|تحریر: آفتاب اشرف|
”سیاست معیشت کا مجتمع شدہ اظہار ہوتی ہے“ (لینن)
”جنگ سیاست کے بطن میں پرورش پاتی ہے“ (وان کلاز ویٹز)
انقلاب روس کے لیڈر اور محنت کش طبقے کے عظیم استاد لینن اور ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار سے متاثر مشہور پروشین فوجی نظریہ دان کلاز ویٹز کے ان اقوال کو اگر جوڑ کر دیکھا جائے تو ہمیں معیشت، سیاست اور جنگ (یا خارجی پالیسی) یا دوسرے الفاظ میں داخلی اور خارجی پالیسیوں کے درمیان تعلق کا نہایت خوبصورت اظہار ملتا ہے۔ مگر بورژوا دانشوروں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ریاست، سامراجی قوت وغیرہ کی خارجہ پالیسی کو اس کی داخلی سیاسی و معاشی صورتحال سے بالکل کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ عالمی تعلقات کی موجودہ انتشار زدگی اور جیو اسٹریٹیجک اتھل پتھل کو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت اور اس سے منسلک سیاست کے گہرے بحران سے بالکل الگ تھلگ کوئی عمل سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس مارکس وادی اس تمام تر مظہر کو ایک زندہ متحرک کلیت کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں عالمی تعلقات اور جیو اسٹریٹیجک صورتحال میں تغیر و تبدل کے تمام قلابے عالمی و ملکی سیاست کی وساطت سے حتمی تجزئیے میں ایک فیصلہ کن انداز میں معیشت کے ساتھ ہی جا ملتے ہیں۔ لیکن یہاں ہمیں خام قسم کی معاشی تخفیف پسندی (Economic Reductionism) سے بھی بچنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ واضح رہنا چاہیے کہ سیاست، خارجہ پالیسی، عالمی تعلقات وغیرہ جیسے تمام عوامل صرف اور صرف حتمی تجزیئے میں ہی معاشی بنیاد پر منحصر ہوتے ہیں نہ کہ پہلے اور فوری تجزیئے میں۔ مزید برآں گو کہ معیشت حتمی تجزیئے میں ایک فیصلہ کن عنصر ہے لیکن معاشی بنیاد اور داخلی و خارجی سیاست کے مابین کوئی یکطرفہ میکانکی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک دو طرفہ جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے جس میں دونوں عوامل ایک دوسرے پر بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
اب اگر اس ساری بحث کے تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی سامراج کے بڑھتے ضعف، مغربی یورپی سامراجیوں کے عالمی جیو اسٹریٹیجک صورتحال میں گھٹتے ہوئے کردار، ایک عالمی سامراجی قوت کے طور پر چین کا اظہار، بڑی علاقائی سامراجی قوتوں کی اپنے علاقائی اسٹریٹیجک تھیٹرز، جیسے کہ روس (وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں) اور انڈیا (جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں) میں بالادستی کی بھرپور کوششیں، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال اور وہاں پر مختلف عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں کی کھینچا تانی، تائیوان، مشرق بعید اور مغربی بحر الکاہل میں اثرو رسوخ کے لئے امریکہ اور چین کی اسٹریٹیجک چپقلش، افریقہ میں امریکی حمایت یافتہ یورپی سامراجیوں اور روس چین بلاک کے مابین تیز ہوتے تضادات، ماضی کے عالمی و علاقائی تعلقات میں تیز تبدیلیاں اور نئے پاور بلاکس کی تشکیل، یہ سب حتمی تجزئیے میں 2008ء سے شروع ہونے اور گزرتے وقت کیساتھ شدید تر ہوتے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے گہرے نامیاتی بحران کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی سامراج کی مکمل عالمی بالادستی پر مبنی یونی پولر ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے جبکہ اس کی جگہ شدید عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں ابھرنے والی نئی عالمی جیو اسٹریٹیجک صورتحال اتنی پرا نتشار ہے کہ اس کا موازنہ کسی بھی صورت سرد جنگ کے بائی پولر اور 1990ء کی دہائی کے یونی پولر ورلڈ آرڈر کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔سرد جنگ کے دوران دنیا واضح طور پر سوویت یونین اور امریکہ کے گرد تشکیل پانے والے دو پاور بلاکس میں بٹی ہوئی تھی جن کی بنیاد دو بالکل مختلف معاشی نظاموں (سرمایہ داری اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت) پر تھی۔ ان دونوں بلاکس کے ممبران کی نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ فوجی و جیو اسٹریٹیجک مخاصمت تھی بلکہ ان کے باہمی معاشی و تجارتی تعلقات بھی خاصے محدود ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر اوقات کسی بھی ریاست کی جیو اسٹریٹیجک ترجیحات اور پالیسیوں کا اندازہ لگانے کے لئے یہی دیکھنا کافی ہوتا تھا کہ اس کا تعلق کس بلاک سے ہے۔ یہاں تک کہ زیادہ تر ”غیر جانب دار“ ممالک بھی واضح طور پر ایک طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے تھے۔ اور اگر ہم سوویت یونین کے انہدام کے بعد تخلیق ہونے والے یونی پولر امریکی ورلڈ آرڈر کی بات کریں تو وہ ایک ایسی دنیا تھی جس میں دور دور تک امریکہ کا کوئی مد مقابل نہیں تھا۔ پوری د نیا امریکی عقاب کے پروں تلے تھی اور وہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح جو چاہے کرتا تھا۔ سوویت بلاک کے خاتمے اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی کے بعد پوری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا راج تھا جو قرضوں کے بلبوتے پر عالمی منڈی کی مانگ میں مصنوعی اضافے، گلوبلائزیشن، روس، وسطیٰ ایشیا، مشرقی یورپ اور انڈیا وغیرہ کی عالمی منڈی میں مکمل شمولیت اور چین کی سستی محنت کے استحصال جیسے عوامل کے کارن ایک ابھار کی کیفیت میں تھا اور امریکی سامراج اسی ابھار کی لہر پر سوار ہو کر پوری دنیا پر راج کر رہا تھا۔ مختلف علاقائی قوتوں کے مقامی نوعیت کے تضادات تھے لیکن امریکی سامراج ایک بھاری بھر کم ریفری کی طرح اپنے وزن تلے ان تضادات کو دبا دیتا تھا۔
مگر 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش سے شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ عالمی معاشی بحران نے عالمی تعلقات اور جیو اسٹریٹیجک حوالے سے اپنا اولین اظہار دنیا کے سب سے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ مراکز یعنی مغربی یورپی اور خاص کر امریکی سامراج کی نسبتی کمزوری اور بڑھتے ضعف کی صورت میں کیا۔ عراق، افغانستان، شام اور حالیہ روس یوکرائن جنگ سمیت دیگر عالمی محاذوں پر امریکہ کو پے در پے اپنے سے کہیں کمتر قوتوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور اس کی کمزوری پوری دنیا پر عیاں ہو تی گئی ہے۔ نتیجتاً سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تشکیل پانے والے یونی پولر امریکی ورلڈ آرڈر کے تانے بانے ادھڑ چکے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سرمایہ دارانہ زوال کے عہد میں ابھرنے والے نوزائیدہ چینی سامراج اور دیگر قوتوں میں بھی اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے چھوڑے ہوئے خلا کو پوری طرح سے بھر سکیں جس کا نتیجہ آج کی شدیدانتشار زدہ دنیا کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ درحقیقت موجودہ عہدمیں عالمی تعلقات کی شدید اتھل پتھل، جنگیں، خانہ جنگیاں، پراکسی لڑائیاں، جیو اسٹریٹیجک ہل چل، یہ سب حتمی تجزیئے میں بحران زدہ عالمی معیشت کی پر انتشار کیفیت کی ہی غمازی کرتے ہیں۔مزید برآں عالمی تعلقات کی اتھل پتھل اور بڑھتے جیو اسٹریٹیجک تضادات واپس عالمی معیشت پر اثر انداز ہو کر اس کے بحران کو بھی مزید گہرا کر رہے ہیں۔
موجودہ عہد میں تشکیل پانے والے پاور بلاکس، مختلف اتحادوں، ریاستوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت ماضی کے مقابلے میں اس حوالے سے خاصی مختلف ہے کہ آج بین الریاستی تعلقات کے مختلف پہلوؤں میں زیادہ یک سمتی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مثلاً عالمی منڈی کے ذریعے جڑے دو ممالک کے تجارتی و معاشی تعلقات کا حجم بہت بڑا ہو گا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ایک دوسرے کے اسٹریٹیجک دشمن بھی ہوں گے اور ان کا باہمی معاشی و تجارتی تعلق ان کی اسٹریٹیجک مخاصمت کو بعض حوالوں سے بڑھاوا دے گا تو دیگر حوالوں سے قابو میں بھی رکھے گا۔ امریکہ اور چین اس نوعیت کی اچھی مثال ہیں۔ دوسری طرف کئی ایسی مثالیں ہیں کہ دو ممالک کے تجارتی ومعاشی تعلقات کا حجم کو ئی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن وہ ایک دوسرے کے انتہائی اہم اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں،جیسا کہ ترکی اور پاکستان یا ایران اور روس۔پھر مختلف ریاستوں کے آپسی تعلقات میں انتہائی متضاد قسم کی اوور لیپنگ نظر آتی ہے۔جیسے فوجی اور سفارتی حوالے سے سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات ہیں مگر تجارتی ومعاشی حوالے سے اس کا زیادہ جھکاؤ انڈیا کی جانب ہے حالانکہ انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے روایتی دشمن ہیں۔ یا جیسے سعودی عرب امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی ہے لیکن تیل کی پیداوار کے تعین جیسے اہم معاملے میں امریکہ کے روایتی حریف روس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ در حقیقت یہ تمام تہہ در تہہ تضادات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جہاں مختلف سامراجی قوتوں اور دیگر ریاستوں کے جیواسٹریٹیجک مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں وہیں یہ سب ایک بحران کا شکار انتشار زدہ عالمی منڈی کے ذریعے ایک دوسرے کیساتھ ناقابل علیحدگی طور پر جڑے بھی ہوئے ہیں۔
اس سب کے ساتھ ساتھ عالمی و علاقائی تعلقات کی موجودہ کیفیت ناقابل علیحدگی طور پر پچھلی ڈیڑھ دہائی میں دنیا کے مختلف خطوں میں اٹھنے والی محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کی زبردست احتجاجی تحریکوں، عام ہڑتالوں اور انقلابی بغاوتوں کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہ تحریکیں جہاں متعلقہ ریاستوں کی دا خلی سیاست اور سماجی کیفیت کو تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں وہیں ان کے پر جوش انقلابی اثرات سرحدوں کو پھلانگتے ہوئے پورے خطے بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور مظلوم عوام کو متاثر کرتے ہیں۔ محنت کش عوام کی یہ تحریکیں اور انقلابی بغاوتیں جہاں مختلف اقوام کے محنت کش طبقات کے درمیان طبقاتی یکجہتی کو فروغ دیتی ہیں وہیں یہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر مختلف ممالک کے سرمایہ دار حکمران طبقات کو ان داخلی طبقاتی تضادات کو دبانے کی غرض سے جارحانہ خارجہ و جیو اسٹریٹیجک پالیسی اپنانے کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ لیکن کئی دفعہ صورتحال اس کے یکسر الٹ بھی ہو جاتی ہے اور دیگر خطوں میں اپنے محنت کش بہن بھائیوں پر ہونے والے ظلم وستم، جنگی قتل و غارت اور فوجی اخراجات کیخلاف محنت کش عوام کا غم و غصہ متعلقہ حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے توسیع پسندانہ جیو اسٹریٹیجک عزائم کو لگام ڈالنے کا کام بھی کرتا ہے۔اکثر اوقات یہ دونوں متضاد عوامل ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔لیکن مارکس وادیوں کے لئے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی بھی مختلف ریاستوں اور سامراجی قوتوں کی جیو اسٹریٹیجک پالیسیوں کو ان کے داخلی طبقاتی تضادات اور تحریکوں سے کاٹ کر نہ دیکھیں بلکہ ان دونوں کے بیچ موجود جدلیاتی تعلق کو پہچانیں اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی و عالمی محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کے مفادات کے مطابق اپنے لائحہ عمل و پروگرام کو ترتیب دیں۔
اب اگر ایسی بحران زدہ دنیا اور خاص کر بڑھتی امریکہ چین عالمی مسابقت، پچھلی ایک دہائی میں انڈیا کے بڑھتے معاشی و فوجی حجم اور مشرق وسطیٰ میں پھیلے خونریز انتشار کے تناظر میں خطے میں پاکستان کی خارجہ صورتحال پر نظر دوڑائیں تو اس میں ہمیں اس ریاست کے داخلی بحران کی واضح جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیوالیہ پن کے کنارے لڑکھڑاتی، عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں (امریکہ، چین، سعودی عرب وغیرہ) سے ہر وقت بھیک مانگتی، شدید سماجی خلفشار اور سیاسی بے چینی سے بھری، برباد حال عوام کے مسائل سے مکمل طور پر بیگانہ اور ان کی شدید نفرت کا نشانہ بننے والی، محنت کش طبقے کی بڑھتی جدوجہد اور ابھرتی ہوئی عوامی تحریکوں سے خوفزدہ، اہم ریاستی اداروں میں مالی مفادات اور لوٹ مار کے گرد ہونے والی شدید دھڑے بندی کا شکار ہو کر خود سے ہی بر سر پیکار ریاست جو اب خارجہ محاذ پر بھی ہر طرف سے مشکلات میں گھری ہے۔ لیکن ان سب عوامل کے باوجود پاکستان بہرحال ویسی ریاست بھی نہیں ہے جنہیں عرف عام میں ”بنانا ریپبلک“ کہا جاتا ہے۔ بنانا ریپبلکس کے پاس نہ تودنیا کی ساتویں بڑی فوج ہوتی ہے اور نہ ہی وہ سینکڑوں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھی ہوتی ہیں۔ مزید برآں ان کے خطے میں اپنے کوئی سامراجی مفادات نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کبھی اپنے سامراجی آقاؤں کے ساتھ ”ڈبل گیمز“ کھیلتی ہیں۔ اسی لئے ہم پاکستان کو ایک گماشتہ سامراجی ریاست کہتے ہیں یعنی کہ ایک ایسی ریاست جو ایک طرف تو عالمی سامراجی قوتوں کی گماشتہ ہے لیکن دوسری طرف خطے میں اپنے سامراجی مفادات و عزائم بھی رکھتی ہے جو بعض اوقات کسی عالمی سامراجی قوت کے مفادات سے کسی حد تک متصادم بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے خارجہ اور جیو اسٹریٹیجک تعلقات کا تجزئیہ کرتے وقت اس اہم حقیقت کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کیونکہ اسے نظر انداز کرنا بالکل غلط نتائج اخذ کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
1۔امریکہ اور چین کے بیچ پھنسا پاکستان
عالمی سطح پر امریکہ اور چین کی بڑھتی چپقلش، جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں چین کیخلاف امریکہ اور انڈیا کی اسٹریٹیجک پارٹنر شپ، افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد اس کے لئے پاکستان کی جیو اسٹریٹیجک اہمیت میں آنے والی تیز کمی، افغان جنگ میں ڈبل گیمز کھیلنے پر امریکہ کی شدید ناراضگی اور نتیجتاً آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، انڈیا اور دیگر ذرائع سے پاکستان کے ”اسکریو ٹائٹ“ کرنے کی امریکی پالیسی اور ان سب عوامل کے جواب میں پاکستان کا چین کی جانب جھکاؤ، ان سب موضوعات پر ہماری بے شمار تفصیلی تحاریر موجود ہیں اور ہم انہیں یہاں دہرانا نہیں چاہتے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں اور مالیاتی منڈیوں میں امریکہ کے اثر و رسوخ، پاکستان کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کے امریکہ و یورپی سامراجیوں کے ساتھ تاریخی تعلقات، چین کی جانب سے ماضی کے امریکہ کی طرح پاکستان کو مکمل طور پر گود لینے کی مالیاتی و اسٹریٹیجک نااہلیت مگر دوسری طرف چین کیخلاف امریکہ اور انڈیا کے اتحاد، خطے کی بدلتی صورتحال کے تحت پاکستان کی امریکہ کے لئے گھٹتی ہوئی اہمیت، افغان جنگ میں پاکستان کے دوہرے کردار پر امریکہ کی شدید ناراضگی، فوجی ساز و سامان اور انفراسٹرکچر منصوبوں سے لے کر ایمرجنسی بیل آؤٹس تک پاکستان کے چین پر بڑھتے انحصار، چین کے لئے جنوبی ایشیا اور بحیرہ عرب میں پاکستان کی اسٹریٹیجک اہمیت جیسے عوامل کے کارن پاکستان نہ تو مکمل طور پر امریکہ کی جانب جھک سکتا ہے اور نہ ہی چین کی جانب۔ ان تمام عوامل پر ہم ماضی میں تفصیلی بحث کر چکے ہیں جسے دہرانے کی ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔ لیکن یہ موقف دینے سے معاملہ ختم نہیں ہو جاتا اور ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ پچھلی کم و بیش ایک دہائی میں کس عالمی سامراجی قوت کا پاکستان پر اثر و رسوخ بڑھتا گیا ہے اور کس کا نسبتاً کم ہوتا گیا ہے اور ایسا کس بنیاد پر ہو رہا ہے۔ اس کا مارکسی تجزئیہ کرنا اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بورژوا دانشور کسی جرنیل یا سیاستدان کے کسی ایک یا دوسری سامراجی قوت کے دورے، امریکہ یا چین کی وزارت خارجہ کے کسی ایک بیان یا کسی ایک واقعے کی بنیاد پر فوراً سے نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں اورپاکستان کے کسی ایک کیمپ میں جانے کی نوید سنا دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر نہیں چل سکتا اور ان اداروں میں امریکہ ایک فیصلہ کن وزن رکھتا ہے۔ لیکن ان عالمی مالیاتی اداروں پر پاکستان کا انحصار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرد جنگ میں بالعموم اور سرد جنگ کے اختتام کے بعد سے لے کر آج تک بالخصوص یہی صورتحال رہی ہے۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں پاکستان میں جس عالمی سامراجی قوت کا مالیاتی و معاشی اثر و رسوخ انتہائی تیزی کیساتھ بڑھا ہے، وہ بلاشبہ چین ہے۔ چین کے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک چین سی پیک کی مد میں پاکستان میں تقریباً 26 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کر چکا ہے (سی پیک پراجیکٹس کی مد میں لئے گئے قرضے اس کے علاوہ ہیں) اگرچہ کہ اس میں سے زیادہ تر سرمایہ کاری پاور جنریشن کے شعبے میں ہوئی ہے اور حکومت پاکستان نے ان پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کیساتھ دہائیوں تک ہوشربا نرخوں پر بجلی خریدنے اور کپیسٹی پیمنٹس کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں یعنی کہ بالواسطہ طور پر قرضہ ہی اٹھا رکھا ہے۔ مزید برآں 6.5 ارب ڈالر مالیت کے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ایم ایل ون منصوبے سمیت کچھ دیگر منصوبوں پر معاہدے طے ہونے کے فائنل مراحل میں ہیں جن میں ابھی تک ہونے والی تاخیر کی وجہ امریکہ یا آئی ایم ایف سے زیادہ پاکستان کی انتہائی کمزور معیشت پر خود چینی تحفظات ہیں۔ اسی طرح 2023ء میں کراچی اور چشمہ نیوکلیر پاور پلانٹس میں نئے ریکٹرز کی تنصیب کے لئے سی پیک سے باہر ہونے والے 4.8 اور 3.5 ارب ڈالرز کے معاہدے (یہ واضح نہیں کہ یہ قرضے ہیں یا سرمایہ کاری)، اور اسی طرح سی پیک سے علاوہ 14 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے زیر تعمیر دیامر بھاشا ڈیم کی فنڈنگ کا ایک بڑا حصہ بھی چین سے قرضوں کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ پاکستان میں پاور جنریشن جیسے انتہائی کلیدی شعبے میں چین نہایت اہم کھلاڑی بن چکا ہے اور صرف سی پیک کے تحت ہی 8000 میگاواٹ کپیسٹی کے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ مزید برآں پچھلی ایک دہائی میں، حال میں اور مستقبل میں بھی پاکستان میں بننے والے 90 فیصد بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کا ٹھیکہ چین کے پاس ہے چاہے ان منصوبوں کی فنانسنگ میں چین کا بڑا حصہ نہ بھی ہو (جیسے کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور تربیلا پانچواں تو سیعی منصوبہ)۔ مگر پاکستان صرف انفراسٹرکچر منصوبوں کے لئے ہی چین سے قرضہ نہیں لیتا بلکہ یہ اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے بھی چین سے اندھا دھند قرض لیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2012ء سے2021ء کے عرصے میں پاکستان نے ہر سال ادائیگیوں کے توازن کو دباؤ سے بچانے کے لئے چین سے کم از کم ایک ایمرجنسی بیل آؤٹ قرضہ لیا ہے۔ جبکہ پچھلے قرضوں کا رول اوور اس کے علاوہ ہے۔ اس وقت پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 130 ارب ڈالر ہے جس میں سے لگ بھگ 30 فیصد یعنی 39 ارب ڈالر چین کا ہے۔ یوں چین اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا واحد قرض خواہ بن چکا ہے۔ یہاں واضح رہے کہ یہ صرف چین کے قرضے کی بات ہو رہی ہے، چین کی پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہے۔
مگر پاکستان ان چینی قرضوں کا استعمال صرف بعض انفراسٹرکچر منصوبوں، بجٹ خسارے وغیرہ کو فنڈ کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے ہی نہیں کرتا، ان کا ایک اور انتہائی اہم استعمال بھی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ملک تو ڈیفالٹ کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے پاس مسلسل نت نئے جدید ترین چینی ہتھیار کیسے آ رہے ہیں؟ ان میں سے بعض ویپن سسٹم تو اتنے کٹنگ ایج ہیں کہ اس نوعیت کے ہتھیار پاکستان کو کبھی خواب میں بھی یورپ اور امریکہ سے نہیں مل سکتے تھے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مقداری اور معیاری دونوں حوالوں سے پاکستان کی روایتی فوجی صلاحیتوں میں جتنا تیز ترین پھیلاؤ پچھلی ایک دہائی میں ہوا ہے اتنا اس سے پہلے کی پوری ملکی تاریخ میں نہیں ہوا اور یہ سب چین کے مرہون منت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حوالے سے سرکاری اعداد و شمار تو میسر نہیں لیکن ہمارے محتاط اندازے کے مطابق 2015ء سے لے کر اب تک پاکستان نے چین سے جدید ترین جنگی بحری جہازوں، لڑاکا طیاروں، آبدوزوں، ٹینکوں، انواع اقسام کے میزائیلوں، ریڈارز، ڈرونز اور الیکٹرانک وار فئیر ساز و سامان سمیت تقریباً 17 سے 20 ارب ڈالر کے ہتھیار قرض اٹھا کر حاصل کئے ہیں۔ مزید برآں یاد رہے کہ یہ سب ہتھیار خلا میں معلق نہیں ہوتے بلکہ ان کی دیکھ بھال کے لئے بڑی تعداد میں چین کے فوجی انجئینرز اور ٹیکنیشینز کی پاکستان آمد و رفت رہتی ہے اور ان کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی افواج چینی افواج کے ساتھ بڑے پیمانے کی فوجی مشقیں کرتی رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ ان مشقوں اور ٹریننگ پروگرامز میں صرف فوجی مہارت کا ہی تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ سیاسی تعلقات بھی بنتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کے ایٹمی اور میزائیل پروگرام کا دار و مدار تو ہمیشہ سے ہی چین پر رہا ہے لیکن اس وقت روایتی فوجی صلاحیت میں بھی پاکستان کا مقداری اور معیاری انحصار فیصلہ کن انداز میں چین پر ہو چکا ہے۔
اب یقینی طور پر چین پاکستان پر یہ سب ”کرم فرمائی“ نہ تو اللہ واسطے کر رہا ہے اور نہ ہی اس کا کارن کوئی نام نہاد دوستی ہے۔ بلاشبہ اس تمام سرمایہ کاری اور قرض خواہی سے منافع حاصل کرنا بھی چین کا ایک مطمع نظر ہے لیکن ہماری نظر میں اس پہلو کی اہمیت ثانوی ہے کیونکہ چین بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ وہ کبھی بھی بھاری بھر کم چینی قرضوں کی طے شدہ شیڈول کے مطابق ادائیگی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے چین آئے روز پاکستان کو نئے قرضے دینے کے ساتھ ساتھ اس کے پرانے قرضے بھی رول اوور کرتا رہتا ہے۔ تو پھر چین یہ سب کچھ کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کے نزدیک پاکستان کی اہمیت بنیادی طور پر اسٹریٹیجک نوعیت کی ہے اور پاکستان جنوبی ایشیا اور بحیرہ عرب میں اس کا اہم ترین اسٹریٹیجک اتحادی ہے۔ چین سب سے پہلے اپنے علاقائی اسٹریٹیجک مخالف انڈیا کی توجہ اس کی مغربی سرحدوں کی جانب مبذول کئے رکھنے کی خاطر پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں ایک فوجی کاؤنٹر ویٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس میں وہ خاصا کامیاب بھی ہے۔ انڈیا کے شاؤنسٹ دانشور انہ حلقوں کی پاکستان کی پتلی معاشی حالت کے متعلق تمام تر مغرورانہ رائے زنی کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی بری فوج کا تین چوتھائی اور فضائی اور بحری افواج کا دو تہائی آج بھی اس کی مغربی حدود کی طرف ہی تعینات ہے۔ اسی طرح سی پیک اور گوادر بندرگاہ بھی چین کے لئے سب سے پہلے معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نوعیت کے منصوبے ہیں۔ چین کے خام تیل کی سپلائی کا ایک بڑا حصہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب اور پھر خلیج بنگال کے جنوب مشرق میں واقع تنگ مالاکا اسٹریٹ سے گزر کر جنوبی چینی سمندر تک پہنچتا ہے۔ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں امریکہ، انڈیا اور آسٹریلیا وغیرہ باآسانی مالاکا اسٹریٹ کی بحری ناکہ بندی کر کے اس سپلائی روٹ کو کاٹ سکتے ہیں۔ یمنی حوثیوں کی جانب سے حالیہ عرصے میں بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تجارتی جہاز رانی کو نشانہ بنانے کے بعد تو مستقبل میں دیگر قوتوں کی جانب سے ایسے حربوں کے استعمال کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ لہٰذا کسی غیر معمولی صورتحال میں گوادر پورٹ اور سی پیک ٹرانسپورٹ روٹ چین کو خلیج فارس سے خام تیل چین تک لیجانے کا ایک متبادل راستہ فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں اگرچہ گودار میں چین کی مسلح بحری موجودگی نہیں ہے اور مستقبل قریب میں اس کے کوئی خاص امکانات بھی نہیں ہیں لیکن چین گوادر کو مستقبل میں خلیج فارس اور بحیرہ عرب کی بحری مانیٹرنگ کے لئے لازمی استعمال کرے گا یا شاید پہلے ہی ایسا کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا تمام بحث کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ چین معاشی طور پر انتہائی کمزور پاکستان کو اپنے قرضوں اور سرمایہ کاری کے جال میں بری طرح پھنسا چکا ہے اور اپنے ان ”احسانات“ کے بدلے میں ریاست پاکستان کا بھرپور اسٹریٹیجک استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اس سب سے فوری طور پر یہ نتیجہ نہیں نکال لینا چاہئے کہ امریکہ کھیل سے مکمل طور پر باہر ہو چکا ہے۔ اپنی تمام تر نسبتی کمزوری کے باوجود امریکہ آج بھی دنیا کی نمبر ون معاشی، فوجی اور تکنیکی قوت ہے اور فی الحال چین ان تمام معاملات میں امریکہ سے خاصا پیچھے ہے۔ امریکی سامراج کی مرضی کے مطابق چلنے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی بیساکھیوں پر نشہ آور انحصار کے ساتھ ساتھ امریکہ آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور مغربی مالیاتی منڈیوں تک پاکستان کی رسائی بھی امریکہ کی مرضی کے بنا ممکن نہیں۔ یہاں واضح رہے کہ ان تمام وجوہات کے کارن چینی سامراج کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ ریاست پاکستان کبھی بھی امریکہ سامراج کی ایک حد سے زیادہ نافرمانی نہیں کر سکتی۔ مزید برآں ماضی میں امریکی سامراج سے ملنے والے ڈالروں کی خوشبو آج بھی پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو نہیں بھولی ہے اور وہ آج بھی دل سے امریکی سامراج کی چاکری کے ہی متمنی ہیں لیکن تبدیل شدہ عالمی اور علاقائی صورتحال کے تحت امریکہ کی اسٹریٹیجک ترجیحات میں فی الحال پاکستان کی کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے کچھ زائد عرصے میں ریاست پاکستان کی اسٹریٹیجک فیصلہ سازی میں جہاں امریکہ کا کردار مسلسل کم ہوا ہے وہیں چین کا کردار انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔
2۔پاکستان اور انڈیا
سرمایہ داری کا ایک عمومی اصول ہے کہ جب بھی کسی سرمایہ دارانہ ریاست کا معاشی حجم بڑھتا ہے تو پھر ناگزیر طور پر اس کی فوجی طاقت اور توسیع پسندانہ عزائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انڈیا اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور چوتھی بڑی فوجی طاقت بن چکا ہے۔ وہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں فوجی بالادستی رکھتا ہے بلکہ بالعموم بحر ہند اور بالخصوص بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں بحری بالا دستی بھی رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں چین کیخلاف امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی بننے سے بھی اس کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسری طرف خطے میں اس کا روایتی حریف پاکستان معاشی اعتبار سے بالکل تباہ حال ہے اور دنیا کی نمبر ون سامراجی قوت امریکہ کی حمایت بھی کھو چکا ہے۔ اگرچہ کہ چین نے اپنے جیو اسٹریٹیجک مفادات کے تحت ابھی بھی فوجی اعتبار سے انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کا نسبتی وزن کسی حد تک برقرار رکھا ہوا ہے لیکن دنیا بھر کے ہتھیار بھی دیوالیہ معیشت جیسی تباہ کن کمزوری کا مداوا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا امریکہ کی پوری آشیرباد کیساتھ پاکستان کو مودی سرکار کے ”رائزنگ انڈیا“ کے ہاتھوں مسلسل سزا مل رہی ہے۔ اگرچہ کہ انڈیا ہمیشہ ہی پاکستان سے معاشی اور فوجی، دونوں لحاظ سے طاقتور رہا ہے لیکن جتنا معاشی تفاوت آج ان دونوں ملکوں کے بیچ ہے، اتنا ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ لہٰذا اگرچہ ماضی میں انڈیا اور پاکستان، دونوں ”ٹٹ فار ٹیٹ“ کے اصول پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کیساتھ جنگیں، دراندازیاں، پراکسی کاروائیاں، علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت وغیرہ جیسی بے شمار حرکات کر چکے ہیں لیکن اب پاکستان انڈیا کے مقابلے میں معاشی اور سفارتی اعتبار سے اتنا پیچھے رہ چکا ہے کہ وہ یہ مقابلے بازی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ انڈیا کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ پاکستان کو اس کی ماضی کی حرکتوں کی سزا دینے پر پوری طرح سے تلا ہوا ہے۔ 2016ء میں اڑی حملے بعد انڈیا کی طرف سے لائن آف کنٹرول پار کر کے کی جانے والی سرجیکل سٹرائیکس، 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد انڈین فضائیہ کی بالاکوٹ پر بمباری، 2022ء میں انڈیا کی جانب سے ایٹمی صلاحیت کے حامل براہموس میزائیل کا ”غلطی“ سے پاکستان پر داغا جانا، ایران کے ساتھ مل کر ریاست پاکستان کیخلاف بر سر پیکار مسلح بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت،امریکہ کے ساتھ مل کر ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان سے ناک سے لکیریں نکلوانا اور اب پچھلے کچھ عرصے سے انڈین خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان میں پناہ لینے والے خالصتان تحریک سے وابستہ سکھ باغیوں اور کشمیر دراندازی کے اہم کرداروں کی سلسلہ وار ٹارگٹ کلنگ کے واقعات۔ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار سے خوفزدہ اور سفارتی تنہائی کا شکار دیوالیہ پاکستان نہ تو ان سب معاملات پر کھل کر شور مچا سکتا ہے اور نہ ہی عملاً کوئی خاص جواب دینے کی معاشی و سیاسی سکت رکھتا ہے۔ اگرچہ حالیہ عرصے میں پاکستان نے بھی جواب میں انڈین مقبوضہ کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں کچھ در اندازی کی ہے اور یورپ اور کینیڈا میں نیم مردہ خالصتان تحریک کے حامیوں کو تھوڑی حرکت دی گئی ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ تمام اقدامات انتہائی لاغر ہیں اور غالب امکانات ہیں کہ الٹا پاکستان کے ہی گلے پڑیں گے۔
پاکستان کے لبرل دانشوروں کا ایک دیرینہ خواب یہ ہے کہ پاکستان انڈیا کیساتھ اپنے تمام معاملات طے کر کے امن قائم کر لے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک طاقتور انڈیا کمزور بھکاری پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی تب جب ایک طرف پاکستان دشمنی انڈیا کی انتخابی سیاست میں آج بھی بکتی ہے اور دوسری طرف ”رائزنگ انڈیا“ میں انتہائی تیزی کیساتھ بڑھتے طبقاتی تفاوت کیخلاف زور پکڑتی طبقاتی جدوجہد کو ہندو شاؤنزم اور مسلم دشمنی کے ذریعے کاؤنٹر کرنے کی بھر پور کوشش بھی کی جارہی ہے۔ مزید برآں اگر پاکستان امن قائم کرنے کی خاطر ہر مسئلے پر اپنے موقف سے دستبردار ہو کر مودی کی ہندوتوا سرکار والے انڈیا کے ساتھ مکمل طور پر سمجھوتہ کر لیتا ہے تو پھر اتنی بھاری بھر کم فوج پالنے اور ریاستی، خصوصاً جرنیلی اشرافیہ کی عیاشیوں اور سیاسی حاکمیت کا جواز تو ختم ہو جائے گا۔ بلکہ ریاست پاکستان کی تخلیق کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ مگر دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان انڈیا کیساتھ مکمل تو نہیں لیکن جزوی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے، جیسے کہ پچھلے چند سالوں میں مودی سرکار کی انڈین مقبوضہ کشمیر پر یلغار کے جواب میں پاکستان کے نیم مردہ موقف سے واضح ہے، لیکن دہلی کو فی الحال ایسا کوئی سمجھوتہ کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اور اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو وہ انڈیا کے چنے ہوئے وقت پر اس کی مرضی کے مطابق ہو گا۔
جبکہ دوسری طرف احمقوں کی جنت میں رہنے والے پاکستانی شاؤنسٹ دانشور آج میں خوابوں میں پاکستان کو انڈیا کی ٹکر کا ملک سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی تو انڈیا کی سیاسی مداخلت سے تنگ مالدیپ کے صدر محمد موعیزو کی انڈیا مخالف قلابازیوں اور دورہ چین پر بغلیں بجاتے ہیں (حالانکہ آخر کار اس نے کچھ بہتر ٹرمز پر انڈیا کیساتھ واپس سمجھوتہ کرنا ہی ہے) تو کبھی ایک خالصتانی سکھ جلاوطن کے کینیڈا میں را کے ہاتھوں قتل اور ایک دوسرے خالصتانی کے امریکہ میں قتل کی ناکام کوشش پر انڈیا اور امریکہ، کینیڈا کے تعلقات میں ہونے والی حالیہ کھٹ پٹ سے فائدہ اٹھا کر پھر سے امریکہ کے قریب ہونے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ احمق یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ انڈیا امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی ہے، ماضی کے پاکستان کی طرح اسٹریٹیجک گماشتہ نہیں۔ انڈیا اپنے آپ میں ایک بڑی علاقائی سامراجی قوت ہے اور اپنے قومی و سامراجی مفادات میں فیصلے کرنے کے لئے آزاد ہے۔ لہٰذا امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی ہونے کے باوجود اس کے آج بھی روس کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات ہیں اور وہ کبھی بھی امریکی دباؤ میں آ کر روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو قربان نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ چین کیخلاف بھی اتنا ہی جائے گا جتنا کہ اس کے مفادات کے لئے ضروری ہو گا۔ بنیادی طور پر انڈیا کی اسی آزادانہ خارجہ پالیسی، اور خاص کر یوکرائن جنگ کے معاملے پر روس کیخلاف موقف نہ لینے کا غصہ تھا جو امریکہ نے پہلے مودی کے کاروباری دوست گوتم اڈانی کی بزنس ایمپائر کو نقصان پہنچا کر اور پھر خالصتانیوں کے قتل کا معاملہ اٹھا کر نکالا لیکن وہ انڈیا کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہا۔ لیکن ان تمام چھوٹے موٹے اتار چڑھاؤ سے قطع نظر لانگ ٹرم حقیقت یہ ہے کہ خطے میں چین کیخلاف انڈیا اور امریکہ کے لانگ ٹرم مفادات میل کھاتے ہیں اور اسی لئے وہ ایک دوسرے کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے اور پاکستان کی مقتدرہ کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ مزید برآں مستقبل میں انڈیا کی جارحانہ پالیسیوں میں مزید شدت آئے گی اور دہلی کے حکمران خارجی سے زیادہ اپنی داخلی ضروریات کے تحت پاکستان کو مزید تختہ مشق بنانے کی کوشش کریں گے۔
3۔افغانستان اور اسٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی کی تباہ کاریاں
پاکستان کی افغانستان کے ساتھ چپقلش کی بھی ایک طویل تاریخ ہے جس کی جڑیں انگریز سامراج کی جانب سے کھینچی گئی سامراجی لکیر ڈیورنڈ لائن سے جا ملتی ہیں۔ 1947ء میں جہاں ڈیورنڈ لائن پاکستان کی گماشتہ سامراجی ریاست کو ورثے میں ملی اور وہ انگریز سامراج کے تسلسل کے طور پر اس پر قائم رہا وہیں افغانستان کی حکمران پشتون اشرافیہ نے بھی اپنی داخلی حاکمیت کو قائم رکھنے کی خاطر انڈیا کے ساتھ مل کر ”لر او بر“ اور ”پختونستان“ کے نعروں کا خوب سیاسی استعمال کیا۔ 1947ء سے لے کر 1974ء تک افغانستان اور انڈیا نے مل کر نہ صرف پشتون قومی مسئلے کو پاکستان کیخلاف خوب استعمال کیا بلکہ بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندوں کی بھی حمایت کی۔ اس کے جواب میں بھٹو حکومت نے 1974ء میں پہلی مرتبہ سردار داؤد کی پشتون قوم پرست افغان حکومت کیخلاف مذہبی انتہا پسند عناصر کا استعمال شروع کیا۔ پھر 1978ء کے ثور انقلاب کے طبقاتی اثرات اور (انڈیا کیساتھ انتہائی قریبی تعلقات رکھنے والے اور پختونستان نعرے کے حامی) سوویت یونین کی افغانستان میں براہ راست موجودگی سے خوفزدہ پاکستان کی جرنیلی اشرافیہ نے سوویت یونین کیخلاف امریکہ کے نام نہاد ڈالر جہاد میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا اور اس عمل میں خوب مال بھی بنایا۔یہاں سے پھر نام نہاد اسٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے کے نام پر افغانستان پر بالادستی قائم رکھنے کی ایک طویل اور خونریز لڑائی کا آغاز ہوا جو سوویت یونین کے انخلاء اور نجیب حکومت کے انہدام کے بعد بھی جاری رہی اور افغانستان کو خاک و خون میں نہلاتی ہوئی 1996ء میں پاکستان کی بھر پور پشت پناہی کیساتھ طالبان عرف ظالمان کی پہلی حکومت پر منتج ہوئی۔ مگر ایران اور انڈیا کی پشت پناہی رکھنے والے شمالی اتحاد کیساتھ خونریز لڑائی پھر بھی جاری رہی۔
9/11 کے بعد جب عالمی سطح پر ہواؤں کا رخ بدلا تو ایک بار پھر ریاست پاکستان امریکہ کی نام نہاد وار آن ٹیرر میں فرنٹ لائن اتحادی بن گئی۔ اس جنگ میں پاکستان کی مقتدر جرنیلی اشرافیہ نے اپنے مالی اور علاقائی قبضہ گیر مفادات کے تحت اپنے سامراجی آقا امریکہ اور ماضی میں اپنے ہی پیدا کئے ہوئے مذہبی دہشت گردوں، دونوں کیساتھ ڈبل گیم کھیلی۔ ایک طرف تو فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر امریکہ سے اربوں ڈالر بٹورے گئے تو دوسری طرف امریکی سامراج کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے افغانستان میں اپنی پراکسی کے طور پر طالبان کی پشت پناہی بھی جاری رکھی گئی۔ اسی طرح جہاں اپنے مطلب کے مذہبی دہشت گردوں پر ”گڈ“ طالبان کا لیبل لگا کر ان کی پشت پناہی کی گئی وہیں صورتحال کو بیلنس کرنے اور امریکہ سے زیادہ ڈالر بٹورنے کی خاطر ریاستی پالیسیوں کے لئے مزید کارآمد نہ رہنے والے اور امریکی اتحادی بننے پر ریاست پاکستان سے باغی ہو جانے والے مذہبی دہشتگردوں پر ”بیڈ طالبان“ اور ”القاعدہ“ کا لیبل لگا کر ان کیخلاف درجنوں فوجی آپریشن کئے گئے اور امریکہ کو ڈرون حملوں کی کھلی اجازت دی گئی۔ اس کے رد عمل اور اس صورتحال کو کاؤنٹر کرنے کے لئے نام نہاد گڈ طالبان سے ہی نظریاتی، تنظیمی اور مالی طور پر منسلک بیڈ طالبان نے فوج کی اپنی صفوں میں موجود جنونی جہادی ہمدردوں کی مدد سے پورے ملک میں اور خاص کر پختون خطے میں دہشت گردی کے ایک خوفناک طوفان کو جنم دیا جس میں اے پی ایس پشاور کے معصوم بچوں سمیت دسیوں ہزاروں عوام کا قتل عام ہوا، یہاں تک کہ ہزاروں عام فوجی بھی ریاست کی لگائی ہوئی اس آگ کا ایندھن بنے۔ریاست اور جرنیلی اشرافیہ کی جانب سے کھیلی جانے والے ڈبل گیموں کے جواب میں نام نہاد گڈ طالبان اور فوج، خاص کر انٹیلی جنس میں موجود جہادی عناصر کی جانب سے کھیلی جانے والی اس ڈبل گیم، یعنی بیڈ طالبان کو منظم کرنا اور انہیں ریاست پاکستان کو امریکی دباؤ پر حد سے تجاوز کرنے سے باز رکھنے میں بطور ایک پریشر گروپ استعمال کرنا، کو ریاست نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بیس سال صرف اس لئے برداشت کیا کیونکہ افغانستان میں اپنے سامراجی قبضہ گیر مفادات کے حصول کے لئے اسے نام نہاد گڈ طالبان کی ضرورت تھی۔ اس تمام عرصے میں ہونے والے عوامی نقصان کو ”کولیٹرل ڈیمج“ کہہ کر جسٹیفائی کیا گیا اور بیڈ طالبان اور اس تمام قتل و غارت گری کا سارا ملبہ انڈین را اور افغان این ڈی ایس پر ڈالا جاتا رہا۔ جبکہ جرنیلوں کو روز اول سے ہی بخوبی معلوم تھا کہ یہ سب ان کی اپنی پالیسیوں کا ہی فال آؤٹ ہے۔
2021ء میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اگر پاک افغان تعلقات کو دیکھا جائے تو ریاست پاکستان تاریخ کے کلاسیکی مکافات عمل کا شکار ہو رہی ہے۔ نام نہاد اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی ایک تباہ کن اسٹریٹیجک بلنڈر ثابت ہوئی ہے۔ افغان طالبان کی بھرپور پشت پناہی کیساتھ ٹی ٹی پی دن رات فوج، ایف سی اور پولیس پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ جن سنپولیوں کو امریکی سامراج کی چاکری اور اپنے سامراجی قبضہ گیر اور مالی مفادات کے تحت ریاست پاکستان نے خود دودھ پلا کر پروان چڑھایا تھا، وہ آج کالے ناگ بن کر اسی ریاست کی گردن سے لپٹ گئے ہیں۔ ریاست پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں رخنہ ڈالنے، افغان مہاجرین کی جبری بیدخلی، سرحد پار سرجیکل کاروائیوں، مذاکرات، سیاسی دباؤ، ایران اور خاص کر چین کو ساتھ لے کر مشترکہ دباؤ ڈالنے سمیت بے شمار حربے آزما کر دیکھ لئے ہیں لیکن وہ افغان طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کیخلاف کاروائی کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی ہے۔ درحقیقت افغان طالبان حکومت ایک طرف تو ٹی ٹی پی کو پاکستان کی ممکنہ دست درازیوں اور افغانستان پر بالادستی قائم رکھنے کی پالیسی کیخلاف ایک لیوریج کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان مخالف موقف لے کر اپنے داخلی امیج کو بہتر کرنے اور اپنے خلاف افغان سماج سے اٹھنے والی عوامی مزاحمت کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں یاد رہے کہ افغان طالبان اب کوئی پاکستان میں پناہ لینے والا مسلح گروپ نہیں ہیں بلکہ نیٹو اور سابق افغان فوج و پولیس کے چھوڑے ہوئے اربوں ڈالرز کے ہتھیاروں سے مسلح ایک لاکھ سے زائد تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل ایک فوج نما ملیشیا کیساتھ افغانستان کے ریاستی اقتدار پر براجمان ہیں۔ مزید برآں وہ ایک طرف تو چین اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں، انڈیا کیساتھ آہستہ آہستہ روابط بڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف انہیں امریکہ، اقوام متحدہ اور مغربی ممالک سے بھی بالواسطہ طور پر تین سے چار ارب ڈالر سالانہ کی امداد مل رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے لئے ان کا بازو مروڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان اور افغان طالبان کے بیچ دہائیوں سے قائم ایک پیچیدہ پراکسی یا زیادہ بہتر الفاظ میں ”سمجھوتے کی شادی“ والا رشتہ اب بڑی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان ہاتھ پیر مار رہا ہے کہ کسی طرح افغان طالبان حکومت میں قندھاری ملاؤں اور دیگر دھڑوں میں موجود اختلافات کا فائدہ اٹھایا جا سکے اگرچہ کہ وہ اس میں بھی کچھ خاص کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔ لیکن مستقبل میں شدید فرسٹریشن کے شکار پاکستان کی جانب سے افغانستان میں زیادہ تعداد میں محدود پیمانے کی براہ راست فوجی کاروائیوں، ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال کرنے اور طالبان حکومت مخالف عناصر کو سپورٹ کرنے جیسی مہم جوئیوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کا پھر رد عمل بھی آئے گا اور ان مہم جوئیوں کی اصل قیمت ماضی کی طرح دونوں طرف کی حکمران اشرافیہ کو نہیں بلکہ محنت کش عوام کو ہی چکانی پڑے گی۔
4۔مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جنگ اور پاکستان
اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری ہیں اور عراق، لبنان، شام، یمن، بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں تمام فریقین کی جانب سے ہونے والی جنگی کاروائیاں بتا رہی ہیں کہ اس جنگ کے مہیب سائے اب پھیلتے ہوئے پورے مشرق وسطیٰ پر چھا چکے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل پر براجمان انتہائی دائیں بازو کے صیہونی ٹولے کے علاوہ باقی تمام فریقین (ایران، عرب ممالک، امریکہ، یورپی ممالک وغیرہ) کی خواہش یہی تھی کہ جنگ نہ پھیلے کیونکہ سب خطے کی ریاستوں کی داخلی صورتحال، عالمی سیاست اور خاص کر عالمی معیشت پر اس کے متوقع اثرات سے خوفزدہ تھے۔ لیکن جنگیں ان کو شروع کرنے والوں کی خواہشات کے مطابق نہیں چلتیں۔ ان کی اپنی پیچیدہ داخلی حرکیات ہوتی ہیں۔ اور جیسے جیسے جنگی واقعات میں شدت آتی جاتی ہے یہ حرکیات فریقین کے کنٹرول سے باہر ہوتی جاتی ہیں۔ یہی سب اس وقت مشرق وسطیٰ میں بھی ہو رہا ہے اور قابل ذکر امکانات ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ خونریزی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ ایسے میں پاکستان جو بے شمار تانوں بانوں سے مشرق وسطیٰ سے جڑا ہوا ہے، اس پر اس جنگ کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جیسا کہ ایران اور پاکستان کی حالیہ فوجی چپقلش سے واضح ہے۔
16جنوری کی رات کو ایران نے پاکستان میں بلوچستان کے پنجگور ڈسٹرکٹ میں سرحد سے کوئی چالیس کلومیٹر دور واقع ایک دیہات کو میزائیلوں اور ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا۔ ایرانی حکام کا موقف تھا کہ حملے میں ایران مخالف آزادی پسند سنی بلوچ عسکریت پسند تنظیم جیش العدل کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ حملے میں دو بچے جاں بحق جبکہ کئی خواتین اور بچے زخمی ہوئے ہیں۔ اس حملے کے جواب میں پہلے تو پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور اپنے ملک گئے ایرانی سفیر کو پاکستان واپس آنے سے منع کر دیا۔ پھر 18 جنوری کی صبح کو پاکستان نے ایران کے سیستان و بلوچستان کے سرحدی شہر ساراوان کے مضافات میں واقع کچھ گھروں کو راکٹوں، ڈرونز اور گائیڈڈ بموں سے نشانہ بنایا۔ پاکستان کے مطابق حملے میں پاکستان مخالف آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ حملے میں چار بچوں اور تین خواتین سمیت نو افراد جاں بحق ہوئے ہیں جو ایرانی شہری نہیں تھے۔ ابھی تک دونوں ممالک کے عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے متعلق سرکاری دعوؤں کی تو آزادانہ ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہو سکی البتہ یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ دونوں جانب بلوچ خواتین اور معصوم بچے ضرور جاں بحق ہوئے ہیں۔ دو طرفہ حملوں کے فوراً بعد دونوں ممالک صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی طرف گئے کیونکہ اپنی اپنی وجوہات کے کارن ایک فوجی ٹکراؤ اس وقت دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ مزید برآں ترکی اور خاص کر چین نے بھی ثالثی میں اپنا کردار ادا کیا۔ فی الحال دونوں ممالک نے سفارتی روابط بھی پوری طرح بحال کر دیے ہیں اور ایرانی وزیر خارجہ سرکاری دعوت پر 29 جنوری کو پاکستان کا دورہ بھی کر رہا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان میں ایک فرقہ وارانہ مذہبی تنظیم کی قیادت پر ہونے والے پے در پے حملے اور جواب میں حکام کے مطابق ”دشمن بیرونی ایجنسیوں“ (یعنی ایران) سے منسلک ایک مخالف فر قہ وارانہ تنظیم کے کارکنان کی گرفتاریاں بتاتی ہیں راکھ کے نیچے دبے انگارے ابھی بھی دہک رہے ہیں۔
ایران کے پاکستان پر ان حالیہ حملوں نے ریاست پاکستان سمیت پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ کوئی بھی مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں ایران سے ایسی حرکت کی توقع نہیں کر رہا تھا اور وہ بھی ایسے میں کہ جب حملوں سے چند گھنٹوں پہلے پاکستان کے نگران وزیر اعظم کی ایرانی وزیر خارجہ کیساتھ ڈیوس میں ملاقات ہوئی تھی، ایران اور پاکستان کی بحریہ نے خلیج فارس میں ایک روزہ مشترکہ بحری مشقیں کی تھیں اور دو روز قبل افغانستان کے لئے ایران کے خصوصی ایلچی نے اسلام آباد میں افغانستان اور خطے کی صورتحال پر پاکستانی حکام سے ملاقات کی تھی۔ ایرانی حملوں کی وجوہات کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں، پراپیگنڈہ کیمپئین اور سازشی تھیوریوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ہماری نظر میں ان حملوں کا تعلق مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے ساتھ ہے بھی اور نہیں بھی۔
بلوچ قومی آزادی کی موجودہ تحریک کے حوالے سے پاکستان اور ایران کا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پچھلی کم و بیش دو دہائیوں سے جاری ہے۔ پاکستان ایران پر بی ایل اے اور خاص کر بی ایل ایف کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے، ان کی کاروائیوں پر آنکھیں بند کر لینے اور انہیں ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے زیر نگرانی انڈین انٹیلی جنس تک رسائی دینے کے الزامات لگاتا آیا ہے۔ جبکہ ایران پاکستان پر پہلے جند اللہ اور بعد ازاں (اسی سے نکلی ہوئی) جیش العدل جیسی عسکریت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام لگاتا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے الزامات بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایران ماضی میں بھی اور آج بھی پاکستان کی ہی طرح بلوچ قومی تحریک کا دشمن ہے اور اس کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن 1970ء کی دہائی میں تو شاہ ایران نے بلوچ بغاوت کو کچلنے کے لئے پاکستان کی بھر پور فوجی مدد کی تھی تو موجودہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے ایران کی حکمران ملا اشرافیہ کا رویہ ماضی کے برعکس کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی ہی کی طرح موجودہ بلوچ تحریک کا محور و مرکز بھی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان ہے اور ایرانی مقبوضہ سیستان و بلوچستان کے بلوچ عوام اگرچہ ایرانی حکومت سے ناخوش تو ہیں لیکن وہاں ابھی قومی آزادی کے حوالے سے کوئی خاص تحریک موجود نہیں ہے۔لیکن شاہ ایران کے برعکس ایران کے موجودہ حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان سے بھاگ کر ایران میں پناہ لینے والے بلوچ عسکریت پسندوں پر سختی کریں گے تو اس کے رد عمل میں ایرانی سیستان و بلوچستان میں بھی بلوچ قومی تحریک زور پکڑ سکتی ہے۔ لہٰذا وہ نہ صرف ان کی جانب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں بلکہ محدود پیمانے پر ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور بدلے میں ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ایران میں نہ تو کوئی کاروائی کریں گے اور نہ ہی بلوچ قومی آزادی کی حمایت۔ اس حوالے سے ایرانی حکمرانوں کا رویہ بہت حد تک 1980ء کی دہائی کے اوائل اور وسط تک انڈین حکومت کے تامل ٹائیگرز کیساتھ رویے سے ملتا جلتا ہے۔ اسلام آباد، تہران کی اس پالیسی کا جواب پہلے جند اللہ اور پھر جیش العدل کو سپورٹ کر کے دیتا آیا ہے لیکن اس فرق کیساتھ کہ ان تنظیموں کو کبھی بھی ایرانی سیستان و بلوچستان کے بلوچ عوام کی کوئی خاص ہمدردی حاصل نہیں رہی۔ یہاں پاکستان کی مقتدرہ کو یہ بھی شکوہ ہے کہ انہوں نے تو بلوچ قومی تحریک پر ایک مشترکہ پالیسی اپنانے کے حوالے سے کئی مرتبہ ایران کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے، یہاں تک کہ 2010ء میں جند اللہ کے سربراہ عبد المالک ریگی کی ایرانی حکام کے ہاتھوں حیرت انگیز گرفتاری میں بھی پاکستان کا عمل دخل تھا مگر ایران نے کبھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لہٰذا دونوں طرف سے ”ٹٹ فار ٹیٹ“ رسپانس کا سلسلہ پچھلی دو دہائیوں سے جاری ہے اور حالیہ فوجی حملوں کے پیچھے بھی 3 نومبر کو بی ایل ایف کی جانب سے کوسٹل ہائی وے پر 14 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت اورپھر 15 دسمبر کو راسک، ایرانی سیستان و بلوچستان میں جیش العدل کے ایک حملے میں 12 پولیس والوں کی ہلاکت جیسے واقعات موجود تھے۔
لیکن دوسری طرف ایرانی حملے کو مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے کاٹ کر دیکھنا بھی غلط ہو گا۔ ایرانی حکمران مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جنگ اور خاص کر پچھلے کچھ عرصے میں شام، عراق اور لبنان میں ایرانی پاسداران اور ایرانی پراکسیوں کے ٹاپ لیول عہدیداران کی اسرائیلی و امریکی حملوں میں ہلاکت، داعش خراسان کی جانب سے قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر کرمان میں کیے جانے والے خونریز خود کش دھماکے جبکہ ماضی میں داعش اور اسرائیلی موساد کے مابین روابط کے شواہد بھی موجود ہیں، یمنی حوثیوں پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں اور ایران کیخلاف براہ راست فوجی کاروائی کے بڑھتے امکانات کی وجہ سے پریشر اور تناؤ کا شکار ہیں۔ مزید برآں ایسی صورتحال میں، اور خاص کر جب پچھلے چند سالوں میں ایران کی ملا اشرافیہ کیخلاف چلنے والی عوامی تحریکوں کی بازگشت ابھی بھی سماج میں سنائی دیتی ہے، فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا ان کی داخلی مجبوری بھی تھی۔ لہٰذا جہاں انہوں نے ایک طرف شام اور عراق میں داعش اور مبینہ طور پر موساد کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا وہیں دوسری طرف پاکستان میں جیش العدل کو نشانہ بنایا۔ یہاں واضح رہے کہ ہوائی قیاس آرائیوں کے برعکس جیش العدل کا کرمان دھماکے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ایران نے سرکاری طور پر کبھی یہ دعوی کیا تھا بلکہ جیش پر حملہ بالخصوص راسک حملے کاجواب اور بالعموم طور پر ایران کی جانب سے کئے جانے والے پاور شو کا حصہ تھا جس کا مقصد پورے خطے اور دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ اپنی قومی سلامتی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پچھلی ایک دہائی میں ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کی یہ چوتھی خلاف ورزی تھی اور پہلی تین مرتبہ پاکستان نے ایران کو کوئی براہ راست جواب نہیں دیا تھا اور شاید اس لئے بھی تہران کو امید تھی کہ اسلام آباد اس مرتبہ بھی اس حرکت کو نظر انداز کر دے گا۔ اور آثار بتاتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران ایسا ہی کرتے اگر ایران ان کے لئے سفارتی طور پر فیس سیونگ کی کوئی گنجائش نکال لیتا لیکن ایک تو ایرانی حکومت الٹا اکڑ گئی، اس کے ساتھ ساتھ اتنے حکومتی روابط کی موجودگی کے باوجود اور انڈین وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے محض ایک روز بعد کئے جانے والے ایرانی حملے نے پہلے سے ہی عوام میں انتہائی بدنام اور ذلیل و خوار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خاکی پتلون بیچ چوراہے اتار دی۔ اوپر سے انڈین دفتر خارجہ کی جانب سے ایرانی حملے کی نیم ڈھکی چھپی حمایت، مستقبل قریب میں انڈیا میں ہونے والے الیکشن سے پہلے دہلی کی جانب سے ممکنہ فوجی مہم جوئی کی حوصلہ افزائی کے خوف اور حالیہ زبردست بلوچ عوامی تحریک کے سامنے خود کو بے دست و پا محسوس کرتی ریاست نے اسلام آباد کو فوجی جواب دینے پر مجبور کر دیا۔ بہر حال پاکستان پر حملہ ایرانی حکمرانوں کی ایک انتہائی غلط وقت پر کی گئی بھیانک اسٹریٹیجک غلطی تھی۔ ایران نے پچھلی تین دہائیوں میں پراکسی جنگوں، جارحانہ خارجہ پالیسی اور پاور شو کے ذریعے اپنے اوپر براہ راست حملے کے حوالے سے ایک ریڈ لائن کھینچی تھی جسے امریکہ بھی کراس کرتے ہوئے گھبراتا تھا لیکن تہران کی اس بیکار کی مہم جوئی کے نتیجے میں یہ ریڈ لائن پاکستان جیسے ملک کے ہاتھوں روندی گئی اور یہ بات امریکہ و اسرائیل سمیت ایران کے تمام مخالفین نے نوٹ کر لی ہے۔
بعض دانشور حضرات ماضی میں پاکستان کے امریکہ کے لئے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے کردار اور سعودی عرب کیساتھ وظیفہ خواری پر مبنی قریبی تعلقات کی بنیاد پر یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ شاید اس حملے کا ایران کیخلاف امریکہ سعودی گٹھ جوڑ سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن موجودہ بلوچ قومی تحریک کے گرد ایران اور پاکستان کے اختلافات، دونوں ممالک کی افغانستان میں بالادستی قائم کرنے کی پراکسی لڑائی اور پاکستان میں لڑی جانے والی ایرانی سعودی فرقہ وارانہ پراکسی جنگ سے قطع نظر عراق ایران جنگ سے لیکر شامی خانہ جنگی اور یمن پر سعودی حملے سے لے کر آج تک پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کے تمام تر دباؤ کے باوجود کبھی بھی اپنے علاقے کو ان قوتوں کے ہاتھوں ایران کیخلاف کسی براہ راست کاروائی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے سعودی عرب اور ایران کیساتھ تعلقات میں ایک نازک توازن برقرار رکھا ہے اور ایران کو اپنا براہ راست مخالف بنانے سے گریز کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں پاکستان کے سماج اور ریاست میں موجود فرقہ وارانہ فالٹ لائینز کے گرد ایک ایسی خونریز لڑائی شروع ہو سکتی ہے جو بذات خود ریاست کے لئے خطرہ بن جائے گی۔ مزید برآں پاکستان پہلے ہی مشرق میں انڈیا اور مغرب میں افغانستان کیساتھ الجھا ہوا ہے اور ایسے میں ایک تیسرا محاذ کھولنا ریاست افورڈ نہیں کر سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشرق وسطیٰ میں بے قابو ہوتا جنگ کا پھیلاؤ اس وقت امریکہ کے لئے بھی پریشان کن ہے لیکن اس کی مجبوری ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے قابل اعتماد اتحادی اسرائیل کو نہیں چھوڑ سکتا، اور نہ ہی فی الحال سعودی جنگ چاہتے ہیں خاص کر جب انہوں نے پچھلے عرصے میں ہی چین کی ثالثی میں ایران کیساتھ اپنے معاملات کچھ بہتر کئے ہیں۔ لیکن بہر حال اگر مستقبل میں یہ جنگ مزید پھیلتی ہے، جس کے امکانات لگ رہے ہیں، تو پھر پاکستان پر امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے اس حوالے سے دباؤ آ سکتا ہے اور اسے قبول کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورتوں میں ریاست پاکستان اور حتمی تجزئیے میں یہاں کے عوام کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ لیکن دوسری جانب اس امر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ایک طرف پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں حالیہ زبردست بلوچ عوامی ابھار، ڈیورینڈ لائن پر بگڑتی صورتحال اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جنگ کا دباؤ، دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کو بلوچ قومی تحریک اور افغانستان میں طالبان حکومت کے حوالے سے ایک مشترکہ پالیسی بنانے کی طرف لے جائے اور وہ بھی جب ان دونوں ممالک کیساتھ انتہائی قریبی تعلقات، بھاری سرمایہ کاری اور اسٹریٹیجک مفادات رکھنے والا چین بھی یہی چاہتا ہے۔
حکمرانوں کی جیو اسٹریٹیجک لڑائیاں اور محنت کش طبقہ
ہم نے ابھی تک اوپر جتنے بھی بین الریاستی اختلافات، جیو اسٹریٹیجک تضادات، بنتے بگڑتے اتحادوں وغیرہ کی بات کی ہے، حتمی تجزئیے میں ان سب کا تعلق عالمی سامراجی بورژوازی اور ریاستی قوتوں اور مختلف علاقائی سامراجی ریاستوں کے سرمایہ دار حکمران طبقات اور ریاستی افسر شاہی کے معاشی، سیاسی، سماجی اور سفارتی و فوجی مفادات کے ساتھ ہے نہ کہ مختلف اقوام کے محنت کش طبقے کے ساتھ۔ لیکن اس تمام تر چپقلش اور لڑائیوں کی قیمت ہمیشہ محنت کش عوام کو ہی چکانی پڑتی ہے چاہے وہ معاشی استحصال کی صورت میں ہو یا قتل و غارت گری کی صورت میں۔ مزید برآں تمام حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ ریاستیں بڑی چالاکی سے ان اختلافات کو قومی شاؤنزم، جنگی جنون اور ریاست پرستی وغیرہ جیسے پر فریب نظریات سماج پر مسلط کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں اور ”ریاست خطرے میں ہے“ اور ”قومی اتحاد، وقت کی ضرورت ہے“ جیسے نعروں کا استعمال کر کے نہ صرف طبقاتی تضادات کو دبانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے بلکہ مظلوم اقوام کی جدوجہد کو بھی سبو تاژ کیا جاتا ہے۔ اور آج کے عہد میں جب پاکستان، جنوب ایشیائی خطے سمیت پوری دنیا میں طبقاتی و قومی نجات کی تحریکیں زوروں پر ہیں، تو ایسے میں حکمران طبقات کی جانب سے اس قسم کی مذموم کوششیں اور زیادہ شدت سے کی جا رہی ہیں۔ اسی لئے مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ حکمران طبقات کے ان تمام حربوں اور فریبوں کا بھرپور مقابلہ کریں اور عالمی و علاقائی تعلقات اور جیو اسٹریٹیجک معاملات کو محنت کش طبقے کے فوری اور لانگ ٹرم طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے پرکھتے ہو ئے اپنا موقف بنائیں۔ لہٰذا ان معاملات کا مارکسی تجزئیہ کرتے وقت ہمیں لینن اور کارل لائیبنیخت کے مشہور نعرے ”اصل دشمن گھر میں ہے!“ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی بعض پرتوں، خاص کر مظلوم قومیتوں کے درمیانے طبقے اور انٹیلی جنشیہ میں موجود عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی اداروں کے متعلق موجود خوش فہمیوں کی بیخ کنی کے لئے بھی ایک واضح مارکسی موقف رکھنے کی ضرورت ہے۔
آج لینن کی ”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ لکھے جانے کے 108 سال بعد مارکسزم لینن ازم کے نظریات پہلے سے بھی زیادہ درست ثابت ہو رہے ہیں اور تاریخ کی کسوٹی پر ہر لحاظ سے پورے اترے ہیں۔ آج دنیا بھر کے محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کی صرف ہر قسم کے جبر و استحصال سے حتمی نجات ہی نہیں بلکہ فوری مسائل کا حل بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ ریاست کے خاتمے کا متقاضی ہے۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ یہی واحد راہ نجات ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشوں کا اتحاد۔۔زندہ باد!
محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کا اتحاد۔۔زندہ باد!
واحد راستہ، واحد حل۔۔سوشلسٹ انقلاب!