ان سے یہی سیکھا ہے۔
یہ کسی مسئلے کے لیے امداد یا چیریٹی یا فنڈنگ منگواتے ہیں۔ پھر اس پر کاغذی کاروائی کرتے ہیں۔ تصویریں وغیرہ کھنچواتے ہیں اور بات ختم۔اصل چیز ان کی تنخواہ ہوتی ہے جو کہ وہ نہایت نیک نیتی سے اپنی نیک نیتی کو ناپ تول کر ’’خود مقرر کرتے‘‘ ہیں۔
میں دوستوں کے نام نہیں لوں گا۔ لیکن جس وقت مجھے این جی او بنانے کی آفر کی گئی تھی اس وقت این جی او کا نام بھی لوگوں نے نہیں سنا ہوتا تھا۔ یہ 1988ء یا شاید 1989ء کی بات ہے۔ خیر ہمیں ہمارے استاد نے بتایا کہ یہ لعنتیوں کا کام ہے۔ تو ہم اس سے دور رہے۔ لیکن جنہوں نے بنائیں۔ وہ ٹوٹے گھروں سے اچھے گھروں میں اور پھر کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے اور پھر ایک پاؤں پاکستان اور دوسرا سویڈن، ناروے و دیگر۔۔۔
کیسے؟
بہت سے طریقے ہوں گے۔ لیکن ان میں سے ایک نہایت سادہ سا طریقہ تھا۔وہ یہ کہ ایک این جی او بنائی اور اس میں اپنی یا اپنی بیوی کی، بھائی کی، بھتیجے کی، بیٹے یا بیٹی کی یا بہن کی جاب لگائی اور اس کی یا پھر ان سب کی تنخواہ مقرر کر دی۔ اور امداد منگواتے جاؤ۔ تنخواہ لیتے جاؤ۔ تب ہم حیران ہوا کرتے تھے کہ جہاں گریڈ سترہ کے افسر کی تنخواہ چھ سات ہزار ہوا کرتی تھی، این جی او والے چالیس ہزار، پچاس ہزار، اسی ہزار تنخواہ لیا کرتے تھے۔
ہم حیران یہ تھے کہ ہم جاب کے لیے جائیں تو یہ ہزار، دو ہزار، تین ہزار کی بات کرتے ہیں۔
خیر دیر لگی لیکن ہماری حیرانی ختم ہوئی۔
میں سوچ رہا تھا کہ اب ڈیم فنڈ بنے گا، اس پر افسر لگیں گے، پورے ملازمین کا ایک شجرہ ہو گا جو اس پر کام کرے گا۔ ان کو لمبی تنخواہیں بھی دی جائیں گی۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو بعض اوقات دوسری ملازمتوں ہی سے بلوایا جاتا ہے کہ یہ پیشہ ور لوگ ہیں اچھا کام کریں گے۔ اور پھر ان کو دو، دو، تین، تین جگہ ’’خدمت‘‘ سرانجام دینے پر تنخواہوں کا حقدار مانا جاتا ہے بلکہ یہ لوگ تا دمِ مرگ اور بیگم کے لئے بعد از مرگ پنشن کا بندوبست بھی کر جاتے ہیں اس کے مرنے تک۔۔۔ اور جتنے عہدوں پر کام کیا ہوتا ہے ان سب عہدوں کی پنشنیں۔ جبکہ ملک میں آبادی کا کثیر حصہ بیروزگار ہے۔ ان کو نہ صرف بے روزگار رکھا گیا ہے بلکہ بے روزگار رکھنے کے ’’خاطر خواہ‘‘ انتظامات بھی کر رکھے گئے ہیں۔
ابھی کل ایک دوست جو امریکہ سے پڑھ کر آیا تھا اس سے بات ہوئی کہ اس کی عمرنوکری کے لیے آخری دور میں ہے ورنہ اس کو باقی زندگی نوکری نہیں مل سکے گی۔ اس نے امریکہ کے کسی دوست سے بات کی تو وہ حیران ہی رہ گیا کہ پاکستان میں نوکری کے لیے ’’ایج ڈسکریمی نیشن‘‘ موجود ہے۔یعنی ایک خاص عمر تک اگر آپ کو نوکری نہیں ملی تو آپ کو نوکری کی ضرورت بھی نہیں اور آپ کا حق بھی ختم ہو گیا ہے۔ اور اس بدترین استحصال کو ہم جائز مان کر خاموش رہتے ہیں۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ کم از کم اس عمر کی حدود کے خاتمے کی جدوجہد کا آغاز تو کرنا چاہیے۔ ایک ایک بندہ کئی کئی نوکریوں پر رہتا ہے۔ پھر ایک سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ ایک سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔ پھر بین لگا دیا جاتا ہے جو دس دس سال جاری رہتا ہے۔
جدوجہد میں یہ مطالبہ رکھ کے چلنا ہو گا کہ روزگار سب کو دو۔ نہیں دے سکتے تو بے روزگاری الاؤنس دو۔
دوسری بات یہ کہ تنخواہوں میں ڈسکریمی نیشن یا تفریق اتنی زیادہ ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ ایک ایک جج کی تنخواہ پندرہ پندرہ لاکھ ہے کہ اس طرح ان کو ’’انصاف‘‘ کرنے میں سہولت ہو گی۔ اور سارا دن محنت کرنے والے کی تنخواہ چودہ ہزار۔۔۔ وہ بھی کہنے کو۔
لیکن ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے کل ایک دوست کی فیس بک پر پوسٹ پڑھی جو نیویارک میں رہتا ہے۔۔۔ کہہ رہا تھا :’’میں ایک ہزارڈالر ڈیم فنڈ میں تب دوں گا جب شوکت خانم میموریم کینسر ٹرسٹ ہسپتال کے ڈائریکٹر جو عمران کی بہنیں اور خاندان سے دیگر لوگ ہیں وہ شوکت خانم سے لینے والی کروڑوں روپے کی تنخواہیں ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں گے اور آئندہ سے وہ تنخواہیں غریبوں کے علاج کیلئے خرچ کی جائیں گی۔‘‘
میرے ذہن میں ساری دھندلی تصویر واضح ہو گئی کہ کس طرح سے خیرات کو حلال کر کے کھایا جاتا ہے۔اور یہ کہ یہاں جدوجہد کی ضرورت تو ہے، لیکن ان حکمرانوں سے کسی بھلائی کی توقع کرنا حماقت ہی ہو گی۔ جو سامنے آ کر لوٹنے کی بجائے رشتے داروں کی مدد سے چوریاں کرتے ہیں، اور بھیک مانگتے ہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ ’’فلن تھراپی (خیرات) سب سے بڑا بزنس ہے‘‘ تب سمجھ نہیں آئی تھی۔ اب آ چکی ہے۔
ہمیں پاکستان کو اس معمے سے نکالنے کا ایک ہی حل نظر آتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب۔
جس میں ہر پاکستانی کو روز گار ملے۔ بے روزگار کو الاؤنس ملے۔ جب تنخواہوں میں اتنا فرق نہیں رہے گا تو اب کی نسبت سینکڑوں گنا زیادہ لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ اور ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔ تب ہمیں بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں شرم آتی ہے جب ہمارا وزیر اعظم بھیک مانگتا ہے۔لیکن اس کا بھی قصور نہیں اس کے اپنے بھرے ہوئے الیکشن فارمز کے مطابق اس کا پیشہ ہی فلن تھراپی یا خیرات ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خیرات کرنا تو کسی بھی طور پیشہ ہو نہیں سکتا۔