کینیڈا: کورونا وائرس وباء نے سب سے زیادہ خواتین کو متاثر کیا ہے

|تحریر: میلیسا کیلاغان؛ ترجمہ: ولید خان|

پوری دنیا میں کورونا وائرس وباء نے سماج کے ہر حصے کو متاثر کیا ہے اور کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ لیکن باریک بینی سے جائزے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ وباء نے سب سے زیادہ خواتین کو متاثر کیا ہے۔ خواتین مزدوروں کا صحت عامہ، بچوں کی پرورش، عمر رسیدہ کی دیکھ بھال اور درسی فرائض میں کلیدی کردار ہے جبکہ انہیں کم اجرت، غیر یقینی روزگار اور گھریلو اور جنسی تشدد کا بھی سامنا ہے۔ ان مسائل کو وباء نے اور بھی زیادہ گھمبیر کر دیا ہے۔

اردو میں یہ تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بیروزگاری اور عارضی روزگار
Statistics Canada کی 9 اپریل کی ایک رپورٹ میں ان شعبوں کا جائزہ لیا گیا ہے جنہیں اس وباء نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔۔۔رہائش اور اشیاء خوردونوش کی فراہمی (منفی 25.6 فیصد)، شعبہ تعلیم (منفی 10.4 فیصد)، ہول سیل اور ریٹیل (منفی7.4 فیصد)۔ ان شعبوں میں منفی اثرات کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہیں۔

Canadian Center For Policy Alternatives کی ایک رپورٹ میں Statistics Canada کے ان اعدادوشمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر شعبوں (صحت، سماجی امداد، فنانس، انشورنس، پراپرٹی، کرائیوں اورلیز اور کاروبار، تعمیرات اور دیگر سپورٹ سروسز) میں ختم ہونے والی نوکریوں کے تقریباً 100 فیصد اثرات خواتین پر پڑے ہیں۔ مزدوروں میں خواتین کی شرح تقریباً 47 فیصد ہے لیکن تمام ختم ہونے والی نوکریوں میں ان کی شرح 63 فیصد ہے۔ 25-54 عمر کے مزدوروں میں 70 فیصد خواتین کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ”بیروزگاری کے یہ اعداوشمار جتنے بھی گھمبیر ہیں ان میں وہ افراد شامل نہیں ہیں جو سرے سے محنت کی منڈی چھوڑ چکے ہیں اور گھر بیٹھے بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں یا پھر بیمار ہیں اور مستقبل قریب میں ان کی واپسی کی کوئی امید نہیں۔ فروری اور مارچ کے دوران محنت کی منڈی سے خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد باہر ہو گئی ہے۔ 25-54 عمر کی خواتین میں 1 لاکھ 45 ہزار آٹھ سو (10.5 فیصد) اضافہ ہوا“۔

ماضی کے بحرانوں کے مقابلے میں یہ اعدادوشمار بہت زیادہ گھمبیر ہیں جن میں زیادہ تر بیروزگاری کا شکار مرد ہوتے تھے کیونکہ ”اشیاء کی پیداوار والی صنعتیں جیسے تعمیرات اور مینوفیکچرنگ پر کاروباری چکر (Business Cycle) کے زیادہ اثرات پڑتے ہیں یا کم از کم تاریخی طور پر ایسا ہوتا ہے“، ان میں زیادہ تعداد مرد مزدوروں کی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، کورونا وباء کے سب سے زیادہ منفی اثرات سروسز سیکٹر پرپڑے ہیں جہاں خواتین کی بھاری تعداد موجود ہے۔ 9 اپریل کو iPolitics کی ایک رپورٹ کے مطابق ”بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر رہائش اور اشیاء خوردونوش سروسز (24 فیصد)، انفارمیشن، کلچر اور تفریح (13.3 فیصد) اور تعلیم (9.1 فیصد)وغیرہ کے شعبے ہوئے“۔

عالمی طور پربھی یہ رجحان موجود ہے۔ مثلاً مرکزی امریکہ میں ان تمام شعبوں میں خواتین کی تعداد 59 فیصد، جنوب مشرقی ایشیا میں 49 فیصد اور جنوبی امریکہ میں 45 فیصد ہے۔ 9 جون کو Pew Research کی ایک جاری کردہ رپورٹ کے مطابق متحدہ امریکہ میں فروری سے مئی کے دوران 90 لاکھ مردوں کے مقابلے میں 1 کروڑ 15 لاکھ خواتین بیروزگار ہوئیں۔ سب سے زیادہ بیروزگاری کا شکار ہسپانوی خواتین (منفی21 فیصد) تھیں۔ Institute For Women’s Policy Research (IWPR) کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ امریکہ میں فروری اور مئی کے دوران ختم ہونے والی نوکریوں میں سے 60 فیصد خواتین کی تھیں اور معیشت کے تمام سیکٹرز میں مردوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خواتین بیروزگاری کا شکار ہوئیں۔ متحدہ امریکہ میں ہوٹل، گیمنگ، اشیاء خوردونوش سروسز، مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، ڈسٹری بیوشن، لانڈری، ٹرانسپورٹ اور ایئرپورٹ انڈسٹریز میں 3 لاکھ مزدوروں کی نمائندہ یونین UNITE HERE کی ترجمان میگھن کوہورسٹ کے مطابق ان کی 98 فیصد ممبرشپ، جن میں سب سے زیادہ خواتین اور تارکینِ وطن تھے، بیروزگار ہو چکی ہے۔

اسکے ساتھ ساتھ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ زیادہ تر خواتین کو ان کم تنخواہ والی نوکریوں پر رکھا جائے گا جو کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ European Institute for Gender Equality (EIGE) کی ایک ریسرچ کے مطابق یورپی یونین میں مردوں کی 15.1 فیصد کی نسبت خواتین کی تقریبا 26.5 فیصد نوکریاں خطرے میں ہیں۔ جاپان میں خواتین کی تقریبا دو تہائی ایسی ”غیر مستقل نوکریاں“ ہیں جو کورونا وائرس کی وجہ سے ختم ہو رہی ہیں۔ صرف اپریل کے مہینے میں ہی کل 9 لاکھ 70 ہزار ایسی نوکریاں ختم ہوئیں ہیں اور ان میں 7 لاکھ 10 ہزار خواتین کی ہیں۔

شعبہ صحت اور عمر رسیدہ کی دیکھ بھال
شعبہ صحت اور عمر رسیدہ کی طویل معیاد دیکھ بھال کے شعبوں میں خواتین کورونا وائرس وباء سے مقابلہ کے لئے صفِ اول میں موجود ہیں۔ کینیڈا کے شعبہ صحت میں 82 فیصد خواتین ہیں اور مجموعی طور پر لیبر فورس میں 47 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔ کینیڈین ہوم نرسنگ میں 90 فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔

عالمی طور پر بھی اعدادوشمار اسی طرح ہیں۔ Organization For Economic Cooperation and Development (OECD) کی رپورٹ کے مطابق عالمی طور پر شعبہ صحت میں 70 فیصد خواتین ملازم ہیں اور اس شعبے میں تقریباً 95 فیصد طویل معیاد مزدور خواتین ہیں۔ International Labor Organization (ILO) نے رپورٹ کیا ہے کہ ان خواتین کو خطرناک اور شدید تھکاوٹ کی صورتحال کا سامنا ہے۔
”شعبہ صحت کے ملازمین اور خاص طور پر وہ ملازمین جو کورونا وباء سے لڑ رہے ہیں انہیں اکثر کام پر شدید تھکا دینے والی (اور بعض اوقات خطرناک) صورتحال کا سامنا ہے۔ انتہائی نگہداشت میں طویل اوقات کار، تحفظاتی سامان اور دیگر وسائل کی قلت، کم ملازمین اور شدید نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ملازمین کو بیماری اور منتقلی کے خطرت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، خاص طور پر کم یا درمیانی اجرتی ممالک میں“۔

The Royal Society of Canada Working Group on Long Term Care کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طویل معیاد صحت فراہمی سنٹرز میں اموات کی شرح دیگر ممالک سے کہیں زیادہ تھی۔ ”اگر دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو کورونا وباء کی وجہ سے نرسنگ ہومز میں کئی زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔۔کینیڈا میں 81 فیصد، آسٹریلیا میں 28 فیصد، امریکہ میں 31 فیصد اور اسپین میں 66 فیصد“۔

ان ملازمین پر کام کا دباؤ وباء میں اور بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ 1918ء میں ہسپانوی فلو وباء کے وقت بھی خواتین کو ان حالات کا سامنا تھا۔ طویل معیاد دیکھ بھال سنٹرز میں کمر توڑ کام کرنے والے سپورٹ سٹاف ملازمین کو اکثر کم از کم اجرت میں سولہ سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ اونٹاریو میں احتجاج سے پہلے تک ان ملازمین کو ایک سنٹر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اور اکثر ان کو کئی سنٹرز میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ مالکان کی حتی المقدور کوشش تھی کہ ان ملازمین کو پوری مراعات نہ دی جائیں۔ جبکہ دوسری جانب اس وباء کے دوران بھی اونٹاریو میں طویل معیاد دیکھ بھال سنٹرز کے مالکان اپنے آپ کو مختلف بونس سے نوازنے سے باز نہ رہے۔

ان سنٹرز میں خوفناک صورتحال اور اموات کو روکا جا سکتا تھا۔ کئی دہائیوں سے ملازمین ان حالات پر واویلا کر رہے تھے لیکن سیاست دانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی جن کو کٹوتیاں کرنے اور امراء اور بڑے کاروباروں کے ٹیکسوں میں کمی کرنے میں ہی دلچسپی تھی۔ 2019ء میں اونٹاریو حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ 2024ء تک صحت کے بجٹ میں 8 ارب ڈالر کی کٹوتی کریں گے جس پر شعبہ صحت کے ملازمین اور یونینز نے شدید احتجاج کیا۔ اونٹاریو شعبہ صحت میں فنڈ کی دائمی قلت۔۔ہسپتالوں کی راہداریاں مریضوں سے اتنی بھری ہوتی تھیں کہ انہیں ”راہداری صحت (Hallway Medicine)“ کا نام دے دیا گیا۔۔کئی سالوں سے سیاست دانوں کے نوٹس میں تھی اور کئی بار اس کی ملازمین نے نشاندہی کی لیکن نتیجہ عدم دلچسپی اور مزید کٹوتیاں ہی رہا۔ اب شعبہ صحت اور طویل معیاد صحت سنٹرز ے ملازمین، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے شدید تھکن اور خوفناک ڈبل شفٹوں کا شکار ہیں تاکہ کسی طرح سے مالکان اور سیاست دانوں کے اس پیدا کردہ بحران میں بھی مریضوں کو سہولیات فراہم کر سکیں۔

گھریلو تشدد

وباء کی وجہ سے خواتین پر گھریلو تشدد میں شدید ترین اضافہ ہوا ہے / تصویر: سینئر ایئر مین رسٹی فرینک


وباء کی وجہ سے گھریلو تشدد میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے ممالک میں ایک ہی عمل رونما ہو رہا ہے۔ ”یورپ میں یکے بعد دیگرے ایک ہی گھمبیر عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔۔حکومتیں گھریلو تشدد کے شکار متاثرین کے لئے کوئی بھی موثر اقدامات کئے بغیر لاک ڈاؤن کر دیتی ہیں۔ دس دن بعد گھریلو شکایات میں تیز تر اضافہ ہوتا ہے اور عوامی ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ پھر ہی حکومتیں کوئی اقدامات کرنے پر مجبور ہو تی ہیں“۔

کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد میں اضافے کی اطلاعات ملی ہیں۔۔سپین میں 18 فیصد، برطانیہ میں 25 فیصد اور فرانس میں 30 فیصد۔ چین میں پچھلے سال کے مقابلے میں ہیلپ لائن پر کالیں تین گنا بڑھ چکی ہیں۔

درحقیقت اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ Luke’s Place کی قانونی ڈائریکٹر پامیلا کراس (اوشاوا، اونٹاریو میں ایک تنظیم جو سنٹر ملازمین اور وکلاء کو سپورٹ اور ٹریننگ فراہم کرتی ہے) نے ایک انٹرویو میں کہا کہ:

”ایک تشدد کرنے والے کے ساتھ مستقل رہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاندان، دوستوں یا پولیس سے مدد کی اپیل کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی سنٹر یا وکیل کے ساتھ گفتگو بھی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ کام فون یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ ہوتا ہے۔ (کراس کا) اندازہ ہے کہ کچھ مظلوموں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ فی الحال کورنا وائرس وباء سے منسلک خطرات موجودہ تشدد سے زیادہ گھمبیر ہیں اور اگر فراری کے منصوبے میں مظلوم کے ضعیف والدین بھی شامل ہو ں تو پھر یہ کوئی قابلِ عمل آپشن نہیں رہ جاتا“۔

خواتین کے خلاف تشدد کوئی نئی بات نہیں۔ وباء سے پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق کینیڈا میں ہر چھ دن بعد ایک خاتون کو اس کا جنسی پارٹنر قتل کرتا ہے۔ Statistics Canada کے مطابق ہر چار میں سے ایک پرتشدد واقعہ جنسی پارٹنر کے تشدد کا ہوتا ہے جس میں شادی شدہ اور میل جول والے دونوں شامل ہیں۔ 2011ء میں جنسی پارٹنر تشدد کے تقریباً 97 ہزار 500 واقعات رپورٹ ہوئے جو ہر 1 لاکھ میں سے 341 مظلوم بنتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد خواتین ہیں۔

خواتین تنظیمیں دہائیوں سے دارالامان اور تشدد کے شکار خواتین کے لئے اضافی فنڈ کا مسئلہ اٹھا رہی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس سیاست دان بجٹ میں کٹوتی در کٹوتی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مئی 2019ء میں اونٹاریو میں فورڈ حکومت نے خواتین کے دارالامان فنڈ میں 17 ملین ڈالر کٹوتی کی۔ جگہ اور وسائل کی کمی وباء کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کے برعکس وباء نے سوچی سمجھی اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے پہلے سے کمزور کیے انفراسٹرکچر کو بے نقاب کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین خطرے کا شکار ہیں۔

وباء کے دوران خواتین پر جبر کی ایک اور غلیظ مثال بھیڑیا صفت مالکان کی ہے جو اس وباء کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیروزگاری اور مالی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کو ”سیکس کے بدلے“ رہائش کی غلاظت میں ڈوبنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ نیو فاؤنڈلینڈ اور لیبراڈور میں 80 افراد کے ایک سروے کے مطابق 36.3 فیصد کا کہنا تھا کہ مالک نے انہیں جنسی تعلقات کی آفر کی جن میں سے آدھوں نے کرائے میں کمی کا کہا اور 10.3 فیصد 18 سال سے کم عمر کی لڑکیاں تھیں جنہیں اس حوالے سے مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ دیگر ممالک میں بھی کئی خواتین نے اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ امریکہ میں ایک سروے National Fair Housing Alliance (NFHA) میں ایک خاتون نے بتایا کہ اسے بے دخلی کا سامنا تھا جب اس کے پراپرٹی منیجر نے سیکس کی آفر کی۔ ”اگر میں اس کے ساتھ سیکس نہ کرتی تو وہ مجھے گھر سے باہر نکال دیتا۔۔اکیلی ماں ہونے کی وجہ سے میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ میں اپنی رہائش نہیں کھو سکتی تھی“۔ اس غلیظ جنسی استحصال کے عمومی ہونے کے باوجود فورڈ حکومت نے ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق مالکان وباء کے دوران بھی مکینوں کی بے دخلی کر سکتے ہیں۔ اس سے مالکان کی طاقت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

بچوں کی دیکھ بھال اور دیکھ بھال کا کام
کورونا وائرس وباء کا ایک اور خوفناک پہلو، بچوں کی دیکھ بھال کے بوجھ کا خواتین پر بے تحاشہ بڑھ جانا ہے۔ لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے بھی خواتین سے گھریلو محنت کااضافی بوجھ اٹھانے کی توقع کی جاتی تھی۔ ILO کے مطابق خواتین دیکھ بھال کا تین چوتھائی غیر اجرتی کام سنبھالتی ہیں جس کو کئی خواتین ”دوسری شفٹ“ کہتی ہیں یعنی رسمی نوکری کے بعد گھریلو کام سنبھالنا۔

اپریل میں UNO کی Educational, Scientific and Cultural Organization کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر دس میں سے نو بچے گھر پر تھے۔ وباء میں بچوں والی خواتین ایک ہفتے میں اوسطاً 65 گھنٹے گھر کے کاموں میں صرف کرتی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے۔

بحران کے آغاز میں خواتین کے حوالے سے اس توقع کے نتیجے میں ان کی بیروزگاری کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا۔ امریکہ میں National Women’s Law Center کی ایمیلی مارٹن کے مطابق ”بچوں کی دیکھ بھال کے پورے سیکٹر کے بند ہونے کے ساتھ مالکان کے روزگار اور بیروزگاری کے فیصلوں کی وجہ سے خواتین تیزی سے سماجی لچک کھو رہی تھیں“۔ یہ صورتحال اکیلے سرپرست خاندانوں کے لئے اور بھی زیادہ مشکل ہے جن میں خواتین کی عالمی شرح 78.4 فیصد ہے۔

زیادہ تر خواتین کی نوکریوں سے بے دخلی ایک ایسا معاشی فیصلہ ہے جو جبری طور پر مزدور خاندانوں کو سکولوں کی بندش کی وجہ سے لینا پڑ رہا ہے۔ کینیڈین خواتین گھر کی 40 فیصد اجرت کماتی ہیں۔ The Atlantic کے مطابق
”اگلے چند ماہ میں انفرادی سطح پر بہت سارے جوڑوں کے فیصلے معاشی طور پر درست ہوں گے۔ وباء سے متاثر مریضوں کو کیا چاہیے؟ دیکھ بھال۔ قرنطینہ ہونے والے ضعیف افراد کو کیا چاہیے؟ دیکھ بھال۔ سکول بندش کی وجہ سے گھر رہنے والے بچوں کو کیا چاہیے؟ دیکھ بھال۔ یہ تمام تر دیکھ بھال۔۔بغیر اجرت کے دیکھ بھال کی محنت۔۔کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین پر پڑے گا کیونکہ مزدوروں کے موجودہ ڈھانچے کی ساخت ہی ایسی ہے“۔London School of Economics میں عالمی صحت پالیسی کی اسسٹنٹ پروفیسر کلیئر وین ہام نے کہا ”یہ صرف خواتین کے سماج میں دیکھ بھال کے روایتی کردار کا ہی سوال نہیں ہے۔۔یہ عملی سوالات ہیں۔ کس کو کم اجرت ملتی ہے؟ کس کو سماجی لچک میسر ہے؟“۔

اسی طرح بیروزگاری کے اعدادوشمار میں خواتین کی حقیقی بیروزگاری کی شرح چھپی ہوتی ہے۔ 6 جون کو Vancouver Sun نے رپورٹ کیا کہ
”حالیہ محنت کی منڈی سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کی مرحلہ وار معاشی کشائی میں مردوں کو خواتین پر بھاری سبقت حاصل ہے۔ مئی میں مردوں کی مارچ اور اپریل کے لاک ڈاؤن کے دوران کھوئی ہوئی 15 لاکھ نوکریوں میں سے 14 فیصد بحال ہو گئیں۔ اس کے برعکس خواتین کی 15 لاکھ کھوئی ہوئی نوکریوں میں سے محض 5 فیصد ہی بحال ہو سکی ہیں حالانکہ وباء کی وجہ سے سب سے پہلے سروس سیکٹر اور کم اجرتی نوکریاں خواتین کی ختم ہوئی تھیں۔۔معیشت دان آرمین یلنیزیان کے مطابق ایک اور وجہ یہ ہے کہ سکولوں اورڈے کیئر سینٹرز کی بندش کے بعد خواتین کو گھر وں میں بچوں کی دیکھ بھال کرنا پڑ رہی ہے۔۔جمعہ کو جاری ہونے والے اوٹاوا کے مئی میں روزگار کے حوالے سے اعدادوشمار کے مطابق دو ماہ مسلسل ریکارڈ بیروزگاری کے بعد 2 لاکھ 90 ہزار غیر معمولی نوکریوں میں بچوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر سامنے آیا۔ 94 ہزار کینیڈی محنت کی منڈی میں موجود نہیں لیکن کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق کام نہ کرنے کی وجہ ذاتی یا گھریلو ذمہ داریاں ہیں۔۔ان میں سے 80 فیصد خواتین ہیں“۔

کورونا وائرس لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین ملازمین کی نوکریوں میں کوئی خاطر خواہ بحالی ہو گی۔ Carleton University میں سوشل پالیسی کی ماہر جینفر رابسن نے نشاندہی کی کہ اگر کاروبار بحال ہو جاتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے درکار کوئی سہولیات موجود نہیں ہوتیں تو عارضی برطرفیاں اور کم اوقات کام مستقل بیروزگاریوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

تعلیم
Statistics Canada نے رپورٹ کیا کہ 2014ء میں کینیڈا میں 68 فیصد اساتذہ اور پروفیسر خواتین تھیں۔ 2011ء میں کنڈرگارڈن اور ایلیمنٹری میں 84 فیصد اور ہائی سکول میں 59 فیصد اساتذہ خواتین تھیں۔ اسی سال میں پہلے سالوں کے اساتذہ اور معاونین میں 97 فیصد خواتین تھیں۔

سکولوں کی بندش نے آدھی لیبر فورس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور یہ رائٹ ونگ سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو کئی سالوں سے اساتذہ پر مہنگے، غیر اہم اور ”ضرورت سے زیادہ عظیم دائیاں“ ہونے کے الزامات لگا رہے تھے۔ اس فروری کو اونٹاریو میں اساتذہ کی یونینز نے ڈوگ فورڈ کے تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف ہڑتال کی اور CTV کے ایک سروے کے مطابق 70 فیصدعوام اساتذہ کی حمایت کر رہے تھے۔ شعبہ صحت اور طویل معیاد صحت ورکرز کی طرح اس وباء نے اساتذہ، ڈے کیئر اور تعلیمی مزدوروں کی اہمیت کو شدت سے اجاگر کیا ہے۔

47 فیصد شرح کے ساتھ خواتین مزدوروں کا کینیڈین معیشت میں دیو ہیکل کردار ہے۔ اس وجہ سے وفاقی اور صوربائی حکومتیں تیزی سے سکول کھولنے کی پلاننگ کر رہے ہیں تاکہ خواتین کو کام پر واپس لگایا جا سکے اور مالکان کے لئے منافعوں کا سلسلہ دوبارہ جاری کیا جا سکے۔ اس کی مثال کیوبیک پریمئر فرانسوا لیگالٹ ہے جس نے مئی میں سکول دوبارہ کھول دیے۔

لیکن یہی حکومتیں سکولوں کو محفوظ انداز میں کھولنے کے لئے درکار وسائل فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حفاظتی سامان سے لے کر زیادہ اساتذہ کو نوکری دینا تاکہ کلاسوں کا حجم چھوٹا کر کے سماجی تفاصل کو یقینی بنایا جا سکے، اس طرح کے کوئی اقدامات کسی حکومت نے نہیں کئے جن کے ذریعے اساتذہ اور طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

سکولوں کو دوبارہ کھولنے کا مطلب طلبہ، اساتذہ، سٹاف، خاندانوں اور طلبہ کے ضعیف رشتہ داروں کوبیماری اور موت کے خطرات میں دھکیلنا ہے۔ انڈیانا میں ایک سکول کو کھولنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بند کرنا پڑا جب ایک طالب کا کورونا ٹیسٹ مثبت نکل آیا۔

آزادی کے لئے سرمایہ داری سے جنگ
وباء کی طرح وائرس کا خواتین پر انتہاؤں پر پہنچا منفی اثر ناگزیر نہیں تھا۔ چیچک کی ویکسین کے موجد ڈاکٹر بریلینٹ کے مطابق ”بیماری ناگزیر ہے۔۔وبائیں نہیں“۔ اگر موثر اقدامات کئے جاتے تو وباء کو پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔۔اس کے برعکس شعبہ صحت کی کٹوتیوں اور دہائیوں سے ناکافی اقدامات کا نتیجہ کینیڈا میں 9 ہزار اور عالمی سطح پر 7 لاکھ اموات ہے۔

اسی طرح شعبہ صحت، تعلیم، بچوں کی دیکھ بھال، طویل معیاد صحت سنٹرز، دارالامان اور دیگر سماجی سروسز میں دہائیوں سے لگائی جانے والی کٹوتیوں اور وسائل میں کمی نے خواتین کو انتہائی خوفناک حالت میں دھکیل دیا ہے جس میں بیروزگاری، زیادہ سے زیادہ کام، بیماری کا شدید خطرہ، گھریلو تشدد اور جنسی استحصال شامل ہیں۔ مزدوروں کو دہائیوں سے بتایا جا رہا ہے کہ تنخواہیں بڑھانے، بچوں کی سستی دیکھ بھال، خواتین کے لئے دارالامان اور دیگر سماجی اخراجات کے لئے وسائل موجود نہیں جبکہ سرمایہ دار کمپنیوں کو وباء میں بھی دیو ہیکل بیل آؤٹ دیے جا رہے ہیں۔ خواتین پر مسلط کردہ سروسز میں کٹوتیوں اور کم اجرتوں سے لے کر گھروں میں مفت کی محنت تک سب مالکان کے لئے دیو ہیکل منافعوں کا ذریعہ ہیں۔ یہ حالات کوئی انوکھے مسائل نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کا کلیدی خاصہ ہیں جو خواتین پر جبر کر کے ہی زندہ ہے۔

ایک کا دکھ سب کا دکھ ہے اور پوری مزدور تحریک کو خواتین مزدوروں کے مسائل کو ایجنڈے میں شامل کرتے ہوئے ان خوفناک مسلط کردہ حالات سے لڑنا ہو گا۔ اس کا مطلب مفت بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لئے مفت اور محفوظ رہائش کی جدوجہد ہے۔

اگر سکول کھولنے ہیں تو یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ سکول اسی وقت کھلیں گے جب مزدور اجازت دیں گے یعنی اگر اساتذہ اور تدریسی مزدور اسے طلبہ اور مزدوروں کے لئے محفوظ سمجھتے ہیں۔ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کلاسوں کا حجم کم کرتے ہوئے سماجی تفاصل کو یقینی بنانا ہو گا جس میں ذاتی تحفظ کا سامان اور نئے اساتذہ کے روزگار کے لئے فنڈ بھی شامل ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ چھوٹی کلاسیں بنائی جا سکیں۔ اگر وباء کی صورتحال اتنی خطرناک ہے کہ کام نہیں کیا جا سکتا تو لیبر تحریک کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ گھر بیٹھے مزدوروں کو پوری تنخواہ دی جائے۔ تمام مزدور ان مطالبات سے فیض یاب ہوتے ہیں اور انہیں مالکان کی ان تمام کوششوں کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے جن کے ذریعے وہ اس وباء کا تمام تر بوجھ محنت کشوں اور خاص طور ر مزدور خواتین کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ خواتین مزدوروں کا ان سرمایہ دار سیاست دان خواتین سے کوئی تعلق نہیں جو اپنے طبقے کے مردوں کے شانہ بشانہ مزدور دشمن اقدامات کی حامی ہیں۔ مزدور خواتین کے مفادات مزدور مردوں کے ساتھ ہیں جو خود بھی بیروزگاری، رہائش سے بے دخلی اور خطرناک حالات میں کام کرنے کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں تاکہ مالکان وباء کے دوران بھی اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکیں۔

مالکان اور سیاست دان اپنے ٹھنڈے محلات میں سکون سے بیٹھے ہیں جبکہ مزدور خواتین صفِ اول میں کھڑی بیماروں اور ضعیفوں کی تیمارداری کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیماری کا خطرہ مولتے ہوئے نوکری کے ساتھ گھریلو کام کی کمر توڑ ”دہری شفٹ“ میں پھنسی ہوئی ہیں۔ کورونا وائرس وباء نے واشگاف ثابت کر دیا ہے کہ منافع کے حصول میں کبھی بھی ایک سماج منظم نہیں کیا جا سکتا جو انسانی ضروریات کو پورا کرے اور خواتین کی حقیقی آزادی کی جنگ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے ان اٹوٹ انداز میں جڑی ہوئی ہے۔

Comments are closed.