|تحریر: پارس جان|
کرونا کے خلاف لڑائی میں دنیا بھر کے حکمرانوں کی نا اہلی روزاول سے ہی آشکار ہو گئی تھی۔ جوں جوں یہ مہلک وبا ترقی یافتہ دنیا سے ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ممالک کی طرف بڑھے گی اس کی تباہ کاریاں اور بھی ہولناک ہوتی چلی جائیں گی۔ پسماندہ اور غریب ترین خطوں میں اس وبا کا وار دو رخا ہونے کے باعث کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو گا۔ جہاں ایک طرف اس وائرس کے براہ راست حملے سے لاکھوں افراد لقمہئ اجل بنیں گے، وہیں دوسری طرف اس بحران سے نمٹنے کی حکمران طبقے کی نا اہلی کے باعث کروڑوں لوگ بیروزگاری کے باعث بھوک اور افلاس کے ہاتھوں ہلاک ہو جائیں گے۔ ان پسماندہ ممالک میں تو ابھی اس بحران کا محض آغاز ہی ہوا ہے۔ آغاز کی بھیانک اٹھان دیکھنے کے بعد آئندہ کے دیگر مراحل کا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے حکمران اور ذمہ داران جلد بازی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ وائرس ایک طویل عرصے تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جب تک اس وائرس کی ویکسین معینہ پروٹوکول کے قواعد و ضوابط سے ہوتی ہوئی عوامی سطح پر دستیاب نہیں ہو گی، اس وبا پر حتمی فتح کا تصور کرنا بھی حماقت ہو گی۔ جہاں جہاں وقتی فتوحات پر شادیانے بجائے جائیں گے وہاں وہاں اس عفریت کے نئے مرحلے پر پہلے سے زیادہ مایوسی اور ہراس کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ حال ہی میں چین میں بھی اس وبا کے پھر سے پھوٹ پڑنے کے بعد دوبارہ لاک ڈاؤن کا آغاز کرنا پڑا ہے۔ یہ لاک ڈاون اب شدت، دورانیے اور اثرات کے فرق کے ساتھ آئندہ بارہ سے اٹھارہ ماہ تک پوری دنیا کا نیا معمول ہو گا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے اس ممکنہ طویل لاک ڈاؤن کے باعث بھوک اور قحط کے ہاتھوں دنیا بھر میں 25 کروڑ سے زائد انسانوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے اور تنبیہہ کی ہے کہ اگر بر وقت راست اقدامات نہ کیے گئے تو ان متاثرین کی بڑی تعداد جان کی بازی ہارسکتی ہے۔ معاشی، سماجی و ثقافتی اعشاریوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یہ تخمینہ لگانا بالکل بھی دشوار نہیں کہ پاکستان بھی یقینی طور پر ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے جہاں پر یہ انسانی المیہ بے قابو ہو کر حشر کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔ اور اگر یہاں کے حکمران طبقات کی موجودہ کارکردگی کو سابقہ ریکارڈ کے تسلسل میں دیکھا جائے تو یہ مذکورہ بالا تخمینہ ایک ایسے ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو نیندیں اڑا دینے اور حواس باختہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔
ابھی تک یہ حکمران طبقات اور ان کے سیاسی دم چھلے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور میڈیا کیمپئین کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس اور سنجیدہ دفاعی حکمت عملی بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار اس حکمران طبقے کے خمیر میں شامل ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں حکمران طبقے کی اس لوٹ مار کے اوزار کی حیثیت کے علاوہ کسی بھی قسم کے سماجی افادے سے عاری ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ سنجیدہ حلقے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی وحدت کی نمائندہ حکومت کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں مگر دوسری طرف اس بحران نے حکمران طبقے اور ریاستی مشینری میں سطح کے نیچے موجود تضادات کو اور بھی جلا بخشی ہے اور امداد اور ریلیف کے نام پر آنے والے اربوں ڈالرز کے گرد حصے کی لڑائی آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرے گی۔ جہاں ایک طرف نام نہاد سویلین اور عسکری نورا کشتی میں شدت آئے گی وہیں وفاق اور صوبوں کی کھینچا تانی بھی شدت اختیار کرے گی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں کرونا سے نمٹنے کی اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے اس کھینچا تانی اور رسہ کشی کو جان بوجھ کر طول دیں گے تاکہ عوامی غیض و غضب کا رخ اپنے حریفوں کی طرف موڑا جا سکے۔ اس کا واضح ثبوت گزشتہ چند روز سے این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم میں رد و بدل کے حوالے سے سرکاری حلقوں اور میڈیا پر ہونے والی لایعنی بحث ہے جس میں حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیوں کی قیادتیں ایسے اچھل رہی ہیں جیسے کسی نے انہیں گرم توے پر بٹھا دیا ہو۔ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے لے کر قوم پرست اور لبرل پارٹیوں تک سب یک زبان ہو کر متحدہ جدوجہد کا راگ الاپنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ہر قیمت پر اٹھارویں ترمیم کے دفاع کا اعلان کر دیا ہے۔
کرونا بحران کے آغاز سے ہی سندھ حکومت اور مرکز کے مابین اختلاف رائے منظرعام پر آنا شروع ہو گیا تھا جسے لبرل دانشوروں کے ساتھ ساتھ بہت سے بائیں بازو کے فیس بک مجاہدین بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز کی سیاسی مفارقت کے بعد سٹیرائیڈ پر چلنے والے پاکستان کے بائیں بازو کی وہ واحد محبوبہ ہے جسے اپنے بانکپن اور عشاق کی وارفتگی کا بھی بھرپور ادراک ہے اور وہ اس تعلق کی گرمجوشی کو برقرار رکھنے کے لیے وقفے وقفے سے اپنے شائقین پر عنایت کی نظر ڈالنا کبھی نہیں بھولتی۔ کرونا وبا کے پھوٹنے سے چند روز قبل لاہور میں اپنے پروانوں کے ایک جھرمٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک دفعہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک سوشلسٹ پارٹی قرار دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ سوشلسٹ منزل پر براستہ سوشل ڈیموکریسی ہی پہنچ سکتے ہیں۔ بائیں بازو کے بہت سے نامور قائدین جی ہاں جی ہاں کہتے اور دم ہلاتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لیے تھے۔ اسی پس منظر میں کرونا بحران کے آغاز پر پیپلز پارٹی کی قیادت کی ابتدائی پریس کانفرنسوں اور سندھ حکومت کی ابتدائی کارکردگی کا بے حساب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ کچھ ”دل پھینک“ خواتین و حضرات نے تو سندھ کے وزیراعلیٰ جناب مراد علی شاہ صاحب کو بہت بڑے بڑے القابات سے بھی نوازنا شروع کر دیا تھا۔ مگر آج تقریباً چھ ہفتے گزر جانے کے بعد اگر زمینی حقائق کا محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو سندھ کی صورتحال بھی دیگر صوبوں اور وفاق سے کچھ زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔
یہ درست ہے کہ روزاول سے مرکزی حکومت لاک ڈاؤن کے نفاذ کے حوالے سے چون و چراں سے کام لیتی رہی۔ دیہاڑی دار مزدوروں اور معاشی طور پر لاغر آبادی کی آڑ میں درحقیقت اس ملک کے ارب پتی صنعت کاروں، تاجروں اور پراپرٹی ڈیلروں سے لے کر ٹرانسپورٹ مافیا تک بالا طبقے کے معاشی مفادات کو ہر ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا ہی وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا اصل مطمع نظر تھا۔ بعد ازاں جن قوتوں نے ملک گیر لاک ڈاؤن کے فیصلے کا اطلاق کروایا وہ بھی یکمشت بہت بڑے پیمانے کے جانی ضیاع کے پیش نظر عوامی ردعمل کے ساتھ ساتھ اپنے بین الاقوامی آقاؤں کے دباؤ کے باعث ہی ایسا کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ جہاں تک سندھ حکومت کی طرف سے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کے نفاذ کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک احسن فعل تھا مگر اس کی کامیابی چند ناگزیر اور فوری اقدامات سے مشروط تھی جن پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہی ہو سکا ہے۔ ان اقدامات میں عوام کی وسیع تر پرتوں کو معاشی ریلیف، اشیائے ضرورت کی گھر گھر بلا تعطل فراہمی اور بڑے پیمانے کی ٹیسٹنگ جیسے ہنگامی اقدامات شامل تھے۔ ان اقدامات کے فقدان کے باعث لاک ڈاؤن مطلوبہ نتائج دینے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ سندھ حکومت کی عملی رٹ تو اسی وقت بے نقاب ہو گئی تھی جب کے۔الیکٹرک نے حکومت کے اعلان کردہ ادارے کے صارفین کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے سے باقاعدہ انکار کر دیا تھا۔ ملاؤں نے مساجد میں جمعے اور باجماعت نمازوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے علاوہ مقامی صنعت کاروں نے بھی لازمی حفاظتی سامان کی فراہمی کے بغیر ہی جزوی یا کلی طور پر بہت سی صنعتوں میں محنت کشوں سے نہ صرف کام لینا جاری رکھا بلکہ تاجروں نے بھی لاک ڈاؤن کے دوسرے ہی ہفتے اس فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت شروع کر دی تھی۔ سندھ حکومت نے بھی اس تمام تر دباؤ کے آگے عملًا ہتھیار ڈال دیئے تھے اور لاک ڈاؤن میں بڑے پیمانے کی نرمی کر دی گئی تھی مگر گزشتہ ہفتے جب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی قیادت نے کراچی پریس کلب اور لاہور میں بھی پریس کانفرنس کر کے حکومت کو صورتحال کی سفاکیت سے خبردار کیا تو ایک دفعہ پھر سندھ حکومت کو لاک ڈاؤن کو مزید 15 روز تک جاری رکھنے کا اعلان کرنا پڑا۔ حکومت کو کسی حد تک ادراک ہو چلا ہے کہ ایک دم لاک ڈاؤن کے خاتمے سے صحت کا نظام مکمل طور پر منہدم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ گزشتہ دس دنوں سے ہر روز مثبت آنے والے کرونا مریضوں کی تعداد ہر آئے دن کے ساتھ بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سندھ میں یہ شرح کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے۔ اس وقت تک سندھ میں کرونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 5ہزار تک جا پہنچی ہے جبکہ ابھی تک صوبے بھر میں صرف 41 ہزار ٹیسٹ ہی کیے جا سکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ اب تک لاکھوں مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ ہو چکے ہوتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بہت سے مشتبہ مریضوں کے صرف سنگین علامات کی صورت میں ہی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بہت سے با اثر افراد، بیوروکریٹس، سیاسی شخصیات اور امرا کے غیر ضروری طور پر ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت صوبائی وزیر سعید غنی اور اب گورنر سندھ کے کرونا ٹیسٹ کی پازیٹو رپورٹ ہے۔ دونوں صاحبان نے رپورٹ مثبت آنے پر یہی کہا کہ انہیں کسی بھی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی علامات تھی ہی نہیں تو ٹیسٹ کیوں کیے گئے؟ اور یہ تو صرف وہ با اثر شخصیات ہیں جن کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں، اسی لیے یہ خبروں کی زینت بنے، نجانے کتنے امرا محض اپنے دماغ کے خلل یا وہم کے باعث ٹیسٹ کروا چکے ہوں گے۔
جہاں تک لاک ڈاؤن کے دوران راشن کی تقسیم کا تعلق ہے تو وہ خود ایک بہت بڑا مضحکہ بن چکا ہے۔ گھر گھر راشن پہنچانے کی بجائے یونین یا میونسپل کونسلوں وغیرہ کے ذریعے راشن تقسیم کرنے کی بھونڈی حکمت عملی کے باعث راشن کی تقسیم بسا اوقات ایک جمِ غفیر کی شکل اختیار کر لیتی ہے جہاں لمبی لمبی لائنوں میں سماجی تفاصل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کئی جگہ سے تو بھگدڑ مچ جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں اور لیاری اور ملیر جیسے علاقوں سے ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جہاں ہزاروں لوگ جلوس کی شکل میں راشن لینے کے لیے جمع ہوئے۔ ایسے میں لاک ڈاؤن وبا کو روکنے کی بجائے پھیلانے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوا۔ جو لوگ گزشتہ ہفتے مریضوں کی تعداد میں ہونے والے آئے روز کے اضافے کو دو تین روز کے لیے لاک ڈاؤن میں ہونے والی نرمی سے منسلک کر رہے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں، کیونکہ ان دو تین دنوں کے متاثرین تو ابھی بغیر علامات کے گھوم رہے ہوں گے اور آئندہ ہفتے یا دس دن میں ان کی ہسپتالوں کی طرف دوڑ دیکھنے میں آئے گی۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہسپتالوں پر ان کی گنجائش سے زیادہ جو دباؤ سامنے آیا ہے، وہ اس سے پہلے کے باقاعدہ لاک ڈاؤن کے دوران حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کرونا بحران نے ہر سماجی مظہر کو اپنے الٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماہ رمضان جسے برکت اور فضیلت کا مہینہ قرار دیا جاتا تھا، اس بار اس نے حکمرانوں کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں اور انہیں بجا طور پر بحران کے بے قابو ہو جانے کے خطرات لاحق ہیں۔ جہاں ایک طرف اسلام کی جنم بھومی یعنی موجودہ سعودی عرب میں مساجد میں نمازوں اور تراویح وغیرہ کے انعقاد پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی ہے اور رواں سال حج کو بھی منسوخ کر دیا ہے، وہیں پاکستان جیسی ریاست میں ایسے تمام تر ضروری اقدامات کو یقینی بنانا حکومتی و ریاستی مشینری کی دسترس سے باہر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس ریاست کا وہ لایعنی اور طفیلیہ کردار ہے جس میں مذہب کو ایک قوم کا درجہ حاصل ہے اور مذہبی اشرافیہ کی خوشنودی ریاستی اداروں کی مجبوری بن چکی ہے۔ مذہبی اشرافیہ نے اگرچہ حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروائی ہے مگر وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کو تسلیم کر لینے سے عوام پر مسلط کردہ جہالت کی بنیادیں بھی لرز سکتی ہیں اور یہ مذہبی اشرافیہ اسی جہالت پر تو پلتی ہے، اس لیے ان کی معاشی و سماجی بقا ہی ان نام نہاد ایس او پیز سمیت ان تمام اقدامات کی کھلی خلاف ورزی سے مشروط ہے جن کے باعث یہ تاثر قائم ہو کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مخصوص سماجی معمول اور معیارزندگی کے مرہونِ منت ہے۔ رپورٹس کے مطابق سندھ سمیت ملک بھر میں 80 فیصد مساجد میں ان ایس او پیز پر بالکل بھی عمل نہیں کیا جا رہا۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کی اس وقت ملا اشرافیہ کے پاس بڑے بڑے پریشر گروپس موجود ہیں مگر دوسری طرف وہ بری طرح اور برق رفتاری سے ایکسپوز بھی ہو رہے ہیں اور اس وقت ان کے حامیوں سے زیادہ مخالفین موجود ہیں اور اگر ان ملاؤں کی ریاستی پشت پناہی ختم کر دی جائے تو انہیں نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔ لیکن ریاست کو آج بھی ان ملاؤں کی شدید ضرورت ہے اور آنے والے دنوں میں جوں جوں ریاست کا بحران شدت اختیار کرے گا تو ان ملاؤں کی ضرورت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ اس لیے ریاست کا نام نہاد لبرل دھڑا جس کی سیاسی نمائندگی پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہے وہ محض تماشائی بن کے ان ملاؤں کے خلاف کوئی فیصلہ کن مؤثر پالیسی اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ ان حالات میں یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ رمضان کے آخری دو ہفتے شعبۂ صحت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے بعد پھر عید کے اجتماعات کا ایک خطرناک مرحلہ عبور کرنا بھی اہم ہو گا جس کے اثرات اس کے دو ہفتے بعد نمودار ہوں گے۔ ان حالات میں عوام کو مکمل طور پر حالات اور تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
تمام تر ترقی پسندی اور انقلابی نعرے بازی کے باوجود شعبۂ صحت کی طرف پاکستان پیپلز پارٹی کا رویہ بھی دیگر صوبائی حکومتوں کی طرز کا ہی رہا ہے۔ اس وبا سے پہلے بھی صوبہ بھر میں نرسوں، پیرامیڈیکس اور ڈاکٹروں کی مختلف تحریکیں موجود رہی ہیں۔ اور نرسز پر تو کئی دفعہ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ یہ سب کچھ اسی اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہوتا رہا ہے جس کی رو سے شعبۂ صحت پر صوبائی حکومتوں کی مکمل اجارہ داری ہے اور اس ترمیم کو ایک مقدس گائے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کرونا وبا کے بعد بھی حکومت کا شعبۂ صحت کی طرف رویہ تبدیل نہیں ہوا اور ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو حفاظتی سازو سامان مہیا کیے بغیر اس نہ دکھائی دینے والے دشمن کے سامنے نہتے اور غیر مسلح ہی کھڑا کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی کے تیسرے بڑے ہسپتال عباسی شہید کے شعبۂ حادثات کو اس وقت بند کرنا پڑ گیا جب ہسپتال کے دو ڈاکٹروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ بہت سے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے قرنطینہ میں جانے کے باعث شعبہ حادثات کے معمول کے کام کو جاری رکھنا ناممکن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد شہر کے دیگر ہسپتالوں پر دباؤ میں شدت آئے گی۔ یاد رہے کہ صوبے بھر میں پہلے ہی شعبۂ صحت کے 72 محنت کشوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 28 ڈاکٹر، 17 نرسیں اور 27 پیرا میڈیکس شامل ہیں۔ سینکڑوں ہیلتھ ورکرز پہلے ہی قرنطینہ میں ہیں۔ یہ تعداد ایسے ہی بڑھتی رہی تو اگلے دو ماہ میں ہسپتال بالکل خالی ہو جائیں گے۔ حکومت عملے کو حفاظتی سامان مہیا کرنے کی بجائے نئی نرسز کو بھرتی کر کے ہنگامی بنیادوں پر ان سے خدمات لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ شعبۂ صحت کے ملازمین کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ ہی نہیں بلکہ کھلا قتل ِعام ہے جس میں سندھ حکومت بھی مرکزی حکومت کی برابر کی سانجھے دار ہے۔
سندھ حکومت کے معذرت خواہان اور ہمدرد یہ سوال کریں گے کہ آخر سندھ حکومت اور کر بھی کیا سکتی تھی؟ لاک ڈاؤن کو مؤثر کیسے بنایا جا سکتا تھا؟ محدود وسائل کے ساتھ ہر مستحق اور ضرورتمند کو راشن کیسے دیا جا سکتا ہے؟ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو تمام حفاظتی سامان کیسے فراہم کیا جا سکتا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے تو آغا خان، لیاقت نیشنل، ڈاؤ میڈیکل، ضیاء الدین سمیت تمام نجی ہسپتالوں کو ہنگامی بنیادوں پر قومی تحویل میں لیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ہی تمام نجی ڈائیگناسٹک سنٹرز اور دوا ساز اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے کر تمام مریضوں کے صرف کرونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے ٹیسٹ اور علاج بالکل مفت کر دیا جاتا تاکہ ملیریا، ڈینگی اور فلو وغیرہ کے مریضوں کے محض شبہ کی بنیاد پر کرونا ٹیسٹ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس کے علاوہ تمام بڑے چھوٹے نجی ہوٹلوں کو حکومتی تحویل میں لے کر قرنطینہ مراکز میں تبدیل کر دیا جاتا اور فوری طور پر تمام مشتبہ اور متوقع مریضوں کو ضروری سہولیات مہیا کرتے ہوئے وہاں منتقل کر دیا جاتا۔ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے صنعت کاروں کی صنعتوں کو بھی فوری طور ضبط کر لیا جاتا۔ اگر صرف ایک ماہ بھرپور طریقے سے مندرجہ بالا صریح اقدامات سمیت مؤثر لاک ڈاؤن اپنایا جاتا تو صوبے کو کرونا سے مکمل طور پر پاک کیا جا سکتا تھا۔ اور صوبے کے پاس اتنے وسائل بہرحال موجود تھے کہ صرف ایک ماہ تک تمام مستحقین کو باآسانی تمام ضروریات زندگی ان کی دہلیز پر مہیا کی جا سکتی تھیں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے حکومت عوام کا اعتماد بھی جیت جاتی جس کے بعد بھرپور عوامی تعاون کے ذریعے ایک کامیاب لاک ڈاؤن کرتے ہوئے کرونا کو شکست دی جا سکتی تھی۔
بلاول بھٹو کے شیدائی مزید یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے لیے صوبائی حکومت کو مرکزی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بڑے پیمانے کی مزاحمت اور یہاں تک کہ جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا تصادم ممکن تھا کیونکہ مذکورہ بالا چند اقدامات صوبائی حکومت کی آئینی استعداد سے متجاوز ہو سکتے ہیں مگر جب پیپلز پارٹی کی ”انقلابی“ قیادت اپنی کرپشن کے مقدمات سے دفاع یا اقتدار میں حصے داری کے لیے سندھ کارڈ استعمال کر سکتی ہے تو لاکھوں سندھیوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ جب بلاول بھٹو زرداری اٹھارویں ترمیم کے تحفظ کے لیے انتہائی اقدامات کی دھمکی دے سکتا ہے تو سندھ کے غریب محنت کشوں کی نسلوں کی حفاظت کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اور ایسے اقدامات کی صورت میں سندھ کے کروڑوں غریب عوام سندھ حکومت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں چار کروڑ سے زیادہ محنت کش موجود ہیں۔ وہ اور ان کے خاندان جب یک زبان ہو کر سندھ حکومت کی پکار پر لبیک کہتے تو ریاست کے لیے کسی بھی قسم کی جارحیت ممکن نہ رہتی اور سب سے بڑھ کر جب قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر پاکستان بھر کے کروڑوں عوام سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے ملک بھر میں انہی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا تو صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی تھی۔ اور مرکزی حکومت کو بھی تمام وسائل عوام کے دفاع کے لیے بروئے کار لانے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ بصورت دیگر عوامی طاقت اور حمایت کے بلبوتے پر مرکزی حکومت اور ریاستی مشینری کا تختہ الٹ کر حقیقی معنوں میں عوامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکتا تھا۔
یہ وہی سوشلزم ہوتا جس کو پیپلز پارٹی گزشتہ چار دہائیوں سے حسب ضرورت وقفے وقفے سے بیچتی چلی آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اس لیے یہ سب نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے اپنے طبقاتی تشخص اور مفادات کی بقا اسی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا سے منسلک ہے۔ ان تمام اقدامات کے لیے نجی ملکیت کے مقدس حق پر فیصلہ کن وار کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو وراثت میں ملنے والی اربوں روپے کی جائیداد بھی محفوظ نہ رہتی۔ انقلابی تحرک میں سرگرم محنت کش صرف شعبۂ صحت کی قومی تحویل تک نہ رکتے بلکہ وہ کسانوں کو اپنے ساتھ ملا کر تمام جاگیروں اور شوگر ملوں سمیت تمام صنعت اور بینکوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیتے اور اس عوامی اٹھان سے پیپلز پارٹی کی قیادت شاید باقی ماندہ پارٹیوں اور عسکری و طاغوتی قوتوں سے بھی زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس لیے یہ مسخرے انقلابی ان حالات میں بھی نجی ملکیت کے تقدس کو ہر صورت میں قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال سندھ کابینہ کی طرف سے منظور لیا جانے والا کرونا آرڈیننس 2020 ء ہے جسے منظوری کے لیے گورنر سندھ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ اس آرڈیننس کی رو سے تمام نجی تعلیمی اداروں کو لاک ڈاؤن کے باوجود 80 فیصد فیسوں کی وصولی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مالکان کو دکانوں اور مکانوں کے کرائے موخر کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں یعنی وہ کرونا بحران کے خاتمے پر یہ تمام کرایہ وصول کرنے کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح صنعت کاروں کو کہا گیا ہے کہ وہ کسی محنت کش کو نوکری سے برطرف نہیں کر سکتے جبکہ الکرم، گل احمد، آرٹسٹک، رجبی سمیت تمام صنعتوں اور بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے سے پہلے ہی ہزاروں محنت کشوں کو جبری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے اور سندھ حکومت نے ان اداروں کے مالکان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی۔ مزید برآں لیدر، گارمنٹس سمیت دیگر بہت سی صنعتوں کو حفاظتی اقدامات کی موجودگی میں لاک ڈاؤن کے باوجود کام جاری رکھنے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی ہے۔ اس سے لاک ڈاؤن میں حکومتی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت بھی اسی سرمایہ دارانہ ریاستی مشینری کا ایک اہم اور بہت سے حوالوں سے سب سے اہم پرزہ ہے۔ سندھ کی دوسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے جو اس بحران کے دنوں میں بھی وفاقی حکومت سے بارگین کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں سندھ میں بسنے والے محنت کشوں کا، خواہ وہ کسی بھی قوم، نسل، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لیکن اس کرونا بحران میں جہاں بہت سے معصوم بلاوجہ اپنی جانیں ضائع کر بیٹھیں گے وہیں اس نظام اور اس کے پروردگاران کے خلاف نفرت اور حقارت بھی اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے۔ مذہبی اشرافیہ کا بھیانک اور انسان دشمن چہرہ ننگا ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی قیادتوں کی مفاد پرستی اب کوئی راز نہیں رہی۔ عسکری ادارے، میڈیا اور عدالتیں بھی اپنی حمایت کھو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد سندھ کی ٹھیکیداری کا کب تک ناٹک رچا سکے گی۔ سندھ کے عوام بھی دنیا بھر کے محنت کشوں کی طرح انقلابی نتائج اخذ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں سندھ میں انقلابی قوتوں کی تیز ترین افزائش کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ مارکس وادیوں کی فیصلہ کن آزمائش کا وقت قریب آ رہا ہے۔