تحریر: |پارس جان|
’’مائنس ون‘‘ فارمولا سہل پسندانہ ریاضیاتی اور میکانکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی سوچ ہی افرادکے مبالغہ آرائی پر مبنی کردار اور جنونیت پر مبنی اطاعت کو سماجی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسئلے کی نوعیت اور شدت جو بھی ہو، اگر ذمہ دار شخص کواس کی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، قطع نظر اس کے کہ یہ دیکھا اور پرکھا جائے کہ مبادا اس شخص کی موجودگی جسے مسئلے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے اس مسئلے کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ مائنس ون کا منطقی مترادف ’پلس ون‘ بھی ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک شخص کی وجہ سے تمام تر مسئلہ درپیش ہے تو پھر ضرور کوئی دوسرا شخص ایسا ہو گا جو اس مسئلے کو بآسانی حل کر دے گا۔ نام نہاد ترقی پذیر اور حقیقتاً پسماندہ سماجوں میں سیاست ہی نہیں کھیل، ادب، خاندانی معاملات، ریاستی امور، کاروبار غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں عام طور پرسوچنے کا یہی طریقہ رائج ہے۔ عمران خان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ پاکستان کو جتوا یا تھا، اب کوئی اور آئے جو یہ اعزاز واپس دلا سکے۔ یا شاید عمران خان کرکٹ ٹیم کی طرح ملک کو بھی بحرانوں سے نکال کر کامیابیوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔ شاہد آفریدی کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے، اسے نکال دیں تو مسئلہ حل ہو جائے۔ کچھ سال قبل تک پاکستان میں مہنگائی سے لے کر دہشت گردی تک تمام مسائل کی ذمہ داری ایک ہی فرد پر عائد کی جاتی تھی کہ پرویز مشرف کو اگر مائنس کر دیا جائے تو یہ فوج اور سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ اعزاز آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی تمام مسائل کو اسی طرح حل کرنے کی کوشش کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔ ایک پالتو لیڈر سے جان چھڑاؤ اور نیا گھوڑا دوڑاؤ، ایک دہشت گرد گروپ کو ہٹاؤ، دوسرے کو آزماؤ، برے طالبان کو بھگاؤ، اچھے طالبان کو لاؤ، غدار مہاجروں پر لعنت اور موقع پرستوں کو خوش آمدید، لڑاکا بلوچوں کو مارو اور بکاؤ بلوچوں کو پالو۔ ابھی یہ سمجھا اور سمجھایاجا رہا ہے کہ الطاف حسین جو گلے کی ایسی ہڈی بن چکا ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے اور نہ اگلی جا سکتی ہے، کو اگر مائنس کر دیا جائے تو کراچی میں امن قائم ہو جائے گا، یا ریاستی رِٹ مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔ یہ فارمولا مکمل طور پر غلط اور زمینی حقائق سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ الطاف حسین نے کراچی کے حالات خراب نہیں کیے ہیں بلکہ ایک خاص وقت میں سماج میں طبقاتی کشمکش کے شدید دور کے بعد طاقت کا توازن اتنا بگڑا اورکراچی کے حالات اس در جہ خراب ہوئے کہ ان حالات نے درمیانے طبقے کی سیاسی پارٹی MQM کو جنم دیا اور الطاف حسین جیسے متشدد ذہنیت کے شخص کو کراچی جیسے محنت کشوں کے شہر کا لیڈر بنا دیا۔ اور پھر ریاست کے مختلف دھڑوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کی زیرِ سرپرستی طاقت مسلسل الطاف حسین کی ذات میں اس حد تک مرتکز ہوتی گئی کہ یہ سارا عمل خود عاملین کے قابو سے باہر ہو گیا اور نتیجتاً کراچی میں متوازی ریاست پروان چڑھتی گئی۔ ریاست کے اپنے بحران اور دراڑوں کے باعث ریاست کے امریکہ نواز دھڑے نے ریاستی طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھنے کی غرض سے اس متوازی ریاست کی سرپرستی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھی۔ متحارب دھڑوں نے نہ صرف کراچی پربلکہ اپنی عمومی گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے طاقت کے نئے مراکز کو جنم دیا اور یوں ریاست کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں معرضِ وجود میں آتی گئیں جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت پہلے سے متلاشی اور سرگرم عالمی اور علاقائی سامراجیوں سے مراسم قائم کر لئے۔ یوں بالآخر جب ریاست کے وجود کو ہی خطرات لاحق ہوئے تو متحارب دھڑوں کو ریاست کی رِ ٹ کی بحالی کے مشترکہ مقصد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یکے بعد دیگرے مختلف قسم کے آپریشنز کا سلسلہ شروع کرنے پر مشروط اتفاق کرنا پڑا۔ ابھی تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے کے گرد قومی سلامتی کے لئے ریاست کے تمام دھڑوں کا آپس میں ایک ’مقدس اتحاد‘ قائم ہو چکا ہے۔ یہ بلاشبہ ایسا اتحاد ہے ’جس کی پہلی شرط ہی علیحدگی ہے‘۔ یوں الطاف حسین مائنس ہو گا یا نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس کے کراچی اور پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے ارادے یاالطاف حسین کی ذہنی کیفیت نہیں بلکہ موجودہ اور آئندہ ٹھوس سماجی حقائق کریں گے جن کا تعین بالخصوص کراچی اور بالعموم اس مملکتِ خداوندی کی سیاسی معاشیات کے مرہونِ منت ہو گا۔
MQM کی بغاوت اور MQM میں بغاوت یہ دونوں باتیں کوئی نئی نہیں ہیں اور نہ ہی 23 اگست کو ایسا کچھ ہو گیا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ الطاف حسین نے پہلے بھی پاکستان کا جھنڈا جلایا تھا اور اب اگر ’پاکستان مردہ باد‘ کا نعرہ لگا دیا تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ میڈیا ہاؤ سز پر کراچی میں پہلے بھی حملے ہوئے ہیں، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ ’پاک سر زمین‘ بکرے کی ماں کی کوئی پہلی مینگن نہیں ہے، MQM میں پہلے بھی ( حقیقی اور سنی تحریک) ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔ MQM اور GHQ میں طلاق اور حلالے کی دہائیوں پرانی تاریخ ہے مگر تعلقات ’جائز یا ناجائز‘ کسی بھی شکل میں بہرحال موجود رہے ہیں اور ان میں فیصلہ کن تعطل نہ کبھی آیا ہے اور نہ ہی کبھی آ سکتا ہے۔ شریعت میں تو شاید ایک ہی حلالے کی گنجائش ہوتی ہے مگر یہ نکاح شرعی نہیں بلکہ مالیاتی ہے اس لئے اس پر کسی بھی قسم کی شریعت کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں البتہ جس سیاسی ماحول اور معاشی ’آب و ہوا‘ میں یہ تعلق پنپ رہا ہے اس میں ایک معیاری تبدیلی کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس معیاری تبدیلی کو سمجھے اور اس کی نشاندہی کئے بغیر MQM کے سیاسی مستقبل کا تناظر نہیں بنایا جا سکتا۔
فاروق ستار کو بہت عقلمند اور سیانا کوا قرار دیا جا رہا ہے کہ اس نے انتہائی خطرناک مرحلے سے نہ صرف خود کو اور اپنی پارٹی کو بلکہ ملک کو بھی نکال لیا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ وقتی طور پر خطرہ ٹل ضرور گیا ہے مگر ختم نہیں ہوا۔ MQM کا عسکری ونگ مکمل طور پر فاروق ستار سمیت کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نام نہاد خودمختار رابطہ کمیٹی کا کوئی لیڈر بھی کھلے عام یہ کہنے کی جرات نہیں کر پا رہا کہ الطاف حسین ہمارا لیڈر نہیں رہا۔ الطاف حسین کے ایک اشارے پر گزشتہ انتخابات کے بعد نائن زیرو میں فاروق ستار اور کچھ اور اہم لوگوں کو شدید ذلت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ MQM ایک لمبے عرصے سے داخلی خلفشار کا شکار چلی آ رہی ہے۔ لوٹ کے مال پر حصوں کی لڑائی کی شدت نے پارٹی کے حصے بخرے کر چھوڑے ہیں۔ سیاسی حمایت بھی بڑے پیمانے پر گری ہے۔ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کو پڑنے والے ووٹوں کی بڑی تعداردو بولنے والوں میں متبادل کی شدید جستجو کی عکاسی کرتی تھی۔ مگر عمران خان کی بے مقصدیت اور لایعنیت پر مبنی سیاست نے دوبارہ مہاجر آبادی کو MQM کے زنداں میں محصور کر دیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں۔ MQM مہاجروں کا ویسے ہی جیل خانہ ہے جیسے پیپلز پارٹی سندھیوں کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ دونوں میں اب زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ دونوں ریاست کی مجبوری بھی ہیں اور رقیب بھی مگر ریاست دونوں کی مجبوری ہے۔ کسی بھی ایسے سیاسی متبادل کی غیر موجودگی میں جو احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کو کم کر نے کی صلاحیت رکھتا ہو MQMکو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ریاستی مشینری کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ ریاستی اداروں کی جے جے کار کے لئے اس سارے ڈرامے کو طول دیا جا رہا ہے۔ الطاف حسین کی حمایت کم ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کراچی کے لوگوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو جائے گا۔ نسلی اور لسانی تعصب کو کم کرنے کی بجائے اور بھی بھڑکایا جا رہا ہے۔ عوام الطاف حسین سے جتنی بھی نفرت کر لیں، اس سے زیادہ نفرت وہ اس نظام (علی بابا اور چالیس چوروں) سے کرتے ہیں۔ عوام کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کون زیادہ بھیانک ہے اور کس کا کردار زیادہ گھناؤنا ہے۔ کمتر برائی (Lesser Evil) کا تصور اور حمایت ہمارے چند معتبر دانشوروں کے دماغوں کے علاوہ اور کہیں وجود نہیں رکھتے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر الطاف حسین وطن کا غدار ہے تو نائن زیرو پر جا کر جئے الطاف کا نعرہ لگانے والا آصف علی زرداری محبِ وطن کیسے ہو گیا؟ اربوں روپے کی کرپشن کر کے سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس کا پیٹ بھر کے ملک کو دیوالیہ پن تک پہنچا دینے والے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کو شرافت کا لائسنس کس نے دیا؟ را کے مبینہ ایجنٹ الطاف حسین کے نام پر حیدر آباد میں یونیورسٹی بنانے والے ملک ریاض کو کوئی پوچھنے والا ہے کہ نہیں۔ اسی ملک ریاض سے کئی کئی مرلوں اور کنالوں کے پلاٹ تحفتاً وصول کرنے والے عظیم ٹی وی اینکرز کیا وفادار شہری اور معزز لوگ ہیں؟ الطاف حسین اور MQM کو کراچی اور ملکی سیاست میں کھلی چھٹی دینے والا، بے پناہ اسلحہ دینے والا اور بھتوں اور لوٹ مار کے بہترین مواقع فراہم کرنے والا پرویز مشرف وطن پرست کیسے ہو گیا؟ ہائیکورٹ کے بقول پیٹرول پمپس اور دیگر منافع بخش کاروباری میدانوں میں اپنے پاؤں جمانے والی رینجرز کیا دودھ کی دھلی ہوئی ہے؟ درندہ صفت جنونی مدارس کو کروڑوں روپے کی گرانٹ دینے والی تحریکِ انصاف کے پیٹ میں وطن اور اہلِ وطن کی محبت کے بڑے مروڑ پڑ رہے ہیں، اس سے زیادہ بیہودہ مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک کو ظالموں اور جابروں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر معافیاں مانگ کر بھاگ جانے والے شریف برادران کو تو نشانِ حیدر سے نوازا جانا چاہئے۔ مارشل لا لگانے والے اور آئین توڑنے والوں کے گلے میں تو ہار ڈالنے چاہئیں۔ گھر پر قبضہ کر لینے والے گھر کے چوکیداروں کے سینے تو تمغوں اور میڈلوں سے ضرور سجے ہونے چاہئیں۔ PCO کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو ملک کا ہمدرد کیسے مان لیں؟اگر MQM ایک دہشت گرد پارٹی ہے اور اس پر پابندی لگنی چاہئے تو پھر اس کے ساتھ باری باری اتحاد کرنے والی پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ANP، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر پارٹیاں بری الذمہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ جو شریکِ اقتدار ہیں کیا وہ شریکِ جرم نہیں۔ ان پر پابندی کیوں نہیں لگنی چاہئے۔ جب مذہبی دہشت گرد اور فرقہ پرور کھلے عام دندناتے پھر رہے ہوں تو MQM پر پابندی لگنے سے ملک میں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟
کراچی آپریشن کو بیس سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اور اس عرصے میں بڑے پیمانے پر جرائم پیشہ افراد گرفتار بھی ہوئے۔ یہ بھی درست ہے کہ آپریشن کا زیادہ تر ہدف MQM کے عسکری ونگ کو بنایا گیا تاکہ MQM کی متشدد مزاحمت کو کم سے کم کرکے اسے قابو میں کیا جا سکے۔ 24 اگست 2016ء کے روزنامہ دنیا کی ایک رپوٹ کے مطابق رینجرز کا کہنا ہے کہ 4 ستمبر 2013ء سے اب تک کراچی کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن میں 848 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیا ہے جو کہ مجموعی طور پر ٹارگٹ کلنگ کی 7224 وارداتوں میں ملوث تھے۔ گرفتار کئے جانے والے 654 ٹارگٹ کلرز کا تعلق MQM کے عسکری ونگ سے ہے جنہوں نے 5863 وارداتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ جبکہ 99 ٹارگٹ کلرز کا تعلق کالعدم مذہبی تنظیموں سے ہے جنہوں نے 557 وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس سارے عرصے میں مزید پیدا ہونے والے ٹارگٹ کلرز کی تعداد اس تعداد سے کم ہو گی جبکہ کراچی میں کالی معیشت اور خاص طور پر منشیات اور اغوا برائے تاوان کا کام مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اور سیاسی حمایت کم ہونے سے MQM جیسی پارٹیوں کا تمام تر انحصار پھر اسی کالی معیشت کی لڑائی کی طرف بڑھے گا جو مزید انتشار کا باعث بنے گا۔ قربانی کی کھالوں، بھتوں اور قبضہ گروپوں کی لوٹ مار میں MQM کا حصہ ضرور کم ہوا ہے مگر اس کے عمومی حجم میں بہت بڑے پیمانے پر کمی نہیں آئی۔ MQM کے حصے میں کمی کا مطلب ہے کالعدم دہشت گرد مذہبی جنونیوں کے حصے میں اضافہ۔ یوں مسئلہ حل ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (UNODC) کے پاکستانی نمائندے نے 24 اگست کو کراچی میں اقوامِ متحدہ کی سالانہ منشیات پر عالمی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اہم انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پوری دنیا میں ممنوعہ منشیات کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں کاشت ہو رہا ہے جس کا 42-43 فیصد حصہ پاکستان کے راستے سے عالمی منڈی تک پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ان منشیات کا سب سے بڑا ’’TRANSIT HUB‘‘ ہے۔ رپورٹ میں مزید بتا گیا کہ 2015ء میں پاکستان میں 372 ہیکٹرز پر9ٹن پوست کاشت ہوئی جبکہ 2014ء میں 217 ہیکٹرز پر5 ٹن پوست کاشت کی گئی تھی۔ جو ایک سال میں ہونے والا بہت بڑا اضافہ ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس اور برازیل کی طرح پاکستان بھی ڈرگ روٹ سے بتدریج ڈرگ استعمال کرنے والے بڑے ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ مزید برآں کراچی کو Drug War کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اغوا ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد کو بھی منشیات کی ایک جگہ سے دوسری جگہ محفوط منتقلی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کالی معیشت کے صرف ایک شعبے کی صورتحال ہے۔ باقی تمام شاخیں بھی کافی پھل پھول رہی ہیں۔ اور ان تمام شاخوں پر لندن سیکرٹریٹ کے پنچھیوں کے گھونسلے ہیں۔ پاکستانی پنچھی بھی انہی شاخوں پر گھونسلوں کے تمنائی ہیں، اسی لئے وہ ان شاخوں کو گرانا نہیں بلکہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں مگر لندن کے پنچھیوں کے گھونسلوں کے بغیر۔ اور دہشت گرد اور غنڈہ گرد گروپوں سمیت ریاستی اداروں اور سیاسی پارٹیوں کی مالیاتی آکسیجن کی سپلائی لائن بھی یہی ہے۔ یہی وہ سیاسی معاشیات ہے جو کراچی کے حالات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اور اگر معیشت کالی ہو تو سیاست اور سماجیات کیسے سرسبز و شاداب ہو سکتی ہیں؟
اس حقیقت پر جتنا بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہے مگر یہ کڑوا سچ اب زباں زدِ عام ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جو زار کے روس کی طرح قومیتوں کا جیل خانہ بن چکی ہے۔ کوئی بھی ضربِ عضب یا غضب پاکستانیوں کو ایک قوم میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ بلوچوں سے لے کر مہاجروں تک سب کے زخم آج تک ہرے ہیں۔ کراچی محنت کشوں کا شہر ہے۔ رکشے والے، ریڑھی والے، دیہاڑی دار اور سب سے بڑھ کر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو MQM سے نہ تو پہلے کوئی امید تھی، نہ اب ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔ MQM کے ’اچھے‘ دنوں میں اس سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے اور اب میٹھی یا کڑوی تنقید کر کے اپنے کاغذ صاف کروانے کی کوشش کرنے والے بھی ان محنت کشوں کا دل کبھی نہیں جیت سکتے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں جہاں یونین سازی کا تصور بھی محال بنا دیا گیا ہے یا بکاؤ قیادتیں اور پاکٹ یونینیں مسلط کر دی گئی ہیں۔ فیڈریشنز کے نام پر بے شمار لوگوں نے دکانیں چمکائی ہوئی ہیں، این جی اوز کے نام پر زخموں اور محرومیوں کی تجارت عروج پر ہے۔ ان سب حالات میں پسے ہوئے محنت کش کراچی میں جاری اس پتلی تماشے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر بڑے اہم اور سنجیدہ نتائج بھی برآمد کر رہے ہیں۔ ان کے شعور کی مقداری تبدیلی اگرچہ سست ہے مگر ایک معیاری جست کے لئے حالات سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ جب محنت کشوں کو اپنی طاقت کا احساس ہو گیا تو یہ بحرانوں میں گھری ریاست عوام کے جمِ غفیر کے سامنے تنکوں کی طرح بکھر کر منتشر ہو جائے گی۔ یہ ’پاکستان زندہ باد‘ اور ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعروں کی تکرار کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ کہیں عوام کو ان کی حقیقی طاقت کا ادراک ہی نہ ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے کیا؟ کیا پاکستان زندہ باد کا مطلب ہے پہاڑ زندہ باد، دریا زندہ باد، میدان زندہ باد، سات لاکھ چھیانوے ہزار چھیانوے مربع کلومیٹر زندہ باد؟ یا یہاں بسنے والے 20 کروڑ انسان زندہ باد۔ اور اگر انسان ہی برباد ہوں تو زمین کا کرنا بھی کیا ہے۔ کیا دریا، پہاڑ اور میدان محض میزائلوں اور جدید ہتھیاروں کے تجربے کرنے کے لیے ہی ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال یہ ہے کہ سرمایہ دار، جاگیردار اور افسر شاہی زندہ باد یا مزدور، کسان اور غریب عوام زندہ باد؟ ان دو متحارب اور متضاد طبقات میں سے ایک وقت میں ایک ہی زندہ باد ہو سکتا ہے۔ ایک کی خوشی دوسرے کا غم اور ایک کا منافع دوسرے کا خسارہ ہے۔ ان سوالات کے جوابات کے بغیر کروڑوں سوختہ جاں اور بے سرو سامان انسانی ڈھانچوں کے لیے ’پاکستان زندہ باد‘ محض خالی خولی لفاظی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔