رپورٹ: | بلاول بلوچ |
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کی جانب سے27 اپریل کو بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں افغان ثور انقلاب کی 38 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں بی ایس او کے علاوہ پشتون ایس ایف، بلوچ ایکشن کمیٹی ، اساتذہ ، ادبی سرکل اور ادیب و دانشوروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور بی ایس او کی جانب سے دہائیوں بعد افغان ثور انقلاب کی سالگرہ منانے کو سراہا اور مبارک باد دی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض بلاول بلوچ اور اورنگزیب بلوچ نے سرانجام دیئے۔
پروگرام کی صدارت بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر ظریف رند نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں اے این پی کے ارباب غلام کاسی، ایڈوکیٹ اعظم زرکون، پیپلز پارٹی کے رہنما علی باران ناصر، براہوی ڈیپارٹمنٹ جامعہ بلوچستان سے واجہ منظور بلوچ، نورمحمد ترکئی کے ساتھی عبدالرب آغا، ڈاکٹر اکبر خلقی، ویش ذلمیان سے رزاق غورزنگ اور پشتون ایس ایف سے ولی خان شامل تھے۔
سہیل بلوچ نے بی ایس او کا ترانہ پڑھ کر پروگرام کا آغاز کیا اور اس کے بعد خلق پارٹی کا ترانہ بھی پیش کیا گیا۔ بعدازاں بی ایس او کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر چنگیز بلوچ نے افغان ثور انقلاب اور افغان سماج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نورمحمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی قیادت میں یہ عظیم انقلاب ایک ایسے پسماندہ سماج میں ہوا جہاں نیم جاگیرداری اور نیم قبائلی نظام نے عوام کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ کسانوں کی حالت قابل ترس تھی۔ آبادی کی وسیع اکثریت قرضوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی اور عورتوں کی خرید و فروخت جیسی غلیظ رسمیں رائج تھیں جس نے پورے افغان سماج کو غربت اور پسماندگی کیی دلدل میں دھکیلا ہوا تھا۔ ایسی کیفیت میں افغان ثور انقلاب افغان عوام کیلئے روشن کی کرن ثابت ہوا اور عوام کو ان تمام بدحالیوں سے نجات دلاتے ہوئے تمام تر وسائل کو قومی تحویل میں لیکر افغان سماج، ادب و تہذیب اور زبانوں تک کو آزاد کیاگیا اور افغانستان کو پسماندگیوں سے نکالنے کی بنیاد رکھی جوکہ عالمی سامراجیوں کو کسی صورت برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے افغانستان پر چڑھائی کرکے اسے تاراج کردیا۔
اس کے بعد خلق انقلابی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری شیرگْل اویستا کا انقلابی پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے بی ایس او کی تاریخی جدوجہد اور منعقدہ تقریب کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغان اور بلوچوں کی طبقاتی بنیادوں پر تاریخی جڑت کو دہائیوں بعد ایک بار پھر بی ایس او نے زندہ کرکے انقلابی سفر میں سنگِ میل رکھا ہے جوکہ دونوں محکوم اقوام کی نجات اور جدوجہد کی بنیاد ثابت ہوگا اور خلق پارٹی بی ایس او کو ہر ممکن تعاون اور ساتھ دینے کا یقین دلاتی ہے اور بی ایس او کی جدوجہد سے توانائی لیتی ہے۔
اس کے بعد مہمانوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان ثور انقلاب کو خطے کی تاریخ کا درخشاں باب قرار دیا اور کہاکہ عالمی سامراجیوں کے جابرانہ عزائم نے انقلاب کو تباہ کرکے اس خطے کو صدیوں پیچھے دکھیلا جوکہ انسانی سماج کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوانوں کا آج ایک بار پھر انقلابی تاریخ کی طرف مڑنا نئے انقلابی سفر کا آغاز ہے جس سے امید کی کرن روشن ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
آخر میں تقریب کے صاحب صدر ظریف رند نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ آج ہم جس انقلاب کا دن منارہے ہیں یہ محض ایک تقریب نہیں ہے بلکہ ہم اس عظیم انقلاب کے تاریخی تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ان انقلابی جذبات سے شکتی حاصل کرنے اکھٹے ہوئے ہیں جو مستقبل کے انقلاب کیلئے مشعل راہ بنے گی۔ ثور انقلاب صرف افغان قوم کا نہیں بلکہ اس خطے میں بسنے والے تمام درماندہ اور مفلوک الحال باسیوں کا انقلاب تھا جس سے تمام محکوم اقوام کو بھرپور حوصلہ اور توانائی ملی۔ اس انقلاب کے دفاع میں بی ایس او کا بر سرِپیکار ہونا انہی جذبات کی کڑی تھی جس کو ہم ایک بار پھر زندہ کر رہے ہیں۔ آج جن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے وہ ماضی سے کئی زیادہ ہیں اور یہ خطہ رجعت اور ردانقلاب کے چنگل میں یرغمال ہے۔ انقلابی پارٹی یا تنظیم وجود نہیں رکھتی اور انقلابی پروگرام دینے سے سیاسی قیادتیں گھبرا چکی ہیں اور ہر طرف مایوسی کی کیفیت نظر آتی ہے مگر ان تمام مشکلات کے اندر نوجوانوں کا اپنی سْنہری تاریخ میں دوبارہ جھانکنا اور اسباق حاصل کرنا روشن صبح کی نوید ہے جس کا واضح اظہار ہمیں آج کے اس تقریب سے مل رہا ہے۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ آج جس طرح نام نہاد قیادتیں مفاد پرستی کی آڑ میں افغان بلوچ تعصّبات کو ہوا دے رہی ہیں یہ اْنکی بد دیانتی کی نشانی ہے۔ اگر ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذرا غور کریں تو ہمیں افغان اور بلوچ عوام میں سب سے زیادہ قربت اور محبت نظر آتی ہے۔ افغانستان ہمیشہ سے بلوچ قوم کیلئے محفوظ ترین پناہ گاہ رہاہے اور آج بھی بلوچ قوم افغانستان کو اپنا گھر سمجھ کر اعتماد کے ساتھ آتے جاتے ہیں مگر افغان سماج کی ٹوٹ پھوٹ سے مفلوک الحال افغان عوام اپنے گھر بار چھوڑ کر دربدر کی سی کیفیت میں بلوچستان و دیگر علاقوں کا رخ کرچْکے ہیں جن کو مہاجر کہہ کر دْھتکارنا اس خطّے کے تمام محکوم اقوام کی توہین ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ تمام محکوموں کو اپنے گھروں کو لوٹنا چاہئے مگر جو گھر ویران ہیں اور سامراج نے تاراج کئے ہوئے ہیں ، سامراج کو شکست دیئے بغیر وہ گھر؛ گھر نہیں کہلائے جا سکتے۔ ان گھروں سمیت ہمارے آگے اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان و دھرتی کو آزاد کرانے کا ذمہ ہے جسے نبھانا ناگزیر فریضہ بن چکا ہے۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے حکمرانوں کے فرسودہ نعروں کو رد کرتے ہوئے اپنے درست نعرے بلند کرنے ہوں گے جو ہمیں ہم جیسے مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
تقریب کے دوران پی ایس ایف آزاد کے کامریڈ کریم پرہر، ماسٹرظفر، جیلانی ساج، بولان براہوی اکیڈمی سے محسن فغار اور ایکشن کمیٹی کے جہانزیب بلوچ نے انقلابی ترانے پڑھ کر تقریب کو چار چاند لگا دیئے ۔ اور آخر میں سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔