|تحریر: نیلسن وین، ترجمہ: فرحان رشید|
ایک نئی انکشافاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح سرمایہ داری کا بحران ایک پوری نسل کے مستقبل پر ڈاکہ ذن ہے، خاص کر کورونا وبا کے اُبھار میں جس نے نظام کے گلنے سڑنے کے عمل کو مزید گہرا اور شدید کردیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فنانشل ٹائمز پوری دنیا کے 35 سال سے کم عمر افراد کو درپیش مسائل پر تاحال ایک سلسلہ چلا رہا ہے۔ ان کی آخری قسط”ہم عدم تحفظ میں ڈوب رہے ہیں“ سے جو شکل اُبھری ہے وہ وبا کے بعد نوجوان افراد اور زندگی میں بالعموم غصے اور غیض سے بھرپور ہے۔
نوجوانوں کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ کسی موروثی دولت یا معجزے کے بغیر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا خواہ وہ جتنی محنت کریں، ان کو وہ معاشی تحفظ اور استحکام میسر آنے والا نہیں جو سابقہ نسلوں کو بطور عطیہ میسر آیا۔
موجودہ نسل نے محض بحران ہی دیکھا ہے
نام نہاد میلینئل نسل اور اس کے بعد والی جنریشن Z نے 2008ء کے معاشی بحران کے دوران بلوغت میں قدم رکھا تھا اور معاشی بحران کے سوا اس نے اپنی زندگی میں کچھ اور نہیں دیکھا۔
نوجوان نسل کے بہت ضروری مسائل، جن کا فنانشل ٹائمز نے خاکہ کھینچا، میں وسیع قرضے، بے تحاشہ رہائشی اخراجات، قلت اور نوکریوں کی مسابقت (طویل اوقاتِ کار اور قلیل مدتی کنٹریکٹس کے ساتھ)، بڑھتا ماحولیاتی بحران اور یہ عمومی احساس کہ ان کے لیے اور ان کے بچوں کے لیے زندگی اُن کے والدین کے مقابلے میں زیادہ بھیانک ہوگی۔
اس خیال کا اظہار ٹام نامی ایک نوجوان معمار کے الفاظ سے ہوتا ہے جس کا انٹرویو فنانشل ٹائمز نے کیا:
”میرے اکثریتی ہم عمر محض گزارہ کرنے کیلئے ہی شدید ہاتھ پیر مارنے پر مجبور ہیں۔۔ہم مایوس کن تھکاوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ہم آسان رستہ تلاش کرنے والے نہیں ہیں بلکہ میرے تمام دوست شدید ترین محنت کر کے روزی روٹی کما رہے ہیں مگر ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا، اور اب ہم سب کا ایمان اس نظام سے اٹھتا جا رہا ہے۔“
اس طرح کے دیگر جوابات میں نا امیدی کا یہ احساس بارہا موضوع بنتا ہے۔”ہم شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ہمیں مستقبل بالکل سیاہ نظر آرہا ہے“، اور، ”مجھے کبھی کبھار تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ڈھلوان کے کنارے پر کھڑے ہیں یا شاید اس میں گر رہے ہیں۔“
عدم استحکام کا شکار موجودہ نسل
یہ خدشات کورونا وبا سے قبل ہی زبان زد عام تھے۔ جہاں ایک طرف سرمائے کے نمائندگان ایک یقینی معاشی بحالی (یا آخر کار ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملکوں میں متوقع تنزلی سے کم تنزلی) پر جشن منا رہے ہیں، تو دوسری جانب نوجوانوں کو اس نام نہاد معاشی بحالی سے رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہو رہا۔ بلکہ الٹا حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر برطانیہ میں 35 برس سے کم عمر کے افراد کو گزشتہ برس میں تقریباً 80 فیصد نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح پچھلی ایک چوتھائی دہائی کے مقابلے میں دراصل ساکت کھڑی ہے (14.2 فیصد کے مقابلے میں 14.3 فیصد)۔ وبا کے آغاز سے 3 لاکھ نوکریوں کے خاتمے کے ساتھ یہ 2016ء کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ غریب ممالک میں یہ صورتحال بہت زیادہ بھیانک ہے، جن میں سے کئی ممالک کو کورونا کی نئی لہروں کا سامنا ہے، جہاں محض چند لوگوں کو ہی ویکسین لگ پائی ہے اور اب نئے لاک ڈاؤنز کی ضرورت پڑ رہی ہے جس سے لاکھوں روزگار خطرے میں ہیں، بالخصوص غیر رسمی شعبے کے محنت کش۔
مثال کے طور پر 2020ء میں جنوبی افریقہ میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی اوسطاً شرح 56 فیصد تھی۔ فروری 2021ء میں یہ 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں 63 فیصد اور 24 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں 41 فیصد، یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
نوجوانوں میں بے روزگاری کے اثرات واضح طور پر ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ بڑھتی غربت اور خوراک کی عدم دستیابی (خاص کر امریکہ، برصغیر اور افریقہ میں) کے نتیجے میں نوجوان خود کو سہارا دینے کیلئے قبیح اور گھناؤنے ذرائع اپنانے پر مجبور ہیں۔
مثلاً آن لائن پلیٹ فارم OnlyFans، جو اپنے صارفین (زیادہ تر نوجوانوں) کو اپنے سبسکرائبرز کو اپنی فحش تصاویر اور وڈیوز بھیجنے کی اجازت دیتا ہے، نے وبا کے دوران اپنے منافعوں میں سات گنا 1.7 بلین ڈالر تک اضافہ کیا ہے۔
یقینا لاک ڈاؤنز کے دوران بغیر کام کے گھر پر بند رہنے کی وجہ سے نوجوانوں میں ایسے متبادل کی پزیرائی ہو رہی ہے۔
زندہ رہنے کیلئے اپنے جسموں کو بیچنے کا رجحان نوجوانوں میں وبا سے پہلے بھی موجود تھا۔ برطانیہ میں 2017-19ء کے درمیان طلبہ کے اندر جسم فروشی، عریانی اور فحش نگاری کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا۔
لاکھوں نوجوانوں کا خطرناک اور غیر انسانی سرگرمیوں کی طرف جھکاؤ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا جرم ہے جو عوام کو دو وقت کی روٹی تک فراہم نہیں کر پا رہا۔
امیر اور غریب میں بڑھتی خلیج
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں بیان کیا گیا نوجوانوں میں پایا جانے والا یہ احساس کہ وہ اپنے والدین کی نسبت ناکام اور بری زندگی گزار رہے ہیں، اب ایک مستقل شکل اختیار کر چکا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اٹلی میں 62 فیصد اور فرانس میں 64 فیصد بالغ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے مقابلے میں محفوظ روزگار پانے میں کم خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ یہ دہائیوں سے بڑھتے سرمایہ دارانہ زوال میں روزگار کی منڈی کے سکڑنے اور محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکوں کا ثبوت ہے۔
یہ قنوطیت، عارضی اور زیرو آور کنٹریکٹس (Zero-Hour Contracts) کے اُبھار کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے، جو خاص طور پر یورو زون کے نوجوانوں پر غالب ہے۔ وبا کے آغاز پر یورپ کے 15 سے 24 سالہ تقریباً آدھے نوجوان عارضی نوکریوں پر معمور تھے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ وبا سے قبل بھی کینیڈا، فرانس، اٹلی، سپین اور برطانیہ میں روزگار کی شرح بحران سے پہلے کی شرح تک بحال نہیں ہوسکی تھی۔
نوکریوں کی قلت میں نوجوانوں کے پاس اکثر اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ استحصالی کنٹریکٹس اور کام کے حالات کو قبول کریں۔
اور گِگ (Gig) یا ڈیجیٹل معیشت میں خودکار روزگار اور زیرو آور کنٹریکٹس محنت کشوں کو کوئی حقوق فراہم نہیں کرتے، جیسا کہ بیماری میں تنخواہ ادا کرنا، چھٹیوں کی تنخواہ ادا کرنا اور کام کے باقاعدہ اوقات کار فراہم کرنا وغیرہ۔
2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے اس طرح کے کنٹریکٹس معمول بن گئے ہیں اور بنیادی طور پر اکثریتی نوجوان محنت کشوں کی قیمت پر سرمایہ داروں کی اپنے منافعوں کو بڑھانے کی کوشش کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یقینا وبا کے دوران برسر روزگار نوجوانوں نے غیر یقینی طور پر نوکریاں کھو جانے کا صدمہ سہا ہے۔
مستقل کام کرنے والوں کیلئے بھی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے صورت حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔
مثال کے طور پر فنانشل ٹائمز کی رپورٹ شنگھائی سے تعلق رکھنے والے محنت کش کا ذکر کرتی ہے جو بیان کرتا ہے کہ کیسے گھروں کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے جب کہ کام کے حالات بدتر ہورہے ہیں۔
اس نے استحصالی ”996“ نظام کا حوالہ بھی دیا جس کا مطلب ہے کہ صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک ہفتے کے 6 روز کام کرنا، جو چین کی بڑی ٹیک کمپنیوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔
بڑا چینی سرمایہ دار، جیک ما، 996 نظام کا بہت بڑا حامی ہے، اسے وہ محنت کشوں کیلئے ایک نعمت بیان کرتا ہے کہ یہ انہیں لچڑ ہونے سے بچاتی ہے۔ یقیناً یہ مالکان کیلئے ایک نعمت ہے۔
چین میں 996 نظام اسی منطق سے اخذ کردہ ہے جس سے یورپ اور برطانیہ میں عارضی کنٹریکٹ اخذ کیے گئے، کہ سرمایہ داری کو بحران کی حالت میں اپنے منافعے برقرار رکھنے کیلئے اجرتوں اور کام کرنے کے حالات کے حوالے سے محنت کشوں میں مقابلہ تیز کیا جائے۔
کام کی جگہوں پر محنت کشوں کے شدید ترین استحصال اور انتہائی مہنگائی کے عالم میں چینی نوجوان وقت سے پہلے ہی موت کے منہ میں جا رہے ہیں جیسے شِن سونگیانگ نامی نوجوان کے ساتھ ہوا، جو خوراک کی قلت کی وجہ سے اسی سال کے آغاز میں جاں بحق ہوا۔ اس کی موت کے بعد پورے چینی سماج میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
جوابی حملہ کرنا ہو گا
اس مضمون میں جن نوجوانوں کا جائزہ لیا گیا انہوں نے سیاسی بوسیدگی اور اپنے ملکوں میں عدم استحکام کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے بحران پر خوف کا بھی ذکر کیا۔ یہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کے ٹوٹنے کا ثبوت ہے جس میں پچھلے بحران کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
لیکن یاسیت کے آگے ہتھیار ڈالنے سے بہت دور نوجوان اس نفرت انگیز نظام کے خلاف حالیہ جدوجہد میں اگلے مورچوں پر رہے ہیں، مثال کے طور پر جیسا کہ ہم لاطینی امریکہ کی تحریکوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
فنانشل ٹائمز نے پیرو کی ایک نوجوان سائیکالوجیسٹ کا ذکر کیا ہے جو اپنی ملکی سیاسی صورت حال، جو اقرباء پروری اور کرپشن کے شکنجوں میں دھنسی ہے، کی وجہ سے خود کو بے چین اور شدید تھکاوٹ کا شکار بیان کرتی ہے۔
سابقہ پانچ صدور پر کرپشن کے الزامات ہیں اور ان میں سے برازیلین پبلک کمپنی آڈیبریخت (odebrecht) سے رشوت لیتے پائے گئے ہیں۔
لڑاکا ٹریڈ یونینسٹ پیڈرو کاسٹیلو کی حالیہ انتخابات میں برتری (اس رپورٹ کے شائع ہونے سے کچھ ہفتے بعد) پیرو کی عوام کے سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کی نمائندگی کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف وسیع پھیلے ہوئے غصے کی علامت ہے۔
خاص طور پر کاسٹیلو نے پیرو کے گلے سڑے آئین کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے جو کہ گزشتہ برس ہونے والے سرکار مخالف مظاہروں میں احتجاجی طلبہ کا بنیادی مطالبہ تھا۔
کولمبیا میں رجعتی ڈوکیو شاہی کے خلاف جاری جدوجہد میں محنت کشوں اور مزارعوں کے شانہ بشانہ کولمبیا کے نوجوان بھی نمایاں ہیں۔ حکومت کو فتح مند عام ہڑتال سے بہت بڑا جھٹکا لگا اور کورونا وبا کا تمام تر بوجھ عام لوگوں کے کندھوں پر ڈالنے کا ٹیکس بل سرکار کو واپس لینا پڑا۔
سرمایہ داری کو اُکھاڑ پھینکو
فنانشل ٹائمز کہانی کا ایک رُخ دکھاتا ہے، یعنی بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر نوجوانوں کو درپیش مشکلات، لیکن یہی مشکلات نوجوانوں کو بڑھتے ہوئے ریڈیکل نتائج اخذ کرنے کی جانب بھی دھکیل رہی ہیں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ گزشتہ برس کی سرکش اور بین الاقوامی بلیک لائیوز میٹر تحریک اور اسی طرح کی دیگر انقلابی تحریکوں میں،جو 2019ء میں پھٹ پڑیں اور صرف وبا کی وجہ سے وقتی ٹھہراؤ کا شکار ہوئیں، میں نوجوان پہلی صفوں میں تھے۔
پوری دنیا میں سرمایہ داری اور اس کی ہر چیز اور صورت حال سے منافع کو بالاتر قرار دینے کی منطق نے نئی نسل کو اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔
محنت کش طبقے کو کفایت شعاری اور اخراجات پر کٹوتیوں کے ذریعے 2008ء کے بحران کا معاوضہ ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بجائے اس کے کہ سرمایہ دار مختصر عرصے میں اس کھائی سے نکلنے پر خرچ کرنے کی کوشش کرتے، مستقبل میں مزید کٹوتیوں کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ نوجوان چار و ناچار ان حملوں کی چوٹ برداشت کریں گے۔
اس بحران کا مستقل حل نکالنے کیلئے خود سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور منافعوں پر انسانوں کو ترجیح دیتے ہوئے تمام ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دیتے ہوئے منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہوگی۔
سرمایہ دارانہ بحران کی بھٹی میں جلتی موجودہ نسل اب اس بات سے آشنا ہو رہی ہے کہ پورے نظام کا تختہ الٹے بغیر کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں، اور وہ جلد محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور بہتر مستقبل تعمیر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔