|تحریر: آفتاب اشرف|
بچپن سے لے کر آج تک ہم میڈیا، تعلیمی نصاب اور دیگر ذرائع سے ریاست، اس کے اداروں اور آئین و قانون کے متعلق چند مخصوص فقرے سنتے آئے ہیں جیسا کہ ”ریاست غیر جانبدار ہوتی ہے“۔۔”قانون کی نظر میں سب برابر ہیں“۔۔”پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے“۔۔”عدالت کے کٹہرے میں امیر یا غریب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی“۔۔”فوج کا بنیادی مقصد بیرونی دشمنوں سے ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہے“۔۔”آئین میں سب طبقات کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے“۔۔”یہ ملک ہم سب کا ہے“۔۔”اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں“۔۔”ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور ہر شہری سے پیار کرتی ہے“۔۔”قانون اندھا ہوتا ہے“۔۔”ملکی مفاد، ہم سب کا مفاد ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے ان تمام باتوں کو محنت کش طبقے کی روز مرہ زندگی کے تجربات اور اس کے اجتماعی حافظے کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔
پہلا منظر:
چوک پر اشارہ توڑنے کی پاداش میں پولیس والے نے رکشہ ڈرائیور کو روکا، اس سے کوئی بات کیے بغیر اسے چند گندی گالیاں دیں، ایک تھپڑ لگایا اور پھر چالان کاٹ دیا۔ جبکہ کچھ دیر بعد اسی چوک پر جب کسی امیر کبیر آدمی کی لینڈ کروزر اور ساتھ موجود حفاظتی گاڑیوں کا قافلہ رش میں پھنسا ہوا تھا تو اسی پولیس والے نے بھاگم بھاگ، موٹر سائیکل سواروں، چنگ چی چلانے والوں کو مغلظات نکالتے ہوئے قافلے کے لئے راستہ کلیئر کروایا اور جب کالے شیشوں والی لینڈ کروزر بند اشارے کے باوجود چوک کراس کر رہی تھی تو سینے پر ہاتھ رکھ کر نہایت ادب کے ساتھ اسے جھک کر سلام کیا۔
دوسرا منظر:
ایک عام سے محلے کے باسی علاقے کی ٹوٹی ہوئی سیوریج پائپ کے مسئلے کو لے کر پچھلے کئی ہفتوں سے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو ملنے کی ناکام کوششیں کر رہے تھے۔ ایک دن وہ پھر ڈی سی صاحب کے پی اے سے ”صاحب میٹنگ میں ہیں۔۔“والا طے شدہ جواب سن کر مایوس قدموں سے واپس جا ہی رہے تھے کہ اچانک شہر کی ایک نامی گرامی کاروباری شخصیت کی گاڑی ڈی سی آفس کے احاطے میں داخل ہوئی۔ بس اطلاع ملنے کی دیر تھی کہ ڈی سی صاحب اپنی ”میٹنگ“ چھوڑ چھاڑ کر دوڑے دوڑے باہر آئے اور امیر آدمی کی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے خوشامدانہ لہجے میں بولے ”سر، آپ نے خود آنے کی زحمت کیوں کی؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔۔۔“
تیسرا منظر:
چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی رانی بی بی نے ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں 19 سال بے گناہ جیل کاٹی۔ جب انہیں سزا سنائی گئی تھی تو ان کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ جیل انتظامیہ نے کبھی رانی بی بی کی سزا کے خلاف عدالت میں اپیل نہیں کی کیونکہ رانی کے پاس جیل والوں کو رشوت دینے کے لیے چار سو روپے نہیں تھے۔ غریب گھروں سے تعلق رکھنے والی ایسی ہزاروں رانیوں کی یہی کہانی ہے۔ مگر 1952ء میں کراچی میں مقیم سابق ریاست جونا گڑھ کی رانی منور جہاں نے اپنی 13 سالہ ملازمہ بانو کو شدید تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا اور عدالت میں بھرپور نخوت کے ساتھ اپنے جرم کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کل تک میرے محل میں پانچ سو ملازم صرف محل کو صاف کرنے پر متعین تھے اور میں ان کے ساتھ جو سلوک چاہتی تھی کرتی تھی اور آج مجھے ایک تیرہ سالہ کتیا کے قتل پر گرفتار کیا جا رہا ہے“۔ رانی صاحبہ کی ناراضگی کے پیش نظر ”اعلیٰ“ عدلیہ نے انہیں تا برخاست عدالت قید کی سزا سنا کر معاملہ نپٹا دیا تھا۔ اس واقعے پر احمد فراز نے ایک نظم بھی لکھی تھی جس کے کچھ اشعار ہیں،
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر
مورخین کی نظروں میں بے گناہ رہے
اور آج تک یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ غریب قانون کے چنگل میں پھنس کر ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے آئے ہیں جبکہ امیر اپنی دولت کے زور پر قانون کو موڑ دیتا ہے اور انصاف خرید لیتا ہے۔
چوتھا منظر:
ایک فیکٹری میں سالوں سے کام کرنے والے سینکڑوں محنت کشوں کو مالکان نے تمام تر لیبر قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے کھڑے پیروں نوکری سے نکال دیا۔ مزید ظلم یہ کہ انہیں آخری چند مہینوں کی واجب الادا تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں کی گئی۔ جب ورکرز نے سڑک پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تو آناً فاناً پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں آئیں، ورکرز پر لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ کر دی گئی اور کئی ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار شدہ محنت کشوں کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے، سڑک بلاک کرنے وغیرہ جیسے ”سنگین“ جرائم پر ان کی زبردست سرزنش کرتے ہوئے انہیں ”قرار واقعی“ سزا دینے کا عندیہ دیا۔ مگر جج صاحب سے لے کر وکلاء اورپولیس افسران سمیت پورا نظام ”عدل و انصاف“ یہ بھول گیا کہ پر امن احتجاج کرنا ورکرز کا قانونی حق تھا اور درحقیقت یہ فیکٹری مالکان تھے جنہوں نے جبری بر طرفیاں کر کے قانون کی دھجیاں بکھیری تھیں۔
پانچواں منظر:
شہر میں عسکری رئیل اسٹیٹ اور ایک نجی پراپرٹی ٹائیکون کے باہم اشتراک سے بننے والی ایک نئی پوش ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ایک بڑے سے بنگلے کی مالکن نے جب اپنی مقامی ملازمہ سے اس کے گھر بار کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے اس کا خاندان یہیں پاس میں اپنی چند ایکڑ زمین پر کاشتکاری کر کے گزر بسر کرتا تھا لیکن پھر اس سوسائٹی کی تعمیر کے لیے حکومت نے مختلف قانونی بہانوں کے ذریعے انہیں زمین سے بے دخل کر دیا۔ جن کسانوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی انہیں رینجرز اور پولیس نے کچل کر رکھ دیا۔ گرفتار ہونے والے کسانوں پر ڈکیتی کے جھوٹے مقدمے بنائے گے اور انہیں لمبی سزائیں سنائیں گئیں۔ اس کا باپ اور شوہر بھی جیل میں قید کاٹ رہے ہیں جبکہ وہ اور اس کی بیٹیاں اب کسانوں کی غصب شدہ زمینوں پر بننے والی کوٹھیوں میں کام کاج کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
چھٹا منظر:
شہر کے بڑے سرکاری ہسپتال کے آؤٹ ڈور میں کچھ زیادہ ہی رش تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پرائیویٹ پریکٹس کی مصروفیات کے کارن ایک مشہور پروفیسر صاحب صرف آج ہی کے دن ایک دو گھنٹے کے لئے آؤٹ ڈور تشریف لاتے تھے۔ لہٰذا دور دراز سے آئے مریض انہیں دکھانے کے لئے صبح سے بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ وقت کے ساتھ انتظار، گرمی، بھوک، پیاس سے مریضوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا۔ پھر اچانک پروفیسر صاحب کے پی اے نے آ کر بتایا کہ وہ آج چھٹی پر ہیں۔ کچھ مریضوں کے لواحقین غصے میں آ گئے اور انہوں نے جا کر ہسپتال کے ایم ایس کو شکایت لگانے کی کوشش کی۔ ایم ایس نے ہوں ہاں کر کے لواحقین کا غصہ ٹھنڈا کیا اور گول مول باتیں کر کے انہیں اگلے ہفتے دوبارہ آنے پر قائل کر لیا۔ اب وہ انہیں یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ دو گھنٹے قبل اسے سیکرٹری ہیلتھ کا فون آیا تھا اور اس نے پروفیسر صاحب کے لئے پیغام دیا تھا کہ وہ فوراً شہر کے ایک مشہور صنعتکار کے گھر جائیں اور اس کے پیشاب کا نمونہ لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے خود حاصل کریں۔
ساتواں منظر:
بہت سے سرکاری محکموں اور عوامی اداروں کے محنت کش اور چھوٹے ملازمین پورے ملک سے اسلام آباد میں احتجاج کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ چونکہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا ان کی تنخواہیں بھی کچھ بڑھائی جائیں مگر حکومت ہمیشہ کی طرح ”خزانہ خالی ہے۔۔“ کا جواز پیش کر کے ان کی بات ماننے سے انکاری تھی۔ آخر کار حکومتی ہٹ دھرمی سے تنگ آ کر جیسے ہی محنت کشوں نے پارلیمنٹ ہاؤس سمیت دیگر اہم ریاستی ایوان رکھنے والی شاہراہ کی جانب بڑھنا شروع کیا تو موقع پر تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری نے ان پر اندھا دھند آنسو گیس کی بوچھاڑ کر دی۔ کہتے ہیں کہ اس دن ٹنوں کے حساب سے آنسو گیس محنت کشوں پر پھینکی گئی تھی اور یہ ملکی تاریخ کی بدترین گیس شیلنگ تھی۔ اگلے دن ملک کے وفاقی وزیر داخلہ نے میڈیا کے سامنے بات کرتے ہوئے برملا کہا کہ ”ہمارے پاس اسٹاک میں موجود آنسو گیس ایکسپائر ہونے والی تھی، تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ پورے اسٹاک کا ادھر ہی استعمال کر لیں۔“
اس واقعے کے چند ماہ بعد پیش ہونے والے وفاقی بجٹ میں محنت کشوں کے مطالبات پر ہمیشہ ”خزانہ خالی ہے۔۔“ کا شور ڈالنے والے حکمرانوں نے محنت کش عوام پر ہزاروں ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے اور ملک کے سرمایہ داروں، صنعتکاروں، بنکاروں، جاگیرداروں، ججوں، فوجی و سول ریاستی اشرافیہ کو تین ہزار ارب روپے کی معاشی مراعات دے ڈالیں۔ جب کسی نے ایک منہ پھٹ حکومتی مشیر کی توجہ اس تضاد کی جانب دلائی تو اس نے ترنت جواب دیا ”ہم نے کچھ نیا تھوڑی کیا ہے۔۔۔ایسا تو ہر حکومت ہی کرتی ہے۔“
آٹھواں منظر:
ملک کے دور دراز کے ایک علاقے میں معدنیات دریافت ہوئیں۔ علاقے کے قبائلی عوام خوش ہو گئے کہ چلو اب ان کا علاقہ بھی ترقی کرے گا۔ ترقی تو نہیں آئی البتہ فوجی دستوں، بکتر بند گاڑیوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ریاست ضرور آ گئی۔ علاقے کے معدنی وسائل مقامی لوگوں سے چھین کر ایک غیر ملکی مائننگ کمپنی کے حوالے کر دیے گئے۔ اس تمام لوٹ مار میں جرنیلوں، اعلیٰ سول افسر شاہی اور مقامی اشرافیہ نے بھی اپنا حصہ خوب وصول کیا۔ جب کچھ سر پھروں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں دہشت گرد، ملک دشمن، بیرونی ایجنٹ اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔ بہت سوں کو تو ایسا غائب کیا گیا کہ آج تک ان کا کچھ سراغ نہیں مل سکا۔
لیکن پھر کچھ اعلیٰ ریاستی دماغوں نے سوچا کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو کہیں علاقے کے عوام کوئی بڑی بغاوت ہی نہ کر دیں لہٰذا انہیں علاقے میں کچھ نہ کچھ ترقیاتی کام تو کرانا ہی پڑے گا۔ بڑی مغز ماری کے بعد بالآخر علاقے کے تمام در و دیوار پر سبز ہلالی پرچم پینٹ کرنے کے لئے بجٹ منظور کر لیا گیا۔
نواں منظر:
ایک جہاں دیدہ سرمایہ دار کا نو عمر نا تجربہ کار بیٹا اپنے باپ سے بحث کر رہا تھا کہ اگر پڑوسی ملک کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے تو پھر اتنی بڑی فوج پالنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی اور اس سارے پیسے کو معیشت میں استعمال کیا جا سکے گا۔ بالآخر تنگ آ کر باپ نے بیٹے کو اصل حقیقت سمجھاتے ہوئے کہا ”ارے بیوقوف۔۔اگر دنیا کے تمام ملکوں کے بیچ ایک سو سالہ معاہدہ امن بھی ہو جائے تب بھی یہ بڑی بڑی فوجیں موجود رہیں گی کیونکہ اگر یہ نہ رہیں تو پھر اکثریتی محنت کش طبقے کو ہماری فیکٹریوں، جائیدادوں اور محلات پر قبضہ کرنے سے کون روکے گا؟“۔
دسواں منظر:
ایک یونیورسٹی کی کلاس میں پروفیسر صاحب پڑھا رہے تھے کہ ”ملک کے آئین میں تمام طبقات کا یکساں خیال رکھا گیا ہے۔ بس اگر یہ صحیح معنوں میں نافذ ہو جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے“۔
”عقل مند“ پروفیسر کی یہ بات سن کر لیکچر ہال کے دروازے پر بیٹھا بوڑھا چپڑاسی، جس کی ساری جوانی فیکٹریوں میں کام کرتے گزری تھی، دل ہی دل میں ہنسا اور سوچنے لگا کہ غریبوں کی محنت لوٹ کر ہی تو امیر، امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں۔۔۔امیر کے فائدے میں غریب کا نقصان ہے اور غریب کے فائدے میں امیر کا نقصان ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آئین میں دو متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کا یکساں خیال رکھا گیا ہو۔
کسی دوسرے شہر میں ایسی ہی ایک اور یونیورسٹی کی کلاس میں پروفیسر صاحب پڑھا رہے تھے کہ ریاست ایک فطری ادارہ ہے۔ یہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ اس پر ایک سٹوڈنٹ نے معصومیت سے پوچھا ”لیکن سر، جب ہمارے آباؤ اجداد غاروں میں رہتے تھے، شکار اور جنگلی پھل کھا کر گزر بسر کرتے تھے، جب نہ کوئی نجی ملکیت تھی اور نہ کوئی امیر یا غریب تھا، کیا اس وقت بھی کوئی حکم چلانے والا ڈپٹی کمشنر ہوا کرتا تھا؟“۔۔۔پروفیسر صاحب کی آئیں بائیں شائیں سے فائدہ اٹھاتے ہوتے ہوئے بیک بینچز پر بیٹھا ایک تیز سا لڑکا شرارتی لہجے میں بولا ”ارے بھائی، کیا تمہیں نہیں پتا کہ خدا نے بابا آدم اور اماں حوا کے ساتھ دنیا میں سرکاری وردی والا ایک اہلکار بھی بھیجا تھا۔۔“
گیارہواں منظر (دنیا بھر سے):
فرانس کے محنت کشوں کے عوام پر نافذ کئے گئے نئے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ملک گیر مظاہرے۔۔حکومت نے ”امن و امان“ برقرار رکھنے کی خاطر پورے ملک میں پولیس کے ساتھ ساتھ نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دے دیا۔
برطانیہ میں اجرتوں میں اضافے کے لئے محنت کشوں کی ملک گیر ہڑتال۔۔۔حکومت کی جانب سے ہڑتال تڑوانے کی خاطر بھرپور ریاستی قوت استعمال کرنے کا اعلان۔
اٹلی میں جبری بر طرفیوں کے خلاف محنت کشوں کے ایک احتجاج پر گھڑ سوار پولیس کا زبردست لاٹھی چارج۔
ایران میں تنخواہ بڑھانے کی خاطر احتجاج کرنے والے ورکرز کو گرفتار کر کے عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
انڈیا کے حکمران محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی ہڑتالوں سے پریشان تھے۔۔سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ملک میں ایمرجنسی کا ماحول بنانے اور محنت کشوں کی توجہ ان کے اصل مسائل سے ہٹانے کی خاطر کیوں نہ پاکستان کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنگ کر لی جائے۔ اسی میں دونوں ممالک کے سرمایہ دار حکمران طبقات کا بھلا ہے۔
افغانستان میں جنگ پر ڈھائی ہزار ارب ڈالر خرچنے والی اور بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کو ہزاروں ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دینے والی امریکی ریاست میں علاج مفت نہیں ہے اور ہر شہری کو اپنی ہیلتھ انشورنس کرانی پڑتی ہے۔ اگر آپ غریب ہیں اور انشورنس نہیں کرا سکتے تو آپ شوق سے نیو یارک کی کسی مہنگی چمکتی دمکتی عمارت کے تاریک سائے میں گمنامی کی موت مر سکتے ہیں۔ ہاں، لیکن جب بھی کبھی امریکہ کے محنت کش اس طبقاتی ظلم و نا انصافی کے خلاف احتجاج کرنے نکلتے ہیں تو فوراً ہی ”قومی سلامتی“ کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، وائیٹ ہاؤس سے لے کر پینٹاگون تک خطرے کی گھنٹیاں بج جاتی ہیں اور امریکی ریاست پوری طاقت کے ساتھ”اندرونی دشمن“ کے خلاف برسر پیکار ہو جاتی ہے۔
دنیا کے سات معاشی طور پر طاقتور ترین ممالک یعنی جی سیون کے سربراہان مملکت کا اجلاس ایک یورپی دارلحکومت کے لگژری ہوٹل میں جاری تھا۔ ہوٹل کے باہر پوری دنیا سے آئے ہزاروں محنت کش مظاہرین بھی جمع تھے جو ان طاقتور سرمایہ دارانہ ممالک کی عوام دشمن اور سرمایہ نواز پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن وہ اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ ہوٹل کو چاروں طرف سے پولیس، پیرا ملٹری کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے رکھا تھا جسے بکتر بند گاڑیوں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ اوپر کانفرنس روم کی بلٹ پروف کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے اجلاس میں شریک ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نے اپنے اجلے کالر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کلامی کی ”شکر ہے کہ یہ فوج، پولیس، عدلیہ اور قانون کا نظام موجود ہے۔۔اگر یہ نہ ہوتا تو آج ان غریبوں کے غلیظ ہاتھ ہمارے گریبان تک بس پہنچ ہی گئے تھے۔“
آخری منظر:
کسی فیکٹری کے یونین دفتر میں ایک کمیونسٹ تنظیم کا سٹڈی سرکل چل رہا تھا۔ سرکل میں اس فیکٹری کے ساتھ ساتھ آس پاس کی دیگر فیکٹریوں، ملوں کے ورکرز اور کچھ طلبہ بھی شریک تھے۔ سرکل کا موضوع تھا ’مارکسزم کا نظریہ ریاست‘۔ شرکاء اس موضوع پر محنت کش طبقے کے عظیم اساتذہ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی مختلف تحریروں کو زیر بحث لا رہے تھے۔ یہاں ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے اس سرکل میں مختلف شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے مارکسی نظریات کی روشنی میں دیے گئے جوابات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔
سوال: سرمایہ دارانہ ریاست کیا ہوتی ہے؟ اس کے بنیادی ادارے کون سے ہیں اور یہ کس کی محافظ ہے؟
جواب: ریاست بنیادی طور پر طبقاتی جبر کا آلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست، سرمایہ دار طبقے کے پاس محنت کش طبقے کو بزور طاقت دبا کر رکھنے کا ایک اوزار ہوتی ہے۔ اس کے بنیادی اداروں میں فوج، پولیس، خفیہ ایجنسیاں، سول افسر شاہی، عدلیہ، جیل خانہ جات وغیرہ شامل ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست کا مقصد سرمایہ دار طبقے کے معاشی، سیاسی و سماجی مفادات کی نگہبانی کرنا اور اس کی نجی ملکیت (صنعتیں، بنک، معدنی وسائل، بڑے زرعی فارم وغیرہ) کا مسلح دفاع کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کا آئین اور قانون بھی انہی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے اور نجی ملکیت کا تقدس اس کی بنیاد میں شامل ہوتا ہے۔
سوال: ایک سرمایہ دارانہ ریاست میں پارلیمان کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: سرمایہ دارانہ ریاست میں جمہوریت ہو یا فوجی آمریت، دونوں صورتوں میں یہ ریاست سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندہ اور محافظ ہی رہے گی۔ جمہوریت اور آمریت سرمایہ دارانہ ریاست کو چلانے کے محض دو مختلف طریقہ کار ہیں۔ مخصوص صورتحال میں سرمایہ دارانہ ریاست کو بادشاہت (مثلاً سعودی عرب) یا ملا آمریت (مثلاً ایران) کے ذریعے بھی چلایا جا سکتا ہے۔
سوال: کیا سرمایہ داری سے پہلے کے طرز ہائے پیداوار جیسے کہ جاگیر داری، غلام داری وغیرہ میں بھی ریاست تھی؟
جواب: جی ہاں، چونکہ یہ سماج بھی طبقاتی سماج تھے لہٰذا یہاں بھی ریاست طبقاتی جبر کے آلے کے طور پر وجود رکھتی تھی۔ جاگیردارانہ ریاست، جاگیر دار اشرافیہ کے ہاتھوں میں کسانوں اور مزارعوں وغیرہ پر جبر کرنے کا آلہ تھی (مثلاً قرون وسطیٰ کی یورپی بادشاہتیں) جبکہ غلام دارانہ ریاست غلام مالکان کے ہاتھوں میں غلاموں کو بزور طاقت دبا کر رکھنے کا ایک اوزار تھی (مثلاً قدیم روم اور یونان)۔
سوال: کیا ریاست کا وجود ہمیشہ سے تھا؟
جواب: ہر گز نہیں۔ جدید سائنسی اندازوں کے مطابق نوع انسان کی ارتقائی تاریخ (جس میں بتدریج اور دھماکہ خیز، دونوں طرح کی تبدیلیاں شامل ہیں) 25 لاکھ سال کے عرصے پر محیط ہے۔ اس میں سے لگ بھگ چوبیس لاکھ نوے ہزار سال کے عرصے میں طبقات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس تمام عرصے میں انسانی آبادی چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل تھی جو شکار کر کے اور جنگلی پھل وغیرہ اکٹھے کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ پتھر کے اوزاروں پر مشتمل نوع انسان کی پیداواری تکنیک نہایت پسماندہ تھی اور زیادہ تر غاروں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے انسانی گروہ اس قابل ہی نہیں تھے کہ اتنی پیداوار کر سکتے کہ آج کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی پیچھے کچھ بچ جاتا جس پر پھر کوئی نجی ملکیت کا دعویٰ کر سکتا۔ لہٰذا اس تمام عرصے میں نوع انسان نجی ملکیت کے تصور سے بھی نا آشنا تھی۔ جب نجی ملکیت نہیں تھی تو پھر طبقات بھی نہیں تھے اور چونکہ طبقات نہیں تھے لہٰذا طبقاتی جبر کے آلے یعنی ریاست کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
طبقات کے وجود میں آنے کا عمل آج سے بمشکل دس گیارہ ہزار سال پہلے شروع ہوا جب پتھر کے اوزاروں میں آنے والی جدت، زراعت اور گلہ بانی جیسی تکنیکوں کی بدولت پہلی مرتبہ انسان اس قابل ہوا کہ اپنی آج کی ضرورت سے بڑھ کر پیداوار کر سکے۔ مگر یہ زائد پیداوار اتنی افراط میں نہیں تھی کہ سب کے لئے قلت کا خاتمہ کر سکے۔ لہٰذا گروہ یا قبیلے کے چند طاقتور جنگجو افراد نے بزور قوت اسے اپنی نجی ملکیت بناتے ہوئے اس کے استعمال کو صرف اپنے تک محدود کر لیا۔ یوں طبقات کا جنم ہوا۔ تکنیکی، معاشی وسماجی ارتقا کے ساتھ جیسے جیسے طبقاتی سماج کی پیچیدگی اور تضادات میں اضافہ ہوا، ملکیتی طبقے کی نجی ملکیت کے حجم میں اضافہ ہوا، نجی ملکیت سے محروم طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کی طرف سے بغاوت کا مستقل خطرہ درپیش رہنے لگا تو بالائی طبقے کی نجی ملکیت کے دفاع اور نجی ملکیت سے محروم محکوم طبقات کو بزور جبر دبائے رکھنے کی خاطر ’مسلح افراد کے جتھوں‘ پر مشتمل ریاست کا ادارہ وجود میں آیا۔ یہ آج سے محض چھے، سات ہزار سال پہلے کی بات ہے (قدیم مصر، میسو پوٹیمیا وغیرہ)۔
یہاں واضح رہے کہ اپنے تمام تر ظلم و استحصال کے باوجود نجی ملکیت کا ظہور اور طبقاتی سماج کا قیام تاریخی اعتبار سے ایک ترقی پسندانہ قدم تھا کیونکہ اس نے پہلی دفعہ انسانوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت (حکمران ملکیتی طبقہ) کو بقا کی روز مرہ جدوجہد سے آزاد کر دیا تھا اور نتیجتاً ان افراد کو وہ وقت میسر آیا جو کائنات اور فطرت پر غور و فکر کرنے، علوم و فنون اور تکنیک کاری کی تیز رفتار بڑھوتری کے لئے درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ دس ہزار سال کے عرصے میں انسانی علم، تکنیک کاری اور ذرائع پیداوار میں تیزی کے ساتھ ترقی ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے کے لاکھوں سال کے عرصے میں انسانی ترقی کی رفتار انتہائی سست تھی۔
سوال: کیا ریاست کا وجود ہمیشہ رہے گا؟
جواب: ہرگز نہیں۔ لاکھوں سال کی جدوجہد اور تکنیکی ترقی کا سفر طے کرنے کے بعد آج نوع انسان کے پاس وہ جدید ترین سائنسی علم، ٹیکنالوجی اور بے تحاشہ قوت پیداوار رکھنے والے پیداواری ذرائع موجود ہیں جن کی بنیاد پر پیداواری افراط تخلیق کرتے ہوئے سماج سے عمومی قلت کا مکمل خاتمہ کرنا اور ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنا ممکن ہے جس میں ہر انسان سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جاسکے اور اسے اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاسکے۔ چونکہ یہ پیداواری افراط رکھنے والا ایک غیر طبقاتی سماج ہو گا لہٰذا اس میں طبقاتی جبر کے آلے یعنی ریاست کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ یوں ریاست کا ادارہ اپنے تاریخی منطقی انجام کو پہنچے گا۔
سوال: مگر یہ سب کیسے ہو گا؟
جواب: تاریخ گواہ ہے کہ حکمران ملکیتی طبقے نے کبھی بھی اپنی نجی ملکیت، مراعات، آسائشوں اور حکمرانی کو رضا کارانہ طور پر نہیں چھوڑا۔ غلام داری نظام کے خاتمے میں غلام بغاوتوں کا ایک کلیدی کردار تھا۔ اسی طرح جاگیر داری نظام کے خاتمے میں کسانوں اور مزارعوں کی بغاوتوں اور انقلابات کا ایک بنیادی کردار تھا۔ ایسے ہی آج سرمایہ دار طبقہ پوری دنیا میں سائنس، ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار پر قابض ہے اور اپنی منافع خوری کی خاطر نہ صرف کرۂ ارض کے اربوں محنت کشوں کی زندگیوں کو ایک جہنم بنا چکا ہے، نوع انسان کی مزید ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن چکا ہے بلکہ اب ماحولیاتی تباہ کاری کے کارن نوع انسان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ پیداواری افراط کے بلبوتے پر ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ ذرائع پیداوار پر سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جائے اور انہیں سماجی ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک منصوبہ بند انداز میں بروئے کار لایا جائے۔ مگر ماضی کے حکمران ملکیتی طبقات کی طرح سرمایہ دار طبقہ بھی کبھی اپنی نجی ملکیت اور سیاسی حکمرانی سے رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہو گا۔ محنت کش طبقے کواس سے یہ نجی ملکیت اور حکمرانی چھیننی پڑے گے۔ اس کے لیے محنت کش طبقے کو طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر مارکسزم لینن ازم کے نظریات و پروگرام سے مسلح ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔
یہاں واضح رہے کہ چونکہ سرمایہ داری ایک عالمی پیداواری نظام ہے لہٰذا پیداواری افراط پر مبنی ایک غیر طبقاتی سماج کی مکمل تعمیر بھی صرف عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کا آغاز کسی بھی ایک ملک یا چند ممالک سے ہو سکتا ہے لیکن اپنی تکمیل کے لئے اسے آگے بڑھ کر پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اسی لیے مارکس وادی ’دنیا بھر کے محنت کشو۔۔ایک ہو جاؤ!‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
سوال: مزدور ریاست کیا ہوتی ہے؟
جواب: کسی بھی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد وہاں کا محنت کش طبقہ صرف ذرائع پیداوار پر سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت کا ہی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے فوج، پولیس، عدلیہ، افسر شاہی وغیرہ جیسے تمام جابرانہ اداروں کا بھی خاتمہ کر دے گا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ پارلیمان، آئین و قانون کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ مگر دوسری طرف محنت کش طبقے کو اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیے جانے والے ذرائع پیداوار کو ایک منصوبہ بند معیشت کی شکل میں منظم کرتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ بنیادوں پر تنظیم نو کرنے، شکست خوردہ سابقہ سرمایہ دار طبقے اور افسر شاہی کی باقیات کی جانب سے کی جانے والی رد انقلابی کوششوں کو کچلنے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل تک سامراجی قوتوں کے سیاسی، معاشی و فوجی حملوں سے اپنا دفاع کرنے کی خاطر ایک مزدور ریاست کی بھی ضرورت ہوگی۔ یہ مزدور ریاست بھی طبقاتی جبر کا ایک آلہ ہو گی۔ مگر سابقہ طبقاتی ریاستوں کے برعکس اس مرتبہ یہ اکثریتی محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں اقلیتی سابقہ سرمایہ دار طبقے اور افسر شاہی کی باقیات، سامراجی سازشوں اور دیگر رد انقلابی رجحانات کی بیخ کنی کا ایک اوزار ہوگی۔
یہ مزدور ریاست انقلاب کے دوران محلے، کھیت اور فیکٹری کی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک تشکیل پانے والی محنت کشوں، طلبہ، چھوٹے کسانوں اور عام فوجیوں (وردی والے محنت کش) پر مشتمل انقلابی کمیٹیوں یا پنچائتوں پر مشتمل ہو گی جن میں غالب کردار محنت کش طبقے کا ہی ہو گا۔ سماجی و عوامی ضروریات کا تخمینہ لگاتے ہوئے ان کی بھر پور تکمیل کی خاطر ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی ملکیت میں لئے گئے ذرائع پیداوار کو بروئے کار لانا ان کمیٹیوں کا بنیادی فریضہ ہو گا۔ نیچے سے لے کر اوپر تک ان کمیٹیوں میں بھیجے جانے والے نمائندوں کا تعلق محنت کش عوام سے ہو گا اور انہیں منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالنے کا حق بھی صرف محنت کش عوام کے پاس ہو گا۔اگر کبھی منتخب کرنے والے محنت کش عوام کو لگے کہ کمیٹی میں موجود ان کا نمائندہ ان کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہا ہے، تو ان کے پاس اسے کسی بھی وقت واپس بلا نے کا اختیار موجود ہو گا۔ کمیٹی کے کسی منتخب نمائندے یا مزدور ریاست کے کسی بھی اہلکار کی تنخواہ اور مراعات کسی بھی صورت میں ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ محنت کش طبقے اور دیگر مظلوم طبقات و سماجی پرتوں کے مفادات کے عین مطابق نئی انقلابی آئین سازی کا فریضہ بھی یہی کمیٹیاں سر انجام دیں گی۔ مزدور ریاست میں پولیس نامی کوئی ادارہ نہیں ہو گا اور اپنے علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری انہی منتخب کمیٹیوں کے پاس ہو گی جسے وہ اہل علاقہ کے ساتھ مل کر سرانجام دیں گی۔ مزدور ریاست کا کوئی الگ سے عدالتی نظام نہیں ہو گا۔ ہر علاقے کی انقلابی عوامی عدالتیں اپنے علاقے کی منتخب کمیٹی کے تابع ہوں گی اور ان میں منصفوں کی تعیناتی متعلقہ منتخب کمیٹی میں موجود محنت کش عوام کے نمائندے کریں گے جبکہ غیر تسلی بخش کارکردگی پر کمیٹی کے پاس کسی بھی منصف کو ذمہ داری سے ہٹانے کا مکمل اختیار ہو گا۔ محنت کش عوام کی تمام بالغ آبادی فوجی تربیت یافتہ ہو گی۔ صنعتی محنت کشوں کی اپنی ہتھیار بند مزدور ملیشیا ہو گی جو فیکٹری یونینز اور صنعتی علاقوں کی منتخب کمیٹیوں کے تابع ہو گی۔ محنت کش طبقے کے سب سے بہترین سیاسی شعور یافتہ لڑاکا عناصر پر مشتمل ایک مزدور فوج تشکیل دی جائے گی۔ مزدور فوج میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہ اور مراعات برابر ہوں گی اور افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ مزید برآں یہ مزدور فوج الگ تھلگ چھاؤنیوں میں نہیں بلکہ محنت کش آبادی کے بیچ، ان کے ساتھ گھل مل کر رہے گی اور باقاعدگی کے ساتھ محنت کش طبقے کی پیداواری سرگرمیوں میں حصہ بھی لے گی۔
لیکن یہ مزدور ریاست درحقیقت ایک مضبوط ہوتی نہیں بلکہ بتدریج ایک تحلیل ہوتی ہوئی ریاست ہو گی۔ جیسے جیسے عالمی سوشلسٹ انقلاب آگے بڑھے گا، عالمی سرمایہ دار طبقے اور سامراجی قوتوں کا خاتمہ ہوتا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ خطوں کے ذرائع پیداوار اور وسائل عالمی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا حصہ بن کر پیداواری افراط کو تخلیق کرتے ہوئے قلت کا مکمل خاتمہ ممکن بناتے جائیں گے، ویسے ویسے مزدور ریاست کی تاریخی ضرورت بھی ختم ہوتی جائے گی اور یہ مرجھاتے ہوئے ایک دن ویسے ہی غیر طبقاتی سماج میں ضم ہو کر ختم ہو جائے گی جیسے برف کا ایک ٹکڑا پانی میں آہستہ آہستہ حل ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی ایک عظیم جست ہو گی۔۔جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔