تحریر: |آفتاب اشرف|
وفاقی بجٹ کی آمد آمد ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بجٹ کے گرد خوب شورشرابا کیا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ اور حکمران جماعت کے اراکین بجٹ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کا عندیہ دیں گے۔ میڈیا پر ایسے دعوے کئے جائیں گے جن سے یوں لگے گا جیسے اس بجٹ سے ملک کی معاشی کایا پلٹ ہو جائے گی اور عوام کے تمام دکھ درد دورہو جائیں گے۔ اپوزیشن کے اراکین بجٹ پر مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے اور بجٹ کوئی معاشی موقف رکھنے کے بجائے ذاتی الزام تراشیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیں گے۔ مختلف این جی اوز کی طرف سے بڑے بڑے ہوٹلوں میں بجٹ سیمینار منعقد ہوں گے جہاں ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دانشور نما خواتین و حضرات میٹھے لہجے میں حکومت کو بجٹ پر مشورے دیں گے۔ زوال پذیر اور بکاؤ ٹریڈ یونین قیادتوں کی جانب سے نیم مردہ لہجے میں بجٹ کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا جائے گا جو کہ صرف اعلان ہی کی حد تک محدود رہے گا۔ وفاقی بجٹ کے معاملے پر حکومت، اپوزیشن، این جی اوز اور ٹریڈ یونین قیادتوں کے مابین ہونے والی یہ نورا کشتی کچھ عرصے تک میڈیا کی زینت بنتی رہے گی اور پھر چند دن بعد خبروں میں اس بجٹ تماشے کی جگہ لینے کیلئے کوئی اور نیا تماشا آ جائے گا۔ لیکن محنت کش طبقہ حکومتی دعوؤں اور اخباری کالموں کے بجائے برعکس عملی زندگی کے تلخ تجربات سے نتائج اخذ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ بجٹ سے متعلق کئے جانے والے تمام تر خوش کن وعدوں کے برعکس یہ بجٹ بھی ماضی کی طرح اس کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا۔ محنت کش طبقے کو اب نہ پرفریب حکومتی اعداد و شمار پر اعتبار ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے واویلے پر کوئی یقین۔ محنت کش عوام کی ایک وسیع اکثریت ماضی کے تجربات سے سیکھ چکی ہے کہ طبقوں میں بٹے سماج میں کئے جانے والے تمام فیصلے سرمایہ دار طبقے کی مرضی اور مفادات کے تحت ہی ہوتے ہیں۔
موجودہ وزیر خزانہ معاشی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کے بادشاہ ہیں اور وہ وفاقی بجٹ کی تشکیل میں بھی اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کبھی قرضوں کو آمدن کی مد میں دکھایا جاتا ہے تو کبھی سابقہ قرضوں کی واپسی کیلئے درکار رقم میں سود کی واپسی کیلئے مختص رقم کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ کبھی توانائی کے شعبے سے منسلک گردشی قرضوں کو قرضہ تصور ہی نہیں کیا جاتا تو کبھی فوجی بجٹ کو کم دکھانے کیلئے اس کا ایک بڑا حصہ سویلین اخراجات میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی افراطِ زر کی شرح کو کم دکھانے کیلئےCPI(Consumer Price Index) بنڈل میں اپنی مرضی کے مطابق ردو بدل کر دیا جاتا ہے تو کبھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو بھی متعلقہ شعبے کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تمام بیہودگی کے علاوہ پورا سال منی بجٹ کے آنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور وفاقی بجٹ کے بعد بھی ہر سال حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقہ اب بجٹ کے دنوں میں ہونے والے شور شرابے پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا کیونکہ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ پیچیدہ اعداد و شمار اور خوش کن دعوؤں کی آڑ میں حکومت اس پر مزید معاشی حملوں کی تیاری کر رہی ہے۔
پچھلے آٹھ سال سے جاری عالمی معاشی بحران کے پسِ منظر میں پاکستان کی لاغر اور پسماندہ سرمایہ دارانہ معیشت عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت میں بری طرح سے جکڑی ہوئی ہے۔ وفاقی بجٹ کے تمام بنیادی خدوخال ان سامراجی اداروں خصوصاً IMF کے احکامات کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ اسٹریٹجی پیپر کی تشکیل کے بعد وزیرِ خزانہ بھاگے بھاگے دبئی جاتے ہیں تاکہ IMF حکام سے اس کی منظوری لے سکیں۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک کوئی خواب میں بھی IMF کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ بجٹ میں ملکی سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مفادات کا بھی پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ بجٹ سے بہت پہلے وزارتِ خزانہ بڑے کاروباری و مالیاتی گروپوں اور اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے تاکہ بجٹ میں بحیثیت مجموعی حکمران طبقے کے مالی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان الفاظ کے لکھے جانے تک اگر چہ ابھی وفاقی بجٹ 2016-17ء کی بے شمار اہم تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں لیکن مارکس وادیوں کیلئے عالمی معاشی بحران کے پسِ منظر میں سامراجی قرضوں میں ڈوبی پاکستانی معیشت کے آنے والے بجٹ کا تناظر بنانا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ 4500 ارب روپے کا حجم رکھنے والے پچھلے سال کے وفاقی بجٹ میں حکومت نے قرضوں اور سود کی واپسی کیلئے 1600 ارب روپے اور دفاعی اخراجات کیلئے مجموعی طور پر 1266 ارب روپے کی رقم مختص کی تھی یعنی کہ وفاقی بجٹ کا تقریباً 64 فیصد صرف یہ دو شعبے ہڑپ کر گئے تھے۔ اس بجٹ میں صورتحال پچھلے سال سے بھی زیادہ بدتر ہونے کی توقع ہے کیونکہ مالی سال 2016-17ء میں 2005-07ء میں مشرف حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے 1.2 ارب ڈالر کے یورو اور سکوک بانڈز اپنی دس سالہ معیاد پوری کر رہے ہیں۔ اسی طرح 9/11 کے بعد 13ارب ڈالر کے پیرس کلب کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی گئی تھی۔ ان کی واپسی بھی 2016-2017ء میں شروع ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب امکانات ہیں کہ اس سال ستمبر میں IMF کے موجودہ تین سالہ پروگرام کی مدت ختم ہونے کے بعد حکومت کو فوری طور پر IMF سے کڑی شرائط پر نئے قرضے کے حصول کیلئے بات چیت شروع کرنا پڑے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2015ء تک پاکستان کا کل سرکاری قرضہ 18,900 ارب روپے ہو چکا تھا۔ اس میں 12,900 ارب روپے کا اندرونی قرضہ (جو مختلف ملکی بینکوں سے حاصل کیا گیا ہے) اور 57 ارب ڈالر (6000 ارب روپے) کا بیرونی قرضہ شامل ہے جو مختلف عالمی مالیاتی اداروں اور بانڈز کی شکل میں عالمی مالیاتی منڈی سے حاصل کیا گیا ہے۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے بھاری بوجھ تلے دبی معیشت کے حوالے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وفاقی بجٹ 2016-17ء میں اس مقصد کیلئے پچھلے بجٹ سے بھی زیادہ رقم مختص کرنی پڑے گی۔ اس سلسلے میں حکومت یقینی طور پر اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کر کے حقائق کو چھپانے کی کوشش کرے گی۔ کئی قرضوں اور ان کے سود کو قرض ادائیگی کی مد میں سرے سے شامل ہی نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح توانائی کے شعبے سے منسلک تقریباً 350 اب روپے کے گردشی قرضے کو بھی قرضوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
قرضوں اور سود کی واپسی کے بعد بجٹ کا سب سے بڑا حصہ ہڑپ کر جانے والا شعبہ فوجی اخراجات کا ہے۔ پچھلے وفاقی بجٹ میں 781 ارب روپے دفاعی اخراجات کی مد میں رکھے گئے تھے لیکن یہ اعدادوشمار عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں کیونکہ یہ رقم صرف براہِ راست فوجی بجٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس رقم میں ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن کی مد میں رکھے گئے 175 ارب روپے، Contingent Liability Funds کی مد میں رکھے گئے 165 ارب روپے، ایٹمی پروگرام کی توسیع کیلئے رکھے گئے 30 ارب روپے، کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں آنے والے 85 ارب روپے اور CPEC سیکیورٹی فورس کی تشکیل کیلئے رکھے گئے 30 ارب روپے شامل نہیں ہیں۔ اگر ہم ان تمام اخراجات کو جمع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے وفاقی بجٹ میں کل ملا کر 1266 ارب روپے کی رقم فوجی اخراجات کیلئے مختص کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق وزارتِ خزانہ نے آنے والے وفاقی بجٹ میں 860 ارب روپے کا براہِ راست فوجی بجٹ تجویز کیا ہے لیکن وزارتِ دفاع نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے 920 ارب روپے کے براہِ راست فوجی بجٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں اسحاق ڈار اور جنرل راحیل شریف کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ وفاقی بجٹ 2016-17ء میں عوام کا پیٹ کاٹ کر نام نہاد فوجی اخراجات میں یقینی طور پر اضافہ کیا جائے گا اور افواجِ پاکستان کی پیشہ ورانہ نااہلی کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس وفاقی بجٹ کا ایک بڑا حصہ کرپشن، کمیشن، گرانٹس اور کک بیکس کی صورت میں فوجی اشرافیہ کی تجوریوں میں چلا جائے گا۔
پچھلے وفاقی بجٹ میں PSDP(پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) کے تحت 700 ارب روپے مختلف ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کئے گئے تھے۔ اس نام نہاد ترقیاتی بجٹ کیلئے درکار رقم کا بڑا حصہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جو کہ معیشت پر قرضوں کے بوجھ کو مزید بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ اس ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ کرپشن اور کک بیکس کی نذر ہو جاتا ہے اور زیادہ تر منصوبے جو اس ترقیاتی بجٹ سے تعمیر کئے بھی جاتے ہیں ان میں عوام کی وسیع ترین اکثریت کے مفاد کے بجائے حکمران طبقے کے مالی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نئے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، سیوریج اور پینے کے صاف پانی کے انفراسٹرکچر، ڈیموں اور ہائیڈل پاور منصوبوں کے بجائے بے مقصد پلوں، سڑکوں، موٹر ویز اور آلودگی پھیلانے والے مہنگے تھرمل پاور منصوبوں کی تعمیر پر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ امکانات ہیں کہ وفاقی بجٹ 2016-17ء میں PSDP کے تحت منصوبوں کیلئے پچھلے سال کی نسبت زیادہ رقم مختص کی جائے گی اور حکمران طبقہ ٹھیکوں اور شراکت داری کی بنیاد پر اس نام نہاد ترقیاتی بجٹ میں سے پہلے سے بھی بڑا حصہ اپنی تجوریوں میں لے جائے گا۔
قرضوں کی واپسی، دفاع اور عوامی ضروریات سے بیگانہ ترقیاتی منصوبوں پر بجٹ کا تقریباً 80 فیصد خرچے جانے کے بعد صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے بہت کم رقم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پینے کے صاف پانی اور جدید سیوریج کی سہولیات سے محروم ہے ۔ محنت کش طبقے کیلئے رہائشی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور شہروں میں کچی آبادیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سرمایہ دارطبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کی نگران حکومت اور ریاست نے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اس تمام صورتحال کا عکس ہمیں UNDP (یونائٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی نظر آتا ہے جس کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے اشاریوں پر مبنی HDI(ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس) رینکنگ میں پاکستان دنیا کے 188 ممالک میں 147ویں نمبر پر آتا ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار میں پیش کئے جانے والے تین وفاقی بجٹوں میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے معاملے میں سرکاری ملازمین کو لالی پاپ دیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح کی مناسبت سے دیکھا جائے تو حقیقی اجرتوں اور پنشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وفاقی بجٹ 2016-17ء کے حوالے سے خوش کن حکومتی وعدوں کے برعکس سرکاری ملازمین کو ایک بار پھر دھوکہ دیا جائے گا اور تنخواہوں اور پنشن میں خاطر خواہ اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اسی طرح حکومت کی مقرر کردہ 13 ہزار روپے کی کم از کم اجرت میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ حکومت کے پاس محنت کش طبقے کو دینے کیلئے سوائے ڈھکوسلوں اور جھوٹے وعدوں کے اور کچھ نہیں ہے۔
عالمی معاشی بحران کی وجہ سے دنیا کے تمام خطوں میں سرمایہ دار طبقہ بحران کا تمام تر بوجھ عوامی سہولیات میں کٹوتیوں اور اضافی ٹیکسوں کی صورت میں محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط کو پورا کرنے اور ملکی سرمایہ دار طبقے کی شرح منافع کو تحفظ دینے کی خاطر جہاں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کی جانے والی رقم اور حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے وہیں پچھلے چند سالوں میں عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔مالی سال 2012-13ء میں ٹیکسوں کی مد میں کل 1900 ارب روپے اکٹھے ہوئے تھے۔ مالی سال 2014-15ء میں ٹیکسوں کی مد میں کل 2600 ارب روپے اکٹھے کئے گئے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق مالی سال 2015-16ء میں تقریباً 3000 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہو گی۔ یوں اپنے اقتدار کے تین سالوں میں نواز حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں تقریباً 1100 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستان میں کل ٹیکس آمدن کا دوتہائی بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی، مختلف اقسام کے ٹیرف، سرچارج اور حکومتی لیوی شامل ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے پر پڑتا ہے اور وہ امیر طبقے کے مقابلے میں اپنی آمدن کا زیادہ بڑا حصہ ان بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتے ہیں۔بالواسطہ ٹیکسوں کے برعکس براہِ راست ٹیکس پاکستان کی کل ٹیکس آمدن کا بمشکل ایک تہائی بناتے ہیں لیکن براہِ راست ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی کل رقم کا دو تہائی صرف ودہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے جو کہ زیادہ تر بینکوں کے چھوٹے اور درمیانے کھاتہ داروں( نچلے درمیانے اور درمیانے طبقے) کی اکثریت سے حاصل ہوتا ہے۔ باقی کا براہِ راست ٹیکس بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتیوں اور درمیانے طبقے کے مختلف حصوں کی جیب سے نکلوایا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی بجٹ 2016-17ء میں ٹیکس آمدن کا ہدف 3600 ارب روپے رکھا جائے گااور اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے عوام پر پرانے ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں نئے گھروں کی تعمیر اور سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات اور دودھ سے بنی اشیا پر بھی سیلز ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقے اور درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے وہیں پر سرمایہ دار طبقے، بڑے کاروباروں اور مالیاتی اداروں کو ٹیکس میں مسلسل چھوٹ دی جا رہی ہے اور حکومت سرمایہ دار طبقے کے منافعوں پر لگنے والے ٹیکسوں کو بتدریج کم کر رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال کارپوریٹ ٹیکس ہے جسے پہلے ہی 35 فیصد سے کم کر کے 33 فیصد کر دیا گیا ہے۔ آنے والے وفاقی بجٹ میں کارپوریٹ ٹیکس میں مزید کمی کی جائے گی کیونکہ وزیرِ خزانہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت 2017-18ء تک کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کر کے اس کو 30 فیصد پر لے آئے گی۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اکثر اپنی گفتگو میں بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو بجٹ خسارہ GDP کے تقریباً8.8 فیصد کے برابر تھا۔ ان کے مطابق حکومت نے ’’شدید محنت‘‘ کر کے مالی سال 2014-15ء میں بجٹ خسارے کو GDP کے 5.3 فیصد تک محدود کر دیا اور رواں مالی سال کے اختتام تک اسے GDP کے 4.3 فیصد (1300 ارب روپے) تک محدود کر دیا جائے گا۔ اگر حکومتی دعوؤں کو بالکل سچ مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ خسارے میں یہ کمی کیسے حاصل کی گئی ہے؟ اس مقصد کیلئے ایک تو حکومت نے پچھلے تین سالوں میں بڑے پیمانے پر بیرونی قرضہ حاصل کیا جس میں 2013ء میں IMF سے طے پانے والے معاہدے کے تحت اب تک 5.5 ارب ڈالر کا قرض مل چکا ہے۔ 1.8 ارب ڈالر ورلڈ بینک سے قرضے کی صورت میں حاصل کیا گیا۔ 1.5 ارب ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل کیا گیا۔ 3.5 ارب ڈالر یورو بانڈز اور سکوک بانڈز کے اجرا سے عالمی مالیاتی منڈیوں سے نہایت بلند شرح سود پر حاصل کئے گئے۔ 1.5 ارب ڈالر مختلف ’’خدمات‘‘ کے صلے میں سعودی عرب سے بھیک میں ملے اور اسی طرح 2013ء سے لے کر اب تک 2.6 ارب ڈالر امریکی سامراج کی نوکری کرنے پر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں حاصل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف 3G/4G سپیکٹرم کی نیلامی سے 50 کروڑ ڈالر اور اسی طرح سے مختلف اداروں کی نجکاری خصوصاًHBL, ABL, UBL میں حکومتی حصص کی عالمی منڈیوں میں فروخت سے بہت سارا زرِ مبادلہ حاصل ہوا(صرف HBL کے حصص کی فروخت سے 60کروڑ ڈالر حاصل ہوئے)۔ بیرونی قرضوں اور نجکاری کے علاوہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں ملکی بینکوں سے 3400 ارب روپے کے مزید اندرونی قرضے بھی حاصل کئے۔ جہاں ایک طرف بجٹ خسارے کو قابو میں لانے کیلئے بے تحاشہ نیا قرضہ حاصل کیا گیا اور سفاکانہ طریقے سے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھایا گیاوہیں ٹیکس آمدن بڑھانے کیلئے عوام پر کھربوں روپے کے نئے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی۔ اس کے علاوہ پچھلے تین سالوں میں حقیقی اجرتوں اور پنشنوں میں درحقیقت کمی کی گئی ہے اور سماجی انفرسٹرکچر کی تعمیر اور دیکھ بھال کیلئے مختص رقم میں بھی شدید کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ حال ہی میں دبئی میں ہونے والی میٹنگ میں IMF حکام نے وفاقی بجٹ 2016-17ء کا بجٹ خسارہ GDP کے 3.5 فیصد تک محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے مالی مفادات اورمنافعوں کا تحفظ کرتے ہوئے حکومت IMF کے ہدف کو پورا کرنے کیلئے مالی سال 2016-17ء میں مزید اندرونی اور بیرونی قرضے حاصل کرے گی، نجکاری کے عمل کو پوری شدت سے آگے بڑھایا جائے گا اور بنیادی ضروریات کی فراہمی اور حقیقی اجرتوں میں مزید کٹوتی کرتے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیا جائے گا۔
حکمران طبقے کے محنت کش طبقے پر بڑھتے ہوئے طبقاتی جبر اور معاشی حملوں کی یہ داستان صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر شدید معاشی و سماجی بحران کا شکار ہے اور دنیا کے ہر خطے میں سرمایہ دار طبقہ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کیلئے اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یورپی یونین، چین اور امریکہ سمیت بے شمار ترقی یافتہ سرمایہ دار معیشتیں قرض کی دلدل میں ڈوب چکی ہیں۔ پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی حقیقی اجرتوں میں کمی کی جا رہی ہے اور عوام پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کفایت شعاری کے نام پر صحت، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی پر ہونے والے حکومتی اخراجات میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ حتمی تجزیے میں اس تمام صورتحال کی ذمہ دار کوئی مخصوص سیاسی پارٹیاں یا چند نا اہل سیاست دان نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظامِ پیداوار ہے جو اب تاریخی متروکیت کا شکار ہو کر پورے کرۂ ارض پر محنت کش طبقے کی زندگی کو اجیرن بنا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت ہو یا اپوزیشن پارٹیاں، سیاسی قیادتیں ہوں یا فوجی آمریت، کسی کے پاس معاشی بربادی کی اس دلدل سے نکلنے اور عوام کی وسیع اکثریت کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کوئی پروگرام موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے۔ سیاست دان ہوں یا فوجی جرنیل، سب حتمی تجزئے میں ملکی سرمایہ دار طبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کے نگران ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے بھی بے تاب ہیں۔
محنت کش طبقے اور نوجوانوں کیلئے آج صرف سوشلسٹ انقلاب ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہی تمام اندرونی اور بیرونی قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے اور تمام ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں دیتے ہوئے ایک ایسے سماج کی تعمیر ممکن ہے جس میں محنت کش طبقے کو شرفِ انسانیت کے لائق زندگی گزارنے کیلئے درکار سہولیات مہیا کرنا ممکن ہو سکے گا۔