تحریر: | آدم پال |
ہر آنے والا دن زخموں کو کریدتا ہے۔ اور جاتے جاتے نئے زخم دیتا ہے۔ زندگی کی اذیتیں کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ہر روز تکلیفیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ محنت کشوں کی زندگیوں سے خوشیاں روٹھ چکی ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران طبقات کے لیے دکھ، تکلیف اور غم کا تصور بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سماج ایک ایسا دہکتا ہوا جہنم بن چکا ہے جس میں محنت کش عوام کی وسیع اکثریت ایک مسلسل عذاب کا شکار ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے لے کر ، مہنگائی ،لاعلاجی اور ناخواندگی تک ہر مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اوریہاں رہنے والے ہر فرد کو ان مسائل کے ناقابل حل ہونے کا احساس زور پکڑتا جا رہا ہے۔ یقیناًیہ سماج اس کیفیت میں پہنچ چکا ہے جہاں چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی موجودہ نظام میں ناقابل حل ہے۔ اگر اس کو حل کرنے کا کوئی نام نہاد ادھورا اقدام اٹھایا بھی جائے تو وہ پہلے سے زیادہ مسائل کوجنم دیتا ہے۔
اس صورتحال میں یہاں سیاست کی بیہودگی اور غلاظت کا کاروبار جاری ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں مسلسل لوٹ مار میں سرگرم ہیں اور عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتی ہیں۔ہر سیاسی پارٹی میں موجود افراد کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کم سے کم وقت میں بنانا ہے۔ اسی کے لیے عہدوں اور وزارتوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے اور اسی کے لیے کبھی ایک اور کبھی دوسرے لیڈر کے تلوے چاٹے جاتے ہیں۔ اسی عمل میں اپنے عوام دشمن اور بد عنوان لیڈر کو دنیا کا معصوم ترین شخص اور عوام کا غمخوار ثابت کرنے کا ناٹک بھی خوب کیا جاتا ہے۔ جس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس پرفارمنس کے بعد لیڈر عوام کے گوشت سے کاٹے کچھ مزید ٹکڑے ان کی جانب اچھال دے گا۔
حال ہی میں پانامہ لیکس کے ایشو پر اس بازار میں کافی شور بلند ہوا ہے۔ نواز شریف کی کرپشن کے کچھ راز افشا ہوئے ہیں۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ نواز شریف اور اس کا پورا خاندان اس ملک میں کرپشن کے ریکارڈ مرتب کر چکا ہے۔ میٹرو بس، اورنج ٹرین سمیت تمام ’’ترقیاتی‘‘ کاموں کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اس میں سے بھاری کمیشن کھانا ہے۔ موٹر وے جیسے بڑے منصوبے کا بھی مقصد یہی ہے کہ بڑے ٹھیکے میں سے بڑا مال ملے گا۔ اسی طرح ایک لمبے عرصے سے برسرِ اقتدار رہنے والے یہ افراد تو اب کروڑوں اور اربوں روپے کی دیہاڑی لگانا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں اور اس ملک کے محنت کش عوام کو اپنی رعایا۔ ان کی نجی فیکٹریوں میں محنت کشوں کو اجرتیں نہیں دی جاتیں اور نہ ہی کسی لیبر قانون پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ الٹا اگر کوئی مزدور اپنا حق مانگ لے تو اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔اس وقت جتنے بھی نام نہاد ترقیاتی کام کروائے جا رہے ہیں ان میں بھی کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کو اجرتیں نہیں دی جاتیں اور نہ ہی کوئی بنیادی سہولت مہیا ہے۔ ان خونخوار درندوں کی لوٹ مار کی ایک چھوٹی سی تفصیل سامنے آئی ہے ۔جبکہ حقیقی حجم اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کرپشن پر سیاست کرنے والے اور اپوزیشن کا ناٹک کرنے والے کون ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ زرداری کو دو دہائیاں قبل ہی ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا خطاب ملا تھا جس کو مٹانے کی اس نے کبھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ اس نے اپنی پرسینٹیج بڑھائی۔ وفاقی حکومت ہو یا سندھ کی صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کے لیڈر بجلی چوری سے لے کر اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں اور دن رات اسی تگ و دو میں ہیں کہ کسی طرح اس لوٹ مار میں دوسری پارٹیوں سے سبقت لے جائیں۔ کراچی میں پانی کے ٹینکروں کی بلیک میں فروخت ہو یا جعلی دوائیاں ہر قسم کی کرپشن میں یہ لوگ سرِ فہرست رہے ہیں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں انہوں نے عوام کو بخشا ہو بلکہ کم سے کم وقت میں زیادہ لوٹ مار کے نسخے دریافت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی بھی موقع کی تلاش میں تھی اور اسے خیبر پختونخواہ میں یہ بھرپور انداز میں فراہم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جماعتِ اسلامی کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا نصیب ہوا۔ اس صوبے کے محنت کش عوام کی چمڑی ادھیڑنے اور لوٹ مار کرنے میں انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔تبدیلی تو کیا آتی جو تھوڑی بہت سانسیں عوام کی باقی رہ گئی تھیں وہ بھی گروی رکھنا پڑ گئیں۔ صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں کے بجٹ میں کٹوتیاں کی گئیں اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سکیورٹی کے نام پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کی گئی اور منافع خوری کے نظام کو تقویت ملی۔بلوچستان میں نام نہاد بائیں بازو کے قوم پرست لیڈروں نے ریاستی آشیر باد سے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جی بھر کے لوٹا۔
اس ساری صورتحال میں فوجی جرنیل ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے میں مصروف ہیں اور غریب کسانوں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں کو تیزی سے فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سابقہ آرمی چیف جنرل کیانی کی لوٹ مار کے کچھ قصے تو منظر پر آئے تھے لیکن بہت سے دیگر جرنیلوں اور حاضر سروس افراد کی لوٹ مار مسلسل چھپائی جاتی ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج کا اس وقت ایک اہم ترین مقصد پاکستان کے امیر افراد کے لیے مناسب رہائش فراہم کرنا ہے۔ جس کے لیے وہ دن رات تگ و دو کر رہے ہیں۔ان امیر ترین افراد میں چونکہ بہت سے جرنیل خود بھی شامل ہیں اس لیے وہ اپنی کاوشوں کے بدلے انہی علاقوں میں پلاٹ بھی لیتے ہیں اور اپنی محنت کا’’ صلہ ‘‘بھی۔ غرض اس حکمران طبقے کے تمام افراد محنت کش عوام کو ہر جانب سے نوچ رہے ہیں اور یہ لذت اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جن افراد پر یہ سب قیامت گزر رہی ہے وہ یہاں کے حکمران طبقے کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیا وہ ان ظالموں میں سے کسی ایک حصے سے کسی بہتری کی امید رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں محنت کشوں کے شعور میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں یا وہ ان سیاسی پارٹیوں کی پرستش اسی طرح کرتے ہیں جیسے دو دہائیاں قبل کرتے تھے۔
اگر ٹی وی پر ہونے والے تبصروں اور اخباروں کے کالم اور تجزیے پڑھیں تو ایسا لگے گا کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔ اس میڈیا پر جو سماج دکھایا جاتا ہے وہ حقیقت سے مسلسل دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس تصویر کے مطابق تحریکِ انصاف نواز شریف کی کرپشن کو ثابت کرنا چاہتی ہے تاکہ عوام اس کے کردار کو پہچان سکیں لیکن ان کو قانونی، پارلیمانی اور دیگر پیچیدگیوں کی مشکلا ت کا سامنا ہے۔ جبکہ نواز شریف اور زرداری کے پاس بھی اپنے دفاع کے لیے کچھ ’’دلائل‘‘ ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک ان پر کوئی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔ اسی طرح کراچی میں رینجرز امن لانا چاہتے ہیں لیکن سندھ کی حکومت اس کے رستے میں رکاوٹ ہے۔ اسی طرح ملک دشمن شرپسند عناصر پاکستان میں لوگوں کا سکون تباہ کرنے پر تلے ہیں جس کے خلاف فوج بر سرپیکار ہے۔اسی قسم کے بھونڈے جھوٹ، مکاری، عیاری اور لوگوں کو بیوقوف سمجھ کر بنائی گئی مصنوعی کہانیاں عوام کے ذہنوں میں انڈیلنے کی مسلسل کوشش کی جاتی ہے۔ تجزیوں کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ ان تمام پارٹیوں کا اپنا اپنا بڑا ووٹ بینک ہے جو کہ کئی دفعہ الیکشنوں میں ثابت ہو چکا ہے اور ان لیڈروں کی بڑی حمایت موجود ہے۔
لیکن زمین پر موجود حقیقتیں نہ صرف بہت مختلف ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر تبدیل بھی ہو چکی ہیں۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں محنت کش عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں اور جو حمایت ماضی میں ان پارٹیوں کے پاس تھی وہ آج تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ نواز شریف جسے ضیا ء الباطل کے دور میں پروان چڑھایا گیا اور اسے ایک رجعتی معروض میں پنجاب کے درمیانے طبقے بالخصوص تاجروں اور چھوٹے سرمایہ داروں میں مقبولیت ملی آج وہ بنیادیں کھو رہا ہے۔ موجودہ اقتدار ملنے کی وجہ اس کی بہت بڑی حمایت نہیں تھی بلکہ پیپلز پارٹی کے لوٹ مار کے پانچ سالہ دور کے بعد حکمران طبقے اور سامراجی قوتوں کے پاس یہی متبادل تھا۔ پاکستان کی بد عنوانی سے اٹی ہوئی ریاست سے شفاف انتخابات کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ اس کے ساتھ کسی تحریک کی عدم موجودگی میں اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے جس کے لیے ریاستی مشینری انتہائی تربیت یافتہ اور ماہر افراد پر مشتمل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں سعودی عرب کے سامراجی دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان ظالم شریف برادران کو جو اقتدار ملا اسے عوام کی اکثریت کی ووٹوں کی مرہون منت کہنا ایک بہت بڑا دھوکا ہو گا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی نے زرداری کی قیادت میں جو لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور نجکاری کے جو عذاب عوام پر مسلط کیے اس کے بعد محنت کش طبقے کی اکثریت پر اس قیادت کی حقیقت واضح ہو چکی ہے۔بینظیر کی شخصیت میں اس ملک کے مزدوروں اور کسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت اپنا نجات دہندہ تلاش کرتی تھی اور بہتر مستقبل کی امید رکھتی تھی لیکن زرداری اور بلاول کے لیے کوئی ایسی امید موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی کو محنت کشوں کی روایت بھی اسی لیے قرار دیا جاتا تھا کیونکہ دوسری تمام پارٹیوں کے مقابلے میں محنت کش اسے اپنی پارٹی سمجھتے تھے اور اپنے دکھوں کا حل اسی پلیٹ فارم پر آ کر تلاش کرتے تھے۔ قیادت کے مسلسل دھوکوں ، غداریوں اور مزدور دشمن اقدامات کے باوجود امید کسی کچے دھاگے سے ہی سہی بندھی ہوئی تھی۔ لیکن آج صورتحال انتہائی مختلف ہے اور محنت کش طبقے کی اس پارٹی کے لیے حمایت میں بڑے پیمانے پر کمی آ چکی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ زرداری کی آٹھ سالہ قیادت کے دوران پیپلز پارٹی میں ایک معیاری تبدیلی آ چکی ہے۔ اگر کوئی شخص ماضی میں ہی رہنا چاہے اور تلخ حقیقتوں سے نظریں چرا کر کبوتر کی طر ح آنکھیں بند کر لے تو اس سے موجودہ صورتحال اس کے خیالات کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ پیپلز پارٹی آج وہ نہیں جو آٹھ سال قبل تھی اور نہ ہی بلاول کو بینظیر والی پارٹی منتقل کی جا سکتی ہے۔ اس کو زرداری کی بچی کھچی پارٹی دی جا رہی ہے جس سے اب وہ اتنی وصولی نہیں کر سکتا جتنی اس کے باپ نے کی تھی۔ اس لیے بلاول کے لیے زیادہ قیمتی اس کے بیرون ملک میں اثاثے ہیں جن پر وہ زیادہ اعتماد کر سکتا ہے اور انہیں محفوظ رکھنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
عمران خان کو بھی اس وقت سماج کے کسی بڑے حصے کی حمایت حاصل نہیں۔ صرف میڈیا اور ریاستی پشت پناہی سے اس کی مقبولیت کا بلبلہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی چھوٹے سے واقعے سے پھر پھٹ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم سمیت دیگر تمام رجعتی پارٹیوں کو بھی جو حمایت دو دہائیاں قبل ایک رجعتی اور انقلابی تحریک کی پسپائی کے دور میں ملی تھی اب سرک چکی ہے جو ان میں جاری بڑے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے واضح ہے۔
اس دوران ریاست اور سامراجی قوتوں نے نئی پارٹیاں بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صرف پولیس، فوج اور دہشت گردی سے عوام کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ایسے بکاؤ سیاسی لیڈروں کی بھی اشد ضرورت ہے جن پر عوام کے کسی حصے کا اعتماد بھی ہو۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے نام پر جاری سرکس اور انتخابات کے ناٹک کو بھی عوام کی کھال کھینچنے کے لیے جاری رکھنا ضروری ہے۔ لیکن ابھی تک سیاسی افق پر کوئی بھی ایسی قیادت نہیں جس پر محنت کش عوام کسی چھوٹے سے مسئلے پر بھی اعتماد کرتے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام پارٹیاں جن میں نام نہاد بائیں بازو سے لے کر انتہائی دائیں بازو تک کہ اسلامی بنیاد پرست شامل ہیں وہ سب اس نظام کی مکمل اطاعت قبول کر چکے ہیں ۔ وہ نظام جو خود ترقی یافتہ ممالک میں ٹوٹ رہا ہے اور اس کیخلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں اس نظام کو یہاں پسماندہ ملک میں کیسے بچایا جا سکتا ہے یا اس کے اداروں پر عوام کا اعتماد کیسے بحال رکھا جا سکتا ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی میں آئین کی پاسداری، شفاف انتخابات اور کرپشن کے خاتمے جیسے نعروں کا بھوکے پیٹ اور گرمی میں بغیر بجلی کے بیٹھے لوگ صرف تمسخر ہی اڑا سکتے ہیں۔
لیکن غربت سے بدحال لوگ صرف اس سب کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش نہیں بلکہ ہر جانب کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت اور نفرت کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ پی آئی اے کی حالیہ شاندار ہڑتال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جن محنت کشوں کو مزدوروں کی صف سے ہی نکال دیا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ وہ کبھی مزاحمت نہیں کر سکتے انہوں نے اس ملک کی مزدورتحریک کی تاریخ کا ایک سنہرا باب رقم کیا۔ آٹھ دن تک پورے ملک سے پی آئی اے کی کوئی پرواز فضا میں بلند نہیں ہوسکی جو یہاں پہلے کبھی نہیں ہوا اور اس طرح حکمرانوں کو باور کرایا کہ یہ ادارہ محنت کش چلاتے ہیں۔ اسی طرح مایوس اور بد گمان دانشوروں کو بھی جھنجوڑا کہ محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے دفاع کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران دیگر اداروں میں جاری نجکاری کیخلاف لڑائیوں سے محنت کشوں کی حمایت آگے کی جانب ایک بہت بڑ ا قدم تھا۔ بد عنوان ٹریڈ یونین لیڈروں کے باعث اس ہڑتال کو پھیلایا نہیں جا سکا لیکن یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اوراس سے بڑے واقعات سماج کی کوکھ میں پنپ رہے ہیں۔اسی طرح تعلیم، صحت، واپڈا اور دیگر سرکاری شعبوں کے لاکھوں ملازمین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پر تشدد مظاہرے معمول بن چکے ہیں جبکہ صنعتی اداروں میں تنخواہوں کے حصول سے لے کر یونین بنانے تک اور کسانوں کے مطالبات سمیت چھوٹیبڑی لڑائیاں ہزاروں کی تعداد میں اس ملک میں اب بھی جاری ہیں، گو کہ میڈیا میں تصویر کا یہ رخ کبھی پیش نہیں کیا جاتا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشی محاذ پر جاری ان لڑائیوں کو یکجا کرنے والی اور انہیں سیاسی محاذ کی جانب لے جانے والی کوئی قوت موجود نہیں۔
اس صورتحال میں واضح ہے کہ اس نظام میں کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی موجودہ سیاسی افق پر موجود کوئی بھی قوت ان مسائل کا ادراک رکھتی ہے۔ ایسے میں اس سیاست کی نئی صف بندی ہونے کے امکانات روشن ہیں اور سب سے بڑھ کر نئی سیاسی قوتوں کا ابھرنا نا گزیر ہے۔ نہ صرف بائیں جانب بلکہ دائیں جانب بھی نئی پارٹیوں کے ابھرنے کے امکانات موجود ہے۔ کیونکہ جب تک طبقاتی سماج موجود ہے اس وقت تک دائیں اور بائیں بازو کی متحارب سیاسی قوتوں کا وجود بھی قائم رہے گا۔ اور اسی کے ساتھ محنت کش عوام اپنے مسائل کو سیاسی جدوجہد میں لا کر حل کرنے کا عمل جاری رکھیں گے ۔ سماج کی تیزی سے ابتر ہوتی کیفیت وسیع تر پرتوں کو سیاست کی جانب کھینچ کر لائے گی جس میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہو گا۔ یہ عمل ناگزیر طور پر نئی سیاسی قوتوں کو جنم دے گا اور انہیں پروان چڑھائے گا۔ ایسا اس ملک میں یقیناًپہلی دفعہ نہیں ہو گا۔ پہلے بھی مختلف معروضی کیفیات میں نئی پارٹیاں بنی ہیں اور انہیں سماج کے مختلف حصوں کی حمایت ملی ہے لیکن اقتدار میں آکر ان کی حقیقت بھی عیاں ہو چکی ہے ۔یہ تصور کہ صرف ریاستی پشت پناہی اور دولت سے سیاسی پارٹی بنائی جا سکتی ہے انتہائی بودا اور غیر سائنسی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی بنیاد ان کا پروگرام اور نظریات ہوتے ہیں جو سماج کے کسی مخصوص حصے کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے اس کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کا ایک ہی پروگرام اور نظریہ ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر عملدرآمد اور سامراج کی غلامی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں محنت کش ظلم اور استحصال کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ محنت کش سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور یہی سیاسی قیادتیں ان کا مقدر ہیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ اگر ایک سروے کے مطابق آج صرف بارہ فیصد لوگ سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لوٹ مار کی سیاست بے نقاب ہو چکی ہے اور محنت کش عوام کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن انہیں اپنے مسائل حل کروانے اور روٹی ، کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم اور علاج کے حصول میں بہت گہری دلچسپی ہے جس کے لیے وہ خود سیاست میں حصہ لیں گے اور اپنے ہاتھوں سے نہیں اپنے پیروں سے ووٹ ڈالیں گے۔ وہ اس تمام مظالم کیخلاف علمِ بغاوت بلند کریں گے اور اس لوٹ مار کا حساب لیں گے۔ اس حکمران طبقے کا احتساب محنت کشوں کی عدالتوں میں ہی ہو گا جو چوکوں اور چوراہوں میں لگا کر سزائیں سنائی جائیں گی۔ وہ وقت دور نہیں جب محنت کش اپنے پر ہونے والے تمام جبر کا انتقام لیں گے اور اس نظام کو چیلنج کریں گے۔ ایسے وقت میں اگر مارکسی نظریات سے لیس انقلابی سوشلزم کے نظریات پر کاربند ایک منظم قوت موجود ہوتی ہے تو اس نظام کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے ظلم ، ناانصافی اور طبقات سے پاک ایک نئے سماج کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ یقیناًایک سوشلسٹ انقلاب ہی محنت کشوں کو اس آشوب سے نجات دلائے گا۔