چمن بارڈر پر عوامی احتجاج۔۔۔فریاد جو للکار بن رہی ہے!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پچھلے سات دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ احتجاجی دھرنے کے چھٹے دن چمن کے محنت کش عوام نے چمن شہر میں ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی ریلی نکالی۔

احتجاجی ریلی کا آغاز پاک افغان بین الاقوامی شاہرہ سے ہوا، جوکہ چمن پریس کلب پہنچ کر احتجاجی جلسے میں تبدیل ہوئی۔ احتجاجی جلسے و ریلی میں شرکت کرنے والوں کا ایک ہی نعرہ تھا، کہ ہم چمن بارڈر پر پاسپورٹ کے اجراء کو کسی بھی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جاری احتجاجی دھرنے میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان، تاجر برادری، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔ شرکاء نے سرحد پر پاسپورٹ پالیسی متعارف کرانے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے خلاف نعرے لگائے۔

چمن میں جاری احتجاجی دھرنے میں شریک مظاہرین کا کہنا ہے کہ ”پاک افغان سرحد پر جاری اس احتجاجی دھرنے کا انعقاد اس طویل سرحد کے دونوں اطراف آباد پشتون عوام کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ ہم نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر نئے امیگریشن نظام کو ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرسکتے۔ یہاں سرحدی تنازعات کی ایک بڑی وجہ بھی یہی حکومتی اقدامات ہیں۔‘‘

مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے حوالے سے حکومتی فیصلے کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ مہاجرین کی زندگی مزید تباہی سے دوچار نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ”حکومت بلاوجہ الجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں سے افغان مہاجر اپنا سب کچھ چھوڑ کر افغانستان جائیں گے تو رہیں گے کہاں۔ ان کے لیے وہاں رہائش یا دوبارہ آبادکاری کے لیے افغان حکومت نے بھی اب تک کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔“

یاد رہے کہ ریاست نے تمام تر ریاستی تضادات، بالعموم معاشی، سماجی اور سیاسی بحران سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے افغان مہاجرین کو پاکستان کے تمام تر مسائل کی جڑ قرار دیا ہے، اور افغان مہاجرین کی روک تھام کے لیے یکم نومبر سے چمن بارڈر پر پاسپورٹ کے بغیر لوگوں کے آنے جانے کو مکمل طور بند کر دیا ہے۔ اس دوران نام نہاد نگران حکومت کی جانب سے ویزا اور پاسپورٹ نہ رکھنے والوں کے لیے بارڈر کراسنگ پر پابندی کے بعد پاکستانی حکومت نے کسی بھی افغان شہری کو بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہی فیصلہ نام نہاد طالبان حکومت نے بھی کیا ہے جوکہ بارڈر کے اس پار چمن سمیت دیگر لوگوں کو قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) پر داخلے کی اجازت نہیں دے رہی۔

ریڈ ورکرز فرنٹ چمن میں جاری احتجاجی دھرنے کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ بارڈر کے کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ چمن سمیت بلوچستان اور پورے پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ اور اس بارڈر کاروبار سے ہٹ کر ان کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہے۔

دوسری جانب بلوچستان بھر کے مضافاتی علاقے جن کی سرحد ایران اور افغانستان کے ساتھ لگتی ہے، وہاں پر ریاستی پالیسیاں لوگوں کے معاشی قتل کے مترادف ہیں۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان تمام تر علاقوں میں ان لوگوں کے پاس ”بارڈر ٹریڈ“ کے علاوہ اور کوئی بھی روزگار نہیں ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان کے تمام سرحدی علاقوں میں بارڈر ٹریڈ کو فی الفور قانونی طریقے سے وہاں پر آباد لوگوں کی ضروریات اور آسانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا جائے۔ اگر یہ طریقہ قابل عمل نہیں ہے تو وہاں پر آباد لوگوں کو متبادل روزگار فراہم کرنا نام نہاد ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔

بارڈر ٹریڈ جو کہ بلوچستان کے اندر ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کے بارڈر ٹریڈ کے ساتھ لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ اس ضمن میں ہم بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے بارڈر ٹریڈ سے منسلک محنت کشوں کے لیے بھی آواز اُٹھائیں۔ تاکہ ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ!“ کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

Comments are closed.