|تحریر: ولید خان|
کلکتہ میں آر جی کار میڈیکل کالج میں ایک پوسٹ گریجویٹ ٹرینی لیڈی ڈاکٹر کا گینگ ریپ اور قتل۔ مدھیہ پردیش میں ایک کوڑا چننے والی خاتون کو شراب پلا کر سڑک پر ریپ کر دیا گیا، کسی نے رک کر متاثرہ خاتون کی مدد نہ کی۔ کراچی میں بارہ سالہ بچی کا ریپ۔ گجرات میں گیارہ سے چودہ سالہ پانچ بچیوں کا اسکول ٹیچر کے خاوند نے ریپ کیا۔ پچھلے چار مہینوں میں لاہور شہر میں 235 ریپ کے واقعات ہوئے۔ اس سال پیرس اولمپکس میں حصہ لینے والی یوگینڈا کی میراتھن رنر ربیکا چیپ تیگی کو اس کے بوائے فرینڈ نے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، خاتون چند دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی۔ فرانس میں 71 سالہ پینشنر خاوند 10 سال اپنی بیوی کو بے ہوش کر کے 72 افراد سے 100 سے زائد مرتبہ ریپ کرواتا رہا اور ویڈیوز اور تصاویر بناتا رہا۔
پوری دنیا میں کوئی دن ایسا نہیں جب ترقی یافتہ ممالک سے لے کر نام نہاد ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک تک خواتین کے ریپ یا جنسی ہراسانی کی روح جھلسا دینے والی بیسیوں خبریں ذرائع ابلاغ میں نہیں آتیں۔ کوئی ایسا شعبہ زندگی نہیں جہاں خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر ہراسانی یا اس سے بھی بڑھ کر جسمانی زیادتی کی اذیت برداشت نہ کرنی پڑتی ہو۔ 2019ء میں ایک خفیہ آن لائن سروے کے مطابق اقوام متحدہ میں 38.7 فیصد ملازم خواتین نے جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے یعنی دنیا بھر میں عوام کو جس ادارے سے امیدیں لگانے کا دہائیوں سے درس دیا جا رہا ہے کہ یہ جنگیں ختم کروائے گا، انسانی حقوق کو تحفظ دے گا، وہی ادارہ اپنی ملازم خواتین کو ہی تحفظ دینے کے قابل نہیں ہے۔ 2023ء میں IPSOS نے 117 ممالک میں 5 ہزار 200 سائنسدانوں کا ایک سروے کیا جس کے مطابق ہر دو میں سے ایک خاتون سائنس دان نے کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے، یعنی انسانی تحقیق و ایجاد کی چوٹی پر بیٹھی خواتین بھی جنسی ہراسانی سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار خواتین کو درپیش مسائل کا عشر و عشیر بھی نہیں ہیں۔
سرمایہ داری کی بنیاد مزدور کی محنت کا استحصال، طبقاتی تفریق اور سرمایہ دار طبقے کا محنت کش طبقے پر غلبہ ہے۔ اس کے ساتھ جہاں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو منقسم رکھنے کے لیے تقسیم در تقسیم کے عمل میں رنگ، نسل، مذہب، زبان وغیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے وہیں مردوں اور عورتوں کو بھی غیر فطری طور پر تقسیم کر کے رکھا جاتا ہے۔ نجی ملکیت اور منافعے کے حصول کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کی نصف آبادی کو ایک دوسرے سے بیگانہ رکھا جائے اور خواتین کو نئے مزدوروں کی پیدائش اور پرورش کے لیے تابع رکھا جائے۔ پوری دنیا میں محنت کش خواتین اور طالبات نے دہائیوں کی جدوجہد میں جو بھی حقوق حاصل کیے تھے، آج بیمار اور زوال پذیر سرمایہ داری ہر حق کو غصب کر رہی ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں یہ صورتحال اور بھی تشویشناک ہے۔ یہاں ریپ اور جنسی ہراسانی کے ساتھ کاروکاری، ونی، کم عمر میں زبردستی شادی اور تیزاب گردی جیسی روایات اور واقعات نے سماج کو شل کر رکھا ہے۔ کتنی بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی اسقاط حمل کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے، اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ کہیں پر کوئی مکمل اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کیونکہ سماجی لعن طعن اور بے عزتی کا خوف اور خواتین کی طرف عمومی ہتک آمیز رویے میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ جبر جہاں خاتون مزدور کو کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام اور نوکری کو برقرار رکھنے کے لیے جنسی ہراسانی کو برداشت کرنے پر مجبور رکھتا ہے، وہیں قرون وسطیٰ کی فرسودہ روایات اور اخلاقی جبر کا شکار خواتین بھی ایسی باتوں کے منظر عام پر آنے سے ڈرتی ہیں۔ پھر طاقت کا اظہار جنسی تشدد کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں ہراسانی اور ریپ سرفہرست ہیں۔ اس میں ہندو لڑکیوں کے اغواء اور جبری شادیوں سے لے کر نام نہاد جرگوں اور پنچایتوں کی سرپرستی میں سزا کے طور پر ریپ کرنا سب شامل ہیں۔ سماج میں معاشی بدحالی اور عمومی تناؤ کی وجہ سے سماج میں کمزور ترین افراد ہی غصے کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسی لیے ضعیف ماں باپ سے بدتمیزی یا جائیداد کے معاملات میں ان کا قتل، خواتین پر گھریلو تشدد اور بچوں کی مار پیٹ روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔
یہ تمام معاشرتی جرائم ریاست کی آشیرباد میں ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ استحصالی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بدمعاشوں اور سٹہ بازوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے علاقوں میں خوف، جبر، جرم اور تشدد کے ذریعے اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ تھانے کچہری سے عدالت تک تضحیک اور خواتین مخالفت کا ایک بازار گرم ہے جس میں انصاف کا سوچنا ویسے ہی ایک مذاق ہے۔ غریب خاندان اپنے بچوں کو کسی مکینک کی دکان اور بچیوں کو کسی خوشحال گھر میں کام کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ شاید اس طرح روٹی کا کوئی بندوبست ہو جائے۔ لیکن ہر کچھ عرصے کے بعد خبر آتی ہے کہ فلاں جج یا وکیل نے یا اس کی بیوی نے طیش میں آ کر گھر پر کام کرنے والی چھوٹی بچی کو مار مار کر ایک کھلونے کی طرح توڑ دیا یا اس کو جلا دیا۔
جب قانون کے نام نہاد محافظ اپنے گھروں میں بچیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہے ہیں تو ان سے انصاف کی امید لگانا ہی بیکار ہے۔ لبرل خواتین اور این جی اوز نے ان تمام جرائم اور مصائب پر اپنا الگ کاروبار چلا رکھا ہے۔ یہ خواتین خود بھی زیادہ تر اس سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جس نے مزدور طبقے اور خاص طور پر خواتین مزدوروں کا استحصال کرنا ہوتا ہے یا پھر درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں سے ان کا تعلق ہوتا ہے جو حکمران طبقے کی ملازمت کر کے اپنے کیریئر یا دولت میں اضافے کی امیدوار ہوتی ہے جبکہ گھروں میں ملازمائیں چوبیس گھنٹے ان کی غلام بنی ہوتی ہیں۔
یہ خواتین و حضرات خیرات اور امداد کے نام پر پیسے بٹورنے کے ساتھ اسی غلیظ معاشی نظام میں امید قائم رکھنے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ ممکنہ بغاوت کو ٹالا جا سکے اور سرمایہ دار طبقے کا استحصال اور عیاشی جاری رہیں۔ فیمینسٹ بھی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو صنفی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے درپے ہیں اور اصطلاحات میں تبدیلی اور محض قانون سازی کے ذریعے خواتین کے حقوق حاصل کرنے کی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ میں وہ اس استحصالی نظام اور طبقاتی تفریق پر بات ہی نہیں کر سکتے جس کی بنیاد پر آج کا سماجی ڈھانچہ کھڑا ہے اور اپنا مکروہ اظہار کر رہا ہے۔
مذہبی عناصر خاص طور پر اس وقت ریاست کی جانب سے جبر کا سب سے خوفناک اوزار بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ ریاست عوام کی بھاری اکثریت کو مناسب روزگار اور باعزت زندگی فراہم نہیں کر سکتی اس لیے آئے روز فتووں کے ذریعے، خواتین کی حرمت اور مختلف گھریلو کرداروں جیسے ماں، بہن، بیوی وغیرہ کو صبح شام بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اسی ریاستی صنفی جبر کی پالیسی کو تقویت دیتے ہیں، جس کا مقصد خواتین کو غلام بنائے رکھنا اور محنت کش طبقے کو منقسم رکھنا ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ ایک عورت کا گھریلو یا سماجی کردار کیا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کسی بھی گھریلو یا سماجی کردار سے پہلے عورت ایک انسان ہے بھی یا نہیں؟ اس کے علاوہ سماج میں کوئی بھی رجعتی واقعہ ہو یا مزید قانون سازی کر کے خواتین کے استحصال میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو ان مذہبی عناصر کی حمایت یقینی ہے۔ اس طرح لبرلز، این جی اوز، فیمنسٹ اور مذہبی عناصر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصال کی پردہ پوشی اور حکمران طبقے کی صبح شام لوٹ مار اور صنفی جبر کی ستر پوشی کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
زیر بحث موضوع کا ایک اہم ترین عنصر حکمران طبقے کی خواتین ہیں۔ محنت کی منڈی نے جس طرح گھریلو خواتین کو گھر سے نکل کر کام کرنے پر مجبور کیا ہے اسی طرح اپنے طبقاتی مفادات کی بڑھوتری کے لیے حکمران طبقے کی خواتین بھی بڑے پیمانے پر سیاست اور کاروبار میں شامل ہوئی ہیں۔ طبقہ بالا کی خاتون کو چیف منسٹر، سیاسی پارٹی کا چیئرمین یا پھر کسی کمپنی کا چیف افسر بنا کر عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سماج خواتین کے لیے تبدیل ہو چکا ہے، یہ مثالیں آپ کے سامنے ہیں اور یہ ذمہ دار افراد صبح شام عوام اور خاص طور پر خواتین کے مسائل پر مغز ماری میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سوال نجی ملکیت، منافع اور قدر زائد کی لوٹ مار کا ہے۔ اس کے لیے حکمران طبقہ معاشی رشتوں، اس پر بننے والے سماجی رشتوں اور پھر ان سب سے تخلیق ہونے والے ریاستی اور دیگر اداروں کے ذریعے محنت کش طبقے کو دبا کر رکھتا ہے اور استحصال جاری رکھتا ہے۔ اس جرم میں حکمران طبقے کی خاتون بھی اپنے طبقے کے مرد حضرات کے برابر شریک ہے کیونکہ طبقاتی بقاء اور بالادستی کے لیے یہ عمل لازم ہے۔ اس کی سب سے بڑی حالیہ مثال چند ہفتوں پہلے کراچی میں ملتی ہے، جب ایک ارب پتی عورت نتاشا دانش نے اپنی لینڈ کروزر سے ایک ساٹھ سالہ محنت کش عمران عارف اور اس کی بائیس سالہ بیٹی آمنہ کو کچل ڈالا اور تین دیگر افراد زخمی کر دیے۔
ارب پتی باپ کی بیٹی اور ارب پتی خاوند کی بیوی کو بچانے کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ گئی۔ رینجرز کی حفاظت میں جائے وقوع سے اسے بچا کر نکال لے جانے سے لے کر قابل ضمانت دفعات کی ایف آئی آر تک میں ریاست، وکلاء، سندھ حکومت، پولیس اور عدلیہ سب ملوث تھے۔ عوامی احتجاج پر خاتون پر دیت کی تعزیر لگا دی گئی جس میں دیت نہ دینے کی سزا تو ہے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی سزا نہیں ہو سکتی۔
بالآخر قتل ہونے والے باپ بیٹی کے غریب خاندان کو شدید دباؤ، پانچ کروڑ روپے اور ایک نوکری کے عوض خرید لیا گیا جبکہ خاتون صاف بچ کر نکل گئی ہے بلکہ اب خبروں میں کہیں اس کا ذکر تک نہیں۔ یہ پیسے خاتون کے خاندان کے لیے شاید ایک گھنٹے کا منافع ہو۔ اس خاتون کے ہی طبقاتی پیٹی بہن بھائیوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر وہ قوانین بنائے جن کو استعمال کرتے ہوئے حکمران طبقے کی اس عورت کو بچانے کی تمام راہ ہموار کی گئی۔
دوسری طرف محنت کش طبقے کی کچلی گئی بیٹی کے لیے کسی ایک سیاسی پارٹی، این جی او، نام نہاد سماجی کارکنان اور لبرل حضرات کے منہ سے ہمدردی کا ایک جھوٹا لفظ تک نہیں نکلا۔ پھر’انصاف‘ کا یہ عالم ہے کہ جیلوں میں غریب خواتین اس لیے قید ہیں کہ ان کے پاس وکیل کرنے یا ضمانت کرانے کے پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے جب بھی خواتین کے حقوق یا ان کو درپیش خوفناک سماجی مسائل کی بات ہو تو یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ کس طبقے کی خواتین اور کن حقوق کی بات ہو رہی ہے۔
دنیا بھر میں یورپ سے لے کر امریکہ اور لاطینی امریکہ تک مختلف ممالک میں پچھلے کئی سالوں میں خواتین کی ریپ اور جنسی ہراسانی کے خلاف دیوہیکل تحریکیں بنی ہیں۔ پاکستان میں بھی پچھلے چند سالوں میں مختلف صوبوں کی یونیورسٹیوں میں طالبات نے جنسی ہراسانی کے خلاف اور عوام نے بچیوں کے ریپ واقعات کے خلاف تحریکیں چلائیں ہیں۔ محض قانون سازی یا قوانین پر عمل درآمد کے مطالبات کے برعکس خواتین کے استحصال اور سماج میں ثانوی حیثیت کی بنیادوں کو سمجھنا ضروری ہے جو نجی ملکیت، وراثت، منافع اور حکمران طبقے کے کنٹرول، بالادستی اور طاقت کے اظہار سے جڑی ہوئی ہیں۔
ان سب کے خاتمے کے بغیر خواتین کی حقیقی آزادی ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے محنت کش طبقے، غریب کسانوں اور طلبہ کو یکجاء ہو کر ان تمام مسائل اور جرائم کی بنیاد یعنی سرمایہ داری اور اس کی پروردہ ریاست کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی۔ اس کی جگہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند پیداوار کا سوشلسٹ نظام لانا ہو گا جس کے ذریعے سماج کو درپیش تمام مسائل حل ہوں گے۔
خواتین کو حقیقی آزادی اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب وہ معاشی اور سماجی طور پر آزاد ہوں اور کسی مرد پر اپنی سماجی بقاء کے لیے منحصر نہ ہوں۔ اس پیرائے میں در حقیقت محنت کش مردوں اور خواتین کا فطری اتحاد بنتا ہے کیونکہ اگر ظلم و جبر کے نظام سے انفرادی اور اجتماعی آزادی حاصل کرنی ہے تو وہ ایک مشترکہ اور متحد جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے ایک ایسی انقلابی پارٹی درکار ہے جو انقلابی نظریات، درست پروگرام اور لائحہ عمل کے ذریعے محنت کش عوام کی حمایت کے ساتھ سرمایہ داری اور سرمایہ دار حکمران طبقے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے۔ آج پاکستان کے طول و عرض میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی اسی بنیاد پر محنت کشوں اور نوجوانوں کو منظم کر رہی ہے۔ ہم حقیقی آزادی کے تمام خواہش مند افراد کو اس انقلابی جدوجہد میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔