|تحریر: عرفان منصور|
کیا حادثات و واقعات ایک اتفاقیہ امر ہوتے ہیں یا کوئی لازمیت پنہاں لیے ہوتے ہیں؟ کیا کرونا وائرس کے سبب دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں مرنے والے یا بیمار ہونے والے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو صرف اس لیے نہیں بچایا جاسکتا کہ ناگہانی آفات قدرت کا فیصلہ ہوتی ہیں جن کے سامنے انسان دم نہیں مار سکتا ہے؟ کیا اس وائرس کے سبب پھیلتی غربت، بیروزگاری اور قحط کو لگام نہیں دی جاسکتی؟ یعنی یہ سب اس بات کا اظہار ہے کہ ہزاروں سالوں کی انسانی تہذیب اور سینکڑوں سالوں کی سائنسی ترقی آج بھی قدرت کے سامنے مکمل بے بس ہے؟
نہیں، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر پچھلی چند دہائیوں میں صحت کے شعبہ میں ہونے والی ایجادات، دریافتوں اور ترقی پر سرسری نظر بھی دوڑائی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کرونا وائرس کے سبب پھیلنے والی تباہی سے بڑے پیمانے پر محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ مگر گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ کے عرصے میں صحت کے شعبے میں بجٹ کی مسلسل کٹوتی نے ہماری اس صلاحیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔
یورپ کے سب سے زیادہ متاثرہ ملک اٹلی میں صحت کے شعبے میں حکومتی کٹوتیوں کے سبب نہ صرف 2017-2009 ء کے دوران 46500 صحت کے ملازمین کو بیروزگار کیا گیا بلکہ ستر ہزار کے قریب ہاسپٹل بیڈز بھی کم کر دیئے گئے۔ 1975ء میں جہاں ہر ہزارافراد کے لیے اوسطاً 10.6 بیڈز موجود تھے وہاں 2019ء میں یہ تعداد بڑھنے کی بجائے انتہائی کم ہوکر اوسطاً2.6 تک پہنچ جاتی ہے جوکہ دل دہلا دینے والی خوفناک حقیقت ہے۔ بات صرف اٹلی ہی کی نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی صحت کے شعبے میں اسی دوران 30 فی صد کٹوتی کی گئی۔ سرمایہ داری کی جنت یعنی امریکہ میں 2012 ء میں اوباما دور میں صحت عامہ کے فنڈ میں 6 ارب ڈالر کی اور ٹرمپ کے دور حکومت میں 750 ملین ڈالر سے زائد کی کٹوتیاں کی گئی جس نے ان ممالک کی کرونا سے لڑنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر مفلوج زدہ کر دیا جس کی قیمت وہاں کے عوام اپنی جانوں کے ضیاع سے ادا کر رہے ہیں۔
مگر منہ چڑانے والی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کٹوتیاں 2008ء کے بحران کے نتیجے میں انسانی خون چوسنے والے بڑے بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے بیل آؤٹ پیکج دینے کے لیے کی گئیں۔ عوامی فلاح کے شعبوں میں حکومتی فنڈنگ کو مسلسل کم کر کے ان سرمایہ داروں کی دولت کو بڑھایا گیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ فوربز 400 کی دولت، جوکہ 2009ء میں 1.29 ٹریلین ڈالر تھی، 2019 ء میں دوگنا سے بھی بڑھ کر 3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی۔اس کے علاوہ پچھلی تین دہائیوں میں ایک فی صد امرا کی دولت میں 1 ٹریلین ڈالر کا اضافہ جبکہ غریب 50 فی صد لوگوں کی دولت میں 900 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ریاستوں کے حکومتی قانون سازوں کے غلط فیصلوں کی صف ماتم محنت کش طبقے کے گھروں میں بچھی پڑی ہے جس پر کرونا کا بے رحم تماشا جاری و ساری ہے۔
سرمایہ داری، صحت کے لیے زہر قاتل!
یوں تو منڈی کی معیشت کے سینکڑوں فوائد نصاب سے لے کر چوہا دماغ لبرلز کی انگلیوں پر گنوائے جاتے ہیں اور منصوبہ بند معیشت پر اس کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے دفتر سیاہ ہوچکے ہیں مگر یہ منڈی کی معیشت ادویات سازی اور ان کے لیے ریسرچ کے شعبہ جات کو ایک دیمک کے مانند چاٹ رہی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں سارس، مرس(MERS)، زیکا اور ایبولا جیسے کئی وائرس لاکھوں جانوں کو لقمہ اجل بنا چکے ہیں مگر اب تک منڈی کی شاندار معیشت صرف ایک ویکسین لانے کا معجزہ دکھا سکی ہے جوکہ ایبولا کے لیے ہے۔
مارچ کے اوائل میں، ییل اسکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر شوارٹز نے اٹلانٹک اخبار سے بات کرتے ہوئے یہ قلعی کھولی کہ اگر سارس کے لیے ویکسین کی تیاری کا عمل نہ روکا جاتا تو آج کوویڈ19 یعنی کرونا وائرس کے لیے ویکسین کی تیاری میں ہم کافی ترقی کر چکے ہوتے۔مگر ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟ صرف منافع کی ہوس کے سبب ویکسین کی تیاری کے لیے وائرس کے جینوم کو پڑھنا، اور اس کے لیے ویکسین کی تیاری ایک بہت ہی وقت طلب اور مہنگا عمل ہے اور جب تک یہ مکمل ہوتا ہے اس وقت تک عموماًوبا اپنا فطری وقت مکمل کرنے کے قریب ہوتی ہے جو کہ اس ویکسین کی مانگ کو کم کردیتاہے اور اس سے منافع کی گارنٹی غیر یقینی ہو جاتی ہے۔ آخری”شاندار ویکسین“ جو ان نجی دوا ساز کمپنیوں نے بنائی وہ HPV کے لیے مرک کی Gardazil تھی جوکہ 2006ء میں بنالی گئی تھی۔یہ دواسازی کے ضمن میں منڈی کی معیشت کا نتیجہ ہے کہ ہر سال بڑھتے ہوئے منافعوں کے باوجود انسانی صحت بچانے کے لیے نئی دوائیاں بنانے کا قحط پڑا ہوا ہے صرف اس سبب کہ یہ وقت طلب اور مہنگا عمل ہے۔اس کے سبب، نجی دواساز کمپنیاں خود کو اس مشقت میں جھونکنے سے پرہیز کرتی ہیں اور مستقل منافع کے رستے تلاش کرتی ہیں اور انسانوں کی بڑی تعداد کو موت کا عذاب سہنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قومی ریاست اور نجی ملکیت: دنیا پر طاری دو بڑے بوجھ
دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح کرونا کے خلاف بھی لڑائی اور صحت کے مسائل کے حل میں دو بڑی رکاوٹیں قومی ریاست اور نجی ملکیت ہی ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ یورپی یونین کا شیرازہ بکھر رہا ہے، تمام ممالک اپنی سرحدیں بند کر چکے ہیں اور بجائے اس کے منصوبہ بندی کے تحت تمام ممالک مل کر اس کے خلاف لڑتے، سرمایہ دارانہ ریاستیں اپنے قومی مفادات کی خاطر کوئی واضح عالمی منصوبے کی طرف جانے سے قاصر ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے ادارے بھی کسی طرح کے جامع مثبت قدم اٹھانے سے عاجز دکھائی دے رہے ہیں جو کہ آج ہمارے سامنے مسائل کو حل کرنے کے لیے قومی ریاست کے اپاہج پن کو مکمل طور پر عیاں کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، اگر دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو وہ بھی ہمارے معاشرے کو اتنا ہی اپاہج کر رہا ہے جتنا کہ قومی ریاست۔دوائیاں اور انکے لیے ریسرچ انٹلکچوئل پراپرٹی ہونے کے سبب، دوا سازی کمپنیوں کی نجی ملکیت ہی شمار ہوتی ہیں جن سے یہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔اس کا اظہار کرونا وائرس کی لیے کی جانے والی ریسرچ میں ہوتا ہے کہ جب ٹرمپ نے جرمن حکومت کوکہا کہ اگر ویکسین تیار ہوتی ہے تو وہ منہ مانگی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہے جس کا مقصد انسانی جانوں کا تحفظ نہیں بلکہ امریکی کمپنیوں کے نام پر پیٹنٹ حاصل کرکے بے پناہ منافع بٹورنے کا ہے۔ سرمایہ داری کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب ان دوا ساز کمپنیوں نے انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے منافع بٹورے ہیں اور جہاں منافع نہیں دکھتا وہاں انکے لیے انسان کی کوئی وقعت نہیں۔جسکا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے 90 فیصد لوگ جن امراض سے مرتے ہیں ان کے لیے دنیا میں صحت کے متعلق ہونے والی ریسرچ کا صرف 10 فیصدخرچ کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز کے ہیڈ، ڈاکٹر ہاروے بیل جونئیر نے کہا کہ غریب دنیا کے ضمن میں بات کی جائے تو وہاں مارکیٹ موجود نہیں ہے۔مزید، ایم-ایس-ایف کے ڈاکٹر برنارڈ کے الفاظ کہ”منافع کی ترجیح آپکو امیر ممالک کے تیس سے چالیس کروڑ افراد تک محدود کردیتی ہے“۔ یہ افرادایک ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کیونکہ لوگوں کی قوت خرید مسلسل کم ہونے کے سبب منافع خوری کے امکان کم ہیں اس لیے ہم ان کے لیے دوائیاں تیار نہیں کر سکتے ہیں۔
آج کی یہ معروضی دنیا چیخ چیخ کر ہم پر ایک ہی عقدہ کشا کررہی ہے کہ جس نہج پر یہ نظام آچکا ہے وہاں سے دو ہی راستے نکلتے ہیں، ایک بربریت کی طرف کہ جس طرف ہم بڑھ رہے ہیں اور دوسرا اس نظام کو نیست و نابود کر کے ایک انقلاب کے ذریعے ایسے نظام کی بنیاد رکھنے کی طرف کہ جو نجی ملکیت جیسی برائی کا ہی خاتمہ کرتے ہوئے اس سے جڑی غلاظتوں کو زمین دوز کردے اور جو قومی ریاست کے تضادات اور مفادات پر عالمگیر محنت کشوں کے مفادات کو ترجیح دے۔ یہی دوسرا راستہ ہی تعمیر کا،بہتری کا اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ یہ سوشلزم کا راستہ ہے۔