تحریر:مائیک پیلیسک:-
(ترجمہ :اسدپتافی)
ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ، اٹھتے بیٹھتے ہم پر یہ ہو شربا راز آشکارکیاجاتاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ٹیکنالوجی، ایجادات کو نہ صرف آگے بڑھاتا ہے بلکہ سائنسی ترقی کو بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی دینے میں محواور مگن چلاآرہاہے۔ہمیں بارباربتایااور سمجھایاجاتاہے کہ مقابلے بازی کی دلکش صورتحال اور منافعوں کی طلب، دونوں باہم مل کے سائنس کو نئی دریافتوں کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔اوریہ کیفیت بڑی بڑی کمپنیوں کو لامحالہ ایک جذبہ محرکہ عطا کرتی ہے کہ وہ نت نئی ادویات اور طریقہ ہائے علاج دریافت کریں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آزادمنڈی کی معیشت انسانی اورسماجی ترقی کیلئے سب سے بڑی تحریک ہے۔لیکن اس سب پروپیگنڈے کے بالکل برعکس صورتحال حقیقی معنوں میں مختلف بلکہ الٹ ہی ہے۔جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت ہی وہ سفاک رکاوٹیں ہیں جن کا سامناشایدہی سائنس کو کبھی تاریخ میں کرنا پڑاہو۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی ترقی کے ہر شعبے اورہرحصے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آچکاہے۔وہ سائنس‘ ٹیکنالوجی اورسماجی ترقی کو آگے لے جاناتودورکی بات ہے، اسے پیچھے، بہت پیچھے کی طرف لے جانے پر تل گیا ہے۔ اور وہ بھی کسی ترددکے بغیر۔
نجی ملکیت کس طرح نئی دریافتوں کے رستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے،اس کی تازہ ترین مثال Ida fossilکے معاملے میں سامنے آئی ہے۔Ida آج سے 47 ملین سال پہلے کے ایک ڈائنوسارکا ڈھانچا ہے جسے Darwinius masillaeکا نام دیاگیا ہے۔اور جو ابھی حال میں ہی میں دریافت ہوا ہے۔ہم میں سے ہر کوئی خوش ہوتا ہے کہ جب بھی ارتقا کے عمل کے حوالے سے کوئی نئی عبوری کڑی ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس سے ہمیں بڑے اور چھوٹے جانداروں کے مابین نسبت و مناسبت کے اسرارورموز جاننے کا موقع ہاتھ آتاہے۔’’ڈاروینئس ماسیلائی ‘‘کے بار ے میں سب سے حیران کن اور خوش کن بات یہ ہے کہ یہ انتہائی عمدہ حالت میں موجود ملا ہے۔اس کی آنکھیں باہر کو پھیلی ہوئی ہیں جبکہ گھٹنے چھوٹے ہیں اور اس کے انگوٹھے بھی مڑنے والے ہیں۔یہ ڈھانچہ انتہائی محفوظ حالت میں ملاہے اور اس کا 95 فیصد حصہ ثابت وسلامت ہے۔اس کے فر کی بیرونی پرت قابل دید ہے،یہاں تک کہ سائنسدان اس کے معدے کاتجزیہ کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔جس سے پتہ چلا کہ اس نے آخری خوراک کیا لی تھی۔پتہ چلا کہ اس نے پھل،بیج اور پتے کھائے ہوئے تھے۔تاریخ کے ساتھ شغف رکھنے والے اہلِ دل اور اہلِ نظر اس نئی دریافت کو دیکھنے کیلئے نیویارک کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جوق در جوق کھنچے چلے آرہے ہیں کہ اس تاریخی ڈھانچے اور تاریخی دریافت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس Idaکا سرمایہ دارانہ نظام سے کیا تعلق واسطہ ہے؟یہ تاریخی دریافت1983ء میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کے نجی’’مالک‘‘ نے اسے اپنے قبضے اور تصرف میں ہی محدودوپوشیدہ رکھاہواتھا۔اسے اس کی تاریخی اہمیت کا ہرگز ادراک اور اندازہ نہیں تھا۔اور یہ بات اس لئے بھی حیران کن نہیں ہے کہ وہ کوئی ماہرِ آثار قدیمہ نہیں تھا۔چنانچہ اس لاعلمی،بے خبری اور غفلت کے نتیجے میں یہ قیمتی اثاثہ پچیس سالوں تک مٹی دھول میں اٹارہا۔
دنیا میں اس قسم کے ڈھانچوں کی، جنہیں حجرات (fossils) کہاجاتاہے،ایک بہت بڑی منڈی موجودہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے ہر انسان کا یہ مشترکہ قیمتی اور تاریخی اثاثہ انسانوں کی دسترس میں نہیں رہاہے۔باقی اجناس کی طرح یہ ڈھانچے بھی بازار کی جنس بنادیئے گئے ہیں۔ نجی طورپر دریافت ہونے والے ڈھانچے عجائب گھروں کو ’’کرائے‘‘پر دیئے ہوئے ہیں۔تاکہ وہاں ان کی موجودگی ان کا مطالعہ کرنے والوں یا ان کانمائشی نظارہ کرنے والوں کو بھی مستفیدہونے کا موقع مل سکے۔اس قسم کے نجی ملکیت کے حامل ڈھانچے دنیا بھر کے عجائب گھروں کی ’’سیروتفریخ ‘‘کر کے بھاری کمائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اور یہ کاروبار بہت باقاعدگی کے ساتھ جاری وساری ہے۔اوریہ’’ آتش زیرپا‘‘ڈھانچے اپنے مالکوں کیلئے بھاری منافعوں کی خیروبرکت کے ساتھ اپنی آؤنیاں جاؤنیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یوں ان پر تحقیق اور تجزیہ جو ہونا چاہئے تھا اور جو ہو سکتا تھااور جس سے نہ صرف سائنس بلکہ نسلِ انسانی مستفید ہوسکتی تھی،وہ نہیں ہو سکی اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے ہوسکتی ہے۔
اور یوں ان گنت انمول نوادرات ایسی ہیں جو کہ نجی کمپنیوں اور نجی مالکان کے ذخیرہ خانوں،گوداموں میں محض اس لئے محفوظ ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایاجاسکے۔ یہ ہوسِ زر ان زندگی سے وابستہ عناصر کو ایک مردہ جنس بناکے رکھے ہوئے ہے۔کوئی نہیں جانتا،نہ جان سکتا ہے کہ کتنے ایسے تاریخی نوادرات انسانی علم اور شعور کی دسترس اور ادراک سے محروم ہوکے،کروڑپتیوں کی نجی ملکیت کے مردہ خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
میڈیکل ریسرچ
سرمائے کی پیداکردہ لالچ اور ہوس کا ایک اہم شعبہ دواسازی ہے جو کسی طور بھی ایسے سبھی مریضوں کو دوائی دینے کی نیت اور ارادے سے محروم ہے‘ جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ایڈزکی وباء پر قابو پانے،یااس کا مقابلہ کرنے کیلئے درکار ادویات کی کمی،خاص طورپر افریقہ میں،اس بات کی واضح غمازی کرتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس سفاک بیماری کے شکار ضرورتمندوں کی ضرورت کی تکمیل کرنے کے ارادے اور عمل سے یکسر قاصر ہے۔ لیکن دیکھنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے دوائیوں کی تیاری کے سلسلے میں منافعوں کی ہوس کیا کردار ادا کرتی ہے۔بڑی عالمی دواساز اجارہ داریاں اپنی صنعت میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے بارے میں ایک جیسے برے ریکارڈکی حامل ہیں۔ایڈز کے مریض اپنے علاج پر ہر سال ہزاروں لاکھوں ڈالرخرچ کرسکتے ہیں۔جن کو استعمال کرکے وہ اپنی زندگی کا سلسلہ برقراررکھ سکیں۔2003ء میں جب Fuzeonنامی دوا متعارف کرائی گئی تو اس کی قیمت پر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔یہ دوائی ایڈز کے مریض کو سال بھر کے علاج کیلئے 20,000ڈالر میں پڑتی تھی۔اس دواکو بنانے والی عالمی اجارہ داریRocheکے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو فرانز ہومر نے دوائی کی زیادہ قیمت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا’’کہ ہم جو بھی نئی دواتیارکرتے ہیں تو اس خدمت کامناسب معاوضہ بھی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔یہ نئی دوا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ میں تویہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کیسا سماج ہے جو نئی ایجادات کا خوشدلی سے خیرمقدم ہی نہیں کرتا‘‘۔
مگر جناب فرانزکا موقف نیم دلی کا حامل ہی تھا۔ دواساز کمپنیوں کا دوائی بنانے کا جذبہ کسی طوراور کبھی بھی علاج نہیں رہاہے بلکہ نقدکمائی چلا آرہا ہے۔ایک دواسازکمپنی کیلئے ایڈز کا شکار کوئی بھی انسان کسی طور ایک ’’مریض ‘‘نہیں ہوتا بلکہ ایک ’’گاہک‘‘ ہوتاہے۔ادویات سازی کی عالمی صنعت کا یہ ہمیشہ سے مالیاتی مفادرہاہے کہ ان کا گاہک بار بار ان کی ادویات سے مستفید ہوتارہے۔
چنانچہ منافعوں اور کمائی کی اس نفسیاتی کیفیت کی وجہ سے ایسی ریسرچ پر توجہ ہے نہ ارادہ نہ کوشش کہ جس سے بیماری یا مریض کا شافی و کافی علاج ہو جائے۔بیشتر دواسازتحقیقی ادارے ایسی نئی anti-retroviralدوائیاں تخلیق و ایجاد کرنے پر زور صرف کررہے ہیں کہ جن کے مریض انہیں ساری عمر استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ابھی کچھ عرصے سے ایڈزکے علاج کیلئے ایک ویکسین تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے جوکہ ایک موثرمائیکرو بائی سائیڈ microbicide ہو۔تاہم اس مقصد کیلئے زیادہ تر فنڈز حکومت یا پھر غیر منافع بخش گروپوں کی طرف سے مہیا کیے جا ر ہے ہیں۔دواساز صنعت اس مہلک و سفاک بیماری سے نمٹنے کیلئے کوئی فنڈنگ نہیں کررہی ہے۔وہ ایسا کریں بھی کیوں؟کرہ ارض پر کوئی بھی کمپنی کسی ایسے کام پر کبھی سرمایہ نہیں لگائے گی جس سے ان کے کاروبار کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ایسے تو وہ کاروبار کرنے سے رہ جائیں گے۔
اسی قسم کے مسائل ہمیں ادویات کی تحقیق کے دوسرے شعبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔کینسر جیسے موذی اور مہلک مرض کے علاج کیلئے 2007ء کے شروع میں ایک قابلِ تحسین پیش رفت سامنے آئی تھی۔یونیورسٹی آف البرٹا کے محققین نے دریافت کیا کہ ایک واحد اور اکلوتا مالیکیول DCAکینسر کے خلیوں میں mitochondria(جوخلیے کا پاورہاؤس ہوتا ہے)کو دوبارہ سرگرم کر سکتا ہے۔اوریوں وہ اس بیماری کا باعث بننے والے خلیوں کو ویسے ہی مرنے میں مدد دیتا ہے جیسے عام خلیے مرتے ہیں۔لیبارٹری کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ DCAکینسر کی بیشتر قسموں کے خلاف بہترین طورپر موثر وکارگر ہے۔جس سے اس بات کے واضح اور یقینی امکانات سامنے آگئے کہ کینسر کا حقیقی علاج دریافت ہونا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔دہائیوں سے DCAکو mitochondria کے نظام میں خرابی پیداہوجانے کے شکار مریضوں کے علاج کیلئے بروئے کار لایا جارہاہے۔چنانچہ انسانی جسم پر اس کے مثبت وموثر اثرات پہلے بھی واضح اور عیاں تھے۔جس کی مددسے اس شعبے میں ترقی کے عمل کو سمجھنے اور طے کرنے میں آسانی میسر آگئی۔
مگرDCAکو کلینیکل سطح پر سمجھنے،پرکھنے اور بروئے کار لانے کیلئے جو رکاوٹ سامنے آئی وہ ’’فنڈز‘‘کی فراہمی تھی۔اس عدم دلچسپی یا عدم فراہمی کی وجہ سیدھی سادی یہ ہے کہ DCA کے جملہ حقوق محفوظ نہیں(patent) اور ایساہوبھی نہیں سکتا۔ اس مالیاتی خامی کی وجہ سے عالمی دواساز کمپنیاں اس دواکو بنانے کیلئے سرمایہ فراہم کرنے کا کوئی خطرہ اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ دواکسی طور بھی ان کیلئے منافعوں کا وسیلہ نہیں بن سکتی۔چنانچہ انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ دوا بنے یا نہ بنے۔کینسر کا علاج اور خاتمہ ہویا نہ ہو۔اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں سے معذرت کر لی گئی کہ اگر وہ اپنے کام کو جاری رکھنے میں اتنے ہی شوقین ہیں تو اس کیلئے درکار رقم کا بھی خودہی بندوبست کریں۔چنانچہ اس بارے میں جو کچھ ہورہاہے وہ انتہائی معمولی نوعیت کا ہے مگر اس کے باوجود اس کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ انتہائی حوصلہ افزا اور قابلِ تحسین ہیں۔مگر پچھلے دوسالوں سے،جب سے یہ نئی معرکۃ الآراتحقیق سامنے آئی ہے،اس پر مزید مطالعہ اور تحقیق کا سلسلہ جاری وساری ہے۔اس پر کام کرنے والی شخصیات حکومت اور غیر منافع بخش اداروں سے فنڈز کیلئے باربار بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور وہ بھیک مانگ بھی رہے ہیں۔مگر تاحال انسان دوستی کے نام پر قائم کسی بھی غیر منافع بخش ادارے نے اس کیلئے ایک دھیلا بھی فراہم نہیں کیا ہے۔
حقوق محفوظ نہ ہوسکنے والے (non-patentable) کے حامل کسی بھی دریافت ہونے والے موثر علاج(دوائی) کیلئے سرمائے کی عدم فراہمی کا یہ المیہ صرف DCAتک ہی محدود نہیں ہے۔اس کے مقابلے کیلئے فطری متبادل علاج (Alternative Medicine)کے نام پر ایک بہت بڑی و بھاری صنعت قائم ہو چکی ہے۔راقم الحروف سمیت کئی لوگوں کواس متبادل علاج کی وکالت کرنے والوں کے نقطہ نظرپر کئی تحفظات ہیں۔رچرڈز ڈاکنز نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیاہے ’’اگر علاج کی کوئی بھی تکنیک دوبار استعمال سے مریض کو تشفی کرادیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ شافی ہے،چنانچہ یہ متبادل قرارنہیں پائے گی بلکہ یہ’’ اصل دوا‘‘قرارپائے گی‘‘۔لیکن اس قسم کے عمومی بیان اور وضاحت سے سرمایہ داری نظام کی طرف سے سائنس کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کو جائز قراردیاجاسکتاہے۔
non-patentableمتبادل دوائیوں کی تصدیق کیلئے کیے جانے والے تجربات کیلئے درکار فنڈز کی فراہمی سے انکار کے دوتباہ کن اثرات سامنے آرہے ہیں۔ایک تو ہم سب اجتماعی طورپر اندھیرے میں ہیں کہ کون کون سے موثر علاج کے ممکنات موجود ہیں۔دوسرا یہ کہ گلی گلی پھرتے ہوئے سانپوں کا تیل بیچنے والے یہ جدید سیلز مین متبادل طریق علاج کو مہان اور شافی قراردیتے ہوئے بیچتے چلے جارہے ہیں۔
ٹیکنالوجی اور صنعت
پیداواری کی صنعت کے بارے میںیہ تصور پایا جاتاہے کہ سرمایہ دار تنوع اور جدت پسند جہاں ہوگا،یہ بھی ہوگی۔ہمیں بتایا جاتارہاہے کہ کمپنیوں کے مابین مقابلہ اور مسابقت بہتر پیداواراور پیداواریت،قیمتوں میں کمی،نئی ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کا باعث بنا کرتی ہے۔ لیکن اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے اور معاملات کاا وپر سے نیچے تک تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کیفیت تنوع اور ایجاد کے فروغ کی بجائے اس کے رستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سفر تو جاری ہے مگر آگے کی جانب نہیں پیچھے کی طرف۔patent(جملہ حقوق)اور تجارتی اسرارورموز نئی ایجادات کے امکانات کو ممکن بنانے کی بجائے ان کو ناممکن بناتے چلے آرہے ہیں۔تیل کی صنعت میں patentکو خریدنے کی ایک لمبی تاریخ کی حامل ہے۔اور ایسا محض اس لئے کیا جاتاہے تاکہ اس پیداوار کو منڈی میں آنے سے(عام ہونے سے) روک دیا جائے۔
بلاشبہ مسابقت اور مقابلہ نت نئی ایجادات کے سامنے آنے کی وجہ بن سکتاہے۔مگر جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں،کہ یہ ان نئی ایجادات کو روکنے کا بھی باعث بن سکتی ہے اور بن رہی ہے۔ایسی کئی مثالیں آج ہم سب کے سامنے موجود ہیں۔ کمپنیاں ایسی ہر ریسرچ اور ایجاد کیلئے سرمایہ فراہم نہیں کریں گی جن سے ان کا پہلے سے جاری کاروبار کسی گھاٹے کی زد میں آئے۔ہاں البتہ اگر کہیں ایسی ریسرچ یا ایجاد سامنے آبھی رہی ہوتو یہ اس ریسرچ کوروکنے کیلئے بے تحاشا اور منہ مانگی رقم فراہم کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتیں۔
2006ء میں سامنے آنے والی دستاویزی فلم ’’الیکٹرک کار کو کس نے قتل کیا‘‘(Who Killed the Electric Car) میں تفصیل کے ساتھ ان کوششوں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو آٹو مینوفیکچررز،بڑی عالمی تیل کی کمپنیوں اور امریکی حکومت کی طرف سے کی گئیں کہ اس نئی ایجاد یعنی نئی الیکٹرک کار کو سڑکوں پر نہ آنے دیا جائے۔جسے ایک متبادل سواری کے ذریعے کے طورپر سامنے لایا جا رہاتھا۔فلم بنانے والے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نئی کار کو محض ا س لئے ’’عام‘‘ہونے یا منظرعام پر آنے سے روک دیاگیا کہ یہ نئی کار اپنی تکنیک میں انتہائی سادہ تھی جس کی مرمت اور دیکھ بھال بھی انتہائی سادہ تھی۔اس کار کے عام ہونے کے نتیجے میں پرزہ جات کی پہلے سے موجود صنعت کا خاتمہ ہوجاتا۔یہی نہیں بلکہ تیل کی کمپنیوں کے کاروبار کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا۔ کیونکہ دنیا اس نئی الیکٹرک کار کو ہاتھوں ہاتھ لے لیتی اور یوں تیل کی کمائی ختم نہیں تو بہت کم ہوکے رہ جاتی۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہائیڈروجن فیول کے خلیوں(Cells) کو،جن کو ایک متبادل ایندھن کے ذریعے کے طورپر استعمال میں لائے جانے کے بہت ہی کم امکانات ہیں،متبادل حقیقی و معیاری ایندھن کے ذرائع کے مقابلے میں سامنے لایا جارہاہے۔فلم بنانے والے نے امریکی حکومت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کوروکنے کیلئے ہر تحقیق اور کوشش کو روکتی چلی آرہی ہے۔اس کے مقابلے میں ہائیڈروجن ایندھن کے خلیوں کے بارے میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
مگر اس بارے میں نمایاں اور قابل مذمت کاوشیں تیل پیداکرنے والی عالمی اجارہ داریاں اور آٹومینوفیکچررز کر رہی ہیں۔فلم میں بتایا گیا ہے کہ خود یہی گاڑی ساز کمپنیاں الیکٹرک کار کے حوالے سے اپنی ہی لگائی گئی تحقیقی رقم اور محنت کو سبوتاژ کرنے سے بھی باز نہیں آئیں۔الیکٹرک کاروں کیلئے NiMH بیٹریاں تیار کی گئی تھیں جس کے جملہ حقوق تیل کی اجارہ داریوں نے خرید لئے تاکہ انہیں الیکٹرک کاروں کیلئے استعمال ہونے سے یکسر روک دیا جائے۔ایسی ہی بیٹریاں ہیں جو لیپ ٹاپ کمپیوٹرز میں استعمال کی جارہی ہیں،ان کی جدید اور ترقی یافتہ شکل الیکٹرک گاڑیوں میں کام آتی ہے اور آسکتی ہے۔ان بیٹریوں کے کسی بھی استعمال کے خلاف تیل کی عالمی اجارہ داری شیوران Chevron کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اسے ویٹو کرکے ایسا ہونے ہی نہ دے۔حتیٰ کہ ان بیٹریوں کو کسی اور تحقیق کسی اور کام کیلئے بھی استعمال نہیں ہونے دیا جارہا۔اب کچھ نئی ہائیبرڈhybrid گاڑیاں ان بیٹریوں کو استعمال کرتو رہی ہیں مگر زیادہ مسافت کیلئے انہیں تیل پر تکیہ کرناپڑرہاہے۔
جملہ حقوق محفوظ یعنیpatentکا قانون بھی اگرچہ نئی ایجادات کو روکنے کا ایک موثر ذریعہ بناہواہے،اس کے علاوہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے پاس ایسے کئی راستے موجود ہیں جس سے نئی تحقیق وترقی کو روک دیا جائے۔مقابلے کی بنیادوں پر استوار نظام کی فطرت کے ہوتے ہوئے اجتماعی تحقیق ویسے بھی ناممکن العمل ہوتی ہے۔ادویات سازی کی صنعت ہو یا پھرکارسازی کی یاکوئی اور۔۔۔سرمایہ دارانہ نظام بہترین انجینئروں اور سائنسدانوں کوباہم مقابل ومتصادم کمپنیوں میں تقسیم کر کے کھپادیتاہے۔ تحقیق اور ترقی کے کام سے وابستہ و منسلک ہونے والے ہر ایک ماہرسے زبردستی ایک خفیہ دستاویزپر دستخط کرالئے جاتے ہیں جو کہ ملازمت کے معاہدے کا لازمی حصہ ہواکرتاہے۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف ایک ساتھ اکٹھے ہونے اور یکجا کام کرنے سے منع کیا جاتاہے بلکہ ان کے ایک دوسرے کوایک دوسرے کی تحریریں دکھانے پر بھی پابندی عائدہوتی ہے کہ کہیں آپس میں یہ خیالات کا بھی تبادلہ نہ کرلیں۔
بغور نظرثانی کرنے کوکسی بھی سائنسی طریق کار کا ایک انتہائی اہم حصہ سمجھاجاتاہے۔بسااوقات بڑی تحقیقات،محققین کے کسی انفرادی گروپ کی طرف سے سامنے نہیں آتیں بلکہ وہ ایسے کئی گروپوں کی طرف سے سامنے لائی جاتی ہیں۔تحقیق کا ایک معمہ ایک گروپ سامنے لاتا ہے تو ایک دوسراگروپ اس کا کوئی اور حصہ سامنے لاتاہے۔اس کے بعد بھی سائنسدانوں کی ایک اور ٹیم اس سب کو باہم شیروشکرکرنے کی کوشش کرتی ہے۔مفاداورعنادپر مبنی کوئی نظام بھلا کس طرح سے اجتماعی کاوشوں کی بڑھوتری اور حوصلہ افزائی کا ارتکاب کرسکتاہے؟ایسا تصور بھی کرنا محال ہے۔
دنیابھر کی حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدہ سمجھتی اور قراردیتی چلی آرہی ہیں۔جب بھی کہیں بھی انہیں کوئی سنجیدہ بحران درپیش ہوجاتاہے تو یہ حکومتیں آزاد منڈی کے نظریات اور ان کے علمبرداروں کو مکھن میں بال کی طرح سے نکال کے باہر پھینک دیا کرتی ہیں اور واپس پبلک سیکٹر کی طرف رجوع کرنے لگتی ہیں۔کئی بار دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے یہ دلائل دیتے جاتے چلے آرہے ہیں کہ اس کو جیتنے والوں نے یہ جنگ نیشنلائزیشن اور منصوبہ بندی کی وجہ سے جیتی تھی۔برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کو زبردستی اٹھاکر کچھ وقت تک کیلئے گودام میں رکھ دیاگیاتھاتاکہ جنگ کیلئے کوششوں کو موثر طورپر منظم کیا جاسکتا۔امریکہ میں اس قسم کی بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن تونہیں ہوئی لیکن جب بات تحقیق اور ترقی کی سامنے آئی تو پرائیویٹ سیکٹر کو کسی طوربھی قابل اعتماد نہیں سمجھا گیا۔اس بات سے خوفزدہ ہو کرکہ نازی ایٹم بم بنانے جارہے ہیں،امریکی حکومت نے عوامی سطح پر واویلا شرو ع کردیا کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیارکرنے کیلئے سبقت لینے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔منہاٹن پروجیکٹ کی کامیابی اسی سلسلے کا ہی نتیجہ تھا جو کہ پرائیویٹ صنعتی شعبے کے بس سے باہر تھا۔ایک موقع پر تو اس منصوبے پر ایک لاکھ تیس ہزار افراد کام کررہے تھے۔دنیابھر کے بہترین اوراعلیٰ ترین افراد ایک چھت تلے ایک مقصد کیلئے جمع کیے جاچکے تھے۔چند ہی سالوں کے دوران انہوں نے ایٹمی دھماکے کے بارے میں بہت سے اہم رازوں کو جان اور سمجھ لیا‘ اتناکچھ تو کبھی 1919ء کے وقت سے پہلے ایٹمی فشار کے بعد سے کبھی بھی نہیں جاناجاسکاتھا۔ اس بات سے ہٹ کر کہ ہم یا کوئی بھی ایٹم بم کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں،یہ حقیقت اپنی جگہ موجودہے کہ یہ بیسویں صدی کی عظیم ترین دریافتوں میں سے ایک تھی۔
سائنس،ٹیکنالوجی اور معاشی منصوبہ بندی
سرمایہ دارانہ نظام کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے رستے میں رکاوٹ ہونے کا سب سے اہم اور حتمی ثبوت سرمایہ دارانہ نظام سے نہیں بلکہ اس کے مخالف اور متبادل سے ملتاہے۔ ان دنوں کہ جب سوویت یونین،سٹالن کے زیراثرمثالی اور مطلوبہ سوشلسٹ سماج سے کہیں دورتھا (یہ ایک الگ اور مختلف ومنفرد بحث ہے جسے ہم کسی اور جگہ پہلے ہی کر چکے ہیں،جسے دیکھاجاسکتاہے‘روس انقلاب سے ردِ انقلاب تک؛مصنف ٹیڈگرانٹ/یاپھر غداری کی زد میں آیاہوا انقلاب؛مصنف لیون ٹراٹسکی۔وغیرہ)۔تب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک منصوبہ بند معیشت اپنے اندر کتنی شاندار صلاحیت اور کتنے وسیع ممکنات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہوتی ہے۔1917ء میں بالشویکوں نے ایک ایسے ملک کا اقتدارسنبھالاجو پسماندہ تھا،نیم جاگیرداری کا حامل تیسری دنیاکا ایک ایسا ملک تھا جو کہ پہلی عالمی جنگ کے ہاتھوں تہس نہس ہوچکاتھا۔لیکن صرف چند دہائیوں کے کم عرصے میں ہی یہی تباہ حال پسماندہ ملک ایک عالمی طاقت کے طورپر ابھر کر سامنے آچکاتھا۔ مدارمیں پہلا سیارہ بھیجنے والا ملک بھی یہی روس تھا۔سب سے پہلے خلا میں جانے والا بھی روسی ہی تھا۔اسی طرح خلا میں سب سے پہلامستقل مرکزبھی قائم کیا۔ سوویت سائنسدانوں نے علم کی حدود میں بے پناہ وسعتیں پیداکیں اور ممکنات کی نئی دنیائیں دریافت کیں۔خاص طورپر ریاضی،فلکیات،نیوکلیر فزکس،خلائی تحقیق اور کیمسٹری کے شعبوں میں مثالی اور ناقابل فراموش بڑھوتری کی۔سوویت عہد کے کئی سائنسدانوں کو مختلف شعبوں میں نوبل پرائزسے بھی نوازاگیا۔یہ سبھی کامیابیاں خاص طور اس لئے قابلِ تحسین اور حیران کن ہیں کہ یہ ایک ایسے ملک‘ ایک ایسی ریاست میں ہو رہی تھیں جہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا یکسر خاتمہ کردیاگیاتھا۔
اس نوعیت اور اس سطح کی ترقی کس طرح ممکن ہو سکی تھی؟سوویت یونین نے یہ سب کیسے کرلیا جبکہ انقلاب کے وقت اس کی 90 فیصدآبادی ناخواندہ تھی۔اسی سوویت یونین میں چند دہائیوں کے اندر اندر ہی فی کس شرح کے تحت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈاکٹر،سائنسدان اور انجینئرموجودتھے!اس حیران کر دینے والے سوال کا ایک ہی جواب ایک ہی وضاحت ہے اور وہ ہے منصوبہ بند معیشت کی برترحیثیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے پاگل پن سے یکسرلاتعلقی۔
اس عمل میں سب سے پہلی اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ سائنس کو ترجیح اور فوقیت دی گئی۔سرمایہ دارانہ نظام کے اندر نجی کمپنیوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی صلاحیت اور قابلیت کی ایک ہی قوت محرکہ ہواکرتی ہے اور وہ ہے شرح منافع کا حصول۔کمپنیاں ٹیکنالوجی کی ترویج وترقی کی منصوبہ بندی اس لیے نہیں کرتیں کہ انہیں ترقی کو ترویج دیناہوتی ہے بلکہ وہ سب کچھ اس نیت اور ارادے سے کرتی ہیں کہ انہیں منڈی میں فروخت کرناہوتاہے۔اور اس کیلئے وہ صرف وہی اشیاء بناتے ہیں جسے منڈی میں لانا ضروری سمجھاجائے۔روس میں سوویت نے فوری طورپر ا س اہم نکتے کوسمجھ لیاتھا کہ سائنس اورٹیکنالوجی کی اجتماعی اہمیت کیا معنی رکھتی ہے۔سوویتوں نے اس کو ملک کی مجموعی ترقی سے وابستہ اور منسلک کردیا۔اس وسیع نکتہ نگاہ نے انہیں اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ علم کے سبھی شعبوں میں سبھی وسائل صرف کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔
ان کی اس وسیع کامیابی کا ایک اور انتہائی اہم جزوتعلیم کے شعبے میں لامحدودوسعت پیداکرناتھا۔ہر قسم کے نجی سکولوں کا یکسر خاتمہ کرکے اور ہر سطح کی تعلیم ہر کسی کیلئے مفت فراہم کرنے سے یوں ہوا کہ ہر ایک انسان کو اپنی صلاحیتوں سے واقف ہونے اور پھر ان سے کام لینے کے امکانات کی دنیائیں سامنے آتی گئیں۔اس کے برعکس،آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کئی ایک جدید مغربی ممالک ابھی تک اپنے ملکوں میں سے ناخواندگی کو مکمل طورپر ختم نہیں کر سکے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اہل اور قابل باشندوں کو یونیورسٹی کی ہی تعلیم سے ہی مستفید ہونے دیتے مگر ایسا نہیں ہے اور کہیں بھی نہیں ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے تحت علم کے ہر طلبگار اور خواہشمند کے سامنے سرمائے کے پہاڑ رکاوٹ بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ جن کی وجہ سے انسانی سماج کی بڑی تعداد کو ان کی صلاحیتوں کے ادراک و استفادے سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے اور رکھاجارہاہے۔اس وقت دنیا کی نصف سے زائد آبادی دوڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے،ہم بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انسانی صلاحیتوں کے بہت ہی بڑے خزانے کوضائع کیا جارہاہے اور وہ بھی سرمائے کی محرومی کی وجہ سے۔
سوویت روس نے فوری طور پر سائنس اورٹیکنالوجی کے رستے میں حائل اس رکاوٹ کودورکرنے کی عملی تدبیر اختیارکی جوکہ ایک سرمایہ دارانہ نظام کے اندر جدت اور ترقی کومحدود رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔جملہ حقوق(patent)تجارتی اسرارورموز،اور نجی صنعت کا یکسر خاتمہ کردیاگیا۔اس قدم نے اجتماعی تحقیق و جستجو اور ترقی کے نت نئے امکانات کو ممکن بناناشروع کردیا۔ادارے ایک دوسرے کے ساتھ خیالات اور تجربات کے تبادلے میں آزادہوگئے۔مذہبی تعصبات جنہوں نے ایک طویل عرصے سے تعلیم کو عام ہونے سے روکاہواتھا،وہ سب اس عمل کے نتیجے میں ماضی کا قصہ بنتے چلے گئے۔آج ہم میں سے ہر ایک سٹیم سیلstem-cell بارے تحقیق پر صدر بش کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندی سے یہ سمجھ سکتاہے کہ کس طرح مذہبی تعصبات اور کم نظری،سائنسی ایجادات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
لیکن سٹالنزم کے تحت سب اچھا بھی ہرگز نہیں تھا۔ افسرشاہی معیشت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی چلی گئی۔یہ طفیلی پرت بعد میں علم کے کئی اہم شعبوں میں بھی روڑے اٹکانے لگی۔جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی رکاوٹیں توڑدی گئیں وہیں کئی حوالوں سے بالکل نئی رکاوٹیں تشکیل دی جانے لگیں۔ان میں سائنسی علوم کی ترجیحات کو بھی افسرشاہانہ احکامات کے تحت پابندکردیاگیا۔اور سب ان کی ضرورتوں اورخواہشوں کے مطابق ہونے لگا۔کئی غیر معمولی معاملات میں تو انتہائی اہم ترین علوم پر سرے سے پابندی لگاکر انہیں غیرقانونی قراردے دیاگیا۔کئی انتہائی قابل سائنسدانوں کو گرفتار کرکے انہیں سائبیریاکے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں ڈال دیاگیا۔اس حوالے سے سٹالن کا سب سے بھیانک جرم ’’کروموسومل جینیٹکس‘‘chromosomal geneticsپر پابندی لگاناتھا۔جینیٹکس(جینیات) کے مطالعے پر پابندی لگا دی گئی۔ ماہرین جینیات،جن میں ایگول،لیوٹ اور نیڈسن کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیاجبکہ روس کے اپنے وقت کے عظیم ترین ماہر جینیات نکولائی واویلوف کو عقوبت خانے میں ڈال دیاگیا۔جہاں وہ اسیری کے دوران ہی1943ء میں وفات پاگیا۔علوم پر یہ اہانت انگیزپابندی 1960ء کی دہائی کے وسط تک قائم رہی۔یہ جرائم ہرگزاور کسی طوربھی سوشلزم کے جرائم نہیں تھے بلکہ یہ سب سٹالنزم کے سیاہ اعمال تھے۔اگر روس میں ایک حقیقی جمہوری منصوبہ بند معیشت استوارہوتی تو اس قسم کی سیاہ کاریاں کبھی بھی رونما نہ ہوتیں اور نہ اس کی موجودگی میں اس کے امکانات ہو سکتے۔
آج،ہر وہ فرد جسے سائنس سے اور سوشلزم سے دلچسپی یا وابستگی ہے،پر یہ لازمی ہے کہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کرے۔ سائنس کو آج نجی مفادات اور نجی صنعت کے ہاتھوں ماضی کی طرف دھکیلا جارہاہے۔اسے مستقبل کے امکانات کو رد کرنے پر مجبور کیا جارہاہے۔تعلیم اور تحقیق کیلئے جستجواورجدوجہدکرنے والے ہر تازہ ذہن کو وسائل کی محرومی کے ذریعے اذیت میں مبتلا کردیاگیا ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ مذہبی پابندیاں اور تعصبات سائنس کو پنجرے میں بندکرنے اور رکھنے پر تل گئے ہیں۔یہ سب مل کر علم کے کئی شعبوں کو سرے سے بند کرنے پر تل چکے ہیں۔آزاد منڈی کی نادیدہ زنجیریں ان گنت بامعنی ومفید تحقیقات کو وقوع پذیر ہونے سے روک رہی ہیں۔جن کے نتائج نسل انسانی کو ایک بالکل نئی دنیا سے روشناس کراسکتی ہیں۔نجی کمپنیاں نئی تحقیق اورترقی کے ہر نئے امکان کو اپنے ہیڈکوارٹروں کے مقفل کمروں میں قید کرتی چلی آرہی ہیں۔بڑے بڑے نجی ذخیرہ اندوزوں نے انتہائی مفیدعناصرکو اپنی ذاتی تشفی کیلئے چھپاکے رکھا ہواہے۔ایسے علاج جن سے کئی مہلک بیماریوں سے نسلِ انسانی کو نجات مل سکتی ہے،کو تحقیق و تصدیق کے مراحل سے دانستہ روکا جارہاہے۔ اور یوں دواپر بیماری کو ترجیح دی جارہی ہے وہ بھی منافعوں کیلئے۔یہ صرف اور صرف پاگل پن ہے ؛اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ثابت ہوچکاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تنوع اورترقی کیلئے رکاوٹ ہے نہ کہ اس کا باعث۔
آج ساری نسلِ انسانی کو ایک ایسے مالیاتی نظام کے ہاتھوں محض چند نجی مالکوں کے مفادات کی غلامی کی طرف دھکیل دیاگیاہے۔نام نہاد اور خود ساختہ عظیم ’’آزاد منڈی ‘‘کی معیشت، انسانی ترقی کے ہر امکان کے راستے کی دیوار بن چکی ہے۔کمپیوٹروں،انٹرنیٹ سمیت نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانیت سائنسی ترقی ا ور سماجی خوشحالی کی ایک بالکل نئی دنیا میں قدم رکھ سکتی ہے۔ہم اپنے ارد گرد سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے وجودکا ہر رنگ ڈھنگ اور ہر پہلو نت نئے امکانات کو ہمارے سامنے عیاں اور عریاں کررہاہے۔کل جو ناممکن ہوتا تھا وہ ممکن ہوچکا ہے۔ماضی میں کبھی جو محض ایک واہمہ ہواکرتاتھا وہ اب قابلِ ادراک ہوچکاہے۔کل جو گنجھلک تھا آج سادہ و صاف ہوکر سامنے آچکاہے۔سائنسی علم میں ترقی وترویج آنے والے دنوں میں ساری کائنات کو ہماری انگلیوں پر ناچنے پر مائل کردے گی مگر اس کے رستے میں ایک رکاوٹ ہے جسے اکھاڑنا سب سے بڑا‘ سب سے پہلا اور سب سے اہم انسانی فریضہ ہے‘اور یہ رکاوٹ ہے سرمایہ دارانہ نظام!