تحریر: مو- لیوی|
ترجمہ: ولید خان|
برطانوی وزیر خزانہ فلپ ہامونڈ کے مطابق ملک میں جبری کٹوتیوں کی پالیسی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن دنیا کے امیر ترین افراد کے لیے تویہ کبھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی! جدید ترین اعدادوشمار کے مطابق عالمی ارب پتی طبقے نے 2017ء میں انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ دولت اکٹھی کی۔ ایک طرف مزدوروں، نوجوانوں اور غربا کو بحران کے ایک اور سال میں مزید کفایت شعاری کرنی پڑی ہے تو دوسری طرف UBS کے مطابق امرا کی دولت میں 20 فیصد اضافے کے ساتھ 6.9 ٹریلین پاؤنڈکا اضافہ ہوا ہے۔
معاشی جمود
صرف 2 ہزار 158 افراد کے ہاتھوں میں اس بے پناہ دولت کے ارتکاز کو دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس دولت کا یہ لوگ آخر کر کیا رہے ہیں؟ ظاہر ہے اس سے معیشت میں ترقی، مزدوروں کے حالاتِ زندگی میں بہتری یا نئی نوکریاں تو پیدا نہیں کی جا رہیں۔
54 ارب پتیوں کے گھر برطانیہ میں شرحِ پیداوار پچھلے 200 سال کی سب سے کم تر سطح پر ہے۔ 1750ء سے اب تک، پچھلی ایک دہائی میں حقیقی اجرتوں میں سب سے زیادہ گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ حقیقی مستقل بیروزگاری اور نام نہاد ذاتی ملازمت پر کم تر شرحِ بیروزگاری کا پردہ پڑا ہوا ہے جبکہ ہر طرف مزدوروں کے حقوق چھینتے ہوئے انہیں عارضی ملازمت کی ذلت میں دھکیلا جا رہا ہے۔
حقیقت میں ہامونڈ کے پرفریب جھوٹ کے باوجود جبری کٹوتیاں جاری ہیں اور اپنی پوری خوفناکی کے ساتھ محنت کش طبقے پر مسلط ہیں۔جبکہ ارب پتیوں کے منافعوں میں ہوشربا اضافوں کی اصل وجہ بھی مزدوروں پر ہونے والے یہ سفاک اقدامات ہیں۔
سرمایہ داری اپنی آخری حدود تک پہنچ چکی ہے۔ زائد پیداوار کے بحران نے عالمی سرمایہ داری کو بانجھ کر کے رکھ دیا ہے۔ طفیلی سرمایہ دار طبقے کے پاس اپنے منافعوں کو بڑھانے کا واحد طریقہ کار محنت کشوں کے معیار زندگی اور اجرتوں پر ننگا حملہ ہے۔ مثلاً ریزولوشن فاؤنڈیشن کے مطابق برطانیہ میں 2017ء سے اب تک سماج کی نچلی ترین 20 فیصد پرت کی ہفتہ وار اجرتوں میں 1.5 فیصد گراوٹ واقع ہوئی ہے۔
بحران کے بڑھتے سائے
UBS کی رپورٹ میں ایک جزو بڑا حیرت انگیز ہے۔ چینی ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے (2016ء سے اب تک 57 کا اضافہ) اور موجودہ 373 افراد کے ساتھ اسے جلد ہی امریکہ پر سبقت حاصل ہو جائے گی۔ ان نو دولتی لٹیروں نے اپنی دولت چینی منصوبہ بند معیشت کی نجکاری اور محنت کش طبقے کے خون پسینے سے حاصل کی ہے۔ چین نے 2008ء میں تاریخ کے سب سے بڑے ریاستی کینیشئن تجربے کے ذریعے عالمی معیشت کی مدد کرتے ہوئے پیداوار اور تعمیرات میں شرح نمو کو مسلسل جاری رکھا۔ لیکن اب چینی معیشت خود شدید عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہے اور بلوم برگ کے مطابق اس وقت 34 ٹریلین ڈالر کا ’قرضہ بم‘( GDP کا 266فیصد) کسی بھی وقت چینی معیشت کے پر خچے اڑا سکتا ہے۔
بیشتر عالمی معیشت کی طرح چینی صنعت بھی زائد پیداوار کی وجہ سے اپاہج ہو چکی ہے۔ مثلاً، اس وقت چینی اسٹیل کی منڈی میں کھپت سے 130 ملین ٹن پیداوار زائد ہے۔ بحران کے بڑھتے سائے معاشی شرح نمو میں تیز تر گراوٹ میں اپنا اظہار کر رہے ہیں(2008ء میں 12.1 فیصد سے اس وقت 6.7فیصد)۔جب یہ قرضہ بم پھٹے گا اور اس کے ساتھ چینی اور عالمی معیشت ایک دھماکے سے اڑ جائے گی تو اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ آسمان پر بیٹھے ارب پتی یا وہ چینی اور عالمی مزدور جو اپنے خون پسینے سے یہ دولت پیدا کر رہے ہیں؟
جواب واضح ہے کہ جب تک محنت کش طبقہ طاقت اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سماج کو سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر نہیں کرے گا، 99 فیصد ہمیشہ 1 فیصد کی عیاشیوں کی قیمت چکاتے رہیں گے۔