|رپورٹ: ڈاکٹر آفتاب اشرف (مرکزی آرگنائزر، ریڈ ورکرز فرنٹ)|
اس وقت پاکستان کے محنت کش طبقے پر عالمی مالیاتی اداروں اور ملکی سرمایہ داروں کے گماشتہ حکمرانو ں کی جانب سے ہر روز تابڑ توڑ معاشی، سیاسی و سماجی حملے کئے جا رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی اور افراط زر نے محنت کشوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ عوامی اداروں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے اور جبری برطرفیاں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ مستقل روزگار ماضی کی ایک بھولی بسری یاد بن چکا ہے اور اب نجی صنعتوں کے ساتھ ساتھ سرکاری شعبے کے عوامی اداروں میں بھی ٹھیکیداری نظام پوری طرح پنجے گاڑ چکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جبکہ اوقات کار میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں بے روزگاری پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سطح کو چھو رہی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں سے ماضی میں جیتی گئی حاصلات بھی چھین رہا ہے۔ عوامی سہولیات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی جارہی ہے جس سے محنت کش عوام کا معیار زندگی مزید گر رہا ہے جبکہ ملکی و بیرونی سودی قرضوں کی واپسی اور سرمایہ داروں اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنے کے لئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی ہے۔ غربت، بھوک، افلاس، بے گھری، ناخواندگی اور لا علاجی کا ایک طوفان بپا ہے جس نے محنت کش طبقے کو زندہ درگور کر کے رکھ دیا ہے۔ محنت کشوں کے جمہوری حقوق بھی سلب کر لئے گئے ہیں۔ یونین سازی پر عملاً پابندی ہے اور ورکرز کے خلاف سرمایہ دار طبقہ، اس کی نمائندہ تمام سیاسی پارٹیاں اور تمام جابر ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں۔ اس تمام تر جبر واستحصال کے باوجود پچھلے تمام عرصے میں پاکستان کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لئے بے شمار جرات مندانہ لڑائیاں لڑی ہیں جس میں مختلف عوامی اداروں اور نجی صنعتوں میں ہونے والے احتجاج، ہڑتالیں، جلسے، دھرنے اور جدوجہد کے دیگر طریقہ کار شامل ہیں۔
مگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود محنت کش طبقہ زیادہ بڑی حاصلات نہیں جیت سکا۔ اس کی ایک وجہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جس نے اس میں کسی سنجیدہ اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی وہیں دوسری طرف پاکستان کے محنت کشوں کی سیاسی روایت یعنی پیپلز پارٹی کی تاریخی غداریاں اور زوال، ٹریڈ یونین قیادتوں کی موقع پرستی اورمزدور اتحاد کا فقدان بھی اس کی انتہائی اہم وجوہات ہیں جن کے قلابے 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام اور اس کے بعد پوری دنیا، بشمول پاکستان میں بائیں بازو اور مزدور تحریک کی زبر دست گراوٹ سے جا ملتے ہیں۔
بعد از سوویت انہدام گراوٹ اور زوال کے طویل اور تاریک عہد میں مزدور تحریک سوشلزم کے مزدور نظریات سے کٹ گئی جس کا نتیجہ شدید نظریاتی بے راہ روی کی صورت میں نکلا۔ آج مزدور تحریک کی تمام تر کمزوریوں کی جڑ اسی نظریاتی بے راہ روی میں پیوست ہے۔
ان تمام تر حالات میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے یہ بیڑہ اٹھایا کہ نہ صرف مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں و ٹھیکیداری کے خاتمے اور اجرتوں میں اضافے و مستقل روز گار کے حصول کے لئے ایک ملک گیر کمپئین کا آغاز کیا جائے جس میں مزدور اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزدور تحریک میں ایک ملک گیر عام ہڑتال کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ایک بحث اُتاری جائے بلکہ آئی ایم ایف کی غلامی اور سرمایہ داری نظام سے مکمل چھٹکارے کے لئے سوشلزم کے سائنسی نظریات کو بھی مزدور تحریک میں دوبارہ متعارف کرایا جائے۔
اس مقصد کے لئے طے کیا گیا کہ اسلام آباد، پشاور، ملتان، بہاولپور، کوئٹہ، حیدر آباد، کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں مزدور کنونشز کا نعقاد کیا جائے گا اور اس سلسلے کا انت 4 دسمبر کو لاہور میں منعقد ہونے والے ”مرکزی مزدور کنونشن“ میں ہو گا جس میں ملک بھر سے عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور یونین قیادتوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہو گی۔ اس سلسلے میں تاحال کراچی، کامونکے، لورالائی، تیمرگرہ لوئر دیر، ملتان اور حیدر آباد میں مزدور کنونشنز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔
مزید برآں طلبہ، نوجوانوں اور چھوٹے کسانوں کی اس کنونشن میں شرکت بھی متوقع ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مزدور اتحاد کی بڑھوتری، مستقبل میں ہونے والی ملک گیر عام ہڑتال کی تیاری اور مزدور تحریک کو سوشلسٹ نظریات سے روشناس کروانے کے حوالے سے یہ کنونشن ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ آپ سب کو ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے مرکزی مزدور کنونشن میں شرکت کے لئے دعوت دی جاتی ہے کہ آئیں اور محنت کش طبقے کی سماج کو بدل دینے کی اس انقلابی جدوجہد کا حصہ بنیں۔