|تحریر: ولید خان|
اس وقت پوری دنیا تباہی و بربادی کی لپیٹ میں ہے۔ جنگیں، بھوک، قحط سالی، بیروزگاری، لاعلاجی، جہالت، خودکشیاں، قتل و غارت گری، ماحولیاتی تباہی، قدرتی آفات، دیو ہیکل ہجرتیں سب معمول بن چکے ہیں۔ پورے عالم میں کوئی ایسا خطہ یا علاقہ موجود نہیں جہاں انسانیت کی المناک تذلیل انسانیت کا مذاق نہ اڑاتی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ایک پاگل پن، ایک بے حسی اور شدید نفسا نفسی انسانی سرشت بن چکے ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ، پیسے کی پیاس اور کسی بھی انسان کی گردن پر پیر رکھ کر کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا نئی اخلاقیات ہیں۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے اور موجودہ معاشی نظام سرمایہ داری کی ذلت آمیز قریب المرگی کا اظہار ہے۔ یہ ببانگِ دہل اعلان ہے کہ آج کا حکمران طبقہ اور اس کا نظام اپنی تاریخی عمر پوری کر چکے ہیں اور اب انسانیت کو صرف غم، جبر، تکلیف اور بربریت ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف پچھلے کئی سالوں سے بیسیوں ممالک میں عوامی تحریکیں اور دیو ہیکل احتجاج ہوئے ہیں جنہوں نے جرات، ثابت قدمی اور انسان دوستی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ کوئی ایسا براعظم اور ملک نہیں بچا جہاں شدید سیاسی، معاشی اور ہیجانی انتشار برپا نہ ہو۔ کہیں کم یا زیادہ لیکن ایک مخصوص انداز میں تمام عوامل ایک ہی راہ پر گامزن ہیں۔ جہاں حکمران طبقہ اپنے انجام کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا ہے وہیں عوام تمام پرانی ریاستوں، ان کے اداروں، سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی حقیقت سے روشناس غیض و غضب کی تصویریں بنے ان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ طبقات کے درمیان اس جنگ و جدل کا پیمانہ وسیع اور شدت تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ اپنی حکمرانی اور نظام کو بچانے کے لئے محنت کش طبقے کی سانسیں تک غصب کرنے کی کوششیں کر رہا ہے جبکہ محنت کش اس ظلم و جبر کے خلاف منظم ہو کر مستقبل کی جدوجہد کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہم نے مستقبل کی ایک جھلک سری لنکا کے حالیہ عظیم الشان انقلاب میں دیکھی ہے۔ عظیم انقلابی لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں بغاوت سماج کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ اب تو غلیظ تنخواہ دار ملازم تجزیہ نگار اور دانشور بھی شدید مایوسی میں حالات ایسے ہی رہنے یا مزید تباہی و بربادی کی نوید سنا رہے ہیں۔
عالمی معاشی انتشار
کورونا وبا کے دور کے حوالے سے ہم پہلے بھی بہت تفصیلی بحث مباحثہ کر چکے ہیں جس کی تفصیل یہاں ضروری نہیں۔ فقط یہاں یہ بیان کافی ہے کہ اس وبا نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ وبا سے پہلے سال 2019ء تک عالمی معیشت ایک مرتبہ پھر سست روی کا شکار تھی، 35 سے زیادہ ممالک میں انقلابی تحریکیں ایک سال کے دوران ابھریں اور پورے سرمایہ دارانہ نظام پر سخت ترین سوال اٹھنا شروع ہو چکے تھے۔ وبا نے جہاں اس سارے عمل کو کاٹا وہیں حکمران طبقات نے موقع غنیمت جان کر تمام مسائل کا الزام وبا پر لگا دیا۔ لیکن وبا کے دوران جس قسم کا دیو ہیکل پیسہ معیشت کو بچانے اور سماجی امن خریدنے کے لئے استعمال ہوا (اندازاً 16 ٹریلین ڈالر)، منڈی میں پیسے کی اس دیو ہیکل فراوانی نے اگلے چند سالوں میں ہولناک افراطِ زر کو جنم دیا۔ درحقیقت 2008ء کے بحران کے بعد سے ہی کرنسی نوٹ چھاپ کر بحران سے باہر نکلنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں جن کا نتیجہ اب سامنے آ رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں افراطِ زر گزشتہ چار دہائیوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ 8.5 فیصد، کینیڈا 8.1 فیصد، برطانیہ 10.1 فیصد، آسٹریلیا 6.1 فیصد، یورپ 8.9 فیصد جبکہ ایشیاء، لاطینی امریکہ اور افریقہ جیسے نام نہاد ترقی پذیر خطوں اور ان کے غریب علاقوں میں افراطِ زر 130-40 فیصد تک موجود ہے۔ یاد رہے کہ دہائیوں سے سرمایہ دارانہ معیشت کی صحت کی ایک ضامن افراطِ زر 2 فیصد یا اس کے قریب برقرار رکھنا رہی ہے۔ اس بے قابو افراطِ زر سے غریب عوام کی قوتِ خرید برباد کر دی ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگائی کے باعث ان کی پہنچ سے دور چلی گئی ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں طبقاتی خلیج کس حد تک بڑھ چکی ہے اور امرا نے وبائی حالات کا فائدہ اٹھا کر کس قدر لوٹ مار کی ہے اس کا اندازہ آکسفیم کی حالیہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے دو سالوں میں 573 نئے ارب پتی بنے ہیں، سرمایہ دار طبقات کی کل دولت میں 3.7 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ تقریباً اتنی ہی دولت عوام کی جیبوں سے نکل چکی ہے۔ صرف اس سال غریبوں کی تعداد میں 26 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے یعنی ہر 33 گھنٹے بعد غربت میں 10 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ وبا کے دوران ہر 30 گھنٹوں میں دنیا میں ایک نیا ارب پتی پیدا ہوا۔ دنیا کے دس امیر ترین افراد کی دولت 3.1 ارب عوام کی دولت کے مساوی ہے اور جتنی دولت دنیا کی ایک فیصد اشرافیہ کا ایک فرد ایک سال میں لوٹتا ہے اتنی دولت دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی میں سے ایک فرد کو کمانے کے لئے 112 سال درکار ہیں! دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں 50 فیصد آبادی کے پاس کسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے بینک میں 1000 ڈالر یا اس سے کم رقم موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن صرف یہ اعداد و شمار طبقاتی تفریق، سرمایہ دارانہ نظام کے ہوشربا استحصال اور انسانی تاریخ میں سب سے بڑے دولت کے ارتکاز کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں پوری دنیا کی معیشت کو بریک لگ گئی۔ اس کے بعد ہر طرف چرچا کی گئی کہ تاریخی بحالی ہو گی، مثالی منافع ہو گا، شرح نمو حیران کن ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اب وہی شور شرابا کرنے والے ماہرِ معیشت سپلائی چینز میں رکاوٹوں، مہنگے ایندھن اور پیداوار میں دشواریوں سمیت ہر معاشی پہلو کی گراوٹ کا رونا رو رہے ہیں۔ اس وقت پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن، خام مال اور دھاتوں کی قیمتوں میں بھونچال مچا ہوا ہے۔ پچھلے ایک سال میں تیل 35 فیصد، قدرتی گیس 112 فیصد، کوئلہ 144 فیصد، یورپی گیس 609 فیصد، برطانوی گیس 429 فیصد، یوریا امونیا 98 فیصد اور یوریا 85 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ مائیکرو چپس کی مانگ کے حساب سے محدود پیداوار اور اشیاء کی سمندری ٹرانسپورٹ میں اضافہ (پچھلے دو سالوں میں ایک کنٹینر کی قیمت میں 3-4 گنا اضافہ) بھی تمام مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے پیداکار ملک چین میں زیرو وبا پالیسی کے تحت مسلسل لاک ڈاؤن لگتے اور کھلتے رہتے ہیں، جس سے صنعتی پیداوار میں شدید دشواری ہو رہی ہے۔ ان سب عوامل نے مل کر جہاں پوری دنیا میں پیداوار انتہائی مہنگی کر کے مصنوعات اور اشیائے خوردونوش صارفین کی پہنچ سے دور کر دی ہیں وہیں عوام کی قوتِ خرید میں شدید ٹوٹ پھوٹ نے مانگ پر بھی بہت اثر ڈالا ہے اور اس طرح معیشت کا پہیہ مسلسل سست ہو رہا ہے۔ مانگ اور رسد شدید ہیجانی مسائل کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے مختلف ممالک میں فیکٹریوں کی بندش، کمپنیاں دیوالیہ اور بے لگام لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جن کے پھر معیشت پر تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ سال 2008ء میں سرمایہ دارانہ معاشی بحران کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی پالیسی اب اور بھی زیادہ ہولناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ افراطِ زر کو قابو کرنے کے لئے سوائے چین اور جاپان کے تمام ممالک انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے ممالک میں شرحِ سود بڑھا رہے ہیں، جن سے ایک طرف سرمایہ داروں کے لئے سستے قرضوں کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس پیسے سے کی گئی مختلف شعبوں جیسے پراپرٹی اور سٹاک مارکیٹ میں سٹے بازی کے بلبلے بھی پھٹنے کی طرف جا رہے ہیں۔ کیونکہ ڈالر کی سپلائی کم کی جا رہی ہے اور شرح سود بڑھائی جا رہی ہے اس لئے مختلف ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں دیو ہیکل گراوٹ آئی ہے۔ خوفناک جبری معاشی کٹوتیاں اور ٹیکسوں میں بے لگام اضافہ ہر جگہ عوام کی کمر توڑ رہا ہے اور سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہر ملک میں قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایک طرف ان قرضوں کی مکمل واپسی اب ممکن نہیں اور دوسری طرف بجٹ کا بہت بڑا حصہ اب قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے جبکہ مسلسل بڑھتی شرح سود اس میں آئے دن اضافہ کرر ہی ہے۔ خود آئی ایم ایف کی اپنی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 70 ممالک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ہیں جن میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر غریب ممالک تک افراطِ زر کے حوالے سے محنت کشوں اور دیگر عوام کی تنخواہوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، بلکہ حقیقی اجرت دہائیوں سے مسلسل گر رہی ہے، جس سے قوتِ خرید اور نتیجتاً معیارِ زندگی دہائیوں پیچھے جا چکا ہے۔ معیشت دانوں اور دانشوروں کے تمام ڈھول بجانے کے باوجود آج حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد دنیا کا ہر ملک معاشی گراوٹ کی اندھی کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ شاید ہی کوئی ترقی یافتہ ملک ہو جس کی شرح نمو میں کمی نہ آئی ہو۔ صرف چین کی مثال لیں تو اس بجٹ سال میں شرح نمو کا ہدف 5.5 فیصد رکھا گیا جسے پھر 3.5 فیصد کر دیا گیا اور اب حال ہی میں نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ جتنی شرح نمو حاصل کی جا سکتی ہے وہ کرو! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اس سال کے آغاز سے مسلسل نظرِ ثانی کر کے ممالک اور عالمی معیشت کی شرح نمو کو کم کر رہے ہیں اور اب تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال 6.1 فیصد کے مقابلے میں اس سال عالمی شرح نمو 3.2 فیصد رہے گی جبکہ اگلے سال یہ 2.9 فیصد یا اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی پچھلی سہ ماہی رپورٹوں میں بمشکل ”کساد بازاری“ سے بچا گیا ہے لیکن ظاہر ہے موجودہ صورتحال میں لامتناہی بچے رہنا ناممکن ہے۔ آج ہر سنجیدہ بورژوا جریدہ، ذرائع ابلاغ اور سیاسی و معاشی دانشور چلا چلا کر ”کساد بازاری“ کا اعلان کر رہے ہیں۔ کتنے ہی مضامین لکھے جا چکے ہیں کہ معاشی ابتری سماجی و سیاسی انتشار کو جنم دے گی۔ درحقیقت حکمران طبقات دبے الفاظ میں طبقاتی تفاوت کے مزید بڑھنے اور طبقاتی جدوجہد ایک مستقل عمل بننے کے خوف کا اظہار کر رہے ہیں۔
قحط، خشک سالی، آبی ذخائر اور اشیائے خوردونوش
اس وقت دو عوامل اشیائے خوردونوش کی سپلائی کے لئے زہرِ قاتل بنے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماحولیاتی تبدیلی ہے اور دوسری روس–یوکرین جنگ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آج ہر طرف تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے انفراسٹرکچر تو تباہ ہو ہی رہا ہے لیکن ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی پیداوار اور سپلائی چینز بھی برباد ہو رہی ہیں۔روس اور یوکرین گندم، کھاد، پوٹاش اور دیگر خوردنی و زرعی اجناس سپلائی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک ہیں۔ ان دو ممالک کی گندم ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور دیگر خطوں کی عوام کے لئے بنیادی ضرورت ہیں۔ ایک طرف زرعی اجناس کی سپلائی میں کمی یا پابندیوں کے نتیجے میں رکاوٹ سے عالمی زراعت مسلسل مہنگی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف گندم کی سپلائی باہم نہ پہنچنے سے صارف ممالک میں غذا کا شدید بحران پیدا ہو رہا ہے۔ اندازاً 37 ممالک اور کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ برے حالات افریقہ میں زیریں صحارا خطے میں ہیں۔ مستقبل قریب میں روس–یوکرین جنگ کا فیصلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ بن رہا ہے کہ رسد تو ایک طرف رہ گئی اگر دونوں ممالک میں زرعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گیا تو پھر کتنے لاکھ افراد بھوک سے مریں گے۔
روس-یوکرین جنگ
روس-یوکرین جنگ اپنے ساتویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے۔ روس کے لئے بظاہر چند ہفتوں میں فیصلہ کرنے والا معاملہ اب ایک ایسی دلدل بن چکا ہے جس میں مغربی ممالک کی سیاسی و معاشی قوتیں صَرف ہو رہی ہیں اور نتیجتاً سماجی انتشار بڑھ رہا ہے۔ یہ جنگ درحقیقت علاقائی سامراج روس اور عالمی سامراج امریکہ کے درمیان پراکسی جنگ ہے جس میں تختہ مشق یوکرین بنا ہوا ہے اور دیگر ممالک پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ امریکہ اپنی سامراجی توسیع کے درپے ہے جبکہ روس اپنے حلقہ اثر کا دفاع کر رہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے بھی یورپی معیشت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ یورپ اپنی گیس کا 40 فیصد، تیل کا 30 فیصد اور کوئلے کا 70 فیصد روس سے درآمد کرتا ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی روسی توانائی کی سب سے بڑی صارف ہے، جبکہ دیگر ممالک اپنی بجلی اور گیس کی ضروریات کا سب سے بڑا حصہ روس سے درآمد کردہ گیس سے پورا کرتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں میں یورپی اور خاص طور پر جرمن معاشی طاقت اور خوشحالی کی دو اہم وجوہات تھیں جن میں روس کی سستی توانائی سپلائی اور یورپی دفاع کی ذمہ داری امریکی سامراج پر ہونا شامل ہیں۔ کیونکہ امریکی اور روسی سامراج براہِ راست جنگ نہیں کر رہے بلکہ جنگی اور معاشی پراکسی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں، اس لئے امریکہ نے روسی معیشت کی عالمی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور یوکرین کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے، جبکہ روس توانائی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ اٹھا کر دھڑا دھڑ عالمی منڈی میں تیل بیچ رہا ہے اور یورپ کو صلاحیت سے 60-80 فیصد کم گیس فراہم کر رہا ہے۔ روس عالمی توانائی منڈی کا دیو ہیکل سپلائر ہے۔ پابندیوں اور سپلائی کی کمی سے ایندھن کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے معاشی انتشار بڑھ رہا ہے اور پورے یورپ کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے جبکہ صنعتی پیداوار عالمی منڈی میں تیزی سے غیر مسابقتی ہو نے کے ساتھ کم سپلائی کی وجہ سے اب اسے بندش کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اگرچہ جرمنی اور دیگر ممالک نے ناروے، قطر، امریکہ وغیرہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ سپلائی ضرورت سے بہت کم ہے۔ اس وجہ سے یورپی یونین کے امریکی سامراج سے تضادات شدت اختیار کر ہے ہیں اور اندرونی خلفشار بڑھ رہا ہے۔ یوکرین میں خاص طور پر جارحیت کے بعد تمام ممالک نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے جس میں جرمنی سرِفہرست ہے۔ اس کے ساتھ وبا میں سرمایہ داروں کو دیے گئے پیسوں کی واپسی کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ یعنی قرضوں کی ادائیگی، معاشی سست روی، دفاعی اخراجات میں اضافے اور افراطِ زر کے نتیجے میں ناگزیر طور پر ٹیکسوں میں اضافے، جبری سماجی کٹوتیوں اور معیارِ زندگی میں جبری گراوٹ کا پہاڑ عوام پر لادا جا رہا ہے۔ اس کا اظہار شدید سیاسی انتشار میں ہو رہا ہے جس میں ہم نے یکے بعد دیگرے برطانیہ اور اٹلی میں وزرائے اعظموں کے استعفوں میں دیکھا ہے جبکہ محنت کشوں کے احتجاج اور ہڑتالیں بھی شدت اختیار کر رہی ہیں۔ بریگزٹ اور دیگر معاشی مسائل نے برطانیہ کی معاشی حالت ابتر کر دی ہے اور اس وقت محض ایک سال میں عوام پر توانائی کا بوجھ تین گنا بڑھ چکا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔ اس وقت احتجاجوں اور ہڑتالوں کی لہر نے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اب مستقبل میں جرمنی جیسے سابق مستحکم ملک سمیت پورے یورپ میں دیو ہیکل عوامی تحریکیں رونما ہو سکتی ہیں۔
انسانیت کی آزادی اور سوشلسٹ انقلاب
اس تمام تر معاشی بحران کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ بحران کی بنیادی وجہ اشیائے ضرورت کی قلت نہیں بلکہ زائد پیداوار یا زائد صلاحیت ہے۔ سرمایہ داروں کی اشیا ء کی فروخت کے لیے منڈی سکڑ رہی ہے اور عوام کی اکثریت کی قوت خرید مسلسل گر رہی ہے۔ اس قوت خرید کو بڑھانے کے لیے جوقرضوں اور کریڈٹ کارڈ کے مصنوعی طریقے اپنائے گئے تھے وہ بھی اب کار آمد نہیں رہے،بلکہ قرضوں کا بوجھ معیشتوں کو تباہ کر رہا ہے۔نوٹ چھاپ کر معیشت چلانے کا عمل اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ شرح سود پہلے ہی صفر فیصد تک کم کر دی گئی تھی جو تاریخ کی کم ترین سطح تھی۔ اس کے باوجود سرمایہ کاروں نے نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری نہیں کی اور سستے قرضوں سے سٹاک مارکیٹ میں ہی سٹہ بازی کے ذریعے پیسے بنائے۔ اب افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرناحکمرانوں کی مجبوری ہے، جس کے باعث دنیا بھر میں اسٹاک ایکسچینج گراوٹ کا شکار ہیں۔2008ء کے بحران کے بعد چین کی معیشت نے عالمی سرمایہ داری کو سہارا دیا تھا لیکن اب چین خود سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا شکار ہے اور اس کی معیشت زوال پذیر ہے۔بحران کے باعث حکمران طبقات کی آپسی لڑائیاں بڑھ رہی ہیں جو محدود پیمانے پر جنگوں، خانہ جنگیوں اور انتشار کو جنم دیں گی۔ایسے میں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا اور عوام کی بربادی بڑھائے گا۔اس بربادی کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ آج سرمایہ داری انسانیت کو مزید ترقی دینے کے قابل نہیں لیکن آج پیداواری قوتیں اس سطح پر موجود ہیں کہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی کو تمام اشیائے خوردونوش فراہم کی جا سکتی ہیں، ہر خاندان کو ایک گھر دیا جا سکتا ہے، بیروزگاری، لاعلاجی اور جہالت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک خوشنما اور خوشگوار زندگی کے تمام اجزا ء موجود ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیداوار اجتماعی ہے لیکن ملکیت اور منافع نجی ہے۔ آج محنت کشوں کی انقلابی پارٹی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے جو درست نظریات، تناظر اور ایک انقلابی پروگرام کے ذریعے محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کا اعتماد حاصل کرے اور آگے بڑھ کر سرمایہ داری، نجی ملکیت اور مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کر کے ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کرے جس کا مقصد انسانیت کی ضرورت اور بقا ہو۔ آج مارکس وادی یہی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اس عظیم الشان تاریخی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔