|رپورٹ: انفارمیشن سیکرٹری، ریڈ ورکرز فرنٹ|
4 دسمبر 2021ء کو بشیر بختیار لیبر ہال میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں، ٹھیکیداری، صنفی جبر، قومی جبر اور حکمران طبقے کی دیگر مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ایک شاندار مرکزی مزدور کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک بھر سے عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور یونین قیادتوں، مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ، طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے شرکت کی۔
حالیہ عرصے میں پاکستان کے حکمران طبقے کی جانب سے مہنگائی سمیت دیگر مزدور دشمن پالیسیوں میں بے تحاشہ شدت لائی گئی ہے۔ ایک عام محنت کش کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے نہیں بچے اور وہ بچوں سمیت خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں جہاں ایک طرف محنت کشوں میں شدیدت غصہ پایا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف سیاسی منظر نامے میں ان کے پاس ایسی کوئی پارٹی بھی نہیں جو ان ظلم و جبر کے خاتمے کا کوئی پروگرام پیش کر رہی ہو اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے پروگرام کے تحت جدوجہد کر رہی ہو۔ تمام پارٹیاں موجودہ نظام کی ہی پروردہ ہیں۔ یا پھر عالمی سامراجی ٹکڑوں پر پلنے والی این جی اوز، جو فیکٹری مزدوروں سے لے کر سماج کی تمام مظلوم پرتوں کے دکھوں پر نوٹ چھاپتی ہیں اور مصالحت کا پیغام پھیلاتی ہیں، موجود ہیں۔ ان کا کام بھی سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنا ہی ہے۔ ایسے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ملک گیر عام ہڑتال کے پیغام کے گرد منظم کیے گئے اس کنونشن کے ذریعے ملک بھر کے محنت کشوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر مزدور، کسان اور طلبہ منظم ہو جائیں اور مل کر اس نظام کے خلاف جدوجہد کریں تو اس امیروں کے اس نظام کو نیست و نابود کیا جا سکتا ہے، اور ایک ایک سماج تخلیق کیا جا سکتا ہے جس میں بھوک، ننگ، لاعلاجی اور جہالت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یقیناً یہ کنونشن پاکستان کے محنت کشوں کی جدوجہد میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔
اس کنونشن کے انعقاد کی تیاریوں کے سلسلے میں ملک کے متعدد شہروں میں بھی کنونشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں حیدر آباد، کراچی، کوئٹہ، ذوب، لورالائی، ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان، کامونکے، اسلام آباد، پشاور، تیمرگرہ، لوئر دیر اور راولاکوٹ شامل ہیں۔
مرکزی مزدور کنونشن کا آغاز ہفتے کی صبح 11 بجے ہوا۔ کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ کی مرکزی رہنما پارس جان نے ادا کیے اور اپنی گفتگو کے آغاز میں ملک بھر سے آئے محنت کشوں کو خوش آمدید کہا۔ پارس جان نے مزدور کنونشن میں موجود شرکا کی طرف سے بھارت میں کسانوں کی شاندار جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا اور بھارت کے محنت کش طبقے سے ہر جدوجہد میں یکجہتی کے عزم کا اظہار کیا۔
اس کے بعد پارس جان نے ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کی راہنما انعم خان کو محنت کشوں سے خطاب کی دعوت دی۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انعم خان نے مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری کے خاتمے اور اجرتوں میں اضافے و مستقل روزگار کے حصول کے لئے مزدور اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کے حوالے سے بحث کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کے محنت کشوں کو بالکل ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے اور جن کا حل بھی ایک ہے۔ محنت کشوں نے الگ الگ جدوجہد کر کے دیکھ لیا ہے اب ضرورت ہے کہ وہ متحد ہوں اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے حکمرانوں کو اپنی طاقت سے خوفزدہ کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کی طرف جائیں۔ انعم خان نے کراچی میں کوویڈ نرسز اور دیگر سٹاف کی کافی عرصے سے جاری جدوجہد کے حوالے سے تمام شرکا کو آگاہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں صحت کے شعبے کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ رہے گا۔
انعم خان کا مزید کہنا تھا کہ محنت کش عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ حکمران طبقے کے افراد کی نااہلی تمام مسائل کی وجہ ہے اور اس طرح سے موجودہ نظام کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کا تمام تر حکمران طبقہ ناکام ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام بھی مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اس نظام کے رہتے ہوئے محنت کش عوام کی زندگیاں آسان نہیں ہو سکتیں۔ انعم خان کا کہنا تھا کہ محنت کش طبقہ ایک بہت بڑی طاقت رکھتا ہے اور بہت جلد محنت کش طبقہ اپنی طاقت کا اظہار کرے گا اور طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر اس نظام کے خلاف حتمی لڑائی لڑنے کی طرف جائے گا۔
انعم خان کے بعد واپڈا ہائیڈرویونین لاہور کے رہنما اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے سینئیر رہنما مقصود ہمدانی نے خطاب کیا اور نجکاری کے خلاف جاری جدوجہد کے حوالے سے گفتگو رکھی۔ مقصود ہمدانی کا کہنا تھا کہ نجکاری کے خلاف واپڈا، ریلوے اور صحت کے اداروں سمیت کئی اداروں کے محنت کشوں کی جدوجہد جاری ہے لیکن ابھی تک حکمران طبقہ انہیں مختلف لالی پاپ دیتے ہوئے نجکاری کے پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ مقصود ہمدانی کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کے محنت کشوں نے الگ الگ لڑائیاں لڑ کر دیکھ لیا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اداروں کے محنت کش متحد اور منظم ہوں اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کریں اور اس ملک کے حکمرانوں کو اپنی طاقت سے اکھاڑ پھینکیں۔ مقصود ہمدانی نے اپنے خطاب میں اس بات کے عزم کا اظہار کیا کہ وہ ہر جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ شامل رہیں گے۔
اس کے بعد گجومتہ انڈسٹریل سیکٹر میں واقع علی مرتضیٰ فیکٹری سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش یاسر شریف نے شرکا سے خطاب کیا۔ یاسر کا کہنا تھا کہ میں جس فیکٹری میں کام کرتا ہوں اس کا نام علی مرتضیٰ ہے لیکن اس کا مالک یزید سے بھی بد تر انسان ہے جو دن رات محنت کشوں پر جبر کرتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مودی ایک ظالم انسان ہے جو کشمیر میں ظلم و ستم ڈھاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مودی سے کہیں بڑے ظالم ان فیکٹریوں کارخانوں میں بیٹھے ہوئے ان کے مالکان ہیں جو دن رات بے بس اور لاچار محنت کشوں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور ان کا خون چوستے ہیں۔ جب محنت کش اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں پر کوئی میڈیا چینل یا اخبار ان کی داد رسی نہیں کرتا اور کہیں پر ان کی خبر نہیں دکھائی جاتی۔ تمام تر میڈیا دن رات عوام کو جھوٹی کہانیاں اور حکمران طبقے کے فسانے سناتا رہتا ہے۔ میڈیا پر بیٹھ کر حکمران چلا چلا کر ایک دوسرے کو چور کرپٹ کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اس تمام تر شور کے باوجود کسی بھی حکمران طبقے کے چور کو سزا نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام حکمران چاہے وہ پارلیمنٹ والے ہوں یا فوجی جرنیل سب کے سب چور ہیں۔ اسی طرح لیبر کورٹس سے لے کر سپریم کورٹ تک کہیں پر محنت کشوں کے مسائل کی دادرسی نہیں کی جاتی۔ یاسر شریف نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ واحد ایسے لوگ ہیں جو ہمہ وقت محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یاسر کا کہنا تھا کہ محنت کش بھی ہر لڑائی میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھ شامل رہیں گے۔
یاسر شریف کے بعد ریلوے ڈیزل شیڈ لاہور سے آئے ہوئے ورکر عامر حسین نے خطاب کیا۔ عامر حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے بڑے بڑے جلوس دیکھے ہیں اور بہت سے محنت کشوں کے لیڈران کو بھی دیکھا ہے لیکن آج تک کسی نے کبھی عام محنت کشوں کو اتنی عزت نہیں دی اور نہ ہی انہیں جلوسوں میں اپنی بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کشوں کو عزت دیتا ہے اور انہیں موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ خود اپنے مسائل کے حل کے لیے لڑائی میں شامل ہوں۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ محنت کش بھی اسی طرح ریڈ ورکرز فرنٹ کا ساتھ دیں گے جس طرح وہ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
اس کے بعد گلگت بلتستان سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے راہنما اعجاز ایوب نے خطاب کیا اور گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کو درپیش مسائل بیان کیے اور ان مسائل کے حل کی جدوجہد پر گفتگو کی۔
اعجاز ایون کے بعد ایپکا لاہور ڈویژن کے صدر چوہدری مختار گجر نے شرکا سے خطاب کیا۔ مختار گجر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے پچھلی حکومتوں کی روش برقرار رکھتے ہوئے ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دے دیا ہے۔ محنت کشوں کے پاس متحد ہو کر لڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ آج کے کنونشن کے توسط سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر جدوجہد میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھ رہیں گے جس طرح ان کے کارکنان ہر احتجاج میں محنت کشوں کے ساتھ شامل رہتے ہیں۔
چوہدری مختار کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے راہنما کریم پرھار نے کنونشن سے خطاب کیا۔ کریم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے محنت کشوں کی جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ ہے جسے پاکستان کے حکمران طبقے نے تاریخ کی کتابوں سے مٹا دیا ہے۔ ہمیں آج وہ تاریخ محنت کشوں تک لے کر جانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح پاکستان کے محنت کش طبقے نے ایک طاقتور آمر کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور اپنی طاقت کا اظہار کیا۔ آج بھی محنت کشوں کو اپنی طاقت کے بلبوتے پر موجودہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور مزدور ریاست قائم کرنا ہوگی۔ کریم کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ پاکستانی ریاست نہ صرف یہ کہ محنت کشوں کا بدترین استحصال کر رہی ہے اور لوگوں کو خود کشی پر مجبور کر چکی ہے بلکہ یہ ریاست مظلوم قومیتوں پر بھی انتہائی جبر و تشدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ریاست کا تمام تر جبر اس پر حکمران سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے اور اس جبر سے پاکستان کے محنت کشوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ محنت کش طبقہ اقتدار میں آ کر نہ صرف اپنے اوپر ہونے والے جبر کا خاتمہ کرے گا بلکہ وہ مظلوم قومیتوں پر ہونے والے جبر کو بھی مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ اس کے بعد کریم پرھار نے گوادر میں جاری تحریک پر بات کی اور کنونشن میں شریک ٹریڈ یونینز سے اپیل کی کہ وہ گوادر میں جاری تحریک کی حمایت کریں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کریں۔
کریم پرھار کے بعد کنونشن سے جی ایس او لیسکو کے زونل چئیرمین جاوید شاہ اور جنرل سیکرٹری ظہور احمد بھٹی نے بھی خطاب کیا اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے مزدور کنونشن منعقد کرنے کے اقدام کو سراہا اور اعلان کیا کہ وہ ریڈ ورکرز فرنٹ میں شامل ہو کر اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔
اس کے بعد پنجاب کسان کمیٹی کے مرکزی صدر رانا فیض احمد نے خطاب کیا۔ رانا فیض احمد کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام نے محنت کشوں سے زندہ رہنا کا حق چھین لیا ہے۔ رانا فیض احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کسان بھی بہت جلد انڈیا کے کسانوں کی طرح اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کے لیے نکلیں گے۔ رانا فیض کا کہنا تھا کہ پاکستان کے غریب کسان بھی انقلاب کی جدوجہد میں پاکستان کے مزدور طبقے کے ساتھ ہوں گے۔
رانا فیض کے بعد پاکستان ریلوے سے آئے ہوئے آل پاکستان ریلوے ٹریڈ یونین الائنس کے صدر محمود ننگیانہ، ریلوے لیبر یونین کے مرکزی رہنما سرفراز احمد اور صدر عنایت گجر نے بھی کنونشن سے خطاب کیا۔ تمام راہنماؤں نے ریلوے کے محنت کشوں کو درپیش مسائل پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ مسلسل محنت کشوں پر انتہائی گھناؤنے حملے کرتا چلا جا رہا ہے۔ ریلوے کے محنت کشوں کو بھی انتہائی گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ ریلوے کا محکمہ نجکاری کی زد میں ہے۔ ریلوے کے محنت کشوں نے پچھلے عرصے میں نجکاری و دیگر مسائل کے خلاف ایک جدوجہد کا آغاز کیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے اس جدوجہد کو تیز تر کیا جائے۔ ان راہنماؤں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے انقلابی کارکنان کے جذبات اور محنت کو بھی سراہا۔ راہنماؤں نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ریلوے کے محنت کش نجکاری اور اپنے دیگر حقوق کی جدوجہد کو اگلے مرحلے میں لے کر جا رہے ہیں۔ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ بہت جلد ملک میں ریلوے بند کرنے کا اعلان کر دیں گے۔
ان کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی اور جنرل ٹائر ورکرز یونین کے صدر عزیز خان نے خطاب کیا۔ عزیز خان کا کہنا تھا کہ اس ہال میں بیٹھے لوگ وہ عظیم انسان ہیں جو اپنے ذاتی مفادات چھوڑ کر ایک عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس ہال میں بیٹھے تھوڑے سے لوگ ایک بہت بڑی طاقت بنیں گے اور اس نظام کو تبدیل کر کے ایک انسان دوست نظام تعمیر کریں گے۔
عزیز خان کے بعد پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشنکی نائب صدر فائزہ رعنا نے بھی خطاب کیا۔ فائزہ رعنا کا کہنا تھا کہ میں ان تمام لوگوں کو سلام پیش کرتی ہوں جنہوں نے انکار کا راستہ چنا اور جدوجہد کا حصہ بنے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک قابلِ عمل لائحہ عمل بنائیں تاکہ ہم اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو سکیں۔
فائزہ رعنا کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر فضیل اصغر نے خطاب کیا اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ایچ ای سی کی بجٹ میں کٹوتیوں اور تعلیم کے مہنگے ہونے پر بات کی۔ فضیل اصغر کا کہنا تھا کہ مستقبل میں انقلاب کی جدوجہد میں طالب علم اپنے مزدور بھائیوں کے شانہ بشانہ شریک ہوں گے۔
فضیل کے بعد ریلوے لیبر یونین کراچی ڈویژن کے صدر سلیم اللہ نے خطاب کیا اور ریلوے میں کام کرنے والے محنت کشوں کو درپیش مسائل سمیت نجکاری اور اسکے مزدور دشمن اثرات پر بات کی۔
سلیم اللہ کے بعد پی ٹی سی ایل کے مرکزی صدر حافظ لطف اللہ نے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ محنت کشوں کو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔ متحد ہوئے بغیر ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے۔
حافظ لطف اللہ کے بعد الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کے راہنما ملک منیر نے خطاب کیا۔ ملک منیر نے صحت کے شعبے کی نجکاری اور اس کے مضمرات پر تفصیلی بات کی۔ ملک منیر حسین نے صحت کے شعبے کی تنظیموں کو متحد کرنے کی کوشش کرنے اور صحت کے شعبے کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کا حصہ بننے پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔
ملک منیر کے بعد پنجاب ٹیچرز یونین کے راہنما گل زادہ صافی نے خطاب کیا۔ گل زادہ صافی نے مہنگائی کے سرکاری ملازمین پر پڑنے والے اثرات پر بات رکھی۔
اس کے بعد پروگرام کے آخری لمحات میں سٹیج سیکرٹری پارس جان نے کچھ قراردادیں پیش کیں جنہیں تمام شرکاء نے منظور کیا۔ قراردادوں کا متن درج ذیل ہے:
1۔ افراط زر سے منسلک کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔
2۔ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ مقرر کیے جائیں۔
3۔ ٹھیکیداری اور آؤٹ سورسنگ کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور مستقل روزگار فراہم کیا جائے۔
4۔ تمام ڈیلی ویجز ایڈہاک اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں کو فی الفور مستقل کیا جائے۔
5۔ نجکاری پالیسی کا خاتمہ کیا جائے اور وزارتِ نجکاری کا خاتمہ کیا جائے۔ ماضی میں نجکاری کا نشانہ بننے والے اداروں کو واپس نیشنلائز کیا جائے۔
6۔ تمام عوامی اداروں اور صنعتوں میں سیفٹی قوانین پر عملدرآمد کیا جائے۔ محنت کشوں کو عالمی معیار کے مطابق سامان فراہم کیا جائے۔
7۔ خواتین محنت کشوں کو مرد محنت کشوں کے برابر اجرت دی جائے۔ زچگی کے دوران چھ ماہ بمعہ تنخواہ رخصت دی جائے۔ جنسی ہراسانی کا خاتمہ کیا جائے۔
8۔ یونین سازی پر پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، طلبہ اور محنت کشوں کو یونین سازی کا حق دیا جائے۔
9۔ بے روزگاروں کی فہرست مرتب کی جائے، نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے یا بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔
10۔ کھیت مزدوروں کو صنعتی محنت کش کا درجہ دیا جائے، کسانوں کے لیے بجلی کھاد میں سبسڈی میں اضافہ کیا جائے۔ آڑھت کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
11۔ تمام سامراجی قرضے ضبط کیے جائیں۔
12۔ واپڈا ہائیڈرو ڈی جی خان کے زونل چئیرمین شہباز احمد بھٹی کے خلاف نجکاری مخالف جدوجہد کی پاداش میں انتقامی کاروائیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
13۔ جبری گمشدگیوں سمیت تمام ریاستی ظالمانہ پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ مظلوم قومیتوں پر جاری جبر و تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔
14۔ کنونشن کے شرکاء گوادر میں جاری تحریک سے مکمل اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔
15۔ افغانستان میں جاری جبر اور سامراجی کھیلوں کی مذمت کرتے ہیں اور افغان محنت کش عوام سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
16۔ مزدور تحریک میں سوشلزم کے نظریات کو رائج کرنے کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کی نئی کابینہ کا اعلان کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہے:
ڈاکٹر آفتاب اشرف (صدر)
ٖصفدر جبار (سینئیر نائب صدر)
یاسر ارشاد (نائب صدر)
کریم پرھار (جنرل سیکرٹری)
صدیق جان (جوائنٹ سیکرٹری)
آصف لاشاری (انفارمیشن سیکرٹری)
عدیل زیدی (فنانس سیکرٹری)
کابینہ کے اعلان کے بعد پارس جان نے نئے منتخب ہونے والے مرکزی صدر آفتاب اشرف کو خطاب کے لیے دعوت دی۔
ڈاکٹر آفتاب اشرف نے کنونشن کے لیے آنے والے تمام محنت کشوں اور انقلابی کارکنان کو کامیاب کنونشن کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ آفتاب اشرف کا کہنا تھا کہ آج کے اس کنونشن نے حکمران طبقات کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ اب الگ الگ جدوجہد کرنے یا ہڑتال کرنے کا وقت گزر چکا ہے آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام سرکاری اداروں اور نجی کارخانوں کے محنت کش متحد ہو کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھیں، جس طرح 1968-69ء میں پاکستان کے محنت کشوں نے ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے ایوب خان کو اقتدار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ عام ہڑتال کے بعد محنت کش طبقے کو اپنی طاقت کا درست معنوں میں ادراک ہوگا اور وہ مزدور ایک مختلف مزدور ہوگا جو پھر کسی جبر کو برداشت نہیں کرے گا۔ عام ہڑتال کے بعد محنت کش طبقہ صرف اجرتوں میں اضافے کی لڑائی نہیں لڑے گا بلکہ وہ نظام کی تبدیلی کی ایک آخری لڑائی کی طرف بڑھے گا اور ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے گا جیسا کہ آج سے 104 سال قبل روس کے محنت کش طبقے نے کیا تھا۔
کنونشن میں لگا انقلابی لٹریچر کا سٹال بھی محنت کشوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا اور خصوصا ماہانہ ورکرنامہ کو محنت کشوں کی طرف سے بہت سراہا گیا۔
کنونشن کے آخر میں ایک ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں تمام محنت کشوں اور طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔