تہران میں ایک بار پھر عوامی مظاہرے
[رپورٹ:حمید علی زادے] آج 3اکتوبر کو اچانک شروع ہونے والے بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد تہران کے بازار میں سڑکوں پر نکل آئے۔نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین پورے بازار میں پھیل گئے اور ایک بنک کی عمارت کو تباہ کر دیا۔
[رپورٹ:حمید علی زادے] آج 3اکتوبر کو اچانک شروع ہونے والے بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد تہران کے بازار میں سڑکوں پر نکل آئے۔نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین پورے بازار میں پھیل گئے اور ایک بنک کی عمارت کو تباہ کر دیا۔
[تحریر: آدم پال] پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت جس رستے پر گامزن ہے وہاں بہتری کا کوئی امکان دور تک نظر نہیں آرہا۔گزشتہ عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے جو ریکارڈ بنائے گئے ہیں آنے والے دنوں میں وہ بہت چھوٹے نظر آئیں گے۔
[تحریر: کامریڈ ساقی] سرمایہ دارانہ نظام و معیشت کے دور میں تمام پیداوار کا مقصد شرح منافع کا حصول ہوتا ہے نہ کہ انسانی ضروریات کی تکمیل یا خدمت۔
تحریر: آدم پال:- ’’اگر فوج کو عوام سے اتنی محبت ہے تو اپنے سالانہ بجٹ کا نصف صحت کے شعبے کے لئے مختص کر دے‘‘
تحریر: آدم پال:- میڈیا کی آزادی کے بہت چرچے ہوتے رہتے ہیں اور پھر اب تو کچھ اسکینڈلو ں کی غلاظت بھی سامنے آ گئی ہے۔
’’قدر ، قیمت اور منافع‘‘ یا ’’اجرت ، قیمت اور منافع‘‘ در اصل کارل مارکس کی ان تقاریر پر مبنی ہے جو انہوں نے 20اور 27جون 1865ء کو پہلی انٹرنیشنل کی جنرل کونسل کے دو اجلاسوں میں کیں۔
20 جون 1858ء وہ تاریخ ہے جب مئی 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے خلاف شروع ہونے والی ہندوستانی سپاہیوں اور عوام کی تحریک حتمی شکست سے دو چار ہوئی۔
تحریر:مائیک پیلیسک:- (ترجمہ :اسدپتافی) ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ، اٹھتے بیٹھتے ہم پر یہ ہو شربا راز آشکارکیاجاتاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ٹیکنالوجی، ایجادات کو نہ صرف آگے بڑھاتا ہے بلکہ سائنسی ترقی کو بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دینے میں محواور مگن چلاآرہاہے۔
تحریر: ابن حسن:- ریڈیکل ہونے کا مطلب ہے چیزوں کو جڑ سے پکڑنا؛ تاہم انسانیت کی جڑ خود انسان ہے (مارکس)
تحریر: علی بیگ:- پاکستان کا نظام تعلیم برطانوی راج کا بنایا ہوا ہے۔ جسکا مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کلرکس اور غلام پیدا کرنا تھا۔
تحریر: لیون ٹراٹسکی:- انقلاب کا قطعی وقت آپہنچا تھا۔سمولنی (مجلس عاملہ کا دفتر) کو ایک قلعے میں تبدیل کیا جارہا تھا۔ اس کی چھتوں پر دو درجن مشین گن نصب کر دی گئی تھیں۔
تحریر:پارس جان:- بھلے دنوں کی بات ہے کہ جب کراچی پر امن سماجی سرگرمی سے بھرپور، خوشگوار انسانی جذبوں سے آراستہ ،مختلف قومیتوں، زبانوں اور نسلوں کے ہم آہنگ امتزاج سے سرشار خوبصورت اور پروقار شہر ہوا کرتا تھا۔
’’جس قسم کی اقدارکی پاسداری مارکسٹ نظریہ کرتاہے وہ ان سے تقریباً بالکل الٹ ہیں جو ہمارے موجودہ سائنسی طرزفکر سے سامنے آتی ہیں۔‘‘
تحریر: حمید علی زادہ:- ایرانی سماج میں بہت بڑے تضادات پنپ رہے ہیں۔عوام معاشی بحران کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔