تحریر: | بین پیک، ترجمہ: ولید خان |
سرمایہ داری نے 2008ء کے بحران سے دیو ہیکل قومی پیسہ بینکوں میں جھونک کر جان چھڑائی۔ اس وقت سے اب تک نظام انتہائی نگہداشت میں وقت کاٹ رہا ہے۔
اس حربے کے باوجود حکمران طبقہ اپنے بیمار نظام کی صحت یابی سے متعلق سخت مایوس ہے۔ وہ پر امید ہونے کے بجائے بے بسی سے ہاتھ ملتے نئے بحران کا انتظار کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ اب ’’کیا‘‘ کا نہیں بلکہ ’’کب‘‘ کا سوال بن کر رہ گیا ہے۔
ایک جاندار جب جسمانی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو وہ اپنے جمع کئے فاضل چربی کے ذخائر استعمال کر کے زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ کٹوتیوں کا کردار سرمایہ دارانہ معیشت کیلئے کچھ ایسا ہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے،خاص کر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک نے اپنے ذخائر کو زندہ رہنے کیلئے بڑی بے رحمی اور تندہی سے استعمال کیا ہے۔ محنت کش طبقے کی ایک طویل تاریخی عرصے میں جیتی گئی مراعات، جن میں قدرے بہتر اجرت، فلاحی ریاست، پنشن وغیرہ شامل تھیں؛ آج نظام کے بحران کی قیمت ادا کرنے کیلئے یا تو واپس چھینی جا رہی ہیں یا چھینی جا چکی ہیں۔
خاص طور پر ایک انتہائی امیر ذخیرہ چینی سرمایہ داری کا تھا جو اب شدید کمی کا شکار ہے۔بحران کی تباہی سے بچنے کیلئے چینی حکمرانوں نے اپنی معیشت میں تقریباً 500 ارب ڈالر جھونکے جو کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی کنیشئن مداخلت تھی۔اس سے نہ صرف بینکاری کو تحفظ ملا بلکہ حقیقی معیشت کو بھی بے پناہ سہارا ملا۔ سابق امریکی سیکرٹری خزانہ لیری سمرز کے بقول امریکہ نے بیسویں صدی میں جتنا سیمنٹ استعمال کیا اس سے زیادہ چین نے 2010-2013ء کے عرصے میں استعمال کیا! پچھلے سال 2015ء کی گرمیوں تک چین ہر دو ہفتے بعد روم (اطالوی دارلحکومت) کے برابر ایک نیا شہر کھڑا کر رہا تھا! اس مداخلت سے واضح طور پر چینی اور عالمی معیشت کو مہمیز فراہم ہوئی۔
لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ چینی ذخائر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور یہ دیو ہیکل قدم اب اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کا قرضہ00 70 ارب ڈالر سے بڑھ کر00 280ارب ڈالر ہو چکا ہے جو کہ GDP کا 282 فیصد بنتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات مستقل گر رہی ہیں۔ دیو ہیکل معاشی مداخلت نے دیو ہیکل زائد پیداوار کے بحران کو جنم دیا ہے جس کے اثرات سے عالمی سٹیل صنعت میں بحران پیدا ہو گیاہے۔ برطانیہ میں ریڈ کار اور پورٹ ٹالبوٹ میں سٹیل کی صنعت بند ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادیاں برباد ہو رہی ہیں۔ دنیا کے دوسرے کونے چین میں بذاتِ خود یہی صورتحال ہے۔
سیاسی ذخائر
سرمایہ داری کے ان’ ’معاشی ذخائر‘‘ کے ختم ہونے کی وجہ سے’ ’سیاسی ذخائر‘‘ بھی بڑی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ پرانی سیاسی گروہ بندیاں اور اکٹھ برباد ہو رہے ہیں جن میں روایتی محنت کشوں کی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ جریدے The Economist کی حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپ میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹیاں اپنی حمایت کے 70 سالہ عرصے کی کم ترین سطح پر کھڑی ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال PASOK(یونان کے محنت کشوں کی روایتی پارٹی) کی ہے جس کی بحران سے پہلے ملک بھر میں پینتالیس فیصد حمایت تھی ۔ ٹرائیکا ( یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک اور آئی ایم ایف کی مثلث) کے سامنے گٹھنے ٹیکنے اور یونان کی معیشت کے برباد ہونے کے بعد اب اس کی حمایت صرف چار فیصد رہ گئی ہے۔ حقیقی معنوں میں PASOK اس وقت پارلیمان میں اپنے ناخنوں سے لٹکی پڑی ہے۔
2015ء میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں نے ڈنمارک میں منہ کی کھائی اور ساتھ ہی پولینڈ، ہسپانیہ اور فن لینڈ کے انتخابات میں تاریخ کی بد ترین کارکردگی دکھائی جبکہ برطانیہ میں بھی حالات کوئی بہت اچھے نہیں رہے۔
فرانس کا نام نہاد سوشلسٹ فرانسوا ہولاندے پچھلے ستر سالوں میں عوام کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت صدر ہے۔ لیبر قوانین پر حملہ کر کے اس کی نام نہاد سوشلسٹ حکومت نے عوامی تحریک کو جنم دے دیا ہے جس کااظہار 31 مارچ 2016ء کو بارہ لاکھ فرانسیسی محنت کشوں نے عام ہڑتال کی صورت میں کیا۔ اس ہڑتال میں فرانسیسی نوجوانوں کی نمایاں شرکت تھی، جو اب تحریک کے شعور یافتہ ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان عام ہڑتال کے بعد واپس گھر نہیں چلے گئے بلکہ چوکوں پر قبضہ کئے بیٹھے رہے جس سے ’نوئٹ دیبو‘(رات بھر کھڑے رہو) تحریک نے جنم لیا جس سے یونان کی سین تاگما اور ہسپانیہ کی ان ڈِگ ناڈوس تحریک کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ان تحریکوں کے نتیجہ میں ہی ان سیاسی پارٹیوں کا ابھار ہوا تھا جنہوں نے بعد میں سوشل ڈیموکریسی کی جگہ لے لی۔ فرانس کے اندر اسی عمل کے دہرائے جانے کو خارج الامکان قرارنہیں دیا جا سکتا۔
The Economist بین کرتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں سے منہ موڑ رہے ہیں۔ اس کی وضاحت پیچیدہ نہیں۔ جہاں بھی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں نے کٹوتیوں کے علاوہ اور کوئی حل پیش نہیں کیا اور سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کٹوتیوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں، وہاں محنت کشوں کی نظر میں وہ اپنا جواز کھو چکے ہیں۔
برطانیہ میں بھی یہ ضروری نہیں کہ جیرمی کوربن کے گرد دو لاکھ لوگوں کی بننے والی تحریک کی لیبر پارٹی کے ساتھ کوئی امیدیں وابستہ ہیں۔ یونان میں ’’نہیں‘‘ تحریک سے غداری اور سابقہ حکومت کی کٹوتیوں کی پالیسی جاری رکھنے کے بعد حکمران جماعت سائریزا کی حمایت سولہ فیصد تک گر گئی ہے۔
سوشل ڈیموکریسی کا یہ بحران سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نامیاتی بحران کا حصہ ہے جو بڑی تیزی سے اپنا سیاسی سرمایہ کھو رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، جیسا کہ فنانشل ٹائمز میں 2 فروری کو اپنے آرٹیکل ’’حکمران طبقہ کو عوام کے قریب لایا جائے‘‘ میں مارٹن وولف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’ہم پہلے ہی اس خطرے کا سامنا کر رہے ہیں کہ معاشی وتکنیکی اشرافیہ اور عوام کے درمیان ایک ایسی وسیع خلیج پیدا ہو چکی ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی انتہا پر، اعتماد مکمل طور پر برباد ہو سکتا ہے۔اس کے بعد ووٹر نظام کی صفائی کیلئے باہر سے رجوع کر سکتا ہے۔ ہم اعتماد کے اس رجوع کی واضح مثالیں نہ صرف امریکہ بلکہ بہت سارے یورپی ممالک میں بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔
اس کا اشارہ امریکہ میں ٹرمپ-سینڈرز کے مظاہر کی طرف ہے جس سے پہلے ہم یورپ میں سائریزا، پوڈیموس، SNP اور کوربن کا بائیں بازو سیاست میں اور ساتھ ہی فرانسیسی NF اور جرمنی میںAFD کے دائیں بازو کی سیاست میں ابھار کو دیکھ چکے ہیں۔ طبقاتی صف بندی سرمایہ دار انہ سیاسی ڈھونگ کو تار تار کر رہی ہے۔
دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جب حکمران طبقہ ’’باہر‘‘ کے لوگوں کی اپنے نظام میں مداخلت کے حوالے سے تشویش کا شکار ہو تا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دراصل محنت کش طبقے سے خوفزدہ ہیں کہ وہ سماج کے انتظامِ کار میں دلچسپی لینی اور اس میں مداخلت کرنی شروع کر دیں گے۔
جب نیا عالمی بحران آئے گا تو اس بحران اور 2008ء کے بحران کا درمیانی عرصہ سرمایہ داری کی تاریخ میں سیاسی عبوری مرحلہ ثابت ہو گا۔ اس کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ یہ وہ عرصہ تھا جب یہ نظام اپنی تعمیر کے بجائے اپنے بہت سارے سیاسی، سماجی اور معاشی ذخائر کو خاکستر کر گیا جن کی مدد سے 2008ء کے بحران میں کچھ’ ’سہارا‘‘ ملا تھا۔
اس سے مستقبل قریب میں طبقاتی جدوجہد کو زیادہ تقویت اور مہمیز ملے گی۔حکمران طبقہ اور زیادہ خلفشار کا شکار ہو کر اور زیادہ بے لگام ہو گا۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد ایک ایسے عرصے کے بعد بڑھے گی جب اس بیمار اور کمزور سرمایہ داری نے کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا۔وہ سراب جو پہلے موجود تھے اب بھک سے اڑ چکے ہیں اور پرانے نظام کے بہت سارے محافظ اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔اس صورتحال کیلئے ہمیں ہر ممکن تیاری کرنی ہے اور اس میں مداخلت کرتے ہوئے مارکسی قوتوں کو تعمیر کرنا ہے۔