|تحریر: سائرہ بانو|
سرمایہ دارانہ نظام وہ نظام ہے جس میں اشیاء انسانی ضرورت پوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ منافع کمانے کے لیے پیدا کی جاتی ہیں۔ پیداواری کمپنیاں ہر وقت نئی اشیاء کی تخلیق اور ایسے نئے صارفین کی تلاش میں رہتی ہیں جو ان کی بنائی ہوئی اشیاء کو خرید سکیں۔ یہ نظام لوگوں کو اور خصوصاً خواتین کو اس طرح قبول نہیں کرتا جیسی وہ ہیں۔ عورتوں میں ناکافی ہونے کا خیال پیدا کرکے یہ نظام ان کے احساس کمتری سے منافع کماتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے سرمایہ دار ادارے لوگوں میں احساس کمتری اور خوف پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس پر قابو پانے کے لیے لوگوں کو وہ خریدنا پڑتا ہے جو وہ بنارہے ہیں۔ خواتین اس اشتہاری یلغار کا پہلا شکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کے آخری مرحلے میں ایک شدید بحران کا شکار ہے جس کا وقتی حل یہ ہے کہ لوگ مسلسل خریداری کرتے رہیں۔ اور کیونکہ گھر اور گاڑیاں ایک حد تک ہی خریدی جاسکتی ہیں، اس لیے سرمایہ داری نے کچھ نئے میدان تلاش کیے ہیں جن میں برقی آلات، کھانے اور سامان آرائش شامل ہیں۔ پیداواری ادارے اشتہاری کمپنیوں کو خواتین کی ظاہر ی خصوصیات کو ٹارگٹ بنا کر اشتہاری مہم چلواتے ہیں جس میں گوری رنگت، خوبصورت بال، لمبے قد اور ایک مخصوص جسامت کو قابل پسند ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ اشتہارات دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جادوئی مصنوعات کو استعمال کرکے کم شکل، موٹی اورکالی خواتین عالمی مقابلہ حسن جیتنے کے قابل ہوجائیں گی، دنیا کا ہر مرد ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑا ہوگا اور اعلیٰ عہدوں کے دروازے ان پر خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ ان اشتہاری کمپنیوں اور اشیائے خوبصورتی بنانے والی کمپنیوں نے محض امریکہ میں 2011ء میں 144 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔
خوبصورتی ایک ایسی صفت ہے جس کا کوئی عالمی پیمانہ نہیں۔ جس ساخت، رنگت اور حجم کو ایک خطے میں خوبصورت سمجھا جاتا ہے کسی دوسرے خطے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں کی شکل دے کر خطوں کی انفرادیت کو ختم کردیا ہے اور خوبصورتی کے لیے ایک مصنوعی عالمی پیمانہ وضع کردیا ہے جس پر پورا اترنے کے لیے خواتین کو کئی نفسیاتی، جسمانی اور مالی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت جاری پدر شاہی معاشرہ چاہتا ہے کہ عورتیں اپنی ذہانت، تعلیم اور قابلیت کے ذریعے دیرپا سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے بجائے محض سطحی تبدیلیوں کے لیے کوشاں رہیں۔ اس نظام کی بقاء اور اس کے منافع میں مسلسل اضافے کے لیے ضروری ہے کہ عورتیں اپنے وجود پر شرمندہ رہیں اور خود کو خوبصورتی کے غیر حقیقی پیمانے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتی رہیں تاکہ ان کی توجہ حقیقی مسائل کی طرف نہ جاسکے۔ یہ تکنیک ایک دو دھاری تلوار ہے جو نہ صرف خواتین کو میک اپ اور دیگر اشیاء کا مستقل صارف بنائے رکھتی ہے بلکہ میک اپ نہ کرنے والی خواتین کو غیر شائستہ، زیادہ وزن والی لڑکیوں کو کاہل اور اسی قبیل کے شرمناک القابات سے نوازتی بھی ہے۔ اس ماحول میں قابلیت، صلاحیت اور ذہانت ثانوی جبکہ جسم اور شکل بنیادی اہمیت کا حامل سمجھاجاتا ہے۔
عورتوں کو بحیثیت مجموعی اسٹیریو ٹائپ کرنے میں ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں، فلموں اور ڈراموں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شعبے ایک ایسی عورت کے تصور کو فروغ دے رہے ہیں جو ان کے مطابق ہر لحاظ سے ایک مکمل عورت ہے۔ پدرشاہی اقدار کے زیرسایہ ایک ایسی مثالی عورت کا تصور تخلیق کیا گیا ہے جو نہ صرف غیر حقیقی طور پر خوش شکل، متناسب خطوط کی مالک، نسائی، دبلی پتلی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، کم عمر اور بڑے عہدے پر فائز ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ گھر داری کے ہر پہلو میں ماہر ہے۔ اس نظام میں ذہین، سانولی یا کالی رنگت کی حامل، تیس سال سے زائد یا خوداعتماد عورت کی کوئی گنجائش نہیں جسے اپنے خاندان یا معاشرے کے مردوں اور دیگر عورتوں کی توثیق کی ضرورت نہ ہو۔ یہ نظام ایک مخصوص سانچے میں ڈھلی عورت چاہتا ہے اور اس بات کا منکر ہے کہ انسان مختلف شکلوں، رنگت اور جسامت کے حامل ہوتے ہیں۔
انسان کا رنگ و روپ اور جسمانی خدوخال وقت کے ساتھ قدرتی طور پر تبدیل ہوتے ہیں۔ خود کو ہمیشہ نوجوان اور خوبصورت بنانے کے لیے مہنگی اور مصنوعی اشیاء کا استعمال کرکے عورتیں اپنی مشکل سے کمائی ہوئی اجرت کو ان ہی سرمایہ داروں کو واپس لوٹا دیتی ہیں جن کی ملوں، فیکٹریوں اور دفاتر میں وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو کھپا کرزندہ رہنے کی جدوجہد میں غرق ہوتی ہیں۔ سرمایہ دار اور ان کی زرخرید ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں مسلسل عورتوں کو یہ پیغام دیتی رہتی ہیں کہ وہ محض ایک جسم ہیں جسے خوبصورت اور جوان نظر آنا چاہیے تاکہ انھیں روزگار اور اچھا جیون ساتھی مل سکے۔ خواتین کو اس پوری تحریک کے پیچھے موجود مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔ انھیں یہ جاننا ہوگا کہ ان کی قدرتی ساخت اور رنگ کو عیب بنا کر اس احساس کمتری سے فائدہ اٹھانے والا سرمایہ دار ہے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اور بیوٹی انڈسٹری ان خواتین سے نفرت کرتی ہے جو اپنے وجود سے مطمئن اور ان کے لئے منافعوں کا ذریعہ نہیں ہیں۔
جنوبی ایشیاء میں سرمایہ داری نے ایک ذیلی شاخ پیدا کی ہے جسے کلر ازم کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں سفید رنگت کے حامل لوگوں کو ایک خاص طرح کی برتری حاصل ہے جو ہماری نوآبادیاتی نفسیات یا احساس کمتری کا اظہار ہے۔ گوکہ یہ تخصیص دونوں اصناف کے لیے ہے لیکن عورتوں پر اس کا خاص طور پر گہرا اثر ہے۔ یہ نوآبادیاتی ترجیح اب ہماری نفسیات میں اتنا رچ بس گئی ہے کہ رشتوں سے لے کر نوکری تک زندگی کے ہر پہلو میں لوگوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انڈیا میں رنگ گورا کرنے والی اشیاء کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس انڈسٹری کی شرح نمو تقریباً 18 فیصد ہے۔ تقریباً 73.5 کروڑ افراد ان اشیاء کا استعمال کرتے ہیں جن میں اکثریت لڑکیوں اور عورتوں کی ہے۔ جلد کی حفاظت اور دیکھ بھال کی اشیاء میں 23 فیصد حصہ ان اشیاء کا ہے جو جلد کی رنگت کو ہلکا کرتی ہیں۔ یونی لیور رنگ گورا کرنے والی اشیاء بنانے والی دنیا کی چوتھی بڑی کمپنی ہے۔ 2011ء میں یونی لیور نے ذاتی دیکھ بھال والی اشیاء سے منڈی میں 15.47 بلین یورو منافع کمایا تھا۔ اب آپ بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سرمایہ دار دیوہیکل کمپنیاں دنیا بھر میں سانولے اور کالے رنگ کو باعث شرم قرار دینے والی اشتہاری مہمیں کیوں چلاتی ہیں۔ 1978ء سے تیار کی جانے والی فیئر اینڈ لولی کریم انڈیا اور پاکستان میں رنگ گورا کرنے والی سب سے مقبول کریم ہے۔ فیئر اینڈ لولی کی صرف تشہیر کا بجٹ 5 ملین ڈالر ہے۔ اس کریم کے اشتہارات میں واضح طور پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جب تک کسی لڑکی کی رنگت گوری نہیں ہوگی وہ زندگی کے کسی میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
سرمایہ دار اپنی مصنوعات کی کھپت کے لیے کس طرح غیر حقیقی طلب پیدا کرتے ہیں اس کا اندازہ نسوانی جسم پر موجود بالوں کے لیے شدید قسم کی ناپسندیدگی پیدا کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ شیونگ کا سامان، بلیڈ اور ریزر بنانے والی کمپنی جیلیٹ نے 1915ء میں اپنے صارفین کی تعداد میں اضافہ کرنے کیلئے عورتوں کو جسم کے بال صاف کرنے کی طرف مائل کرنا شروع کیا اور خواتین کے لیے ایک ریزر بنایا جس کا مقصد ان کے جسموں پر سے ’قابل اعتراض‘ بال صاف کرنا تھااور یوں وہ بال جو جسم کے حفاظتی نظام کا حصہ اور معمول تھے اب غیر فطری اور بدصورتی کی علامت تصور کیے جانے لگے۔ جیلیٹ نے اس عمل کو سفید فام طبقہ اشرافیہ کی علامت کے طور پر تشکیل دیا اور رفتہ رفتہ یہ معاشرے کے دیگر طبقات میں بھی مقبول ہوگیا۔ منافع کی ہوس کا کوئی انت نہیں ہوتا لہٰذا سرمایہ داروں نے کئی نئے طریقے ایجاد کیے ہیں۔ مثلاً نہانے اور منہ دھونے کے لیے اب صابن کافی نہیں بلکہ منہ دھونے کے لیے فیس واش، ہاتھ دھونے کے لیے ہینڈ واش، جسم دھونے کے لیے باڈی واش وغیرہ ایجاد ہوچکے ہیں۔
گوکہ ان سرمایہ دارانہ سرگرمیوں کا آسان ہدف خواتین ہیں اور پدرشاہی معاشرہ ان سرگرمیوں کی سرپرستی کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ ذہنیت مردوں کو بھی نہیں بخشتی۔ مردوں کا گنجا پن اس انڈسٹری کا ایک اور پسندیدہ ہدف ہے۔ بال لگانے والے کلینکوں کے اشتہارات مردوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ اگر ان کے بال کم ہوئے تو ان کی وجاہت اور کامیابی کا گراف فوری طور پر گر جائے گا۔ وجیہہ اور کم عمر نظر آنے کے شوق میں مردلاکھوں روپے خرچ کرکے تکلیف برداشت کرتے ہیں اور ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنس جاتے ہیں جو کہیں نہیں رکتا۔
سرمایہ دارانہ نظام تمام افراد کو پیداواری ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے جہاں مالک اپنے ملازمین سے آٹھ کے بجائے سولہ گھنٹے کام کرنے کی توقع کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسی بھی شخص کو صحت کی حفاظت اور نشونما کیلئے جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا اور نتیجتاً لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس طرز زندگی کا نتیجہ بڑھے ہوئے وزن اور بے ڈول جسم کی صورت میں نکلتا ہے جس کا حل یہ استحصالی انڈسٹری مفت جِم، کھیلوں کے میدان اور تفریحی پارکوں کے بجائے لائپوسکشن (فاضل چربی کو جراحی کر کے نکالنا۔ مترجم) اور دوسرے سرجیکل طریقوں کی صورت میں فراہم کرتی ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں مساوات ہو اورکسی بھی فرد کی قدر و قیمت اس کی دولت یا نام نہاد خوبصورتی کے بجائے اس کی ذہانت، صلاحیتیں اور قابلیت ہو وہاں لوگوں کو ایسے غیر انسانی معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تصور کیجیے ایک ایسا معاشرہ جہاں کوئی کسی کو بدصورت یا کمتر نہ سمجھتا ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ ہر شخص اپنے کام اور شعبے میں ترقی کرنے کیلئے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرے گا اور مرد اور خواتین ایک دوسرے کو انسانی خوبیوں کی بنیاد پر اکٹھے زندگی گذارنے کے لیے منتخب کریں گے۔ شوہر یا بیوی ٹرافی ہزبینڈ یا وائف نہیں ہوگی۔ لوگوں کو مستقل خوبصورت اورنوجوان نظر آنے کی ریس میں ہلکان نہیں ہونا پڑے گا۔ لوگ خود کو اور دوسروں کو اس طرح قبول کریں گے جیسے وہ ہیں نہ اس طرح کہ جیسے سرمایہ داری انہیں منافع خوری کیلئے دکھانا چاہتی ہے۔ ایسا مثالی اور انسان دوست معاشرہ اشتراکی نظام کے تحت ہی تخلیق کیا جاسکتا ہے جہاں ا فراد کا تشخص اشیائے ضرورت نہ ہوں، جہاں ایک مخصوص شکل، رنگت اور عمر نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص کو ناکارہ قرار نہ دیا جائے، جہاں ہر شخص اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کرنے کا اہل ہو۔
یہ معاشرہ ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سوشلزم میں ہی تخلیق کیا جا سکتا ہے جس میں انسانی پیداوار منافعوں کے بجائے ضرورت کی بنیاد پر کی جائے اور انسان حقیقی طور ایک فطری زندگی سے لطف اندوز ہو۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – خیبر پختونخواہ: طبقاتی نظام تعلیم پر یونیفارم کا پردہ ڈالنے کی کوشش