|تحریر: راب سیول، ترجمہ: تصور ایوب|
کرونا وائرس کی وبا دنیا بھر میں تباہی مچاتی جا رہی ہے،جس نے سماج کو بند اور پیداوار کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی سرمایہ داری کو ایک شدید ترین بحران اور گراوٹ کا سامنا ہے جو تمام ممالک کو یکساں طور پر متاثر کر رہی ہے اور جس نے عالمی سرمایہ داری کی بقا کا سوال سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
یہ بحران ماضی کے بحرانوں یعنی 2008ء اور 1929ء کے بحران سے کئی گنا شدید ہے جس سیبڑے پیمانے پر بیروزگاری زیادہ شدت کے ساتھ آئے گی اورکروڑوں لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ امریکی وزیر خزانہ سٹیو منچن کا کہنا ہے کے امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 20 فیصد کی تشویشناک حد تک جا سکتی ہے جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوں گے۔ یاد رہے کہ 2008ء کے عالمی معاشی بحران میں یہ شرح10 فی صد تھی۔ جبکہ پہلے ہی امریکی نیشنل ایسوسی ایشن آف ریسٹورینٹس کے اندازے کے مطابق اگلے تین مہینوں میں پچاس سے ستر لاکھ لوگ بیروزگار ہوں گے اور امریکی ٹریول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کے اگلے مہینے کے آخر تک چھیالیس لاکھ لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
عالمی بحران
یہ بحران حکمران طبقے پر آسمانی بجلی کی طرح گرا ہے۔ 1938ء میں ٹراٹسکی نے اس امر کی وضاحت کی تھی کہ کس طرح حکمران طبقہ آنکھیں موندے برق رفتاری سے ایک اندھی کھائی کی جانب جا رہا ہے۔ آج وہی تصویر دوبارہ واضح طور پربنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہر طرف ایک ہیجان کی کیفیت ہے۔
چین، جو پچھلے عرصے میں عالمی سرمایہ داری کے انجن کا کام کر رہا تھا اب پاتال میں گررہا ہے۔ جرمنبینک کی پیش گوئی کے مطابق پہلی سہ ماہی میں چینی جی ڈی پی 31.7 فیصد تک سکڑ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی گراوٹ ہے جس کے بارے میں کچھ دن پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ چین کی برآمدات اور درآمدات تباہ ہو چکی ہیں اور ملک کے ایک بڑا حصے میں تالہ بندی ہے۔
اس بار چین دنیا کو بحران سے نکالنے میں مدد نہیں کر سکتا جیسا اس نے ایک دہائی قبل کیا تھا، بلکہ اس بار چین عالمی سرمایہ داری کیلئے ایک بوجھ ثابت ہو گا۔ 2008ء کے کریش کے بعد چین کی حکومت نے معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کیلئے اربوں ڈالر منڈی میں پھینکے۔ باقی دنیا کے برعکس اس وقت چینی معیشت سکڑی نہیں تھی بلکہ 10 فی صد شرحِ نمو کے ساتھ پھیلتی رہی لیکن اس بار چین کے بھاری قرضوں اور منڈی کی کمی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا۔
دنیا کی سب سے بڑی معیشت ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی ایک کسادبازاری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جرمن بینک کی پیش گوئی کے مطابق 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں امریکی معیشت 12.9 فی صد تک سکڑ جائے گی، اور یہ اعدادو شمار کافی کم ہیں کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیش گوئیوں کے اعداد و شمار نیچے کی طرف ہی جارہے ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ کی طرح جاپان بھی بحران میں ہے،جبکہ ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ پر اس بحران کے اثرات نہایت گھمبیر ہوں گے۔
جیسا کہ ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ عالمی معیشت کرونا وائرس کی وبا سے بہت پہلے ہی سست روی کا شکار تھی۔ دنیا پہلے ہی ایک معاشی بحران کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کرونا وائرس اس بحران کیلئے محض ایک بہانہ ثابت ہوا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سطح کے نیچے پنپتی ایک گہری ضرورت نے ایک حادثے کی شکل میں اپنا اظہار کیا ہے۔ کوئی بھی حادثہ اس بحران کا نکتہ آغاز بن سکتا تھا جس کا انتظار کافی عرصے سے کیا جارہا تھا۔ اب عالمی حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل انہدام کے خطرے کے پیش نظر مکمل ہیجان کی کیفیت میں ہے۔ طلب تیزی سے گر چکی ہے جس کے نتیجے میں رسد (پیداوار) بھی بحران کا شکار ہے۔ یہ ایک مکمل طوفان ہے جو اس سے زیادہ برے وقت میں نہیں آ سکتا تھا۔
آخری معرکہ
ابھی دنیا 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے اثرات سے باہر نہیں نکلی تھی۔ پالیسی ساز اس بحران سے نمٹنے کیلئے ہی اپنے تمام تر طریقے صرف کر چکے ہیں اور اب شاید ہی ان کے پاس معاشی انہدام کی اس نئی لہر سے نمٹنے کیلئے کوئی آپشن موجود ہو۔ کچھ مہینے پہلے بینک آف انگلینڈ کے سابق سربراہ مئروین کنگ نے ”آخری معاشی معرکے“ کے امکانات کے بارے میں بات کی تھی۔ جبکہ صورت حال اس کے تخیل سے ہزار گنا زیادہ گھمبیر ہے۔
اس افراتفری کے بعد امریکی فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود کو کم کرتے ہوئے 0.1 فی صد تک کر دیا ہے اور بانڈ مارکیٹ میں دو سو ارب ڈالر کے بانڈ پھینک دئیے ہیں تاکہ ”سرمایہ داری کے مرتے جسم کو زندگی“ دی جا سکے اور وہ معیشت کی نعش میں کانگریس میں مخالفت کے باوجود 1.2 ٹریلین ڈالر (جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی) پھینکنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یورپی سنٹرل بینک نے بھی حکومتی قرضے کے نام پر اپنے 750 ارب یورو کے اضافی بانڈز خریدنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس میں سے 120 ارب یورو کا پہلے ہی وعدہ کیا جا چکا تھا۔ اس کے علاوہ یورپی سنٹرل بینک حکومتوں کی امداد کیلئے ماہانہ 20 ارب یورو کے بانڈ خریدے گا۔
اٹلی جو پہلے ہی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے مزید اقدامات کا تقاضا کر رہا ہے اور یورپی یونین سے 500 ارب یوروز کے ریسکیو فنڈ کا تقاضا کر رہا ہے۔ تاہم اٹلی پہلے ہی یورپی سنٹرل بینک کا 364 ارب یورو کا مقروض ہے اور توقع ہے کہ مزید 150 ارب یورو کے بانڈز خرید لے گا۔ لیکن یورپی سنٹرل بینک کو اصول باندھ دیتے ہیں جو کسی ملک کے قرضے کا ایک تہائی سے زیادہ دینے سے روکتے ہیں۔ لیکن اب اس حد کو بھی ختم کرنے کی بات چل رہی ہے لیکن اس کوئی حد نہیں والی پالیسی پر پہلے ہی جرمنی اور بنڈیس بینک (جن کے ہاتھ میں ڈوریں ہیں)اپنی ناراضگی کا اظہار کر چکا ہے۔
یورپی مرکزی بینک نے اپنے ان اقدامات کو وباء ایمرجنسی پروگرام کا نام دیا ہے جبکہ یہ ہیجانی ایمرجنسی پروگرام زیادہ لگتا ہے۔ وہ یوروزون کے قرضوں کے بحران کے مضمرات سے زیادہ خوفزدہ ہیں جو اس صورتحال کا ایک لازمی حصہ ہے۔
بینک آف انگلینڈ نے بھی اپنی شرحِ سود کم کر کے 0.1 فی صد کر دی ہے جو اس بینک کی 325 سالہ تاریخ کی کم ترین سطح ہے۔ اس بینک کا گورنر اینڈریو بیلی (جسے اس کے دوست اب بیل آؤٹ بیلی کے نام سے پکارتے ہیں) نے اس صورتحال کو ایک انوکھی صورتحال کہا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جس میں مالیاتی منڈیاں غیر منظم انداز میں بند ہیں۔ اس نے تو ایسی غیر معمولی صورتحال میں منڈیوں کے بند ہونے کی دھمکی بھی لگا دی ہے۔
برطانیہ کی صورتحال خاص طور پر بہت نازک ہے کیونکہ اس کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرتا آیا ہے۔ سرمایہ کار ایسی صورت حال میں جب نقدی کی زیادہ مانگ ہو اپنے واجبات بڑھا سکتے ہیں جو برطانوی حکومت کی قرض لینے اور خرچ کرنے کی صلاحیت کو تباہ کر سکتی ہے۔ اس وقت ٹوری حکومت بری طرح پھنس چکی ہے، خطرات کے باوجود اس نے بحران سے لڑنے کیلئے 330 ارب پاؤنڈز کا وعدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جاپان نے بھی 275 ارب ڈالر کے ایمرجنسی پیکج کا اعلان کیا ہے جو اس کے پہاڑ جیسے قرضوں میں مزید اضافہ کرے گا۔
پھٹتے ہوئے معاشی بلبلے
سرمایہ دارانہ ریاستیں سب کچھ بحران کی آگ بجھانے کیلئے اس میں پھینک رہی ہیں، حتیٰ کہ گھر کا فرنیچر بھی۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ اس بحران کو نہیں روک سکتے، یہ ایک ایسی ریل گاڑی ہے جس کی کوئی بریک نہیں۔ وہ اپنے ”اقدامات“ سے صورت حال کو صرف مزید گھمبیر کر سکتے ہیں اور بہتری کی بے سود امید کر سکتے ہیں۔ ایک مبصر کا کہنا ہے کہ ”نظام اس طرح کے حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بنا ہی نہیں ہے۔“
ان (حکومتوں) کے پاس اس تباہی سے بچنے کے اوزار ہی نہیں ہیں کیونکہ پچھلے ایک لمبے عرصے میں اجرتوں میں کٹوتی ہو چکی ہے اور لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، اس بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے ان کے اقدامات ایسے ہی ہیں جیسے گرتے ہوئے برفانی تودے کو ماچس کی تیلی سے پگھلانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ وہ پیسہ جو یہ ریاستیں معیشت میں انڈیل رہی ہیں کسی عمل میں آئے بغیر سیدھا ہی گٹر میں جائے گا اور نظام کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کر پائے گا۔
پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر میں مقداری آسانی (Quantitative Easing) کے پروگرامز آزمائے گئے تھے۔ اس کے بعد مقداری آسانی کو غائب ہوتی دولت سے لڑنے کیلئے آزمایا گیا لیکن جتنی سستی دولت انہوں نے معیشت کی رگوں میں ڈالی اتنی ہی مشکلات بڑھتی گئیں۔ یہ دولت پراپرٹی کے بلبلے اور دوسرے غیر پیداواری دھندوں میں پھینکی گئی جس نے تاریخ کی سب سے بڑی معاشی بلبلوں کی منڈی کو جنم دیا لیکن اب صورت حال اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہی ہے۔
دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں منہدم ہورہی ہیں بلاشبہ اس میں ابھار بھی آتے ہیں جنھیں ”بحالی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے، پر اب کے رجحان نیچے کی جانب ہی ہے۔ 20 مارچ 2020ء کے برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق امریکی سٹاک مارکیٹ 1929ء کے وال سٹریٹ کریش کے مقابلے میں بھی زیادہ تیزی سے گر رہی ہے۔ وہ انہدام بھی ایک لمبےBull Market(مندی کا رجحان) کے سلسلے کا نکتہ انجام تھا، اس میں بھی ”ترقی سے دھاڑتے“ بیس کے عشرے (1920کی دہائی) کی تمام حاصلات بہہ گئی تھیں اور آج بھی امریکی اسٹاک ایکسچینج کا ڈو جونز انڈیکس 32 فی صد گر گیا ہے۔ انڈیپنڈنٹ کہتا ہے کہ ”ہم یہ نہیں جانتے کے شئیر مارکیٹ کہاں جا کے رکے گی، لیکن تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو مندی کے رجحان کی رفتار نہایت خطرناک ہے۔“
مارکس درست تھا!
2008-09ء کے برعکس یہ بحران آفاقی ہے جس سے کوئی نہیں بچ پا رہا اور جیسے جیسے تمام سیکٹرز اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ صرف آغاز ہے۔ حکمران طبقہ مکمل طور پر بے یار و مدد گار ہے اور وہ ہر مسئلے پر روپیہ پھینکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ بحران کوئی مالیاتی بحران نہیں ہے (جو مزید سنگین ہو گا) بلکہ یہ سرمایہ درانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے۔
یہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ پیداواری قوتیں جیسا کہ صنعت، تکنیک اور سائنس قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی حدود قیود عبور کر چکی ہیں جبکہ موجودہ منڈیاں اس پیداواری صلاحیت کو جو سرمایہ داری نے پیدا کی ہے کو کھپانے کیلئے بہت چھوٹی ہیں۔ حکمران طبقے نے اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے منڈیوں کو مصنوعی طور پر پھیلانے کی کوشش کی لیکن جتنا وہ زائد پیداوار کے بحران کو ٹالنے کی کوشش کرتے رہے بحران جب آیا اتنی ہی شدت سے آیا۔ مارکس نے اس کی وضاحت بہت عرصہ پہلے ہی کر دی تھی اور موجودہ واقعات مارکس کے سرمایہ داری سے متعلق تجزیہ پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب
اس وقت سرمایہ داروں کے نزدیک سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ یہ کساد بازاری جلد ایک معاشی کھائی بن جائے گی، جس کی بازگشت نہایت سنجیدگی سے مالیاتی پریس کے جریدوں میں سنائی دے رہی ہے۔ 1930ء کی دہائی کے بحران کا سبب کوئی کساد بازاری یا کریش نہیں تھا بلکہ 1930ء کی دہائی میں امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی ”دوسروں کی قیمت پر ترقی“ کی پالیسیاں تھیں۔ یہ تجارتی جنگ کا آغاز ہی تھا جو عالمی تجارت کے انہدام کا باعث بنا، سرمایہ داری اس بحران سے صرف ایک عالمی جنگ کے ذریعے نکلنے میں کامیاب ہوئی لیکن اب جوہری ہتھیاروں کے باعث ایک عالمی جنگ کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ٹرمپ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی اور تجارتی جنگ ہی اس صورت حال کا سبب ہے، وہ پہلے ہی چین اور یورپی یونین سے ایک تجارتی محاذ آرائی شروع کر چکا ہے۔ کرونا وائرس کے بحران کے دوران بھی امریکی صدر نے یکطرفہ فیصلے لیے ہیں جب اس نے یورپ سے امریکہ سفر پر پابندی لگا دی جو یورپی لیڈران پر نا گواری گزری۔
ایک نئی عالمی تجارتی جنگ اور اس پر مستزاد مقابلاتی بے قدری اور اس کے اثرات دوسرے پر پھینکنے کی کوشش اس بحران کو ایک عالمی بحران میں بدل دے گی۔ تاہم اس بار یہ بحران دو عالمی جنگوں کے درمیانی وقفے کے بحران سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگا۔ آج کی دنیا پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ واشنگٹن، بیجنگ اور برسلز میں لیے گئے فیصلوں کے اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ یہ وہ تناظر ہے جس کی ہمیں تیاری کرنی ہے۔ موجودہ بحران سرمایہ داری کے مکمل دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے جو سماج کو دوبارہ عہد بربریت میں دھکیلنے کے درپے ہے۔
صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت، جس میں اس سیارے کے وسائل چند ایک ارب پتی طفیلیوں کی بجائے ہر کسی کے فائدے کیلئے استعمال کیا جائے، ہی ہمیں اس بحران سے نکال سکتی ہے۔ صرف اور صرف سرمایہ داری کی انارکی کو جڑ سے پھینکنے کی صورت میں ہی بنی نوع انسان اس ڈراؤنے خواب سے باہر آ سکتی ہے۔