|تحریر: آفتاب اشرف|
گزشتہ ایک دہائی سے سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ معاشی سست روی اور گراوٹ کی اس کیفیت میں ہر جگہ سرمایہ دار طبقہ اپنی شرح منافع میں اضافے کی خاطر محنت کش طبقے پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ ان حملوں کے ردعمل میں کرۂ ارض کے ہر خطے میں محنت کشوں کے احتجاج، ہڑتالیں اور تحریکیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ محنت کش طبقے کا یہ تحرک بے شمار ممالک کے سیاسی منظرنامے میں شدید اتھل پتھل کا سبب بن رہا ہے۔ ماضی کی سیاسی روایات تیزی سے دم توڑ رہی ہیں اور اُن کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے دائیں بازو اور بائیں بازو کی نئی سیاسی قوتیں جنم لے رہی ہیں۔ کہیں پر یہ عمل تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو کہیں پر نسبتاًسست روی کے ساتھ۔ کہیں پر سماج میں پنپتے یہ تضادات کھل کر اپنا واضح اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں تو کہیں پر بظاہر پرسکون نظر آنے والی سطح کے نیچے بغاوت کا لاوا تیزی سے پک کر تیار ہو رہا ہے۔ لیکن ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں پر متحارب طبقات کے مابین طبقاتی کشمکش ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار نہ کر رہی ہو۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے۔ اگرچہ کچھ عقل کے اندھے دانشوروں اور ان کے مقلدین کو سماج کی تہہ میں پنپتی ہوئی سرکشی نظر نہیں آ رہی لیکن ہم انہیں یہ چتاؤنی دیتے ہیں کہ عنقریب ان کا سامنا غیرمعمولی واقعات سے ہونے والا ہے۔
1991ء میں سوویت یونین کے انہدام سے پوری دنیا میں مزدور تحریک کو شدید دھچکا لگا تھا۔ پاکستان کی مزدور تحریک بھی تنزلی کی اس عمومی عالمی صورتحال سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ سوویت انہدام سے پھیلنے والی مایوسی کا اظہار بڑے پیمانے پر سٹالنسٹ بائیں بازو، ٹریڈیونین قیادتوں اور پیپلزپارٹی قیادت کی غداریوں کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر مزدور تحریک کی شکست وریخت، نظریاتی دیوالیہ پن اور مسلسل زوال کی صورت میں نکلا۔ یہ تاریک دور لگ بھگ ڈیڑھ دہائی کے عرصے پر محیط تھا۔ اگرچے اس تمام عرصے میں محنت کش طبقے کے بعض حصوں نے اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر دلیرانہ جدوجہد کی، جس کی سب سے شاندار مثال PTCL کی نجکاری کیخلاف 2005ء میں ہونے والی ہڑتال ہے، لیکن عمومی طور پرمزدور تحریک پر زوال کی کیفیت حاوی رہی۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے گرد جنم لینے والی عوامی تحریک نے لمبے عرصے سے چلی آنے والی اس زوال اور مایوسی کی کیفیت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو کے ریاستی قتل اور پیپلز پارٹی قیادت کی بھیانک غداری نے اس تحریک کو ابتدائی مراحل میں ہی زائل کر دیا لیکن سماج پر چھایا سکوت ٹوٹ چکا تھااور چیزوں کا واپس پلٹنا نا ممکن تھا۔ اسی اثنا میں2008ء کے مالیاتی کریش سے عالمی مالیاتی بحران کا آغاز ہوا اور پوری دنیا کی طرح پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور اس کے نمائندہ حکمرانوں نے بھی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کرتے ہوئے ان پر شدید معاشی حملے کرنے شروع کر دیے۔ ان تمام عوامل کے جدلیاتی امتزاج نے مزدور تحریک کے احیا کے لئے درکار معروضی بنیادیں فراہم کیں۔
پچھلے دس سالوں میں پاکستان میں محنت کش طبقے کا تحرک بتدریج بڑھتا گیا ہے اور خصوصاً پچھلے چند سالوں میں اس کی شدت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ واپڈا، پی آئی اے، ریلوے، OGDCL، اسٹیل مل جیسے سرکاری اداروں کے محنت کش ہوں یا مختلف نجی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور، محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے ینگ ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور نرسز ہوں یا محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، چھوٹے سرکاری ملازمین ہوں یا پاورلومز سیکٹر کے ورکرزسب ہی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجکاری کے خاتمے، مستقل ملازمتوں کے حصول، اجرتوں کی بروقت ادائیگی اور ان میں اضافے، ٹھیکیداری نظام اور ڈیلی ویجزسے چھٹکارے جیسے معاشی مطالبات کے گرد ہونے والے احتجاجوں میں محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ حصوں اور پرتوں کی شمولیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ مزدور تحریک کی یہ اٹھان جہاں ایک طرف پاکستان کے مارکس وادیوں کے لئے نہایت حوصلہ افزا امر ہے وہیں دوسری طرف یہ ان کے سامنے نئے چیلنجز بھی رکھ رہی ہے۔ مارکس وادیوں کے لئے محنت کشوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں تک سوشلزم کے نظریات پہنچانے اور انہیں جیتنے کے مواقع روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ذہنوں میں موجود ایک ’’صاف ستھری، ہموار اور نظریاتی طور پر خالص مزدور تحریک‘‘ جیسے ساکت و جامد تجریدی تصورات کو جھٹک دیں اور مزدور تحریک کو ویسے دیکھیں جیسے کہ وہ حقیقت میں اپنے ٹھوس معروضی حالات میں پنپتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم تحریک کے ہر مرحلے پر اپنے رول کا درست تعین کر سکتے ہیں اور تحریک کو کامیابی سے سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل تک پہنچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں ابھرنے والی مزدور تحریک کا عمومی کردار ابھی تک فوری معاشی مطالبات کے گرد بننے والی ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور بکھری ہوئی بے شمار چھوٹے اور درمیانے درجے کی تحریکوں پر مبنی ہے۔ اگرچے وقفے وقفے سے مختلف اداروں اور محکموں کے محنت کشوں کی جانب سے سماج کی سطح پر واضح نظر آنے والی صوبائی یا ملک گیر سطح کی بڑی ہڑتالیں اور احتجاج بھی کئے گئے جن میں ینگ ڈاکٹرز کی تحریک، 2015ء میں واپڈا ورکرز کی نجکاری مخالف تحریک، 2016ء میں PIA میں ہونے والی ہڑتال، 2017ء میں ہونے والی ریلوے ڈرائیورز کی ہڑتال، پیرامیڈکس اور اساتذہ کی تحریکیں قابل ذکر ہیں لیکن یہ تحریکیں مزدور تحریک کے عمومی کردار کو فوری طور پر تبدیل نہ کر سکیں۔ بائیں بازو کے کسی بے صبرے پیٹی بورژوا دانشور کے لئے یہ سب حقائق شاید ناخوشگوار ہوں لیکن ہم بحیثیت مارکسسٹ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں کی مو جودگی، سوشلسٹ نظریات سے دوری، تمام سیاسی پارٹیوں کی شدید مزدور دشمنی اور بائیں بازو کی ایک بڑی سیاسی قوت کی عدم موجودگی کے سبب تنزلی اور مایوسی پر مبنی ایک طویل عہد کے بطن سے جنم لینے والی مزدور تحریک کا ابتدائی مرحلہ ایسا ہی ہو سکتا تھا۔ محنت کش طبقہ ابتدا ہی سے ایک پختہ طبقاتی شعور رکھتے ہوئے تحرک میں نہیں آتابلکہ مزدور تحریک کی حرکیات اور طبقے کے شعور کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ طبقاتی شعور کی پختگی عملی جدوجہد کے میدان میں ہی پروان چڑھتی ہے اور جدوجہد کی کٹھالی سے گزرتے ہوئے ہی محنت کش طبقہ یکے بعد دیگرے مختلف واقعات اوران سے حاصل کردہ اسباق کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ضروری نتائج اخذ کرنے کی سمت بڑھتا ہے۔ لیکن یہ بھی کسی سیدھی لکیر میں ہونے والا بتدریج، آرام دہ اور ہموار عمل نہیں ہوتا۔ جدلیاتی قوانین کے تحت شعور کی بڑھوتری بھی پر پیچ، نا ہموار اور دھماکہ خیز انداز میں ہوتی ہے۔ محنت کش طبقے کے لئے یہ سارا عمل مشکل بھی ہوتا ہے اور تکلیف دہ بھی لیکن اسے ناگزیر طور پر اس امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ البتہ ایک طاقتور موضوعی عنصر (انقلابی پارٹی) کی موجودگی محنت کش طبقے کے لئے اس سارے عمل کو نسبتاً آسان اور ہموار بنا سکتی ہے لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ موضوعی عنصر کا ہاتھ طبقے کی نبض پر ہواور اسے بخوبی ادراک ہو کہ چیزیں کس سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
بعض اوقات غیر معمولی واقعات اتنے تواتر کے ساتھ ہونے لگتے ہیں کہ روز مرہ کی روٹین کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ تو شاید ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے۔ چند ایک کج فہم دانشوروں کو حالیہ برسوں میں ملک کے ہر حصے میں آئے روز ہونے والے محنت کشوں کے احتجاج، جلسے، دھرنے اور ہڑتالیں شاید ’’معمول‘‘ کے واقعات ہی لگتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مزدور تحریک بس ایک لگی بندھی ڈگر پر ایسے ہی چلتی جائے گی۔ بہتر ہے کہ ایسے احمقوں کو ہم ان کی جنت میں خوش رہنے دیں لیکن سنجیدہ مارکسی کارکن یہ بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی بھی مظہر لا متناہی طور پر ایک ہی ڈگر پر نہیں چل سکتااور چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں جلد یا بدیر ایک دھماکہ خیز معیاری تبدیلی کو جنم دینے کا سبب بنتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان میں مزدور تحریک کی بھی ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں محنت کشوں نے ٹریڈ یونین قیادت کی غداریوں کو بھی سہا ہے اور سیاسی قیادتوں کی مزدور دشمنی کو بھی دیکھا ہے، انہوں نے عدالت اور میڈیا کی منافقت اور جھوٹ بھی سنے ہیں اور ریاست کے ننگے جبر کا سامنا بھی کیا ہے، انہوں نے حکمران طبقے، مالکان اور انتظامیہ سے بے شمار دھوکے بھی کھائے ہیں اور انا کو مجروح کر دینے والے دھکے بھی۔ انہوں نے بارہا نظام کی حدود میں رہتے ہوئے، قانون کی پاسداری کرتے ہوئے، موقع پرست ٹریڈیونین لیڈروں پر اعتماد کرتے ہوئے، سیاسی قیادتوں سے امیدیں لگاتے ہوئے، عدالت اور ریاست سے انصاف اور میڈیا سے حق گوئی کی توقع رکھتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کی ہے لیکن اپنی تمام تر جرات اور بہادری کے باوجودانہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور کٹی ہوئی تحریکوں کے دوران ان میں شامل ہر محنت کش نے بڑے پیمانے پر طبقاتی جڑت نہ ہونے کے نقصانات بھی دیکھے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ محنت کش طبقے کا قابل ذکر حصہ پچھلے دس سالوں میں ان تمام تلخ تجربات سے بے شمار دفعہ گزر چکا ہے۔ جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے ان تمام تر تجربات سے ضروری نتائج اخذ نہیں کرے گا، وہ پرلے درجے کا احمق ہے۔ لیکن سنجیدہ مارکس وادی یہ دیکھ رہے ہیں کہ محنت کشوں کی ہراول پرتیں ماضی کے ان تمام ترتجربات سے اہم نتائج اخذ کر رہی ہیں۔
اس حقیقت کا اظہار غدار ٹریڈ یونین قیادتوں کے خلاف شدید نفرت، سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیوں سے شدید بیزاری اور لاتعلقی، عدالتی نظام پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد، پولیس، محکمہ لیبر اور دیگر ریاستی اداروں سے شدید نفرت اور طبقاتی جڑت کی ضرورت اور اہمیت کے بڑھتے ہوئے ادراک جیسی علامات کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس وقت زیادہ تر احتجاج اور مظاہرے ٹریڈ یونین قیادتوں کو اپنی مرضی کے خلاف، نیچے سے پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے کرنے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں چلنے والی کئی ایک تحریکوں میں محنت کش موقع پرست قیادتوں کی جانب سے تحریک پر عائد کی گئی مصنوعی حدود کو توڑتے ہوئے آگے نکلے ہیں اور قیادتوں کو بعد میں اپنی کھال بچانے کے لئے مزدوروں کی طرف سے کئے گئے اقدامات کی مجبوراً تو ثیق کرنا پڑی ہے۔ جہاں کہیں بھی محنت کشوں کو موقع ملا ہے اور انہیں کوئی متبادل میسر آیا ہے، انہوں نے پرانی روایتی قیادتوں سے جان چھڑوانے میں ذرا دیر نہیں لگائی ہے۔ اپریل 2017ء میں پاکستان اسٹیل مل کے ریفرنڈم میں پیپلز ورکر یونین کی عبرتناک شکست جیتنے والی یونین کی حمایت کی بجائے نام نہاد روایتی قیادت سے شدید نفرت کا ایک اظہار تھی۔ اس کے علاوہ اب کئی سیکٹرز خصوصاً نجی صنعتوں میں کسی قانونی ٹریڈ یونین پلیٹ فارم کے بغیر محنت کشوں کے’’خودرو‘‘ احتجاج اور مظاہرے بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک اور اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں چلنے والی کسی ایک تحریک نے بھی کسی سیاسی پارٹی کا رخ نہیں کیااور یہی وجہ ہے کہ ریاست سیاسی قیادتوں کی مداخلت کے ذریعے کسی بھی تحریک کو زائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی سب سے شاندار مثال 2016ء میں PIA کی ہڑتال کو پیپلز پارٹی قیادت کے ذریعے تڑوانے کی ناکام ریاستی کوشش تھی۔
مزدور تحریک کی بدلتی ہوئی حرکیات کا ایک اور انتہائی اہم پہلو پنجاب اور سندھ کے ساتھ ساتھ پچھلے دو، تین سالوں میں خیبر پختونخواہ، کشمیر اوربلوچستان میں محنت کش طبقے کا تحرک ہے۔ خیبر پختونخواہ میں حال ہی میں ینگ ڈاکٹرز اور اساتذہ کی نہایت شاندار تحریکیں چلی ہیں لیکن سب سے توجہ طلب صورتحال بلوچستان کی ہے جہاں مزدور تحریک شدید ریاستی جبر، قتل وغارت گری اور زہریلی قوم پرستی کی موجودگی کے باوجود ابھری ہے۔ ان مخصوص معروضی عناصر کی وجہ سے بلوچستان کے محنت کش دیر سے میدان میں اترے ہیں لیکن اس وقت وہ پورے پاکستان کے محنت کشوں کے لئے جراتمندی کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کی ٹریڈ یونین قیادتوں کی جانب سے صوبائی سطح پر عام ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ یہ سب ٹریڈ یونین لیڈروں پر نیچے سے پڑنے والے دباؤ کا نتیجہ تھااور اگرچہ قیادت نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کال جلد ہی واپس بھی لے لی لیکن قیادت کا یہ کال دینے پر مجبور ہو جانا ہی حقیقی صورتحال کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے۔ مندرجہ بالا تمام تربحث کے نتیجے میں اہم ترین سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم مزدور تحریک کی بدلتی ہوئی حرکیات سے کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں اور مستقبل کا کیا تناظر بنا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک کا ابتدائی مرحلہ محنت کش طبقے کو بے شمار قیمتی تجربات اور اسباق سے مسلح کرتے ہوئے اب اپنے اختتام کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی اور گراوٹ کے تناظر میں ملکی معیشت کی حالت نہایت دگر گوں ہو چکی ہے اور اس میں بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں۔ اسی لیے مستقبل قریب میں محنت کش طبقے پر شدید ترین معاشی حملوں کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن اب یہ وہ محنت کش طبقہ نہیں جو آج سے دس سال پہلے تھا۔ پچھلی ایک دہائی رائیگاں ہر گز نہیں گئی ہے۔ مستقبل میں ہونے والے ان حملوں کا جواب محنت کش طبقہ مقداری اور معیاری طور پر پہلے سے کہیں بلند تر پیمانے پر دے گا۔ دوسرے الفاظ میں مزدور تحریک اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو چکی ہے اور چند ایک بڑے واقعات یا حملے اس کے کردار کو بالکل تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس اگلے مرحلے میں ہمیں محنت کش طبقے کے بھاری حصے (خصوصاً نجی صنعتوں کے مزدور) تحرک میں نظر آ ئیں گے۔ ماضی کے مقابلے میں تحریک کا موڈ کہیں زیادہ لڑاکا اور بیباک ہو گا۔ موقع پرست ٹریڈیونین قیادتوں کو یا تو عام محنت کشوں کے دباؤکے سامنے سر جھکانا پڑے گایا پھر انہیں قیادت سے نکال باہر کیا جائے گااور تحریک ان کی جگہ زیادہ دلیر اور ایماندار قیادت تراش لائے گی۔ ابھی تک کسی حد تک قائم روایتی ٹریڈیونینز میں شدید لڑائی کھلے گی اور اس کا نتیجہ یا تو غدار قیادتوں کے خاتمے اور ان یونینز کے نئے جنم کی صورت میں نکلے گایا پھر ان کے بطن سے نئی لڑاکا یونینز وجود میں آئیں گی۔ بہت سے اداروں اور صنعتوں میں ہم کسی قانونی ٹریڈ یونین پلیٹ فارم کے بغیر ’’خودرو‘‘ تحریکیں بنتے ہوئے دیکھیں گے اور اس عمل کے دوران کئی نئی لڑاکا یونینز اور ایسو سی ایشنز بھی تخلیق ہوں گی۔ مزدور تحریک میں سیاسی نظریات کی پیاس بڑھے گی اور طبقے کی ہر اول پرتیں پورے نظام، معیشت، سیاست، ریاست کو سمجھنے کی خواہش کا کھل کر اظہار کریں گی۔ اس بڑھتی ہوئی سیاسی دلچسپی کا اظہار نا گزیر طور پر تحریک کے نعروں اور مطالبات میں بھی ہو گااور ماضی کے بر عکس ہمیں خالص معاشی مطالبات کے ساتھ ساتھ سیاسی مطالبات اور نعرے بھی سننے کو ملیں گے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ہی سیکٹر کے تمام محنت کشوں کے مابین اور مختلف اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے بیچ طبقاتی بنیادوں پر جڑت پید ا کرنے کی ضرورت کا احساس شدید تر ہوتا چلا جائے گااور اس کا نا گزیر نتیجہ طبقاتی جڑت کے عملی اظہار کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گا۔ انہی سب عناصر کا جدلیاتی تال میل تحریک کے مجموعی کردار کو معیاری طور پر بدل کر رکھ دے گا۔
اس تناظر سے مسلح ہوتے ہوئے مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ مزدور تحریک میں بھرپور مداخلت کی تیاری کریں۔ اس کے لیے جہاں ایک طرف انہیں اپنی مقداری قوتوں میں اضافہ کرنا ہو گاوہیں دوسری طرف ان کے پاس اپنا کردار بدلتی ہوئی تحریک کے لیے ایک واضح لا ئحہ عمل کا ہونا ضروری ہے جس کے اہم ترین نکات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ تمام محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کی ضرورت و اہمیت کو واضح اندازمیں پیش کرنااور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف اداروں، صنعتوں، ٹریڈ یونینز اور ایسو سی ایشنز کے محنت کشوں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض سر انجام دینا۔ ابھرتی ہوئی طلبہ تحریک کو مزدور تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنا۔
2۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی عام ہڑتالوں کی مثال دیتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کے تصور کومزدور تحریک میں متعارف کرانا۔
3۔ غدار اور موقع پرست مزدور قیادتوں پر بلا جھجک کڑی تنقید رکھنا لیکن خیال رہے کہ تنقید رکھنے سے مراد ذاتی حملے کرنا نہیں بلکہ قیادت کی طرف سے پیش کیے جانے والے پرو گرام اور حکمت عملی کی کمزوریوں کو محنت کشوں کے سامنے عیاں کرنااور درست متبادل پیش کرنا ہے۔
4۔ سیاسی افق پر نظر آنے والی تمام پارٹیوں کی مزدور دشمنی اور لیبر این جی اوزکی غلاظت پر کڑی تنقید رکھتے ہوئے محنت کش طبقے کی ایک حقیقی نمائندہ سیاسی پارٹی کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرنا جو محنت کشوں کی عملی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔
5۔ سوشلزم کے نظریات کو مزدور تحریک میں بلا جھجک متعارف کرانا۔ ورکرز کے فوری مسائل کا سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے ساتھ تعلق واضح کرنااور ان مسائل کے حتمی حل کو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے ساتھ جوڑتے ہوئے سوشلسٹ معیشت کے عمومی خدوخال کی وضاحت کرنا۔
آگے بڑھو ساتھیو!سچے جذبوں کی قسم، فتح ہماری ہو گی!