دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے حکومتوں کو گرانے کا عمل اس ملک میں بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ ابھی پچھلی حکومت کیخلاف ہی ملک کے طویل ترین دھرنے دیکھنے میں آئے تھے اور پورے ملک میں احتجاج بھی کیے گئے تھے جسے تمام تر ذرائع ابلاغ میں بھرپور کوریج بھی دی گئی تھی۔ آج یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ان تمام تر دھرنوں کامقصد محض اقتدار کا حصول تھا اور اس میں مقتدر حلقوں کے ایک اہم دھڑے کی پشت پناہی بھی شامل تھی۔اس سے پہلے بھی یہ گھن چکر کئی دفعہ چلایا گیا ہے اور مختلف نام نہاد منتخب حکومتوں کوگرایا گیا ہے۔اب پھر دوبارہ ڈگڈگی بجائی جا رہی ہے اور وہی آزمودہ حربہ دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں آبادی کی وسیع ترین اکثریت پر ایک عذاب بن کر مسلط ہو چکی ہیں اور اس حکومت کیخلاف سماج کے تمام حصوں میں شدید ترین غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے۔لیکن جس طرح موجودہ حکومت کی پالیسیاں درحقیقت پچھلی تمام حکومتوں کا ہی تسلسل ہیں خواہ وہ نام نہاد انتخابات کے ذریعے بنی تھیں یا پھر کسی فوجی مارشل لا کے ذریعے، اسی طرح موجودہ دھرنا دینے والوں کا سیاسی پروگرام بھی وہی ہے۔ دراصل دھرنے کی کال دینے والوں کی اپنی تمام ترتاریخ عوام دشمن سیاست پر مبنی رہی ہے اور وہ عوام کی بجائے حکمران طبقے کے ہی ایک حصے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ایسے میں محنت کشوں کے سامنے ابھرنے والا سوال حکومت کی ناکامی کا نہیں بلکہ اس نظام کی ناکامی کا ہے جس میں وہ کئی نسلوں سے ظلم اور استحصال کا شکار ہیں اور ان کی پیدا کی ہوئی دولت کو سرمایہ دارلوٹ کر لے جاتے ہیں۔ان کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ رائج الوقت پارٹیوں میں سے اگر ایک کی جگہ کوئی دوسری لے لیتی ہے یا موجودہ وزیروں اور مشیروں کی کھیپ میں تھوڑا بہت رد و بدل کر کے کوئی نئے چہرے لائے جاتے ہیں تو اس سے ان کو درپیش مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اسی طرح جمہوریت اور آمریت کا جھوٹا تضاد بھی بے نقاب ہو چکا ہے اور حکمرانی کے دونوں طریقوں میں پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت کو بھی بہت سے لوگ سلیکٹڈ کہتے ہیں اوراسے نیم آمریت بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ پچھلی تمام نام نہاد منتخب حکومتوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے گو کہ اب یہ کھیل ڈھکے چھپے انداز میں کھیلنے کی بجائے کھل کے کھیلا جا رہا ہے اور اس کے لیے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی۔لیکن اس صورتحال میں یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ یہ کسی ایک فرد، سیاسی جماعت یا حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ نجی ملکیت کے تحفظ پر مبنی اس نظام کی ہی ناکامی ہے جو پوری دنیا میں ایک شدید ترین بحران سے گزر رہا ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی کا رجحان ہے اور عالمی معیشت پر ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کا بھوت منڈلا رہا ہے۔امریکہ اور چین سمیت دنیا کی تمام بڑی معیشتیں اس بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہیں جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک اور نام نہاد فلاحی ریاستوں میں بھی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار، سامراجی جنگوں اور خانہ جنگیوں کیخلاف عوامی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔کچھ ممالک میں یہ تحریکیں انقلابات کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور سماج کی بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایسے حالات میں پاکستان میں بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس مزدور دشمن سرمایہ دارانہ نظام کوجاری رکھنا پرانے طریقوں سے ممکن نہیں رہا اور عوام کا خون چوسنے والا یہ نظام اب ان کی کھال بھی کھینچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کے حالیہ حملوں نے حکمران طبقے کے ان مذموم ارادوں کو واضح کردیا ہے اور یہ فقط ابھی آغاز ہے۔امریکہ اور چین سمیت دنیا بھر سے یہاں کے حکمرانوں کو بھیک نہ ملنے کی وجہ بھی اس نظام کا بحران ہے جس میں سامراجی ممالک بھی اپنے اپنے ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں اس ملک کے محنت کشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے کی بجائے محنت کے استحصال پر مبنی اس نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو تیز کریں۔ محنت کش طبقے کے پاس دھرنوں اور احتجاجوں سے بھی ایک بڑا ہتھیار موجود ہے جو عام ہڑتال کا ہتھیار ہے۔ درحقیقت اس نظام کو سرمایہ دار، جاگیر دار،بینکار، جج، جرنیل، سیاست دان اور بیوروکریٹ نہیں چلاتے بلکہ مزدوروں کی محنت سے یہ سماج اپنی حرکت جاری رکھتا ہے اور دولت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ تمام تر دولت اس کے پیدا کار کو ملنے کی بجائے حکمران طبقے کی جھولی میں گر جاتی ہے۔ اس ملک میں پیدا ہونے والی دولت کا نصف حصہ تو ہر سال سود کی ادائیگی میں عالمی مالیاتی ادارے لے جاتے ہیں،باقی ماندہ مقامی حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔جب تک یہ خونی نظام موجود رہے گا یہ استحصال اور ظلم و جبر جاری رہے گا۔یہاں ہر روزخواتین اور بچوں پر ہونے والے جبر سے لے کر ریاستی اداروں کے مظالم اور وباؤں سے مرنے والوں سے لے کر ٹرین کے حادثے میں مرنے والوں کی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ نظام اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں دے سکتا خواہ اس میں حکمران کوئی بھی ہو۔
اس سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سرمائے کی حکمرانی کی بجائے محنت کی حکمرانی کا قیام ہے۔ اس سلسلے میں عام ہڑتال ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور پورے سماج پر واضح کر دیتی ہے کہ اگر محنت کش کام کرنا چھوڑ دیں تو کوئی پہیہ نہیں چل سکتا، کسی فون کی گھنٹی نہیں بج سکتی اور کوئی بلب روشن نہیں ہو سکتا۔عام ہڑتال نہ صرف محنت کش طبقے کو ان کی انفرادی اور ادارہ جاتی لڑائیوں سے بلند کرتے ہوئے ایک طبقاتی لڑائی کی جانب لے کر جاتی ہے بلکہ انہیں معاشی مطالبات سے بڑھ کر ان مطالبات کے حصول کے لیے سیاسی میدان کی جانب بھی کھینچ کر لے کر جاتی ہے۔اکثر مزدور راہنما ”غیر سیاسی“ ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن جب مزدور کی نمائندہ سیاست موجود نہ ہو تو انہیں اپنی نظریاتی اور سیاسی تحریک تخلیق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے عام ہڑتال ایک کلیدی نکتہ آغاز بنتی ہے۔عام ہڑتال محنت کش طبقے کو اپنی طاقت کا احساس دلاتی ہے اور حکمران طبقے کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیتی ہے۔ عام ہڑتال کے نتیجے میں سماج پر اقتدار کاسوال ایک ٹھوس شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے جو ایسے اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے جن سے اقتدار سرمایہ دار طبقے سے لے کر مزدور طبقے کو منتقل کیا جائے اور سرمایہ داروں کی محنت کشوں کے استحصال کے ذریعے کمائی گئی تمام تر دولت اور جائداد مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دی جائے۔ دوسرے الفاظ میں عام ہڑتال ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیادیں ہموار کرتی ہے جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس عمل میں مارکسی نظریات سے لیس انقلابی پارٹی عمل انگیز کا کام کرتی ہے اور اس انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ صرف اسی ایک انقلابی طریقہ کار سے ہی مفت علاج اور تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات ہر شخص کو میسر آ سکتی ہیں۔ اس کے بغیر تمام تر سیاست ایک دھوکے اور فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں۔