|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: تصور ایوب|
29 اپریل کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحران کے ایک مہینہ بعد غیر رسمی شعبہ جات سے منسلک 1 ارب 60کروڑ محنت کش اپنی آمدن کے 60 فی صد سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بحران سے بری طرح متاثر ہونے والے ملکوں کے غیر رسمی مزدوروں میں غربت کی شرح 84 فیصد تک جا پہنچے گی۔ جیسے جیسے بحران شدت اختیار کرے گا غیر محفوظ ملازمت کے حامل مزدوروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں سرمایہ داری کے معذرت خواہان غربت کی کمی پر شہنائیاں بجاتے رہے۔ جب کروڑوں محنت کش روزگار کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف آئے تو ان کی آمدن میں اضافہ ہوا (کاغذوں کی حد تک ہی سہی)۔ ان میں سے بیشتر محنت کش غیر رسمی شعبہ جات سے منسلک ہوئے، اس شعبے کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس سے دو ارب سے زائد محنت کشوں کا روزگار منسلک تھا۔ اور اب یہی نظام ان مزدوروں کو انتہائی غربت کی جانب دھکیل رہا ہے۔
ILO کی درجہ بندی کے مطابق اوپری درمیانے آمدن کے حامل ممالک (بالخصوص چین) کے علاوہ بحران کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ اضافی غربت کی شرح (جس کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ اوسط آمدن کے نصف سے کم آمدن والے محنت کشوں کی تعداد) ترقی سرمایہ دارانہ ممالک میں غیر رسمی شعبہ جات میں 28 فی صد سے بڑھ کر 80 فی صد ہو جائے گی جبکہ غریب ممالک (نچلے درمیانے اور اور کم آمدن والے ممالک) میں یہ شرح 18 فی صد سے بڑھ کر 74 فی صد ہونے کا امکان ہے۔
وہ مزدور جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ خط غربت سے اوپر آ گئے ہیں، ایک ہی جھٹکے میں ان کی آمدن ختم ہو گئی ہے۔ ILO کے تخمینے کے مطابق، نچلے درمیانے اور کم آمدن والے ممالک میں غیر رسمی مزوروں کی اوسط آمدن 480 ڈالر سے گر کر 88 ڈالر جبکہ بلند آمدن والے ممالک میں 1800 ڈالر سے گر کر 450 ڈالر پر آ جائے گی۔ اور یہ عمل امریکہ، افریقہ، یورپ اور وسطی ایشیا سمیت پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے گا۔
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم آمدن اور نچلے درمیانے آمدن والے ممالک میں غیر رسمی شعبہ جات کے مزدوروں کی اوسط آمدن عالمی بینک کی خط غربت کی لکیر 3.20 ڈالر سے بھی نیچے آجائے گی اور یہ گروپ لگ بھگ ایک ارب مزدوروں پر مشتمل ہے، جن کی زیادہ تر تعداد جنوبی ایشیا میں آباد ہے۔ آمدن میں اس گرواٹ نے پہلے ہی کروڑوں مفلوک الحال مزدوروں کو شہر چھوڑ کر دیہات کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ جو شہروں میں رہ گئے ہیں ان کی حالت اور بھی دگرگوں ہے۔ وہ آمدن سے محروم اور مالک مکانوں کے رحم و کرم پر ہیں جو حکومت کے احکامات کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
سرمایہ داری مہاجر مزدوروں سے یہ سلوک کرتی ہے۔ جب حالات اچھے ہوتے ہیں تو انھیں دیہی زندگی چھوڑ کر شہروں میں آنا پڑتا ہے اور فیکٹریوں میں نہایت کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے اور جب برا وقت آتا ہے تو انھیں کباڑ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے (جیسے مزدور کوئی ناکارہ پرذے ہوں)۔ دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے جو چند ٹکڑے ان غریب ترین پرتوں کی جانب پھینکے تھے، اب ان سے واپس چھینے جا رہے ہیں۔