|تحریر: سیما خان|
8 مارچ ہر سال انٹرنیشنل ورکنگ وومن ڈے کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے مگر اس سال یہ دن ایک ایسے وقت میں منایا جارہا ہے جب عالمی سرمایہ داری شدید بحران کی زد میں ہے اور دنیا کی کوئی ریاست اس بحران سے آزاد نہیں۔ پچھلے سال کا اختتام اور اس سال کا آغاز بھی طبقاتی جد وجہد کے دھماکوں کے ساتھ ہوا اور پوری دنیا میں طبقاتی کشمکش ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ حکمرانوں کے پیدا کیے گئے اس بحران کا خمیازہ، محنت کش عوام پر ٹیکسوں، کٹوتیوں اور معیار زندگی پر حملوں کی صورت میں ڈالا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے ان حملوں نے تمام محنت کشوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے مگر ان حملوں سے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں وہ محنت کش خواتین ہیں۔ مگر اب عہد بدل چکا، عالمی معاشی نظام کی ٹوٹ پھوٹ سے جہاں حکمرانوں کے عوام پر حملوں میں تیزی آئی وہیں محنت کشوں نے بھی اس نظام کے خلاف بغاوت کا آغاز کر دیا ہے۔ ان بغاوتوں میں خواتین کی پے در پے تحریکیں بھی شامل ہیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لے رہی ہیں۔
ویسے تو اس دن عورتوں کے حوالے سے کئی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں خواتین کے حقوق اور ان پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف بات کی جاتی ہے۔ لبرل اور فیمنسٹ وغیرہ بھی یہ دن بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد یہی لوگ عورت کے استحصال میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ مل کر اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس دن کی بنیاد کس نے اور کیوں رکھی۔ تاریخی طور پر اس دن کی بنیاد کلارا زیٹکن نے رکھی ، جوکہ ایک جرمن سوشلسٹ سیاسی رہنما تھیں ، اور اسے سیکنڈ انٹرنیشنل کے ساتھ منسلک کیا ۔ ان سوشلسٹ خواتین نے اس دن کو ایک سوشلسٹ ایونٹ کے طور پر متعارف کروایا جس میں عورت کے ہر قسم کے استحصال کی مخالفت کی گئی اور عورت کے لیے مساوی حقوق اور مواقعوں کی بات کی گئی۔ یہ سوشلسٹ خواتین جانتی تھیں کہ عورت کے استحصال اور جبر کی بنیادی وجہ یہ طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد ہی استحصال پہ رکھی گئی ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ جب تک ظلم و ستم، جبر، استحصال، جنگ، خون اور عدم مساوات پر مبنی معاشرہ قائم رہے گا، خواتین کا استحصال ہوتا رہے گا۔ عورتوں کے حقوق کے ’’چیمپئن‘‘ فیمنسٹ اور لبرل خواتین و حضرات جوکہ خود اسی نظام کے طفیلیے ہیں، حالات کا بہت سطحی تجزیہ کرتے ہیں۔ اس دن کو منانے میں سماج کے مختلف طبقات بالخصوص مڈل کلاس کی مختلف پرتوں کی خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، مگر وہ خود بھی اس دن کی حقیقی بنیادوں سے آگاہ نہیں ہیں۔
8 مارچ، جوکہ 1914ء سے باقاعدہ طور پر خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کی بنیاد کلارا زیٹکن نے خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم، جبر، استحصال اور غیر مساوی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کے نتیجے میں رکھی، جس کی دوسری انٹر نیشنل نے بھرپور حمایت کی۔ مگر آج سے 102سال پہلے کا دن، یعنی 8مارچ 1917ء، وہ اہم دن تھا جو روس میں بالشویک انقلاب کے پہلے محرکات میں سے ایک ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں محنت کشوں نے آگے جاکر اقتدار حاصل کرلیا اور زار شاہی کے دور میں خواتین پر ہونے والے مظالم، جبر اور استحصال کا خاتمہ ہوا۔ آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف سوچ و فکر رکھنے والے لوگ اس دن کو تو بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد یہی لوگ عورت کے استحصال میں اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دن کا بنیادی مقصد عورت پر ہونے والے ہر قسم کے ظلم، جبر اور استحصال کی مخالفت کے ساتھ ساتھ عورت کے لیے مساوی مواقعو ں اور بنیادی جمہوری حقوق کا حصول تھا۔ عورت کے استحصال کی وجہ یہ طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد ہی استحصال پر رکھی گئی ہے، کیونکہ جب تک معاشرے میں ظلم و ستم، جبرواستبداد، جنگ و جدل اور عدم مساوات نہیں ہوگا سرمایہ دارنہ نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ مگر اس نظام کی استحصالی خصلت کومحض سماج کے اندر موجود مردوں کی جانب سے کیا جانے والا استحصال قرار دینا دراصل ظالم نظام کی حمایت کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس نظام کے اندر طبقات کی موجودگی اور سرمائے کی حاکمیت دراصل اس پورے ظلم، جبر اور استحصال کا مؤجب ہے، جو مرد اور خواتین پر طبقاتی حیثیت سے وارد ہوتا ہے، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ظلم، جبر اور استحصال معروضی حالات کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو درپیش مسائل کی نوعیت مختلف ہوتے ہیں جبکہ پسماندہ ممالک میں خواتین کو درپیش مسائل کی نوعیت مختلف ہے، مگر جو چیز مشترک ہے وہ اس ظالم نظام سے بیزاری اور بغاوت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے آج خواتین کو ایک شے(Commodity) کی حیثیت دے دی ہے، جوکہ ایک جنس کی طرح منڈی میں مختلف طریقوں سے بکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یوں عورت کی اصل آزادی اور حقوق کے لیے مزید راستے بند کیے جاتے ہیں۔ سوشلزم کی بات سچ ثابت کرنے کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ خاندان جو معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہوتا ہے ، کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج کے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خاندان میں غلبہ کس کا ہے یا پھر کون حکمران ہے۔ اس کا جواب خاندان اور معاشرے کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد مل جائے گا۔ عورت گھر کے تمام کام کاج کرتی ہے اور بچوں کی پرورش اور بزرگوں کی دیکھ بھال بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر اس کے اس کام کو کام ہی نہیں سمجھا جاتااور اسے صنفی ذمہ داری قرار دے دیا جاتا ہے۔اور اگر عورت گھر کے کام کاج کے ساتھ ملازمت بھی کرے تو یہ اس کا دہرا استحصال ہوتا ہے۔ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ایک ہی کام کی کم اجرت دی جاتی ہے، صرف یہی نہیں،ملازمت کے ساتھ عورت کو گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے، یوں عورت ایک کام کرنے والی مشین بن کر رہ جاتی ہے۔ عورت کا یہ استحصال سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ سرمایہ داروں کو محنت کشوں کی ایک نئی نسل درکار ہوتی ہے، اور عورت اس نسل کو پروان چڑھانے کا کام بنا کسی معاوضے کے ایک ذمہ داری کے طور پر کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو گھر کے کام کاج اور بچوں کی پرورش کا معاوضہ بھی سرمایہ داروں کو اجرت کی شکل میں ادا کرنا پڑتا،جس سے ان کے منافعوں میں کمی آتی۔ عورت کا یہ استحصال سرمایہ داروں کے منافعے کا باعث ہے،اس لیے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے عورت کے استحصال کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ۔
ہمیں ضرورت اس حاکم اور محکوم والے نظام سے نجات کی ہے جس کی حفاظت کے لیے سامراجی قوتوں نے لبرلز اور این جی اوز کی شکل میں اپنے چیلے چھوڑ رکھےہیں جو اسی نظام کی طرفداری کرکے درحقیقت عورت کے استحصال کے اہم سوال کو ڈھانکنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ وہ عورت کی آزادی کو محض مرضی کے کپڑے پہننے اور اس طرح کے دیگر معاملات تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت کی محکومیت کا باعث مرد ہیں۔ اس ضمن میں وہ طبقاتی سوال کو مکمل طور پر دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے مگر یہ لبرل حضرات اور این جی اوز بھول کر بھی سرمایہ داروں کی اس ناانصافی کے خلاف بات نہیں کرتے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عورت کے استحصال کو سرمایہ دارانہ نظام سے کاٹ کر پیش کیا جا سکے۔
اس دن کا بنیاد رکھنے والی سوشلسٹ سیاسی خاتون کلارازیٹکن جنہوں نے اپنی پوری جدوجہد خواتین کے بنیادی جمہوری اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے وقف کیا تھا اور ان کی جدوجہد کا مرکز یہی تھا کہ سوشلزم ہی عورت کو آزادی اوراس معاشرے میں برابری دلانے والا واحد نظام ہے کیونکہ سوشلزم عورت کو ایک جنس نہیں انسان سمجھتا ہے ۔ اصل میں تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استحصال کیوں اور کیسے شروع ہوا ۔ انسانی استحصال کی تاریخ بہت پرانی اور لمبی ہے لیکن یہاں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہیں کہ جب طاقت اور فیصلے کا اختیار چند ہا تھوں میں آ گیا تو وہا ں سے مختلف طاقتوں میں اپنی طاقت کا دائرہ بڑھانے کے لیے رسہ کشی کی شروعات ہوئی۔ جب تک معاشرہ غیر طبقاتی رہا تب تک عورت برابری کے ساتھ ایک مکمل انسان سمجھی جاتی تھی، اختیارات، طاقت اور دولت جب کچھ ہاتھوں میں سمانے لگےتب سے عورت کو بھی انہی ہاتھوں میں ایک شے کی سمجھا جانے لگا ۔ عورت کوصرف گھر کے کام کاج اور بچے پیدا کرنے کے قابل سمجھا جانے لگا، یا پھر آج کی کارپوریٹ دنیا نے اپنے منافع خوری میں اضافے کے لیے اسے مختلف برانڈز اور مصنوعات کی تشہیر کے لیے ایک جنس اور شے کی شکل دے دی ہے۔
جیسا کہ لینن نے کلارا زیٹکن کو مراسلات میں لکھا تھا کہ خواتین کے شرکت کے بغیر بالشویک انقلاب کا آنا ناممکن ہے۔ کیونکہ یہی مزدور اور عام عورت بالشویک انقلاب کی وجہ بنے اور زار شاہی کا خاتمہ کرکے ظالم نظام کا تختہ الٹ کرکے رکھ دیا ۔سرمایہ داری اور طبقاتی سماج میں ہونے والے مرد اور عورت کے استحصال نے یہ ثابت کیا کہ یہ نظام صرف چند افراد کے مفادات کا نظام ہے، جس کی بنیاد پر یہ صرف اربوں انسانوں کا شدید استحصال کرتا ہے اور اس نظام کو نیچرل کہہ کر اس کا دامن جھاڑا جاتا ہے، جو تاریخ کے آغازسے لے کر آج تک اربوں انسانوں کے خون سے رنگ چکا ہے ۔
یہاں پر ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ عورت کو اس کے استحصال کے اصل وجوہات سمجھائی جائیں اور انہیں اس سلسلے میں باشعور کر کے اس انقلابی تحریک کا حصہ بنایا جائے۔ جیساکہ کامریڈ لینن کے مطابق عورت کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی اور کامریڈ کلارا زیٹکن کے مطابق سوشلزم ہی عورت کے استحصال سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کے الفاظ میں انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہیں، سوشلزم یا بربریت۔