|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، بلوچستان|
گزشتہ تین دنوں سے بلوچستان کا سرحدی شہر چمن میدان جنگ بنا ہوا ہے جہاں پر ریاستی سیکیورٹی ادارے (ایف سی) کی جانب سے چمن شہر میں داخل ہونے والی شاہراہ کوژک ٹاپ پر احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے شرکاء کے خیموں کو آگ لگائی گئی اور شرکاء کے منتشر ہونے پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ ایف سی کی اس فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں کے قریب لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جس کے باعث ابھی تک مزید صورت حال واضح نہیں ہوئی ہے۔ احتجاجی دھڑنے پر ایف سی کے حملے کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ایف سی کے اس بہیمانہ حملے کے بعد احتجاجی دھرنے کے شرکاء ڈپٹی کمشنر آفس چمن پہنچے۔ جہاں انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے اپنی قیادت کی رہائی کے لیے احتجاج کیا مگر اس احتجاج پر بھی ریاستی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا۔ آج چمن شہر کے محنت کشوں نے پورا شہر احتجاجاً مکمل طور پر بند رکھا ہوا ہے اور احتجاجی دھرنے کے شرکاء بدستور ڈی سی آفس کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔
یاد رہے بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پچھلے نو مہینوں سے احتجاجی دھرنا چل رہا ہے، جس کے بنیادی مطالبات میں ایک اہم مطالبہ پچھلی نگران حکومت کے دوران ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پر پاسپورٹ پالیسی کا اجراء تھا۔ جس کے خلاف 20 اکتوبر 2023 کو چمن کے شہر میں لغڑی اتحاد (بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں کی اتحاد) اور دیگر اتحادی تنظیموں کے زیر اہتمام دھرنے کا آغاز ہوا۔ اس دھرنے پر ریاستی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کئی بار حملے ہوئے ہیں مگر ان تمام تر حملوں کا جرات مندی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے یہ احتجاجی دھرنا آج اپنے اٹھویں مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔
اس سارے معاملے میں ریاست کی جانب سے نہ صرف کھلی ہٹ دھرمی کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ اس احتجاجی دھرنے کے تمام مطالبات کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ تمام حکومتی و ریاستی ادارے اور اہلکار اس احتجاجی دھرنے پر ہونے والے ننگے جبر پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے مطالبات کو تسلیم کرنا تو درکنار، دھرنے کے شرکاء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ علاوہ ازیں اس احتجاجی دھرنے کو بلوچستان بھر کی سیاسی پارٹیوں (مذہبی و قوم پرست) نے احتجاجی دھرنے کو محض اپنی سیاسی کمپیئن کے طور پر استعمال کیا اور احتجاجی دھرنے کے مطالبات پر کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ کوئی غور و فکر کیا ہی نہیں۔
محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی سب سے پہلے تو ریاستی اداروں کی جانب سے پرامن احتجاجی دھرنے کے شرکاء پر مسلسل حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان حملوں کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور ان حملوں میں ملوث سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے مطالبات پر ریاستی و نااہل صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی اور مجرمانہ رویے کی بھی مذمت کرتے ہیں اور احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت اور مشکل کی اس گھڑی میں چمن کے محنت کش عوام کے ساتھ آخری قدم تک شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرتے ہیں۔
ہم بلوچستان سمیت پورے پاکستان کی ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں سے بھی چمن کے محنت کشوں اور اس احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور ان کا ساتھ دینے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ مسئلے کی سنجیدگی کی نوعیت کا پتہ چلے اور محنت کش طبقہ اپنے اتحاد کی طاقت سے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے اور چمن کے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کرنے پہ مجبور کر سکے۔
اس وقت چمن میں موجود تمام محنت کش عوام بالواسطہ یا بلاواسطہ اس احتجاجی دھرنے کا حصہ ہیں مگر ان کے پاس اپنے مسائل کو حل کرنے کا کوئی منظم اور ٹھوس لائحہ عمل موجود نہیں ہے اور دھرنے کی قیادت بلوچستان بھر میں محنت کشوں کی ٹریڈ یونینز اور ایسوسییشنز کی قیادت اور دیگر محنت کشوں کے ساتھ مل کر منظم لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہے۔ اس سے ہٹ کر کسی اور سے خیر کی توقع رکھنا محض وقت کا ضیاع ہے۔