مارکسزم اور ریاست (حصہ اول)
ہم سماج کی پرامن تبدیلی کے حامی ہیں اور ایسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن ساتھ ہم یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور مفادات کے تحفظ کے لئے لڑے گا۔ یہی مارکسزم کا روایتی موقف ہے
ہم سماج کی پرامن تبدیلی کے حامی ہیں اور ایسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن ساتھ ہم یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور مفادات کے تحفظ کے لئے لڑے گا۔ یہی مارکسزم کا روایتی موقف ہے
اکتوبر انقلاب نے پرولتاریہ کی فتح کا اعلان کیا۔ عالمی سرمایہ داری کو پہلی عظیم شکست روس کی سرزمین پر ہوئی۔ زنجیر اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی۔ لیکن یہاں صرف کڑی نہیں ٹوٹی تھی بلکہ زنجیر ٹوٹی تھی
طبقاتی سماج سے عورت کے کردار کی تعیین اس کے طبقہ سے ہوتی ہے۔ اگر وہ وزیراعظم کے گھر یا پھروہ سرمایہ دار کے گھر پیدا ہوتی ہے تو وہ صنف نازک ٹھہرائی جاتی ہے جس کو محض قادر مطلق نے پیدا ہی اس لئے کیا ہوتا ہے تاکہ اس کی پرورش کسی مہارانی کی طرح کی جائے۔ لیکن اگر اس کا جنم پرولتاریہ کے ہاں ہوتا ہے تو دنیا کی تمام نعمتیں تو کیا بنیادی ضروریات تک اس کے لئے شجرِ ممنوع ٹھہرائی جاتی ہیں۔
جب مادے کے وجود سے فزکس والے خود انکار کر دیتے ہیں تو کیا ’’فزکس‘‘ اپنی حیثیت میں ’’میٹا فزکس‘‘ نہیں رہ جائے گی؟ اس طرح کی کوانٹم مکینکس کی تشریح کو اگر مان لیا جاتا ہے تو فزکس جسے ہم آج تک جانتے رہے ہیں اس کا خاتمہ ہو چکا ہے
عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیہاتوں کی اکثریتی آبادی چھوٹی موٹی زرعی ملکیت رکھتی ہے اور دیہات میں رہنے والا ہر شخص ’کسان‘ ہے۔ حقیقی صورتحال اس سے خاصی مختلف ہے۔ زرعی پیداوار کے مکمل طور پر منڈی سے منسلک ہو جانے اور بورژوا رشتوں کے زرعی ڈھانچے میں گہری سرائیت کے نتیجے میں دیہی علاقوں کا سماجی ڈھانچہ معیاری طور پر تبدیل ہو چکا ہے
پرائیویٹ اداروں کے خصوصاً اور سرکاری اداروں کے عموماً، اساتذہ کا علم سے قطعی تعلق نہیں ہوتا، تعلیم صرف روزگار کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں قدیم فقرے اب اپنی چمک دمک کھو چکے ہیں اگرچہ ان پر بہت دفعہ تقدس اور جذباتیت کی خوشبو چھڑکی جاتی ہے اور اس کو قدیم دور کے استادوں کی مثالوں سے سجانے کی کوشش کی جاتی ہے جو جدید دور کے منافع کی ہوس سے مل کر بالکل بے معنی گفتگو بن جاتی ہے
قوم پرستی کے ارتقا اور اہمیت و افادیت کوتاریخی واقعات کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ہی جدید عہد میں قومی سوال کے کردار کا تجزیہ اور تناظر کو تشکیل دیا جا سکتا ہے
فلسفے کا ذکر کریں تو آج سائنسدانوں اور بہت سے دیگر لوگوں کا عمومی رویہ انتہائی بے حسی والا بلکہ سچ کہیں تو تحقیر آمیز ہے۔ ویسے جدید فلسفے کے حوالے سے تو یہ سلوک درست ہی لگتا ہے۔ پچھلی ڈیڑھ صدی سے فلسفے کی قلمرو کو ایک ایسے بنجر اور بے آب و گیاہ بیابان کی مانند دیکھا جا سکتا ہے جس میں شاید ہی کہیں کوئی زندگی کی رمق ملے۔
انسان کا مستقبل ایک انجانے خوف میں ڈوبا ہوا گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں بلکہ ہر طرح کے استحصال، ظلم اور جبر سے آزاد بالآخر امن اور نشاط آمیز ہے۔ اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے اگر ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو جان سکتے ہیں۔ اس لئے کانٹ کے فلسفے کو جاننا اور اس کے خاتمے کا جاننا ضروری تھا۔
تحریر: |صبغت وائیں| فلسفہ سچائی سے محبت کا نام ہے۔ فلسفہ سچائی کو جاننے کا نام ہے۔ فلسفہ ہر چیز کی سچائی کو جاننے کا نام ہے۔ فلسفہ کسی بھی سچائی کی تلاش کا نام ہے۔ اور یقیناً فلسفہ کسی بھی سچائی کو جاننے کے طریقے کا نام ہے۔ یا […]
تحریر: |صبغت وائیں| ’’موضوعی عینیت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے‘‘ یہ ہیگل نے کہا تھا۔ یہ درست ہے کہ ہیگل ایک عینیت پرست فلسفی تھا لیکن وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کے وجود کو حقیقی مانتا تھا۔ وہ ایک یونیورسل سپرٹ کی بات کرتا ہے۔ ایک ریزن […]
تحریر: |صبغت وائیں| 25 اگست 2016ء جارج آرول نے اپنے ناول میں چند فقرے ایسے لکھے تھے جو کہ بظاہر مذاق لگتے تھے جن میں ایک تھا: ’’Ignorance is Strength‘‘
تحریر: |صبغت وائیں| کانٹ کی صرف ایک بات یورپ امریکہ کو پسند ہے وہ ہے اس کا نکالا ہوا نتیجہ۔ ورنہ اس کے میتھڈ کو یہ لوگ بھی اس طرح سے رد کرتے ہیں کہ اس کا میں نے آج تک ذکر کسی کی تحریر میں پڑھا نا کسی سے […]
تحریر: |لیون ٹراٹسکی| ترجمہ: |انعم خان| قاری اس بات پر غور کرے گا کہ میں نے سٹالن کے حالیہ سیاسی امور کی بجائے ابتدائی دور کی ترقی پر زیادہ تفصیل سے کام کیا ہے۔ حالیہ دور کے حقائق ہر پڑھے لکھے انسان پر عیاں ہیں۔ اس کے علاوہ سٹالن کے […]